توبہ
شیخ سعدی رح شیرازی فارسی زبان کے بہت بڑے شاعر گزرے ہیں۔ انہیں مبلغ اخلاقیات بھی کہا جاتاہے۔ "گلستان" اور "بوستان" ان کی دو کتابیں ہیں۔ جس میں انہوں نے اخلاق کا درس دیاہے۔ ان کے بہت سے اقوال زریں زبان زد عام ہیں۔ اکثر بوڑھے بڑے لوگ ان کی نصحیتوں کو اپنے قصے کہانیوں میں استعمال کرتے ہیں۔
ایک دفعہ شیخ سعدی رح کو حصول علم کی غرض سے شیراز سے بغداد کا سفر کرنا پڑا۔ اس زمانےمیں ریل گاڑیاں، موٹر کاریں اور ہوائی جہاز نہیں ہوتے تھے چنانچہ لوگ اونٹ، ہاتھی اور گھوڑوں کو سواری کے طورپر استعمال کرتے تھے۔جو لوگ بہت غریب تھے اور ان کے پاس کوئی سواری نہیں ہوتی تھی وہ لوگ پیدل ہی سفر کیا کرتے تھے۔شیخ سعدی رح کے پاس بھی سواری کے لیے کوئی جانور نہیں تھااس لیے وہ بھی پیدل ہی بغداد چل پڑے۔بغداد، شیراز سے کافی فاصلے پر تھا پیدل چلتے چلتے ان کا جوتا گھس کر ٹوٹ گیا اور ایسی حالت اختیار کر گیا کہ سعدی رح کے لیے اس کو پہننا نا مکمن ہو گیا چنانچہ وہ ننگے پاؤں ہی چلنے لگے۔سفر ابھی کافی تھا چلتے چلتے ان کے پاؤں زخمی ہوگئے۔ان کے پاؤں پر چھالےپڑ گئے اور جب چلتے تو وہ چھالے بھی پھٹ جاتے جن سے ان کو بہت تکلیف ہوتی۔ یہاں تک کہ درد کی شدت سے وہ کراہنے لگے اور انکے لیے ایک قدم بھی چلنا دشوار ہو گیا۔وہ ایک جگہ تھک کر بیٹھ گئے اور اللہ تعالی سے شکوہ و گلہ کرنے لگے کہ اے اللہ اگر تو نے مجھے رقم دی ہوتی تو مجھے یوں پیدل سفر نہ کرنا پڑتا نہ ہی میرے جوتے گھستے اور نہ ہی مجھے یہ تکلیف اٹھانی پڑتی۔ ابھی شیخ سعدی رح بیٹھے یہی گلہ کر رہے تھے کہ انہوں نے ایک معذور شخص کو دیکھا جس کے سرے سے پاؤں ہی نہیں تھے۔وہ زمین پر بیٹھ کر اپنے بازؤں کی مدد سے اپنے دھڑ کو کھینچ رہا تھا۔ شیخ سعدی رح نے یہ منظر دیکھا تو فورا اللہ تعالی سے معافی مانگی اور خدا کا شکر ادا کیا کہ میرے دونوں پاؤں سلامت ہیں کھڑاہو سکتا ہوں چل سکتا ہوں۔ کیا ہوا جو میرے پاس رقم نہیں ،سواری کا جانور نہیں، یا جوتے نہیں۔ اے اللہ "تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ میرے دونوں پاؤں سلامت ہیں۔ اس خیال کے ساتھ ہی سعدی نے اپنا آگے کا سفر شروع کیا۔