بھیڑ میں اک اجنبی کا سامنا اچھا لگا
سب سے چُھپ کر وہ کسی کا دیکھنا اچھا لگا
دل میں کتنے عہد باندھے تھے بُھلانے کے اُسے
وہ ملا تو سب ارادے توڑنا اچھا لگا
نیم شب کی خاموشی میں بھیگتی سڑکوں پہ کل
تیری یادوں کے جلو میں گھومنا اچھا لگا
اُس عدوئے جاں کو امجد میں بُرا کیسے کہوں
جب بھی آیا سامنے وہ بے وفا اچھا لگا