Recent Posts

Pages: 1 ... 3 [4] 5 ... 10
31
الف-اندر قلماں کلکل کرد

 

عشقَ سکھایا قلماں ہو ۔

 

چوداں طبق کلمے دے اندر

 

چھڈّ کتاباں علماں ہو ۔

 

کانے کپ کپ قلم بناون

 

لکھ نہ سکن قلماں ہو ۔

 

باہو کلمہ مینوں پیر پڑھایا

 

ذرا نہ رہیاں الماں ہو ۔

 
32
الف-اکف دم سجن تے لکھ دم ویری

 

اک دم دے مارے مردے ہو ۔

 

اک دم پچھے جنم گوایا

 

چور بنے گھر گھر دے ہو ۔

 

لائیاں دی اوہ قدر کی جانن

 

جیہڑے مہرم ناہیں سر دے ہو ۔

 

سو کیوں دھکے کھاون باہو

 

جیہڑے طالب سچے در دے ہو
33
الف-اہف تن ربّ سچے دا حجرہ

 

کھڑیاں باغ بہاراں ہو ۔

 

وچے کوجے وچے مصلے

 

وچے سجدے دیاں ہزاراں ہو ۔

 

وچے کعبہ وچے قبلہ

 

وچے ال للا پکاراں ہو ۔

 

کامل مرشد ملیا باہو

 

اوہ آپے لیسی ساراں ہو
34
الف-اکف دم سجن تے لکھ دم ویری

 

اک دم دے مارے مردے ہو ۔

 

اک دم پچھے جنم گوایا

 

چور بنے گھر گھر دے ہو ۔

 

لائیاں دی اوہ قدر کی جانن

 

جیہڑے مہرم ناہیں سر دے ہو ۔

 

سو کیوں دھکے کھاون باہو

 

جیہڑے طالب سچے در دے ہو
35
دوئی نعت رسول مقبول والی جیں دے حق نزُول لولاک کِیتا

 

خاکی آکھ کے مرتبہ وَڈا دِتّا سبھ خلق دے عیب تھِیں پاک کِیتا

 

سرور ہوئے کے اَولیاں انبیاں دا اگّے حق دے آپ نُوں خاک کِیتا

 

کرے اُمتی اُمتی روز محشر خوشی چَھڈ کے جیئو غمناک کِیتا

 

 

دوسرے درجے پر رسول مقبول کی تعریف کریں جن کے لئے حدیث لولاک آئی

 

لولاک لما خلقت الا فلاک اے محمد اگر آپ نہ ہوتے توہم زمین و آسماں پیدا نہ کرتے

 

آپ کو خاکی کہ کر مرتبہ بہت بڑا دیا اور جملہ خلق کے عیبوں سے پاک رکھا

 

آپؐ نے انبیا و اولیا کا سردار ہونے کے باوجود رب کی بارگاہ میں خود کو عاجز رکھا

 

روز محشر اُپؐ امتی امتی پکاریں گے اپنی خوشی بھول کر بیقرار اور مضطر ہوں گے

36
اول حمد خدا دا ورد کیجے، عشق کیتا سو جگ دا مول میاں

 

پہلوں آپ ہی رب نے عشق کیتا ، معشوق ہے نبی رسول میاں

 

عشق پیر فقیر دا مرتبہ اے، مرد عشق دا بھلا رنجول میاں

 

کھلے تنہاندے باغ قلوب اندر، جنہاں کیتا اے عشق قبول میاں

 

 

سب سے پہلے اللہ پاک کی تعریف جس نے عشق کی ابتدا کی

اور  عشق Ú©Ùˆ جہاں کا دام مقرر کیا

 

سب سے پہلے عاشق خود بنا اور رسول کریمﷺ کو اپنا محبوب بنایا

 

عشق تو پیروں فقیروں کا مرتبہ ہے،عاشق حقیقی بڑا خوش قسمت ہوتا ہے

 

ان کے دلوں میں باغ کھلتے ہیں جو عشق کو قبول کر لیتے ہیں

دوئی نعت رسول مقبول والی جیں دے حق نزُول لولاک کِیتااک اونکار ستگور پرسادِ
37
اک اونکار ستگور پرسادِ
دلہُ محبتِ جنھ سیئی سچیا ۔۔

 

جنھ منِ ہورُ مکھ ہورُ سِ کانڈھے کچیا ۔۔

 

رتے اسک خدائِ رنگِ دیدار کے ۔۔

 

وسریا جنھ نامُ تے بھئے بھارُ تھیئے رہاؤ۔۔

 

آپِ لیئے لڑِ لائِ درِ درویس سے ۔

 

تن دھنُ جنیدی ماؤ آئے سپھلُ سے

 

پرودگار اپار اگم بے انت تو ۔۔

 

جنا پچھاتا سچُ چما پیر موں

 

تیری پنہ خدائِ تو بخسندگی ۔۔

 

سیخ فریدے خیرُ دیجے بندگی

 

(جنھ=جنہاں، سچیا=سچے عاشق، سیئی=
اوہی بندے، جنھ منِ=جنہاں دے من وچ
کانڈھے=کہے جاندے ہن، کچیا=کچی پریت
والے، رتے=رنگے ہوئے، بھئے=دھرتی اتے
تھیئے=ہو گئے ہن، لڑِ=پلے نال، سے=اوہی
بندے، جنیدی=جمن والی، پرودگار
پالن ہار، اگم=اپہنچ، تو=تینوں
سچُ=سدا-تھر رہن والے نوں، موں=می
پنہ=پناہ،اوٹ، بخسندگی=بخشن والا
فریدے=فرید نوں
 Ø¢Ø³Ø§
 

بولے سیخ فریدُ پیارے اﷲ لگے ۔۔

 

ایہہ تنُ ہوسی خاک نمانی گور گھرے

 

آجُ ملاوا سیخ فرید

 

ٹاکم کونجڑیا منہُ مچندڑیا  رہاؤ۔۔

 

جے جانا مرِ جائیئ گھمِ ن آئیئے ۔۔

 

جھوٹھی دنیا لگِ ن آپُ ونجائیٔے

 

بولیئے سچُ دھرمُ جھوٹھُ ن بولیئے ۔۔

 

جو گرُ دسے واٹ مریدا جولیئ

 

چھیل لنگھندے پارِ گوری منُ دھیریا ۔۔

 

کنچن ونے پاسے کلوتِ چیریا ۔

 

سیخ حییاتی جگِ ن کوئی تھر رہیا ۔۔

 

جسُ آسنِ ہم بیٹھے کیتے بیسِ گیا

 

کتک کونجاں چیتِ ڈؤ ساونِ بجلیاں ۔۔

 

سیالے سوہندیاں پر گلِ باہڑیاں

 

چلے چلنہار وچارا لےئِ منو ۔۔

 

گنڈھیدیاں چھٕ ماہ تڑندیا ہکُ کھنو ۔

 

جمی پچھے اسمان فریدہ کھیوٹ کنِ گئے ۔۔

 

جالن گوراں نالِ علامے جی سہے

 

(بولے=آکھدا ہے، اﷲ لگے=اﷲ نال لگّ، ہوسی
ہو جائگا، گور=قبر،آجُ=اج،اس جنم وچ ہی
ٹاکم=قابو کر، کونجڑیا=اندریاں نوں
منہُ=مچندڑیا=من نوں مچاؤن والیاں نوں
جے جانا=جدوں ایہہ پتہ ہے، گھمِ=مڑ کے،پھر
لگِ=لگّ کے، ن ونجائیٔے=خوار نہیں کرنا
چاہیدا واٹ=رستہ، مریدا=مرید بن کے
جولیئ=ترنا چاہیدا ہے،چھیل=بانکے جوان
سنت جن، گوری منُ=استری دا من، دھیریا
حوصلہ پھڑدا ہے، کنچن ونے پاسے=جو دھن
پدارتھ ول لگّ پئے، کلوتِ=آرے نال، سیخ
شیخ، حییاتی=عمر، تھر=سدا قایم
آسنِ=تھاں تے، کیتے=کئی، بیسِ گیا
بہہ کے چلے گئے ہن،چیتِ=چیتر وچ، ڈؤ
جنگل دی اگّ، ساونِ=ساون دے مہینے
پر گلِ=پتی دے گل وچ باہڑیاں=سوہنیا
باہاں، چلنہار=ناسونت جیو، چھٕ ماہ
چھ مہینے، ہکُ کھنو=اک پل، کھیوٹ=ملاہ
وڈے آگوُ، کنِ=کنے، جالن=دکھ
سہارنے، گوراں نالِ=قبراں نال، جی=جیو
اک اونکار ستگور پرسادِ
راگ سوہی بانی سیخ فرید جی کی
 

تپِ تپِ لہِ لہِ ہاتھ مرورؤ ۔۔

 

باولِ ہوئی سو سہُ لورؤ ۔۔

 

تے سہِ من مہہ کیا روسُ ۔۔

 

مجھُ اوگن سہ ناہی دوسُ

 

تے صاحب کی مے سار ن جانی ۔۔

 

جوبن کھوئِ پاچھے پچھتانی ۔۔1۔۔ رہاؤ۔۔

 

کالی کوئل تو کت گن کالی ۔۔

 

اپنے پریتم کے ہؤ برہے جالی ۔۔

 

پرہِ بہون کتہِ سکھ پائے ۔۔

 

جا ہوئِ کرپالُ تا پربھو ملائے

 

ودھن کھوہی مندھ اکیلی ۔۔

 

نہ کو ساتھی نہ کو بیلی ۔۔

 

کرِ کرپا پربھ سادھ سنگِ میلی ۔۔

 

جا پھرِ دیکھا تا میرا الہُ بیلی

 

واٹ ہماری کھری اڈینی ۔۔

 

کھنئہُ تکھی بہتُ پئینی ۔۔

 

اسُ اوپرِ ہے مارگُ میرا ۔۔

 

سیخ فریدہ پنتھُ سمارھِ سویرا

 

(تپِ تپِ=دکھی ہو ہو کے، لہِ لہِ=تڑپ
تڑپ کے، مرورؤ=ملدی ہاں، باولِ=جھلی
لورؤ=میں لبھدی ہاں، سہِ=خصم نے،سار
قدر،کت گن=کنھاں گناں دے کارن
ہؤ=میں، برہے=وچھوڑے وچ، جالی=ساڑی
ودھن=ڈراؤن والی،بھیانک، مندھ=استری
پربھ=پربھو نے، بیلی=مددگار،دوست، واٹ
سفر، اڈینی=دکھدائی، کھنئہُ=کھنڈے
نالوں، پئینی=تیز دھار والی،پتلی، سمھھارِ
=سنبھال
سوہی للت
 

بیڑا بندھ ن سکیو بندھن کی ویلا ۔۔

 

بھرِ سرورُ جب اوچھلے تب ترنُ دہیلا ۔۔1۔۔

 

ہتھُ ن لائِ کسمبھڑے جلِ جاسی ڈھولا ۔۔1۔۔ رہاؤ۔۔

 

اک آپینھے پتلی سہ کیرے بولا ۔۔

 

ددھا تھنی ن آوئی پھرِ ہوئِ ن میلہ ۔۔2۔۔

 

کہےَ فریدُ سہیلیہو سہُ الائیسی ۔۔

 

ہنسُ چلسی ڈمنا ایہہ تنُ ڈھیری تھیسی

 

(بیڑا=سمرن روپ بیڑا، بندھ ن سکیو=تیار
ناہ کر سکیا، بندھن کی ویلا=تیار کرن دی
عمرے، بھرِ=بھر کے، دہیلا=اوکھا،ڈھولا
متر، جلِ جاسی=سڑ جائگا،کسمبھے دا رنگ
تھوڑھ چرا ہندا ہے، ہتھُ ن لائِ کسمبھڑے
بھیڑے کسمبھے (مایہ) نوں ہتھ ن لا، اک
کئی جیو-استریاں، آپینھھے=اپنے آپ
وچ، پتلی=کمزور آتمک جیون، رے بولا=نرادری
دے بچن، ددھاتھنی=اوہ اوستھا جدوں استری دے
تھناں وچ دودھ آؤندا ہے، پھرِ=ایہہ ویلا
کھنجھن تے، سہُ=خصم،پربھو، الائیسی=سدیگا
ہنسُ=جیو-آتما، ڈمنا=(ڈُ+منا) دچتا
ایہہ تنُ=ایہہ سریر، تھیسی=ہو جائگا)
38
عاشق رسول علیہ الصلوۃ والسلام حضرت خواجہ محمد یار فریدی رحمتہ اللہ علیہ
تحریر :۔ ارشاد احمد عارف

پنجاب کے طول عرض میں عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جو معطر ہوائیں چلیں اور جنہں نے ہر درد مند دل اور حب رسول علیہ الصلوۃ والسلام کی دولت سے مالا

مال مسلمان کے دل و دماغ کو مہکا دیا وہ ان نفوس قدسیہ کی شبانہ روز محنت اور ذکر و فکر کا نتیجہ تھا جو اپنے آپ کو دولت عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بانٹنے

اور اعلٰی ارفع تذکار سیرت سے مشام جاں معطر کرنے کے لئے وقف کر چکے تھے۔ انہی میں سے ایک نام حضرت خواجہ محمد یار فریدی رحمتہ اللہ علیہ کا ہے جو بیک

وقت سحر بیاں خطیب’ خوش گو شاعر’ صاحب علم و عرفان’ پیر طریقت اور سب سے بڑی بات یہ کہ عاشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے۔ عشق رسول صلی اللہ علیہ

وآلہ وسلم ان کا اوڑھنا بچھونا اور مقصد حیات تھا۔ یہی وجہ ہے کہ خطہ پنجاب جہاں ان کی خوش الحانی’ جادو بیانی اور گرمی گفتار کا معترف اور گواہ ہے وہاں ان کا اصل

تعارف تاجدار مدینہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشق و محبت سے معمور ایک ایسے صوفی کا ہے جس کے شب و روز ذکر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں

کٹتے اور حب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دولت کو عام کرنے میں گزرتے ہیں۔

خواجہ محمد یار فریدی رحمتہ اللہ علیہ 1881ء میں ریاست بہاولپور کے معروف اور مردم خیز قصبہ گڑھی اختیار خان میں پیدا ہوئے اور اس دور کی ایک شہرہ آفاق علمی

درسگاہ واقع چاچڑاں شریف میں مروجہ علوم کی تکمیل کی۔ یہ درسگاہ سرائیکی زبان کے امراء القیس شاعر اور سلسلہ عالیہ چشتیہ نظامیہ کے صاحب سجادہ بزرگ حضرت

خواجہ غلام فرید رحمتہ اللہ علیہ کی نگرانی اور علمی سرپرستی میں علم و عرفان کے متوالوں کی توجہ کا مرکز تھی۔ برصغیر پاک و ہند کے طول و عرض سے ہر عمر اور

نسل کے افراد اپنی علمی اور روحانی پیاس بجھانے کے لئے چاچڑاں شریف کا رخ کرتے اور گوہر مراد پاتے تھے۔ خواجہ محمد یار فریدی رحمتہ اللہ علیہ نے صرف یہاں

سے ظاہری علوم کی دولت ہی حاصل نہیں کی بلکہ حضرت خواجہ فرید رحمتہ اللہ علیہ کے ہاتھ پر بیعت کر کے طریقت و سلوک کی منزلیں بھی طے کیں۔ اس کے علاوہ خواجہ

صاحب رحمتہ اللہ علیہ سے شعر و بیان کی اصلاح بھی لی۔ یہی وجہ ہے کہ خواجہ محمد یار فریدی رحمتہ اللہ علیہ کے کئیں شعر خواجہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ سے منسوب ہو

کر زبان زد عام و خاص ہیں۔ حضرت خواجہ غلام فرید رحمتہ اللہ علیہ کے انتقال کے بعد انہوں نے حضرت خواجہ محمد بخش نازک کریم رحمتہ اللہ علیہ سے فیض صحبت پایا

او ان کے صاحبزادے خواجہ معین الدین رحمتہ اللہ علیہ سے خرقہ خلافت حاصل کیا۔ حصول علم کے بعد انہوں نے تبلیغ دین اور فروغ دین اور فروغ حب رسول صلی اللہ علیہ

وآلہ وسلم کو اپنی زندگی کا مشن بنایا اور ریاست بہاولپور میں دھوم مچا دی۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ اپنی تقریروں میں قرآن مجید اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی

تلاوت اس خوش الحانی سے کرتے کہ پوری محفل پر وجد کی کیفیت طاری ہو جاتی۔ اپنی سحر آفریں تقریروں میں مولانا روم رحمتہ اللہ علیہ اور خواجہ غلام فرید رحمتہ اللہ

علیہ کے فارسی اور سرائیکی اشعار کا بر محل استعمال اس قدر شیریں لسانی سے کرتے کہ خطاب ذوا شد ہو جاتا۔ آہستہ آہستہ آپ رحمتہ اللہ علیہ پنجاب اور پھر برصغیر کے

کونے کونے میں پہنچے اور اپنی وجد آفریں تقریروں سے لوگوں کو گرما اور تڑپا دیا۔ حب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور وحدت الوجود آپ رحمتہ اللہ علیہ کے خاص

موضوعات تھے حقیقت یہ ہے کہ وحدت الوجود کے خاص فلسفیانہ نظریہ کو آپ رحمتہ اللہ علیہ نے جس سلاست اور سادگی سے کم پڑھے لکھے اور بسا اوقات بالکل ان پڑھ

لوگوں تک پہنچایا وہ آپ رحمتہ اللہ علیہ ہی کا حصہ تھا۔ لاہور’ اجمیر’ امرتسر’ دہلی اور دیگر مقامات پر بزرگان دین کے اعراس اور دینی محفلوں میں آپ رحمتہ اللہ علیہ کا

خطاب خصوصی توجہ اور اشتیاق سے سنا جاتا اور سامعین مہینوں اس کی لذت اور حلاوت کو محسوس کرتے تھے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ لاہور کی مذہبی انجمن نعمانیہ کے

صدر بھی رہے۔ دارالعلوم حزب الاحناف کے سالانہ جلسہ اور عرس حضرت داتا گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ کے موقع پر آپ رحمتہ اللہ علیہ کا وعظ حاصل محفل ہوتا تھا اور

ملک کے طول و عرض سے آئے ہوئےسامعین اس سے محظوظ ہوتے۔ چشتی سلسہ تصوف سے تعلق کے باعث سماع آپ رحمتہ اللہ علیہ کے روح کی غذا تھی۔ قوالی کی

محفلوں میں ذوق شوق سے سے شریک ہوتے ان محافل میں ذکر مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اچھے اشعار پر آپ رحمتہ اللہ علیہ کی آنکھیں اشک بار ہو جاتیں اور

گریہ و وجد کی یہ کیفیت محفل کو گرما دیتی۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کا ایک خاص وصف ادب و تعظیم تھی۔ مشائخ و علماء کرام کے علاوہ نسبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

سے سادات کرام کا آپ رحمتہ اللہ علیہ انتہائی احترام کرتے۔ ان کے سامنے ہمیشہ دیدہ دل فرش راہ کرتے اور اس بات پر فخر کرتے کہ وہ دربار رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وآلہ

وسلم کے مدح خواں اور گدائے بے نوا ہیں۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ اپنی تقریروں میں بھی ادب اور تعظیم کا درس دیتے اور ذات رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم’ صحابہ کرام

رضوان اللہ علیہم اجمعین’ اہل بیت اور اولیائے کرام رحمہم اللہ کی فضیلتوں اور تعلیمات کے ذکر کے ساتھ ساتھ ان کے احترام اور تقدس پر زور دیتے۔

آپ رحمتہ اللہ علیہ مرشد کامل حضرت خواجہ غلام فرید رحمتہ اللہ علیہ کی طرح اردو’ فارسی اور سرائیکی کے قادر الکلام شاعر تھے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کے بعض سرائیکی

اشعار تو برصغیر کےمذہبی حلقوں میں زبان زد عام ہیں۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کا مجموعہ کلام دیوان محمدی المعروف انوار فریدی طبع ہو کر اہل ذوق سے خراج تحسین حاصل

کر چکا ہے۔ ایک طویل عرصہ تک درد کی دولت اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی انمول نعمت بانٹنے والا یہ قادر الکلام شاعر’ خطیب اور گدائے مصطفٰی 14 رجب

المرجب 1367ھ کو لاہور میں انتقال کر گیا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کو ابتداء میں مزار حضرت میاں میر رحمتہ اللہ علیہ کے قریب بطور امانت دفن کیا گیا بعد میں گڑھی اختیار خان

لے جا کر دفن کیا گیا۔ ہر سال آپ رحمتہ اللہ علیہ کا عرس گڑھی اختیار خان اور لاہور میں عقیدت و احترام سے منایا جاتا ہے
39

مذاقِ عاشقی دارم، پئے دیدار می گردَم

میں کُوچہ بازار میں یونہی آوارہ اور بے وجہ نہیں گھومتا
بلکہ میں عاشقی کا ذوق و شوق رکھتا ہوں اور یہ سب
کچھ محبوب کے دیدار کے واسطے ہے۔

خدایا رحم کُن بر من، پریشاں وار می گردم
خطا کارم گنہگارم، بہ حالِ زار می گردم

اے خدا مجھ پر رحم کر کہ میں پریشان حال پھرتا ہوں
خطار کار ہوں، گنہگار ہوں اور اپنے
اس حالِ زار کی وجہ سے ہی گردش میں ہوں۔

شرابِ شوق می نوشم، بہ گردِ یار می گردم
سخن مستانہ می گویم، ولے ہشیار می گردم

میں شرابِ شوق پیتا ہوں اور دوست کے گرد گھومتا ہوں
میں اگرچہ شرابِ شوق کی وجہ سے مستانہ وار کلام کرتا ہوں
لیکن دوست کے گرد طواف ہوشیاری سے کرتا ہوں
یعنی یہ ہوش ہیں کہ کس کے گرد گھوم رہا ہوں۔

گہے خندم گہے گریم، گہے اُفتم گہے خیزم
مسیحا در دلم پیدا و من بیمار می گردم

اس شعر میں ایک بیمار کی کیفیات بیان کی ہیں جو بیم و رجا میں الجھا ہوا ہوتا ہے

کہ کبھی ہنستا ہوں، کبھی روتا ہوں، کبھی گرتا ہوں اور کبھی اٹھ کھڑا ہوتا ہوں

اور ان کیفیات کو گھومنے سے تشبیہ دی ہے کہ میرے دل میں

مسیحا پیدا ہو گیا ہے اور میں بیمار اسکے گرد گھومتا ہوں۔

دل کو مرکز قرار دے کر اور اس میں ایک مسیحا بٹھا کر، بیمار اسکا طواف کرتا ہے۔

بیا جاناں عنایت کُن تو مولانائے رُومی را
غلامِ شمس تبریزم، قلندر وار می گردم

اے جاناں آ جا اور مجھ رومی پر عنایت کر، کہ میں شمس تبریز کا غلام ہوں اور دیدار کے

واسطے قلندر وار گھوم رہا ہوں۔ اس زمانے میں ان سب صوفیا کو قلندر کہا جاتا تھا

جو ہر وقت سفر یا گردش میں رہتے تھے۔
[/color]
40
Waa Zabardst thanks for sharing
Pages: 1 ... 3 [4] 5 ... 10