ذکر شب فراق سے وحشت ا’سے بھی تھی
میری طرح کسی سے محبت ا’سے بھی تھی
ھمیں بھی شوق تھا نئے چھروں کی دید کا
رستہ بدل کے چلنے کی عادت ا’سے پھی تھی
اوروں سے سنتا تھا و’ہ بھی پرانی کہانیاں
شاید رفاقتوں کی ضرورت ا’سے بھی تھی
کل رات دیر تک رھا و’ہ محو گفتگو 
مصروف میں بھی کم تھا فراغت ا’سے بھی تھی 
محسن میں ا’س سے یوں بھی نہ کہہ سکاحال دل
در پیش ایک تازہ مصیبت ا’سے بھی تھی