بیت اللہ میں داخلہ
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا“ حجون“ میں جس کو آج کل جنتہ المعلٰی کہتے ہیں “ مسجد الفتح“ کے قریب ہی گاڑا گیا آپ اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر اور حضرت اسامہ بن زید کو اونٹنی پر اپنے پیچھے بٹھا کر مسجد حرام کی طرف روانہ ہوئے اور حجرت بلال رضی اللہ عنہ اور کعبہ کے کلید بردار عثمان بن طلحہ ججی بھی آپ کے ساتھ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجد حرام میں اپنی اونٹنی کو بٹھایا اور کعنہ کا طواف کیا اور حجر اسود کو بوسی دیا۔
( بخاری جلد 2 ص 614 وغیرہ)
یہ انقلاب زمانہ کی ایک حیرت انگیز مثال ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام جن لا لقب ‘ بت شکن“ ہے۔ ان کی یادگار خانہ کعبہ کے اندرون حصار تین سو ساٹھ بتوں کی قطار تھی۔ فاتح مکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت خلیل کا جانشین جلیل ہونے کی حیثیت سے فرض اولین تھا کہ یادگار خلیل کو بتوں کی نجس اور گندی آلائشوں سے پاک کریں۔ چناچہ آپ خود بہ نفس نفیس ایک چھڑی لیکر کھڑے ہوئے اور ان بتوں کو چھڑی کی نوک سے ٹھونکے مار مار کر گراتے جاتے تھے۔ اور “ جاء الحق و زھق الباطل ، ان باطل کان زھوقا۔“ کی آیت تلاوت فرماتے جاتے تھے۔ یعنی حق آگیا اور باطل مت گیا اور باطل مٹنے ہی کی چیز ہے۔
( بخاری جلد 2 ص 614 فتح مکہ وغیرہ)
پھر ان بتوں کو جو عین کعبہ کے اندر تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ وہ سب نکالے جائیں ۔ چناچہ وہ سب بت نکال کر باہر کئے گئے۔ انہی بتوں میں حضرت ابراہیم و حضرت اسماعیل علیہما السلام کے مجسمے بھی تھے جن کے ہاتھوں میں فال کھولنے کے تیر تھے ۔ آپ نے ان کو دیکھ کر فرمایا کہ اللہ تعالٰی ان کافروں کو مار ڈالے۔ ان کافروں کو خوب معلوم ہے کہ ان دونوں پیغمبروں نے کبھی بھی فال نہیں کھولا۔ جب تک ایک ایک بت کعبہ کے اندر سے نہ نکل گیا آپ نے کعبہ کے اندر قدم نہیں رکھا۔ جب تمام بتوں سے کعبہ پاک ہو گیا تو آپ نے اپنے ساتھ حضرت اسامہ بن زید اور حضرت بلال اور عثمان بن طلحہ ججی رضی اللہ عنھم اجمعین کو ساتھ لیکر خانہ کعبہ کے اندر تشریف لے گئے اور بیت اللہ شریف کے تمام گوشوں میں تکبیر پڑھی اور دو رکعت نماز بھی ادا فرمائی اس کے بعد باہر تشریف لائے ۔
( بخاری جلد 1 ص 218 باب من کبر فی نوامی الکعبہ و بخاری جلد 2 ص 614 فتح مکہ وغیرہ)
کعبہ مقدسہ کے اندر سے جب آپ باہر نکلے تو حضرت عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ کو بلا کر کعبہ کی کجنی ان کے ہاتھ میں عطا فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ
خذوہ خالدۃ تالدۃ لا ینزعھا منکم الا ظالم ۔
لو یہ کنجی ہمیشہ ہمیشہ کیلئے تم لوگوں مین رہے گی۔ یہ کنجی تم سے وہی چھینے گا جو ظالم ہو گا۔“
( زرقانی جلد 2صفحہ 239)
--------------------------------------------------------------------------------
غلاف کعبہ تبدیل کرتے وقت شیخ عبدالرحمن صالح الشیبی نے میڈیا سے کہا کہ ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس پاک ذات نے ہم سب کو کعبة اللہ کی تالیف کی توفیق دی اور اس تقریب میں شرکت ممکن بنائی۔ ہمارے دادا حضرت عثمان بن طلحہ کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے خانہ کعبہ کی چابی عطا کی اور فرمایا کہ یہ چابی اللہ تعالیٰ نے تمہیں عطا فرمائی ہے اور قیامت تک رہے گی۔ آج تک چابی برسہا برس سے شیبی خاندان کے پاس ہے ۔
--------------------------------------------------------------------------------
اس کا ہر گز یہ مطلب نہ لیا جائے کہ خانہ کعبہ کی ایک چابی تھی اور وہی قیامت تک چلے گی بلکہ اس کا مطلب ھے کہ خانہ کعبہ کے دروازہ مبارک کی چابی کی زمہ داری کے فرائض الشیبی خاندان سر انجام دے رہا ھے۔