تونے دیکھا ہے کبھی ایک نظر شام کے باد
کتنے چُپ چاپ سے لگتے ہیں شجر شام کے باد
اتنے چُپ چاپ کے رستے بھی رہیں گے لاعلم
چھوڑ جائیں گے کسی روز نگر شام کے باد
میں نے ایسے ہی گناہ تیری جدائی میں کئے
جیسے طوفاں میں کوئی چھوڑ دے گھر شام کے باد
شام سے پہلے وہ مست اپنی اُڑانوں میں رہا
جس کے ہاتھوں میں تھے ٹوٹے ہوئے پَر شام کے باد
رات بیتے تو گنے آبلے اور پھر سوچا
کون تھا بائسِ آغازِسفر شام کے باد
توُ ہے سورج تجھے معالوم کہاں رات کا دکھ
توُ کسی روز میرے گھر میں اُتر شام کے باد
لوٹ آئے نا کسی روز وہ آوارہ مجاز
کھول رکھتے ہیں اِسی آس پے در شام کے باد