جناب پروفیسر حفیظ تائب
اورینٹل کالج لاہور
باغ فرید علیہ الرحمتہ کے بلبل فرید علیہ الرحمتہ
صد ہزاراں الصلوۃ والسلام
اے خدا از من رساں سرکاررا
یہ شعر باغ فرید رحمتہ اللہ علیہ کے بلبل فرید رحمتہ اللہ علیہ کا ہے جن کی یاد میں تقریب بپا ہے۔ حضرات گرامی قدر مولانا نور احمد خان فریدی نے دیوان خواجہ فرید رحمتہ اللہ علیہ کی جو شرح کی ہے اس میں جا بجا حضرت خواجہ محمد یارفریدی رحمتہ اللہ علیہ کی تشریحات و افادات کے حوالے موجود ہیں۔ ان حوالوں کو دیکھتے ہوئے مجھے اکثر خیال آتا ہے کہ ہمارے آگے کیا کیا کاروان جزب و شوق گزرے ہیں۔۔۔۔۔ پھر کچھ لوگوں سے خواجہ محمد یار فریدی رحمتہ اللہ علیہ کے مثنوی مولانا روم رحمتہ اللہ علیہ اور کلام خواجہ فرید رحمتہ اللہ علیہ' ایک خاص لے اور ترنگ میں پڑھنے اور ان کی دل میں اتر جانے والی تشریح کرنے کی باتیں سنیں تو دل میں کسک سی پیدا ہوئی کہ میں اس عالم بے بدل اور عارف کامل کے مواعظ حسنہ سے کیوں محروم رہا۔
مگر جب برادرم ثناء اللہ بٹ صاحب نے دیوان محمدی عنایت فرمایا تو کسی قدر تسلی ہوئی کہ کلام ہی کسی شخص کا اصل تعارف ہوتا ہے۔ پھر جب خواجہ ممدوح سے فیض پانے والے احباب اور خواجہ غلام قطب الدین دامت برکاۃ'سے شرف ملاقات حاصل ہوا تو بہار رفتہ کا تمام تر رنگ و بو میری نظروں کے آگے پھرنے لگا۔ یوں
Image
دیکھےہیں ہم نےحسن کےساماں نئے نئے
بستاں نئے نئے ہیں گلستاں نئے نئے
Image
"دیوان محمدی" کی تحسین اس وقت تک ممکن نہیں' جب تک ابن عربی رحمتہ اللہ علیہ کے نظریہ وحدت الوجود سے کسی قدر آگاہی نہ ہو۔
ابن عربی کے فلسفہ تصوف کی جڑیں اسلامی تصوف اور الہیات کی تاریخ میں بہت گہری چلی گئی ہیں۔
انہوں نے انسان کامل کے بارے میں ایک مکمل نظریہ پیش کیا ہے۔ وہ حقیقتہ الحقائق کو الحقیقتہ المحمدیہ کا مترادف قرار دیتے ہیں۔ جس کی اعلٰی ترین اور مکمل ترین تجلی ان تمام انسانوں میں ملتی ہے' جنہیں ہم انسان کامل کے زمرے میں شمار کرتے ہیں ۔ ان میں تمام انبیاء و رسل اولیاء اور خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شامل ہیں۔
انسان کامل ابن عربی کے نزدیک وہ آئینہ ہے جس میں تمام اسرار الٰہیہ منعکس ہوتے ہیں اور وہ واحد تخلیق ہے جس میں تمام صفات الٰہیہ ظاہر ہوتی ہیں۔ انسان کامل خلاصہ کائنات یا عالم اصغر ہے۔ انسان کامل اس زمین پر خدا کا نائب ہے اور وہ واحد ہستی ہے جسے خدا کی صورت میں بنایا گیا ہے"
حضرت خواجہ محمد یارفریدی رحمتہ اللہ علیہ عظیم صوفی شاعر حضرت خواجہ غلام فرید رحمتہ اللہ علیہ کے دبستان درد اور مکتب ۔۔۔۔۔۔ کے فرد فرید ہیں۔ اور خود فرماتے ہیں
Image
میں بلبل فرید ہوں باغ فرید کا
عادی ہوں عین دید میں ہل من مزید کا
Image
خواجہ غلام فرید رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے پیشرو صوفی شعراء کی طرح زیادہ ذات واجب ہی کی محبت کے نغمات چھیڑے ہیں' مگر کہیں کہیں اور بہت کم کم احمد بلامیم اور دبستان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات بھی کی ہے جیسے
Image
حسن ازل دا تھیا اظہار
احدوں ویس وٹا تھی احمد
Image
یا پھر
Image
حسن حقیقی نور حجازی
کھیڈے ناز نیاز دی بازی
صدقوں سمجھ سنجان
آیا کوٹ شہر وچ
Image
نعت و منقبت کے اس انداز کو اپنا کر اسے مستقل فن بنانے کا جو کٹھن کام حضرت خواجہ محمد یار فریدی رحمتہ اللہ علیہ نے سرانجام دیا ہے اس کی ایسی مکمل اور خوبصورت مثال میری نگاہ سے اب تک نہیں گزری۔
دور موجود کے لوگوں کو نعت و منقتب کا یہ انداز ضرور چونکائے گا کہ اب نعت و منقبت زیادہ تر حضور علیہ السلام کی سیرت و کردار کے حوالہ سے لکھی جا رہی ہے۔ جبکہ اس نعت و منقبت کی بنیاد انسان کامل کے ان تصورات پر ہے جن کا خلاصہ میں پہلے پیش کر چکا ہوں
ان تصورات کو وہ حدیث مبارکہ بھی تقویت دیتی ہے جس میں نور محمدی کے نور الہٰی سے تخلیق ہونے اور پھر نور محمدی سے عرش و کرسی اور کائنات انسانی کے وجود میں آنے کا مزکور ہے۔ یوں الوہیت' رسالت اور سلاسل ہدایت ایک ہی گلشن کے پھول نظر آنے لگتے ہیں۔
ان نظریات سے قطع نظر کلام میں درد کی تفصیل نے پتھر دلوں کو بھی رلا دینے والی تاثیر پیدا کی ہے۔ اور یہ اعجاز کلام صرف عرفاء ہی کا حصہ ہے۔
انہوں نے خواجہ غلام فرید رحمتہ اللہ علیہ کی پیروی میں کافی کی صورت میں بھی نعت و منقبت کہی ہے۔
پیرایہ مثنوی سے بھی استفادہ کیاہے' مگر ان کے اصل جوہر غزلیہ نعت و منقبت میں کھلے ہیں وہ غزل کے مزاج اور ڈسپلن کو خوب جانتے ہیں اور اس صنف سخن کے وسیع تر امکانات سے بھر پور استفادہ کرتے ہوئے' انہوں نے صوفیانہ نعت و منقبت کی وہ روایت قائم کی جس کے وہ موجد بھی اور خاتم بھی ہیں
Image
ونج درد دی تفصیل کر' فرقان دی تنزیل کر
قرآن دی ترتیل کر' پتھر روا ایویں ونج تے آ
Image
وہ زبانوں کے مزاج سے بھی مکمل طور پر آگاہ ہیں۔ اور انہوں نے فارسی' اردو اور پنجابی شاعری کی عظیم روایت کو جزب کر کے اپنا انفرادی و اجتہادی آہنگ پیدا کیا ہے جسے فکر و عمل کی یکجائی نے سوز و سر مستی کے ساتھ اعتماد بخشا جس کی بدولت وہ کہ سکتےہیں۔
Image
ہم محمد ہیں درس دیتے ہیں
عشق احمد کی درس گاہ میں ہم