وہی ٹکرے،وہی عکس،وہی شیشے ہیں
ٹوٹ کر دل یہ محبت میں کہاں جُڑتے ہیں
بیت جاتا ہے کسی روز خزاں کا موسم
پھر بھی ہر خار کے حالات وہی رہتے ہیں
کیا گلہ ہو کہ زمانے کی ادا ہے یہ بھی
اجنبی بن کے بھی کُچھ لوگ یہاں ملتے ہیں
تُم بھی بتلاؤ مسیحاؤں کو اے خندہ
اُن کے مرہم سے بھی کُچھ زخم نہیں بھرتے ہیں