چینی کی 40 روپے کلو فروخت یقینی بنانے کی بجائے حکومت اپنے ہی عوام کے خلاف کھڑی ہو گئی : چیف جسٹس
اسلام آباد (ایجنسیاں + ریڈیو نیوز) سپریم کورٹ نے چینی کی قیمت کے تعین کے حوالے سے شوگر ڈیلرز ایسوسی ایشن کی درخواست واپس لئے جانے پر ہرجانہ کے ساتھ خارج کر دی جبکہ عدالت عظمیٰ میں جعلی دستاویزات پیش کرنے پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے شوگر ملز ایسوسی ایشن کے قائم مقام چیئرمین جاوید کیانی کو آج عدالت میں طلب کر لیا اور حکم جاری کیا کہ مقدمے کا فیصلہ آنے تک چینی 40 روپے کلو ہی فروخت کی جائے‘ اپنے ریمارکس میں چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا کہ ہائیکورٹ کی طرف سے چینی 40 روپے کلو بیچنے کے فیصلے کو یقینی بنانے کی بجائے حکومت اپنے ہی عوام کے خلاف کھڑی ہو گئی۔ صارفین کے مفاد کا تحفظ کریں گے۔ جمعرات کو چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس غلام ربانی اور جسٹس جواد ایس خواجہ نے درخواست کی سماعت شروع کی تو شوگر ڈیلرز ایسوسی ایشن کی جانب سے فاروق امجد میر ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ ایسوسی ایشن پانچ ہزار ڈیلرز جبکہ ڈیڑھ لاکھ ریٹیلرز کی نمائندہ تنظیم ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ڈیلرز ایسوسی ایشن کی تنظیم ایک رجسٹرڈ باڈی ہے تو انہوں نے کہا کہ یہ باقاعدہ رجسٹرڈ تنظیم نہیں ہے‘ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے جس قیمت پر ملز مالکان کے ساتھ چینی کے سودے طے کئے ہیں ان کی دستاویزات عدالت میں پیش کریں تو انہوں نے کہا کہ ان سودوںمیں چینی کی فی کلو قیمت تحریر نہیں کی جاتی صرف کل قیمت کے چیک پیش کئے جاتے ہیں چیف جسٹس نے کہا کہ ڈیلرز کے پاس چینی کا جتنا بھی سٹاک موجود ہے انہیں مارکیٹ میں لا کر چالیس روپے فی کلو میں فروخت کرنا ہو گا آپ لوگوں کی وجہ سے سترہ کروڑ عوام خوار ہو گئی ہے شوگر ڈیلرز کی درخواست ناقابل سماعت ہے آپ یہ درخواست واپس لے لیں ورنہ بھاری جرمانے کے ساتھ اسے خارج کر دیا جائے گا۔ آپ تو عدالت عظمیٰ میں درخواست بھی دائرکرنے کا اختیار نہیں رکھتے۔ اس موقع پر شوگر ڈیلرز کے وکیل نے درخواست واپس لے لی چیف جسٹس نے یہ درخواست ہرجانے کے ساتھ خارج کر دی۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے بھی استفسار کیا کہ آپ نے چینی کی قیمت بڑھانے کے لئے سپریم کورٹ میں درخواست کیسے دائر کر دی؟ آپ تو عوام کے نمائندہ حکومت کے کونسل ہیں آپ کو تو عوام کے ساتھ کھڑا ہونا چاہئے تھا ساری عوام ایک طرف ہے اور آپ دوسری طرف موجود ہیں۔ شکر کریں کہ ہم نے اس کیس کا ازخود نوٹس نہیں لیا آپ کو لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کی مکمل عملداری کا اعلان کرنا چاہئے تھا۔ وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں نے کن رولز آف بزنس کے تحت یہ درخواستیں دائر کیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم عدالت عظمیٰ کو مطمئن کریں گے ہم نے کسی شوق کے تحت یہ درخواستیں دائر نہیں کیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ معاملہ بہت حساس ہوتا جا رہا ہے شوگر ملز والے چاہتے ہیں کہ انہیں پینسٹھ روپے کلو چینی فروخت کرنے کی اجازت دے دیں تو اس موقع پر کہ حکومت کو چینی چالیس روپے کلو فروخت کرنے کا پابند ہونا چاہئے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ چالیس روپے فروخت کرنا مشکل ہے۔ اس سے نظام کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ نظام کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا 80 ارب روپے کا سکینڈل سامنے آیا ہے چیف جسٹس نے کہا کہ عوام کی عزت نفس کا خیال کریں راشن حاصل کرنے کے لئے قطاروں میں کھڑے لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ چینی کی قیمتوں کا تعین کرنے کے لئے ایک کمشن قائم کر دیتے ہیں جو چینی کے حوالے سے رپورٹ پیش کیا کرے تب تک چینی کی قیمت چالیس روپے کلو ہی رہے گی اس سے زائد نہیں ہو گی تاہم حالات بہتر ہونے پر اس سے کم کی جاسکتی ہے ہم مسابقتی کمشن کے چیئرمین خالد مرزا کو کمشن مقرر کر دیتے ہیں جن پر تمام لوگوں کا اعتماد ہے ہم عوام کو شوگر کارٹیل کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے۔ چینی کی قیمت مارچ میں اٹھائیس روپے جبکہ پانچ اگست تک بتیس روپے تھی اچانک ایسا کیا ہوا کہ چینی کی قیمت دوگنا کر دی گئی۔ اس موقع پر شوگر ملز ایسوسی ایشن اور پنجاب حکومت نے کمشن کے قیام سے رضامندی کا اظہار کیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ چینی مقامی پیداوار ہے اور اس کی قیمت مقرر کرتے وقت عالمی مارکیٹ سے موازنہ کیا جاتا ہے جو کہ بہت غلط بات ہے اس موقع پر شوگر ملز ایسوسی ایشن کی جانب سے شاہد کریم ایڈووکیٹ نے شوگر ملز ایسوسی ایشن کی وہ قرار داد عدالت عظمیٰ میں پیش کی جس میں عدالت عظمیٰ سے رجوع کرنے کے حوالے سے شوگر ملز نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا تھا۔ عدالت عظمیٰ نے اس قرار داد کا جائزہ لیا تو یہ قرار دیا کہ یہ ایک جعلی دستاویز ہے چیف جسٹس نے جعلی دستاویزات عدالت عظمیٰ میں پیش کرنے پر شوگر ملز ایسوسی ایشن پر انتہائی برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ آپ لوگوں میں اتنی جرات کیسے آئی کہ آپ عدالت عظمیٰ کو غلط دستاویزات کے ساتھ گمراہ کرنے کی کوشش کریں آپ کو نہیں معلوم کہ اس کا آپ کو کیا نقصان ہو سکتا ہے اس موقع پر شوگر ملز ایسوسی ایشن کے چیئرمین سکندر خان نے کہا کہ اس دستاویز کے جعلی ہونے سے متعلق انہیں علم نہیں تاہم اس دستاویز پر جس وقت دستخط کئے گئے وہ ملک سے باہر تھے اور اس وقت کے قائم مقام چیئرمین شوگر ملز ایسوسی ایشن جاوید کیانی نے اس دستاویز پر دستخط کئے۔ ثناء نیوز کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ چینی کی قیمتوں کے معاملے پر ایک طرف سترہ کروڑ عوام ہیں دوسری طرف مرکز اور صوبائی حکومتیں اکٹھی ہیں۔ این این آئی کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ چینی کے ڈیلرز یہ بتائیں کہ کتنی چینی ذخیرہ ہے اور یہ بھی بتائیں کہ اتنی چینی کیوں ذخیرہ کی گئی‘ اس موقع پر مسابقتی کمشن نے چینی بحران پر تفصیلی رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ملز مالکان خفیہ طور پر چینی کے نرخ مقرر کرنے میں ملوث ہیں۔ اے پی پی کے مطابق عدالت نے شوگر ملز ایسوسی ایشن کے قائم مقام چیئرمین کو جمعہ کو عدالت میں طلب کیا اور قرار دیا کہ عدالت عظمیٰ میں ہیر پھیر کرنے والوں کو جیل بھجوا دیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں اس حد تک نہ لے جائیں کہ ہم چینی کی قیمت فکس کر دیں‘ عدالت سماعت (آج) جمعہ کو دوبارہ شروع کرے گی۔
اسلام آباد (آن لائن + ریڈیو نیوز) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے تجارت نے کہا ہے کہ ملک بھرمیں چینی کا حالیہ بحران وزارت صنعت و پیداوار، تجارت اور شوگر ملز مالکان کی ملی بھگت کے نتیجہ میں پیدا ہوا ، رواں سال مئی میں شوگر ملز کے کہنے پر وزارت تجارت نے 75 ہزار ٹن چینی کی درآمد کا ٹینڈر منسوخ کیا جس سے ملک کو 80 کروڑ روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے، کمیٹی بحران کی مزید تحقیقات جاری رکھے گی سیکرٹری تجارت اپنے رویہ میں تبدیلی لائیں، قائمہ کمیٹی کا اجلاس چیئرمین انجینئر خرم دستگیر خان کی زیر صدارت ہوا جس میں پاکستان سکول آف فیشن ڈیزائن میں انتظامی بحران کے حوالے سے ذیلی کمیٹی کی رپورٹ کا جائزہ لینے کے علاوہ کمیٹی کی جانب سے ایک سال کے دوران جاری کی گئی ہدایات پر عمل درآمد اور ملک بھر میں چینی کے موجودہ بحران کا بھی جائزہ لیا گیا۔ سوالوں کے مناسب جواب نہ ملنے اور سیکرٹری تجارت کے ناروا سلوک کے خلاف کمیٹی کے ارکان نے احتجاج کیا اور فیصلہ کیا کہ کمیٹی استحقاق کمیٹی سے رجوع کرے گی۔ ریڈیو نیوز کے مطابق کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں وزارت خزانہ‘ صنعت‘ تجارت اور سٹیٹ بنک کے حکام کو طلب کر لیا‘ خرم دستگیر کا کہنا تھا کہ ٹی سی پی کو ملی بھگت سے چینی کی درآمد سے روکا گیا‘ قائمہ کمیٹی نے چینی کی درآمد روکنے کے لئے لکھے گئے خطوط پیش کر دئیے‘ خطوط وزارت تجارت اور وزارت صنعت و پیداوار نے لکھے۔