Author Topic: توبہ ، جب میدنہ کا شھر عجیب منظر پیش کر رہا تھا۔۔۔(حصہ دوم)۔  (Read 1415 times)

0 Members and 1 Guest are viewing this topic.

Offline Master Mind

  • 4u
  • Administrator
  • *
  • Posts: 4478
  • Reputation: 85
  • Gender: Male
  • Hum Sab Ek Hin
    • Dilse
    • Email
(حصہ دوم)
مسجد ميں وہ جب بھي موقع ملتا حضور صلی اللہ علیہ وسلم كو سلام كہتے ليكن وہ بھلا انہيں كيسے جواب ديتے انہيں تو اللہ نے منع كر ركھا تھا كہ كعب كي كسي بات كا جواب نہيں دينا۔ كعب ان سے نظريں ملاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نظريں پھير ليتے۔مگر اس كے باوجود كعب نے نہ آپ كو سلام كہنا ترك كيا اور نہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم كي نظر عنايت سے مايوس ہوئے۔
ايك دن انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم كو مسكراتے ديكھا تو كچھ اميد بندھي اور آگے بڑھے ليكن پھر اچانك يوں لگا كہ دنيا تاريك ہو گئي ہو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جيسے ہي كعب كو اپني طرف متوجہ پايا، سنجيدہ ہو كر نظريں ہٹا ليں۔ كعب كے كليجے پر گھونسا لگا۔ دل ريزہ ريزہ ہو گيا۔ بہت شكستہ دل ہو كر مسجد سے باہر نكلے۔ گھبرا كر اپنے قريبي دوست اور چچازاد بھائي ابو قتادہ كے باغ ميں جا پہنچے۔ دروازہ كھٹكھٹايا مگر نہ كھلا۔ آوازيں ديں ليكن زبانوں كو گنگ پايا۔ غم سے نڈھال ديوار پر چڑھے۔ ديكھا تو ابو قتادہ سامنے ہي بيٹھے تھے، اسے سلام كيا مگر ابو قتادہ نے منہ پھير ليا۔ كعب چلا كر بولے: "ابو قتادہ ميں تمہيں اللہ كي قسم دے كر پوچھتا ہوں، كيا ميں اللہ اور اس كے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت نہيں ركھتا؟" ليكن جواب ميں پھر وہي وحشت ناك خاموشي كعب دوبارہ چلائے۔ جواب نہ پا كر تيسري مرتبہ پھر قسم دے كر پوچھا۔ عربوں ميں قسم دے كر پوچھے گئے سوال كا جواب نہ دينا گناہ كے برابر سمجھا جاتا ہے۔ چنانچہ ابو قتادہ كو جواب ديناپڑا مگر يہ جواب بھي عجيب دل شكن اور روح فرسا جواب تھا وہ بندہ خدا بولے بھي تو كيا بولے كہنے لگے: "اللہ اور اس كا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہي بہتر جانتا ہے۔"

كعب يہ سن كر ديوار سے يوں نيچے كودے جيسے ديوار نے خود انہيں دھكا ديا ہو۔ وہ رونے لگے۔ آنسو ٹپ ٹپ گرنے لگے۔

اس دن يا انہي دنوں كي بات ہے كہ وہ بازار ميں جا رہے تھے كہ ايك شخص ان سے مخاطب ہوا۔ حيران ہوئے كہ يہ كس نے انہيں خود بلايا ہے۔ مڑ كر ديكھا تو كوئي اجنبي تھا اوراجنبي تو انہيں مخاطب كر ہي ليتے تھے۔ لباس سے يہ اجنبي انہيں ملك شام كا باشندہ لگا۔ ان كا نام پوچھنے كے بعد بولا ميں ملك شام سے غساني بادشاہ كي طرف سے يا ہوں۔ (اس ملك سے جس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم كے قاصد كو شہيد كيا تھا)
"كيا چاہتے ہو؟" كعب نے ناگواري سے پوچھا۔ جواب ميں اس نے ريشم كے خوب صورت كپڑے ميں لپٹا ايك خط پيش كيا۔ كعب نے حيرت سے مراسلہ ليا اور اسے كھولا۔ لكھا تھا: "مجھے معلوم ہوا ہے كہ تمہارے آقا نے تم پر بہت ظلم كر ركھا ہے، مگر تم ہرگز كوئي ذليل شخص نہيں ہو، نہ اس لائق ہو كہ تمہيں ضائع كيا جائے۔ ہمارے پاس جائو، ہم تمہاري قدر كريں گے۔"
يہ پيغام بہت ہي اہميت ركھتا تھا مگر كعب كي حالت عجيب تھي۔ اس كا جي چاہتا تھا كہ زمين پھٹ جائے اور اس ميں سما جائے۔ سوچنے لگے كہ آخر ان كي كس بات سے كمينے دشمنوں نے يہ سمجھ ليا ہے كہ وہ اللہ كے آخري پيغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم كو چھوڑ كر ايك گھٹيا بادشاہ كے ساتھ مل جائيں گے۔ انہوں نے فورا اس سفير كو ڈانٹ كر بھگا ديا اور غصے ميں سيدھے گھر گئے اور خط كو چولہے ميں جھونك كر اپنا جي ہلكا كيا۔

اس كيفيت كو اب چاليس دن ہو گئے تھے اور كعب كو يہ چاليس دن چاليس صدياں لگي تھيں۔ انہيں ايك ايك پل گزارنا مشكل ہو گيا تھا۔ مگر ان كي آزمايش اور سزا ابھي ختم نہيں ہوئي تھي۔ ايك دن كسي نے دروازہ كھٹكھٹايا باہر نكلے ، ديكھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم كا پيغام رساں ہے۔ سمجھے كوئي خوش خبري ہوگي مگر جو كچھ سننا پڑا وہ ايك نيا حكم تھا۔ نئي پابندي تھي كہا گيا: "اپني بيوي سے عليحدہ ہو جائو۔"
"كيا طلاق دے دوں؟" كعب نے جذبات ميں رندھي آواز ميں پوچھا۔ مگر پيغام پہنچانے والا بولا: "نہيں صرف عليحدہ ہو جائو"
يہ سن كر خاموشي سے اندر چلے آئے۔ بيوي سے بولے كہ ميكے چلي جائو اور اس وقت تك انتظار كرو جب تك ميرا فيصلہ نہيں ہو جاتا۔

اس واقعے كے بعد دس دن مزيد گزر گئے۔ اب ان كے بائيكاٹ كو پچاس دن پورے ہو چكے تھے۔ بالكل اتنے دن، جتنے دن اسلامي لشكر مدينے سے باہر رہا تھا۔ پچاسويں دن وہ فجر كي نماز پڑھ كر اپنے گھر كي چھت پر ليٹے تھے۔ كعب سوچ رہے تھے كہ اگر اسي دوران ان كي موت واقع ہو گئي تو كيا ہو گا؟ كيا وہ اللہ كي عدالت ميں مجرم كي حيثيت سے پيش ہوں گے، كيا ان كا شمار بزدلوں ميں ہو گا؟ كيا انہيں اللہ كے رسول صلی اللہ علیہ وسلم كا نافرمان قرار ديا جائے گا؟ كيا ان كا جرم كبھي معاف نہيں ہو گا؟ پھر وہ اللہ سے مخاطب ہوئے كہ اے اللہ تم تو كہتے ہو كہ جو سچے دل سے توبہ كرے، اس كي توبہ قبول كرتے ہو تم تو ميرے دل كي حالت جانتے ہو، تم تو ان آنسوئوں سے واقف ہو جو ميں نے اس زمين كو پلائے ہيں تم تو جانتے ہو كہ كتني ہي مرتبہ ميں نے اپنے آنسوئوں سے اپنا چہرہ دھويا ہے كيا يہ چہرہ اب بھي معافي كے لائق نہيں؟

وہ انہي سوچوں ميں تھے كہ ان كے كانوں ميں ايك زوردار آواز آئي۔ كہنے والا كہہ رہا تھا: "مبارك ہو۔۔۔۔ كعب بن مالك۔۔۔۔مبارك ہو"
يہ سننا تھا كہ وہ سجدے ميں گر پڑے۔ سمجھ گئے كہ توبہ قبول ہو گئي ہے دھاڑيں مار مار كر رونے لگے۔ دل كو ہلكا كرنے لگے پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم كا خيال آيا تو بھاگے، لپكے اور مسجد نبوي صلی اللہ علیہ وسلم جا پہنچے حضور صلی اللہ علیہ وسلم كا چہرہ مبارك ديكھا۔ يوں لگا كہ آج چودھويں كا چاند آسمان پر نہيں محمد صلی اللہ علیہ وسلم كے چہرے پر طلوع ہوا ہے۔ ان كا چہرہ خوشخبريوں كا نور بكھير رہا تھا۔ كعب رضی اللہ عنہ نے سلام كيا اور ادھر سے جواب ملا پھر فرمايا گيا: "اے كعب مبارك ہو۔ يہ دن تمھاري زندگي كا بہترين دن ہے"

كعب كے دل ميں نہ جانے كيا تھا كہ بولے: "حضور صلی اللہ علیہ وسلم يہ معافي آپ صلی اللہ علیہ وسلم كي طرف سے ہے يا اللہ كي طرف سے؟"
"اللہ كي طرف سے ۔" فرمايا گيا اور پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم كي زبان مبارك پر سورہ توبہ كي يہ آيات جاري ہو گئيں:
"اور ان تينوں كو بھي اللہ نے معاف كرديا جن كے معاملے كو ملتوي كر ديا گيا تھا۔ جب زمين اپني ساري وسعت كے باوجود ان پر تنگ ہو گئي اور انہيں اپنا وجود بوجھ محسوس ہونے لگا اور انہوں نے جان ليا كہ اللہ كے دامنِ رحمت كے سوا انہيں كوئي پناہ نہيں مل سكتي تو اللہ نے اپني مہرباني سے ان كي طرف توجہ كي تاكہ وہ توبہ كر ليں يقينا اللہ توبہ قبول كرنے والا اور انتہائي رحم كرنے والا ہے"

چند لمحے پہلے اپنے آپ كو دنيا كا سب سے بدنصيب اور دكھي سمجھنے والے انسان كا رواں رواں خوشي سے لبريز تھا۔ چند لمحے پہلے ہر طرف ناراض نظر نے والے چہرے اسے اپنے سينے سے چمٹانے، مبارك باد دينے، اسي محبت و شفقت كا رويہ ركھنے كے ليے بے تاب تھے اور سب سے بڑھ كر كعب رضی اللہ عنہ كو جس ہستي سے دنيا كي ہر شے سے زيادہ حتيٰ كہ اپني جان سے بھي زيادہ محبت تھي وہ ہستي بھي آج اس سے خوش تھي راضي تھي يعني محمد صلي اللہ عليہ وسلم كي ہستي واقعي آج كعب رضی اللہ عنہ اور اس كے دونوں ساتھيوں كے ليے زندگي كا خوش گوار ترين دن تھا۔ چنانچہ اسي خوشي ميں كعب رضی اللہ عنہ نے اپنا تمام مال خيرات كر ديا۔ اس مال كو جس كو سنبھالنے كے چكر ميں وہ يہ سستي كر بيٹھے تھے جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حكم ديا تو صرف گزارے كے ليے خيبر سے آنے والا مال غنيمت كا حصہ ركھا رضي اللہ عنہ۔

Offline Leon

  • VIP Member
  • *
  • Posts: 6136
  • Reputation: 126
  • Gender: Male
  • Happy Ending
    • Hum Tum
Tanhai Main Bethe Bethe Gum Ho Jata Hun
Main Aksar Main Nahi Rehta Tum Ho Jata Hun

Offline ~!~Anchal~!~

  • Sr. Member
  • *
  • Posts: 2019
  • Reputation: 9
  • Gender: Male

Offline impressible4u

  • Sr. Member
  • *
  • Posts: 1669
  • Reputation: 6
    • Email

Offline Samera

  • Sr. Member
  • *
  • Posts: 2883
  • Reputation: 63
  • Gender: Female

Offline Allahwala

  • Sr. Member
  • *
  • Posts: 1337
  • Reputation: 6
  • Gender: Male
    • Email
 JazaKallah Mashallah nice sharing Allah Jaza ata frmaye ameen