بصرہ میں ایک عابد وزاہد شخص اسمٰعیل رہا کرتےتھی۔ ان کی مالی حالت انتہائی شکستہ تھی مگر آپ اپنی فطری قناعت کےسبب کبھی کسی کےسامنےدست سوال دراز نہیں کرتےتھی۔ شیخ اسمٰعیل کی تین بیٹیاں تھیں جس رات چوتھی بیٹی حضرت رابعہ پیدا ہوئیں شیخ اسمٰعیل کی بےسروسامانی کا یہ عالم تھا کہ چراغ جلانےکیلئےگھر میں تیل تک نہیں تھا۔ حضرت رابعہ کی والدہ نےشوہر سےکہا کہ وہ کسی پڑوسی سےکچھ پیسےقرض لےلیں۔ شیخ اسمٰعیل نےاپنی ذات کیلئےکبھی کسی کےآگےہاتھ نہیں پھیلایا تھا مگر جب شریک حیات نےبار بار کہاتو آپ رات کی تاریکی میں گھر سےنکل کھڑےہوئےاور پڑوسی کےدروازےپر پہنچ کر دستک دی۔ پڑوسی گہری نیند سویا ہوا تھا۔ اس لئےاس نےدستک کی آواز نہ سنی۔ شیخ اسمٰعیل کچھ دیر تک دروازہ کھلنےکےانتظار میں کھڑےرہےمگر جب پڑوسی کےقدموں کی چاپ تک سنائی نہیں دی تو آپ خاموشی کےساتھ واپس لوٹ آئی۔
آپ کی اہلیہ نےشوہر کو خالی ہاتھ آتےدیکھا توپریشان لہجےمیں کہا۔ ”کیا پڑوسی نےبھی مدد کرنےسےانکار کر دیا؟“
”کہاںکی مدد اس نےتودروازہ تک نہیں کھولا۔“ شیخ اسمٰعیل نےافسردہ لہجےمیں فرمایا۔
”بڑی حیرت کی بات ہی۔“ حضرت رابعہ کی والدہ نےاس طرح کہا جیسےانہیں شوہر کی بات پر یقین نہ آیا ہو۔
”آپ کو حیرت کیوں ہی؟“ شیخ اسمٰعیل نےفرمایا۔ ”جو لوگ ایک دروازےکو چھوڑ کر دوسرےدروازےپر دستک دیتےہیں ان کا یہی حال ہوتا ہی۔“ یہ کہہ کر آپ اپنےکمرےمیں چلےگئی۔
شیخ اسمٰعیل بہت دیر تک بستر پر لیٹےہوئےکروٹیں بدلتےرہی۔ آپ کو پڑوسی کےاس روّئیےپر بہت دکھ تھا۔ اس کےساتھ ہی اس بات کا بھی نہایت قلق تھا کہ آپ اس کےدروازےپرکیوں گئی؟ یہ ذہنی کشمکش بہت دیر تک جاری رہی اور پھر اسی عالم میں آپ کو نیند آگئی۔
شیخ اسمٰعیل نےحضور اکرم اکو خواب میں دیکھا۔ رسالت مآب افرما رہےتھی۔ ”اسمٰعیل! اپنی بےسروسامانی کا غم نہ کر۔ تیری یہ بچی اپنےوقت کی بہت بڑی عارفہ ہو گی اور اس کی دعائوں سےمیری امت کےبہت سےافراد بخشےجائیں گی۔ تجھ پر لازم ہےکہ حاکم بصرہ عیسٰی زروان کےپاس جا اور اس سےکہہ دےکہ وہ مجھ پر ہر رات سو بار اور شب جمعہ میں چار سو مرتبہ درود بھیجتا ہےمگر گذشتہ جمعےکی رات اس نےمیری بارگاہ میں درود کا تحفہ نہیں بھیجا۔ اس لئےاسےچاہئےکہ وہ کفارےکےطور پر میرےقاصد کو چار سو دینار ادا کر دی۔“
جب شیخ اسمٰعیل کی آنکھ کھلی تو آپ سرورِ کائنات اکےدیدار کی لذت سےسرشار تھی۔ پھر صبح ہوتےہی آپ نےاپنا پورا خواب ایک کاغذ پرتحریر کیا اور حاکم بصرہ کےدربان کودےدیا۔
عیسٰی زروان اس وقت اپنےدربار میں بیٹھا ہوا تھا۔ جب شیخ اسمٰعیل کاخط دیکھا تو بےقرار ہو کر اپنی نشست پر کھڑا ہو گیا اور دربان سےمخاطب ہو کر بولا۔
”وہ معزز و محترم شخص کہاں ہی؟“
”حاکم بصرہ کےجواب کےانتظار میں محل کےدروازےپر کھڑا ہی۔“ دربان نےعرض کیا۔
عیسٰی زروان تیز قدموں کےساتھ محل کےدروازےپر پہنچا اور شیخ اسمٰعیل کےہاتھوں کو بوسہ دےکر کہنےلگا۔ ”آپ کےطفیل مجھےسرکار دو عالم انےیاد فرمایا اورمیری غلطی کی معافی کا سبب پیدا ہوا۔ اللہ آپ کو جزائےخیردی۔“یہ کہہ کر حاکم بصرہ نےخلوص و عقیدت کےساتھ شیخ اسمٰعیل کو چار سو دینار دےدیئےاور اسی خوشی میں اس نےدس ہزار دینار دوسرےفقراءمیں بھی تقسیم کئی۔۔
اسی گھرمیں رابعہ بصری 97 ھجری کو بصرہ میں پیدا ہوئیں اپنےوالدین کی چوتھی اولاد ہونےکےناطےآپ کا نام رابعہ رکھا گیا۔ آپ نےبچپن سےجوانی تک رنج و الم اور آفات و مصائب کےسوا کچھ نہیں دیکھا۔ابھی چار پانچ سال کی تھیں کہ محبت کرنےوالےوالدین وفات پاگئی۔ 105 ھجری میں بصرہ میں ایسا قحط پڑا کہ لوگ نہ صرف محبت کےلطیف و نازک جذبات کو بھول گئےبلکہ ان کےسینےنفسانی خواہشوں کےہجوم سےبھر گئےتھی۔ وہ اپنےشکم کی آگ بجھانےکیلئےاپنےہم جنسوں کو ارزاں داموں پر فروخت کرنےلگی۔ اولادیں‘ ماں‘باپ پرگراں تھیں اور اولادوں پر ماں باپ ایک بوجھ تھی۔ بیویاں شوہروں کیلئےباعث آزار تھیں۔۔۔۔ اور بہنیں بھائیوں کیلئےایک مستقل عذاب بن چکی تھیں۔ خاندانی اورعلاقائی رشتوں کا تو ذکر ہی کیا‘ خونی رشتےبھی بےاعتبارہو چکےتھی۔ عجیب نفسانفسی کاعالم تھا۔ ماں باپ اولادوں سےہاتھ چھڑا رہےتھی۔۔۔۔ بھائیوں نےبہنوں سےمنہ پھیر لیا تھا اور دوست ایک دوسرےکوپہنچاننےسےگریزاں تھی۔ بھوک کاعفریت اپنا خونی دہن کھولےکھڑا تھا۔۔۔۔ اورتمام انسانی رشتی‘ احساسات و جذبات‘ عقائد و نظریات اس کی خوراک بنتےجارہےتھی۔
اسی ہولناک فضاءمیں بصرہ کےایک چھوٹےسےخاندان پر قیامت گزر گئی۔ یہاں چار بہنیں رہا کرتی تھیں جن کےماں باپ دنیا سےرخصت ہو گئےتھی۔ بظاہر کوئی نگراں اور کفیل نہیں تھا۔ یہ سب بہنیں مل کر محنت مزدوری کیاکرتی تھیں۔۔۔۔ مگر جب شہر بصرہ قحط کی لپیٹ میں آیا تو سارےکاروبار دم توڑ گئےاورمزدوریاں ختم ہو گئیں۔ نو عمر لڑکیوں نےدو تین فاقےتو برداشت کر لئےمگر جب بھوک حد سےگزری تو کسی کو اپنا ہوش نہ رہا۔ بھیک تک کی نوبت آگئی مگر کوئی کیسےبھیک دیتا کہ دینےوالےکےپاس خود کچھ نہیں تھا۔ یہ تمام بہنیں زرد چہروں اورپتھرائی ہوئی آنکھوں سےآسمان کی طرف دیکھ رہی تھیں کہ بصرہ کامشہور تاجر عتیق ادھر سےگزرا۔ فاقہ زدہ بہنوں نےآسودہ حال شخص کےسامنےدست سوال دراز کر دیا۔
”خدا کیلئےہمیں کچھ کھانےکو دو۔ ورنہ کچھ دیر بعد ہماری سانسوں کا رشتہ ہمارےجسموں سےمنقطع ہو جائےگا۔“
تاجر عتیق نےسب سےچھوٹی بہن کی طرف دیکھا جو خاموش بیٹھی تھی۔ ”لڑکی! تجھےبھوک نہیں ہی۔“
”بہت بھوک ہی۔“ سب سےچھوٹی بہن نےنقاہت زدہ لہجےمیں جواب دیا۔ ”تو پھر کسی سےروٹی کیوں نہیں مانگتی؟“ تاجر نےسوال کیا۔
”جس سےمانگنا چاہئےاسی سےمانگ رہی ہوں۔“ لڑکی نےبڑا عجیب جواب دیا۔
”تو پھر تجھےابھی تک روٹی کیوں نہیں ملی؟“ تاجر عتیق نےحیران ہو کر دوسرا سوال کیا۔
”جب وقت آئےگا تو وہ بھی مل جائےگی۔“ لڑکی کا انداز گفتگو مبہم تھا مگر لہجےسےبڑی استقامت جھلک رہی تھی۔
تینوں بڑی بہنیں چھوٹی بہن کی بےسروپا باتوں سےبیزار تھیں۔ اس لئےجھنجھلا کر بولیں۔ ”یہ ہم سب کاوقت برباد کر رہی ہی۔ آپ اسےیہاں سےلےجائیں۔“
”یہ لڑکی بڑےکام کی ہی۔ میں اسےلےکر ہی جائوں گا۔“ تاجر عتیق نےتینوں بہنوں کومخاطب کرتےہوئےکہا۔۔۔۔ اور پھر ایک مخصوص رقم ان کےحوالےکر دی۔
”چلو!لڑکی“ تاجر نےچھوٹی بہن سےکہا۔ ”اب تم میری ملکیت ہو۔“
لڑکی نےاپنی بہنوں کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھےمگر ہونٹوں پر حرف شکایت نہیں تھا۔ وہ تاجر عتیق کےساتھ چپ چاپ چلی گئی۔ اس نےکئی بار مڑ کر دیکھا۔ لڑکی کی آنکھوں میں بس ایک ہی سوال تھا۔
”کیا تم نےچند روٹیوں کیلئےاپنی چھوٹی بہن کو فروخت کر دیا ہی“۔
تینوں بہنوں نےکوئی جواب نہیں دیا۔ انہیں بھوک کی عفریت سےنجات مل گئی تھی اور وہ تاجر کےدیئےہوئےسکےگننےمیں مصروف تھیں۔ پھر انہیں اپنی چھوٹی بہن کی آنکھوں میں لرزنےوالی معصوم حسرتیں اور کانپتےہوئےسوالات کس طرح نظر آتی؟ آخر لڑکی نظروں سےاوجھل ہو گئی اور ضرورت کےبےرحم ہاتھ نےخونی رشتوں کو جدا کردیا۔
نوعمر ہونےکےباوجود وہ لڑکی انتہائی مشقت اور ذمہ داری کےساتھ اپنا کام پورا کرتی اور مالک کو کسی قسم کی شکایت کا موقع نہ دیتی۔ یہاں تک کہ اسی عالم میں کئی سال گزر گئی۔ اب اس لڑکی کی عمر بارہ تیرہ سال کےقریب تھی۔ جیسےجیسےعمر بڑھتی جارہی تھی‘ لڑکی کےذوق عبادت میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ گھر کا کام کرنےکےبعد وہ رات رات بھر عبادت میں مصروف رہتی۔ پھر صبح ہوتےہی اپنےآقا کی خوشنودی حاصل کرنےکیلئےگھر کےکاموں میں مشغول ہو جاتی۔ آخر شدید محنت نےاس معصوم جان کوتھکا ڈالا۔
”کیا تو بیمارہی؟“ لڑکی کےچہرےپر تھکن کےآثار دیکھ کر ایک دن مالک نےپوچھا۔
لڑکی نےنفی میں آقا کی بات کا جواب دیتےہوئےکہا۔ ”کیا میں اپنےفرائض کی ادائیگی میں کسی کوتاہی کی مرتکب ہو رہی ہوں۔“
مالک نےاس کےکام کی تعریف کی اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ وہ اپنی صحت کا خیال رکھی۔
لڑکی نےآقا کا حکم سنا اور سر جھکا دیا مگر اس کےمعمولات میں کوئی کمی نہ آئی۔ وہ اجالےمیں دنیاوی مالک کی خدمت انجام دیتی اور اندھیرےمیںمالک حقیقی کےسامنےسجدہ ریز ہو جاتی۔
ایک دن اتفاق سےنصف شب کےقریب آقا کی آنکھ کھل گئی۔ وہ اپنےکمرےسےنکل کر ٹہلنےلگا۔ اچانک اس کی نظر کنیز کی کوٹھڑی پرپڑی۔ وہاں چراغ جل رہا تھا۔
”یہ کنیز ابھی تک جاگ رہی ہی؟“ آقا بڑی حیرت کےساتھ کنیز کےجاگنےکا سبب جاننےکیلئےکوٹھڑی کی طرف بڑھا۔ دروازہ کھلا ہوا تھا۔ مالک دبےقدموں اندر داخل ہوا۔ اب اس کی آنکھوں کےسامنےایک ناقابل یقین منظر تھا۔ کنیز سجدےکی حالت میں تھی اور دبی دبی سسکیاں ابھر رہی تھیں۔ مالک کی حیرت میںکچھ اور اضافہ ہو گیا۔ وہ آہستہ آہستہ آگےبڑھا۔ پھر اس نےکان لگا کر سنا۔ کنیز انتہائی رقت آمیز لہجےمیں دعامانگ رہی تھی۔
”اےاللہ! تو میری مجبوریوں سےخوب واقف ہی۔ گھر کا کام کاج مجھےتیری طرف آنےسےروکتا ہی۔ تو مجھےاپنی عبادت کیلئےپکارتا ہےمگر میں جب تک تیری بارگاہ میں حاضر ہوتی ہوں‘ نمازوں کا وقت گزر جاتا ہی۔ اس لئےمیری معذرت قبول فرما لےاورمیرےگناہوں کو معاف کردی۔“
مالک نےکنیز کی گریہ و زاری سنی تو خوفِ خدا سےلرزنےلگا۔ روایت ہےکہ اس واقعےسےپہلےتاجر عتیق ایک ظالم شخص تھا۔ اپنےغلاموں اور کنیزوں سےبےپناہ مشقت لیتا تھا اور انہیں پیٹ بھر کر کھانا تک نہیں دیتا تھا۔ آج رات ایک کنیز کو اس طرح سجدہ ریز دیکھا تو پتھر دل پگھل گیا اور اسےاپنےماضی پر ندامت ہونےلگی۔ الٹےقدموں واپس چلا آیا اور رات کا باقی حصہ جاگ کر گزار دیا۔ پھر صبح ہوتےہی کنیز کی کوٹھری میں پہنچا اور کہنےلگا۔
”آج سےتم آزاد ہو‘جہاں چاہو چلی جائو۔“
”مگر میں تمہاری دی ہوئی قیمت ادا نہیں کر سکتی۔“ کنیز نےحیران ہو کر کہا۔
”میں تم سےکوئی قیمت نہیںمانگتا مگر ایک چیز کا سوال کرتا ہو۔“ تاجر عتیق کےلہجےسےعاجزی کا اظہار ہو رہا تھا۔ ”میری طرف سےکی جانےوالی تمام زیادتیوں کو اس ذات کےصدقےمیں معاف کر دو جس کی عبادت تم راتوں کی تنہائی میں چھپ کر کرتی ہو۔“
”میں نےتمہیں معاف کیا۔ میرا مالک تمہیں ہدایت دی“ یہ کہہ کرکنیز چلی گئی۔
یہ معصوم اور یتیم بچی اور شب بیدار کنیز مشہور عارفہ حضرت رابعہ بصری تھیں۔۔
جب تاجر عتیق نےحضرت رابعہ کو آزاد کر دیا تو آپ علوم ظاہری حاصل کرنےکیلئےبصرہ سےکوفہ تشریف لےگئیں جو اپنےوقت میں بہت بڑا علمی مرکز تھا اور جہاں نادر روزگار علما ءہر وقت موجود رہتےتھی۔ روایت ہےکہ حضرت رابعہ بصری فطری طور پر نہایت ذہین خاتون تھیں۔ نتیجتاً آپ نےبہت کم مدت میں قرآن کریم حفظ کر لیا۔
اکثر روایات سےپتہ چلتا ہےکہ حضرت رابعہ بصری نےفقہ اور حدیث کی تعلیم بھی حاصل کی تھی اورپھر دونوں علوم میں اس قدر مہارت حاصل کر لی کہ جب آپ وعظ فرماتی تھیں تو بڑےبڑےمحدث اور فقیہہ حیران رہ جاتےتھی۔ کسی معتبر تاریخ سےیہ پتہ نہیں چلتا کہ حدیث اور فقہ میں آپ کےاساتذہ کون تھی؟ پھر بھی یہ امر طےشدہ ہےکہ حضرت رابعہ بصری کی بارگاہ معرفت میں بڑےبڑےعلماءنیازمندی کےساتھ حاضر ہوا کرتےتھی۔ ان بزرگوں میں سرفہرست حضرت امام سفیان ثوری ہیں جو حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کےہمصر تھےاور جنہیں امیرالمومنین فی الحدیث کےلقب سےبھی یاد کیا جاتا ہی۔ مشہور بزرگ حضرت مالک بن دینار کےبارےمیں بھی کہا جاتا ہےکہ وہ حضرت رابعہ بصری سےنہایت عقیدت رکھتےتھی۔
حضرت رابعہ بصری کو کثرت رنج و الم اور حزن و ملال نےدنیا اور اس کی دلفریبیوں سےبیگانہ کر دیا تھا۔ پھر اسی جذبہ بیگانگی نےبےنیازی کی شکل اختیار کر لی اور حضرت رابعہ بصری نےدنیا اوراہل دنیا کی نفی کر دی۔ دنیا کی نفی کےبعد ایک ہی صورت باقی رہ جاتی ہےکہ انسان اپنےآپ کو دنیا بنانےوالےکی یادوں میں گم کر دےحضرت رابعہ بصری نےبھی ایسا ہی کیا۔ جب سارےرشتےناپائیدار ثابت ہوئےتو آپ نےخالق کائنات سےرشتہ جوڑ لیا۔ یہ رشتہ تو ازل سےابد تک قائم رہتا ہی۔ ایک مفکر اپنےخالق کےوجود سےانکار کر سکتا ہےمگر اس کی بندگی کےدائرےسےخارج نہیں ہوتا۔ فرعون نےلاکھ کہا کہ تمہارا بڑا رب ہوں مگر حقیقت میں وہ رب کائنات کا ہی بندہ تھا۔ مسئلہ صرف اقرار کا ہی۔ اقرار کےبعد انسان کی بندگی مستند اور معتبر ہو جاتی ہی۔ انکار کی صورت میں بھی وہ اللہ ہی کا بندہ رہتا ہےمگر اپنی سرکشی اور بےراہ روی کےباعث”راندئہ درگاہ“ کہلاتا ہی۔ حضرت رابعہ بصری بھی روز اوّل سےاپنےخالق کی وحدانیت اور کبریائی کا اقرار کر رہی تھیں۔ ہو سکتا تھا کہ وہ شدید اور طویل آزمائشوں کےدوران اپنا راستےبھول جاتیں مگر حق تعالیٰ نےہر قدم پر ان کی رہنمائی کی۔ پھر جب وہ آفات و مصائب کےدریا کو پار کر کےساحل مراد تک آپہنچیں اور انہوں نےبےاختیار خاک پر سر رکھ کر کہا۔
”بس! تو ہی ہےاور تیرےسوا کوئی نہیں۔“
حضرت رابعہ بصری کےمسلک کی بنیاد ”عشق الٰہی“ پر ہی۔
”حضرت رابعہ بصری کی حیات مبارک میں حزن و الم کےجو گہرےنقوش پائےجاتےہیں‘ اگر انہیں غور سےدیکھا جائےتو یہ حقیقت منکشف ہوگی کہ یہ تمام تر اسی محبت کا نتیجہ ہےجو حضرت رابعہ بصری کو اللہ تعالیٰ کی ذات پاک سےتھی۔“
تصوف اسلامی کےہیکل میں جس ہستی نےسب سے”حب الٰہی“ کو ایک مستقل اور محکمہ مسلک کی صورت میں پیش کیا وہ صرف حضرت رابعہ بصری ہیں۔ انہوں نےایسےآثار و نقوش چھوڑےہیں جو حزن والم اور محبت الٰہی کی صحیح تعبیر اور تفسیر کا کام دیتےہیں۔“
یہ اسی محبت کا نتیجہ تھا کہ حضرت رابعہ بصری ہر وقت مغموم اور ملول رہا کرتی تھیں۔ شاذونادر ہی ان کی آنکھوں کو کسی نےخشک دیکھا ہو گا ورنہ کسی آبشار کی طرح بہتی ہی رہتی تھیں۔ جب مجلس میں کوئی دوزخ کر ذکر چھیڑ دیتا تو حضرت رابعہ بصری اس کی دہشت سےبےہوش ہو جاتی تھیں۔ روایت ہےکہ حضرت رابعہ بصری کی سجدہ گاہ ہمیشہ آنسوئوں سےتر رہتی تھی۔
حضرت رابعہ بصری بہت کم گفتگو کیا کرتی تھیں۔ آپ کا بیشتر وقت نماز پڑھنےمیں گزرتا تھا۔ اگر کبھی کسی سےکوئی بات کرنی ہوتی تو آیات قرآنی کا سہارا لےکر اپنا مطلب بیان کرتیں۔ لوگوں نےپوچھا کہ آپ ایسا کیوں کرتی ہیں؟ جواب میں حضرت رابعہ بصری نےفرمایا۔
”انسان جو کچھ بولتا رہتا ہی‘ فرشتےاسےلکھتےرہتےہیں۔ میں کوشش کرتی ہوں کہ قرآن کی آیتوں کےسوا کچھ نہ بولوں۔ یہ احتیاط اس لئےہےکہ کہیں میرےمنہ سےغلط بات نہ نکل جائےاور فرشتےاسےتحریر کر لیں۔“۔
حضرت رابعہ بصری نےفرمایا۔ ”بےشک! اس نےمنع تو نہیں فرمایا ہی۔۔۔۔ مگر مجھےاس کام کیلئےفرصت نہیں ہی۔“
لوگوں نےتعجب سےکہا۔ ”ہاں! دنیا میں وہی شخص ہنستا ہےجسےاطمینان قلب حاصل ہو اور میں ابھی اس نعمت سےمحروم ہوں۔“
حاضرین مجلس نےآپ کےاس قول مبارک کی وضاحت چاہی تو حضرت رابعہ بصری نےفرمایا۔ ”میں نےمحبت کیلئےصرف ایک ہی ہستی کاانتخاب کیا ہےاور وہ اللہ کی ذات پاک۔ میں اس کےخوف سےروتی رہتی ہوں کہ کہیں میری زندگی بھر کی محنت اکارت نہ چلی جائےاور مرتےوقت مجھ سےکہا جائےکہ تو ہمارےلائق نہیں۔“
مشہور واقعہ ہےکہ ایک بار حضرت رابعہ بصری کےیہاں پانچ درویش حاضر ہوئی۔ اتفاق سےوہ کھانےکا وقت تھا۔ حضرت رابعہ بصری نےاپنی خادمہ کو الگ بلا کر پوچھا۔ ”مہمانوں کی تواضع کیلئےگھر میں کچھ کھانےکو ہی؟“
خادمہ نےبتایا کہ صرف ایک روٹی موجود ہی۔ حضرت رابعہ بصری نےفرمایا کہ ایک روٹی سےکیا ہو گا؟ مہمانوں کےحصےمیں ایک ایک ٹکڑا ہی آئےگا۔ یہ کہہ کر آپ مہمان درویشوںکےپاس تشریف لےآئیں۔
ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ ایک سوالی نےدر پر صدا دی۔ حضرت رابعہ بصری نےفرمایا کہ وہ روٹی اس ضرورت مند کو دےدو جو دروازےکےباہر کھڑا ہی۔ خادمہ نےآپ کےحکم کی تعمیل کی اور حضرت رابعہ بصری مہمانوں کےساتھ مصروف گفتگو ہو گئیں۔
کچھ دیر بعد خادمہ حاضر ہوئی اور اس نےعرض کیا۔ ”ایک شخص کھانا لےکرآیا ہی۔“
”کتنی روٹیاں؟“ حضرت رابعہ بصری نےخادمہ سےپوچھا۔
جب خادمہ نےبتایا کہ دو روٹیاں ہیںتو آپ نےفرمایا کہ اسےواپس کر دو۔ وہ شخص غلطی سےہمارےگھر آگیا ہےاور وہ کھانا ہمارا نہیں ہی۔“ خادمہ نےروٹیاں واپس کر دیں۔
تھوڑی دیر بعد خادمہ نےاطلاع دی کہ ایک اور شخص کھانا لےکر آیا ہی۔ حضرت رابعہ بصری نےروٹیوں کی تعداد پوچھی تو آپ کو بتایا گیا کہ پانچ روٹیاں ہیں۔ حضرت رابعہ بصری نےجواباً فرمایا۔ ”اس بار بھی کھانا لانےوالےسےغلطی ہو گئی۔ اس سےکہہ دو کہ وہ کھانا ہمارا نہیں ہی۔“
تیسری بار ایک اور شخص کھانا لےکر آیا۔ پھر جب خادمہ نےآپ کو بتایا کہ گیارہ روٹیاں ہیں تو حضرت رابعہ بصری نےمسرت کےلہجےمیں فرمایا۔ ”ہاں! یہ کھانا ہمارا ہی۔ اسےقبول کر لو۔“
خادمہ نےکھانا لا کر درویش مہمانوں کےسامنےسجا دیا۔ پھر جب درویش کھانا کھا چکےتو ایک مہمان نےعرض کیا کہ تین مختلف اشخاص کھانا لےکر آئی۔ دو افراد کو آپ نےواپس کر دیا مگر تیسرےشخص کےلائےہوئےکھانےکو قبول فرما لیا۔ آخر یہ کیاراز ہی؟
حضرت رابعہ بصری نےدرویشوں کو مخاطب کرتےہوئےفرمایا۔ ”حق تعالیٰ فرماتا ہےکہ دنیا میں ایک کےبدلےدس اور آخرت میں ستر دوں گا۔ بس اسی حساب کتاب کی بنیاد پر میں نےدو آدمیوں کو واپس لوٹا دیا اور ایک شخص کا کھانا قبول کر لیا۔ میں نےاللہ کی راہ میں سوالی کو ایک روٹی دےکر رزاق عالم سےسودا کیا تھا۔ پھر جب ایک شخص دو روٹیاں اوردوسرا پانچ روٹیاں لےکر آیا تو میںنےجان لیا کہ یہ حساب درست نہیں ہی۔ تیسرا شخص گیارہ روٹیاں لےکر آیا تو میں نےکسی تردد کےبغیر انہیں قبول کر لیا کہ یہ عین حساب کےمطابق تھیں اور دینےوالےکی شان رزاقی کو ظاہر کر رہی تھیں۔ دس روٹیاں میری ایک روٹی کےبدلےمیں تھیں اور جو روٹی میں نےسوالی کو دی تھی‘ اللہ تعالیٰ نےوہ بھی واپس کر دی تھی۔“
حضرت رابعہ بصری کی صبروقناعت اور توکل کی شان دیکھ کر تمام درویش حیرت زدہ رہ گئی۔۔
ایک بار آپ نےساتھ دن تک صرف پانی سےروزہ کھولا۔ گھر میںکھانےکیلئےروٹی کا ایک لقمہ بھی نہیں تھا۔ افطار کا وقت قریب تھا کہ حضرت رابعہ بصری پر بھوک کا غلبہ ہوا۔ نفس نےآپ سےفریاد کی۔
”رابعہ! آخر تو کب تک مجھےبھوکا رکھےگی؟“
ابھی آپ کےدل میں یہ خیال گزرا ہی تھا کہ کسی شخص نےدروازےپر دستک دی۔ آپ باہر تشریف لائےتو ایک نیازمند کھانا لئےکھڑا تھا۔ حضرت رابعہ بصری نےکھانا قبول کر لیا اور نفس سےمخاطب کرتےہوئےفرمایا۔ ”میں نےتیری فریاد سن لی ہی۔ کوشش کروں گی کہ تجھےمزید اذیت نہ پہنچی۔“
یہ کہہ کر آپ نےکھانا فرش پر رکھ دیا اور خودچراغ جلانےاندر چلی گئیں۔ واپس آئیں تو دیکھاکہ ایک بلی نےکھانےکےبرتن الٹ دیئےتھےاور وہ زمین پر گرا ہوا کھانا کھا رہی تھی۔ حضرت رابعہ بصری بلی کو دیکھ کر مسکرائیں اور کہا ”شاید یہ تیرےہی لئےبھیجا گیا تھا۔ اطمینان سےکھا لی۔“
افطار کا وقت قریب ہو چکا تھا۔ حضرت رابعہ نےچاہا کہ پانی ہی سےافطار کر لیں۔ اتنےمیں تیز ہوا کا جھونکا چلااور چراغ بجھ گیا۔ حضرت رابعہ اندھیرےمیں آگےبڑھیں۔ اتفاق سےپانی کابرتن بھی ٹوٹ گیا اور سارا پانی زمین پر بہہ گیا۔ عجیب صورتحال تھی۔ بےاختیار آپ کی زبان مبارک سےیہ الفاظ ادا ہوئی۔
”الٰہی! یہ کیا راز ہی؟ میں گنہگار نہیں جانتی کہ تیری رضا کیا ہی؟“
جواب میں ایک صدائےغیب سنائی دی۔ ”اےمیری محبت کا دم بھرنےوالی! اگر تو چاہتی ہےکہ تیرےلئےدنیا کی نعمتیں وقف کر دوں تو پھر میں تیرےدل سےاپنا غم واپس لےلوں گا۔۔۔۔ کیونکہ میرا غم اور دنیا کی نعمتیں ایک ہی دل میں جمع نہیں ہو سکتیں۔ اےرابعہ! تیری بھی ایک مراد ہےاورمیری بھی ایک مرادہی۔ تو ہی بتا کہ دونوں مرادیں ایک جگہ کیسےرہ سکتی ہیں؟“
حضرت رابعہ بصری فرماتی ہیں کہ جب میں نےیہ آوازسنی تو دنیا سےہمیشہ کیلئےمنہ موڑ لیااور ساری امیدیں ترک کردیں۔ اس کےبعد میں نےہر نماز کو آخری نماز سمجھا۔
ایک بار حضرت سفیان ثوری حضرت رابعہ بصری کی مجلس میں حاضر ہوئےاور فرمانےلگی۔ ”رابعہ! آج تم مجھےوہ باتیں بتائو جو تم نےکسی کتاب یا عالم کےذریعےحاصل نہ کی ہوں بلکہ وہ براہِ راست تم تک پہنچی ہوں۔“
حضرت رابعہ بصری کچھ دیر تک غور کرتی رہیں۔ پھر آپ نےامام وقت کو مخاطب کرتےہوئےفرمایا۔ ”ایک بار میں نےاپنی ضرورت کی چیزیں خریدنےکیلئےہاتھ سےبنی ہوئی چند رسیّاں فروخت کیں۔ خریدار نےمجھےدو درہم دیئےتو میں نےایک درہم ایک ہاتھ میںلیا اور دوسرا دوسرےہاتھ میں۔ مجھےڈر تھا کہ ایک ہی ہاتھ میں دونوں درہم لینےسےکہیں میں گمراہ نہ ہو جائوں۔“ اس بات سےحضرت رابعہ بصری کااشارہ کثرت مال کی طرف تھا۔
ایک بار آپ نےکسی شخص کو چند سکےدےکر فرمایا۔ ”میرےلئےبازار سےجا کر کمبل خرید لائو۔“
اس شخص نےعرض کیا۔ ”مخدومہ! آپ کو سفید کمبل درکار ہےیا سیاہ؟“
حضرت رابعہ بصری نےناخوشگوار لہجےمیںفرمایا۔ ”پیسےواپس دےدو۔ ابھی کمبل خریدا نہیں اور سیاہ و سفید کا جھگڑا شروع ہو گیا۔”پھر اس شخص سےپیسےواپس کر لےاپنی خادمہ کو دےدیئےاور فرمایا کہ انہیںجا کر دریا میں پھینک آئو۔ ان تمام واقعات سےاندازہ ہوتا ہےکہ حضرت رابعہ بصری دنیا اور اہل دنیا سےکس قدر بےنیازانہ تعلق رکھتی تھیں۔
ایک بار کسی شخص نےبرسرمجلس آپ سےسوال کیا۔ ”آپ کہاں سےآئی ہیں؟“
حضرت رابعہ بصری نےفرمایا۔ ”اس جہان سی۔“
”اور کہاںجائیں گی؟“ اسی شخص نےدوسرا سوال کیا۔۔
حضرت رابعہ بصری نےفرمایا۔ ”اسی جہان میں۔“
پھر جب آپ سےپوچھا گیاکہ اس جہان میں کیا کرتی ہیں تو فرمانےلگیں۔ ”میں افسوس کےسوا کچھ نہیں کرتی۔“
پوچھنےوالےنےپوچھا آپ کس بات پر افسوس کرتی ہیں تو حضرت رابعہ بصری نےفرمایا۔ ”اس جہان کی روٹی کھا کراس جہان کاکام کرتی ہوں۔“
پھر حاضرین مجلس میں سےایک شخص نےکہا۔ ”میں یہی کام تو کر رہی ہوں جو کچھ میرےاندر ہےاسےباہر کرتی ہوں اور جو باہر ہےاسےاندر آنےنہیں دیتی۔ کون آتا ہےاور کون جاتا ہی‘مجھےاس سےکوئی غرض نہیں۔ میں دل کو محفوظ رکھتی ہوں نہ کہ مٹی (جسم) کو۔“
حضرت رابعہ بصری عشق الٰہی میں اس قدر غرق رہتی تھیں کہ خوشی اور غم اپنی حیثیت کھو بیٹھےتھی۔ عبادت کےبارےمیں آپ کا طرزفکر بڑا عجیب تھا۔ آپ خوف اور طمع سےبےنیاز ہو کر اپنےخالق کو پکارتی تھیں۔ ایک بار آپ پر جذب کی کیفیت طاری تھی۔ اہل بصرہ نےدیکھا کہ آپ ایک ہاتھ میں آگ اور دوسرےہاتھ میںپانی لئےہوئےبھاگی چلی جارہی ہیںلوگوں نےحضرت رابعہ بصری کو اس حال میں دیکھا تو پوچھا۔
”یہ کیا ہی؟ آپ کہاں جارہی ہیں؟“
حضرت رابعہ بصری نےفرمایا۔ ”میں اس پانی سےدوزخ کی آگ کو بجھانےچلی ہوں کہ لوگ اسی کےخوف سےاللہ کی عبادت کرتےہیں۔“
”اور یہ آگ کس لئےہی؟“ لوگوںنےپوچھا۔
”میںاس آگ سےجنت کو پھونک ڈالنا چاہتی ہوںتاکہ جو لوگ جنت کےلالچ میں اللہ کی عبادت کرتےہیں‘ انہیں جنت نہ مل سکی۔“
یہ حضرت رابعہ بصری کااپنا اندازفکر تھا جسےجذب و مستی کی کیفیت سےتعبیر کیا جاتا ہےورنہ خوف و طمع دونوں حالتوں میںاللہ کی عبادت جائز ہی۔ قرآن حکیم میں اسی کا حکم دیا گیا ہی۔
ایک بار حضرت رابعہ بصری ان الفاظ کےساتھ دعا مانگ رہی تھیں۔ ”اےمیرےمعبود! اگر میں تیری عبادت دوزخ کےخوف سےکرتی ہوں تو مجھےدوزخ ہی میں ڈال دینا۔۔۔۔ اور اگر میری ریاضت حصولِ جنت کیلئےہےتو اسےمجھ پر حرام کر دینا۔۔۔۔ اور اگر میں صرف تیرےہی لئےتیری پرستش کرتی ہوں تو تو مجھےاپنےدیدار سےہرگز محروم نہ رکھنا۔“یہی وہ عشق ہےجس نےحضرت رابعہ بصری کو ولایت کےمنصب تک پہنچایا اور پھر آپ کا نام قیامت تک کیلئےمحبت کی علامت بن کر رہ گیا۔
حضرت رابعہ بصری نےساری زندگی تجرد کےعالم میں گزاری اس زمانےکےکچھ لوگوں نےآپ کی اس روش پر اعتراض کرتےہوئےکہا۔ ”آپ خود کو عارفہ کہتی ہیں مگر پیغمبراسلام ا کی اس معروف سنت پر عمل نہیں کرتیں۔“
جواب میں حضرت رابعہ بصری نےفرمایا۔ ”مجھےتین باتوںکا اندیشہ ہی۔ اگر تم مجھےان اندیشوں سےنجات دلا دو تو میں آج ہی نکاح کرلوں گی۔ میرا پہلا اندیشہ یہ ہےکہ مرتےوقت ایمان سلامت لےجائوں گی یا نہیں؟ دوسرا یہ کہ میرا نامہ¿ اعمال دائیں ہاتھ میں دیا جائےگا یا بائیں ہاتھ میں؟ تیسرا یہ کہ قیادت کےدن ایک گروہ کو دائیں طرف سےبہشت میں داخل کیا جائےگا اوردوسرےگرو کو بائیں طرف سےدوزخ میں۔ تم لوگ بتائو کہ میں کس طرف ہوں گی؟“
حضرت رابعہ بصری کےتینوں سوالوںکےجواب میں لوگوں نےکہا۔ ”ہمیں کچھ نہیںمعلوم۔ بس اللہ ہی بہتر جانتا ہےکہ کس کاکیاحشر ہو گا؟“
لوگوںکا جواب سن کر حضرت رابعہ بصری نےانتہائی پرسوز لہجےمیں فرمایا۔ ”تم خودہی بتائو کہ جس عورت کو اس قدر غم ہوں وہ حشر کی خواہش کس طرح کر سکتی ہی۔“
اسی زمانےمیں بصرہ کےحاکم محمد بن سلیمان ہاشمی نےآپ کو شادی کا پیغام بھیجا آپ نےجواباً فرمایا تم نےلوگوں کےکہنےپر مجھےشادی کا پیغام بھیجا لہٰذا تو معافی کا حقدار ہےمگر یاد رکھ تیری موت قریب ہےاور بعداز موت تو حشرات العرض کےکھانےکا سامان ہو گا یہ جواب سن کر حاکم اپنی سدھ بدھ کھو بیٹھا اور باقی عمر استغفار میں گزار دی۔
آپ شادی کو عبادت میں رکاوٹ سمجھتی تھیں اور لمحہ بھر کیلئےبھی آپ کو اللہ سےدوری پسند نہ تھی۔
حضرت رابعہ بصری بڑےحکیمانہ انداز میں گفتگو فرماتی تھیں۔ یہاں تک کہ بڑےبڑےصاحبان علم آپ کےحضور میں عاجز رہ جاتےتھی۔ ایک بار کسی شخص نےآپ کی گوشہ نشینی پر اعتراض کرتےہوئےکہا۔ ”ذرا باہر نکل کر دیکھئےکہ کیسی بہار آئی ہوئی ہی۔“
حضرت رابعہ بصری نےبےساختہ فرمایا۔ ”میرا کام صانع کو دیکھنا ہی‘ اس کی صنعت کو نہیں۔“
آپ ہر روز ایک نفل ادا کرتی تھیں طویل ریاضت و عبادت کےبعد ایک مرتبہ آپ نےحج بیت اللہ کا ارادہ کیا۔ لیکن یہاں بھی آپ کی آزمائش مقصود تھی۔ آغاز سفر میں ہی ان کا گدھا مر گیا۔ قافلہ والوں نےسواری اور مدد کی پیشکش کی۔ جسےآپ نےقبول نہ کیا۔ آپ نےگریہ زاری کرتےہوئےکہا اےرب العالمین میں کمزور ہوں‘ عورت ہوں اور تیسرےدیدار کی پیاسی ہوں تو نےمیری تشنگی میں اضافہ کر دیا۔ مجھےاپنےپاس بلانےکی بجائےاس بیابان میں تنہا چھوڑ دیا۔ ابھی آپ رب کےحضور گریہ زاری میں مصروف ہی تھیں کہ مردہ گدھا زندہ ہو گیا۔ گدھےکو زندہ دیکھ کر آپ نےاللہ تعالیٰ سےمخاطب ہو کر کہا جس طرح تونےگدھا زندہ کیا ہےاسی طرح مرتےدم تک میری ایسےہی لاج رکھنا اور مجھےاپنا قرب عطا فرمانا۔ پھر گدھےپر سوار ہو کر ارض مقدس جا پہنچی جہاں اللہ تعالیٰ کےانوار اور تجیلات سےنوازی گئیں۔
اسی طرح عالم شباب میں ایک مرتبہ ایک نوجوان آپ کا پیچھا کرتا ہوا گھر تک پہنچ گیا۔ حال دل سنانےکیلئےجب گھر کا دروازہ کھولا تو آپ کو اللہ کےحضور سجدہ ریز پایا۔ خدا سےرازونیاز کرتےہوئےدیکھ کر نوجوان پر سکتہ طاری ہو گیا۔ اس کی زبان گنگ ہو گئی آپ نےپلٹ کر نوجوان کو دیکھا اور آنےکی وجہ پوچھی نوجوان نےبتایا کہ اس سےبولنےکی قوت چھن گئی ہےپھر التجا بھرےلہجےمیں کہا کہ میری قوت گویائی لوٹا دی جائی۔ آپ نےفرمایا اگر تو زیادتی کی نیت سےآیا تھا تو معافی مانگ۔ نوجوان سجدےمیں گر کر توبہ استفغار کرنےلگا۔ پھر اللہ تعالیٰ نےجب اس کی قوت گویائی لوٹائی تو وہ دیوانہ وار استغفار کےنعرےلگانےلگا۔ مرتےدم تک بصرہ کےدرودیوار اس دیوانےکےنعروں سےگونجنےلگی۔
ایک بار ایک شخص آپ کی مجلس میں حاضر ہوا جس کےسر پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔ آپ نےسبب پوچھا تو اس نےبتایا کہ اس کےسر میں دردہی۔
حضرت رابعہ بصری نےدوبارہ پوچھا کہ اس کی عمر کیاہی؟ جواب میںاس شخص نےکہا کہ اس کی عمر تیس سال ہی۔ حضرت رابعہ بصری نےتیسرا سوال کی کہ وہ اس عرصےمیں بیمار رہا یا تندرست؟ اس شخص نےعرض کیا کہ وہ اس دوران کبھی بیمار نہیں ہوا۔
اس شخص کا جواب سن کر حضرت رابعہ بصری نےفرمایا۔ ”تم تیس سال تک تندرست رہےمگر اس عرصےمیں ایک دن بھی شکریہ ادا کرنےکیلئےاپنےسر پرپٹی نہیں باندھی مگر آج ذرا سی دیر کیلئےبیمار ہوئےتو اپنےمالک کی شکایت کرنےکیلئےفوراً سر پر رومال باندھ لیا۔“ آپ کی بات سن کر وہ شخص نہایت شرمندہ ہوا۔
ایک بار کچھ اہل علم جو آپ کی شہرت و محبوبیت سےحسد رکھتےتھےمجلس میں حاضر ہوئےاور کہنےلگی۔ ”اللہ تعالیٰ نےمرد کو عورت پر فضیلت بخشی ہی۔ ہمیشہ مرد ہی کو نبی یارسول اللہ بنا کر بھیجا گیا ہی۔ آج تک کسی عورت کو یہ شرف حاصل نہیں ہوا۔“
ان لوگوں کو بات سن کر حضرت رابعہ بصری نےفرمایا۔ ”بےشک یہی اللہ کا نظام ہےمگر ایک بات غور سےسن لو کہ مردوں ہی نےخدا کادعویٰ کیا ہی۔ کسی عورت نےآج تک یہ نہیں کہا کہ میں تمہارا بڑا رب ہوں۔“ حضرت رابعہ بصری کااشارہ فرعون مصر کی طرف تھا جوخدائی کےبلند بانگ دعوےکیا کرتا تھا۔
حضرت رابعہ شاعری بھی کیا کرتی تھیں۔ آپ کا سارا کلام کیفیات عشق سےمعمور تھا۔ ایک مقام پر فرماتی ہیں۔
”اےنفس! تو اپنےاللہ سےمحبت کا دعویٰ کرتا ہےحالانکہ اس کی نافرمانی بھی کرتا ہی۔ اس سےبڑھ کربھی کوئی عجیب بات ہو سکتی ہی۔“
ایک اور مقام پر فرماتی ہیں۔ ”میں تجھ سےمحبت کرتی ہوں۔ دو طرح کی محبت۔ ایک محبت ہےآرزو اور تمنا کی۔۔۔۔ اور دوسری محبت ہےصرف تیری ذات کی۔ میری وہ محبت جو آرزو اور تمناسےلبریز ہی‘ وہ کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔۔۔۔ مگر وہ محبت جو صرف تیری ذات سےہی‘اسی محبت کا واسطہ‘ حجاب کو دور کر دےتاکہ آنکھیں تیرا جلوہ دیکھ سکیں۔“
حضرت امام غزالی فرماتےہیں۔ ”رابعہ بصری نےاپنےاشعار میں غرض اور آرزو کی جس محبت کاذکر کیا ہی‘ اس سےمراد اللہ کا احسان اور انعام ہےجو وہ اپنےبندوں پر روا رکھتا ہی۔۔۔۔ اورجس ذات الٰہی کی بات کی ہی‘ اس سےمراد یدار خداوندی کی محبت ہےجس کانظارہ ان کےدل کی آنکھوں نےکیا اور یہی محبت سب سےبہتر اوربرتر ہی۔ جمال ربوبیت کی لذت بجائےخودسب سےبڑی چیز ہی۔ اس کےمتعلق حدیث قدسی میں وارد ہوا ہےکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہےکہ میں اپنےصالح بندوںکو وہ چیز دیتا ہوں جسےعام آنکھیں دیکھ سکتی ہیں‘ نہ عام کان سن سکتےہیں اور نہ کسی انسان کےدل میں اس کا خیال گزر سکتا ہی۔“
محبت کا یہ آبشار اٹھاسی برس تک جاری رہا۔ حضرت رابعہ بصری 185ھ میں اس طرح دنیا سےرخصت ہوئی جیسےبادنسیم کا کوئی جھونکا تیزی سےگزر جائی۔ وفات سےتھوڑی دیرقبل بصرہ کےکچھ لوگ عیادت کیلئےحاضر ہوئی۔ حضرت رابعہ نےانہیں دیکھ کرفرمایا۔
”فرشتوں کیلئےراستہ چھوڑ دو۔“
لوگ باہر چلےگئےتو آپ نےبستر سےاٹھ کر دروازہ بند کر دیا۔ کچھ دیر تک بات کرنےکی آوازیں آتی رہیں۔ پھر جب خاموشی چھا گئی تو لوگوں نےدروازہ کھولا۔ حضرت رابعہ بصری دنیا سےرخصت ہو چکی تھیں۔ لوگوںنےاشکبار آنکھوں سےدیکھا۔ محبت کانغمہ¿ سرمدی خاموش ہو چکا تھا۔