کچھ فیصلہ تو ہو کہ کدھر جانا چاہیے
پانی کو اب تو سر سے گزر جانا چاہیے
نشتر بدست شہر سے چارہ گری کی لو
اے زخمِ بے کسی تجھے بھر جانا چاہیے
ہر بار ایڑیوں پہ گِرا ہے میرا لہو
مقتل میں اب بہ طرزِ دِگر جانا چاہیے
کیا چل سکیں گے جنکا فقط مسئلہ یہ ہے
جانے سے پہلے رختِ سفر جانا چاہیے
سارا جوار بھاٹا میرے دل میں ہے مگر
الزام یہ بھی چاند کے سر جانا چاہیے
جب بھی گئے عذابِ در وب ام تھا وہی
آخر کو کِتنی دیر سے گھر جانا چاہیے
تہمت لگا کے ماں پہ جو دشمن سے داد لے
ایسے سخن فروش کو مر جانا چاہیے