میں کہ پھر دشتِ رفاقت کا سفر کر آیا
کیا کہوںکتنی اذیت سے گزر کر آیا
ہر کوئی ہم سے ملا عمرِ گریزاں کی طرح
وہ تو جس دل سے بھی گزرا، وہیں گھر کر آیا
تم نے اک سنگ اُٹایا میرے آئینے پر
اور ہر شخص کو میں آئینہ گر کر آیا
مجھ سے کیا پوچھتے ہو شہرِ وفا کیسا ہے
ایسا لگتا ہے صلیبوں سے اُتر کر آیا
صرف چہرے ہی اگر قرب کے آئینے ہیں
کیوں نہ میں دل کا لہو آنکھ میںبھر کر آیا
اب جو اس شہر کی تقدیر ہو، میںتو لوگوں
درودیوار پر حسرت کی نظر کر آیا
ہم تو سمجھے تھے محبت کا پیامبر ہے فراز
اور وہ بے مہر بھی تو ہیں، ہنر کر آیا