نوافل کی اہمیت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے کہ: ”جس نے میرے ولی سے دشمنی کی اس کے خلاف میری طرف سے اعلان جنگ ہے۔ میرا بندہ میرا تقرب کسی دیگر عمل سے جو مجھے پسند ہو اتنا حاصل نہیں کرسکتا جتنا اس عمل سے حاصل کرسکتا ہے جو میں نے اس پر فرض کیاہے۔ میرا بندہ نوافل کے ذریعہ سے میرے قریب ہوتا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔ جب میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں تو میں اس کا وہ کان ہوجاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے۔ اس کی وہ آنکھ ہو جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے۔ اس کا وہ ہاتھ ہوجاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے۔ اور اس کا وہ پاؤں ہو جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔ اگر وہ مجھ سے مانگے تو میں اس دوں گا اور اگر وہ میری پناہ میں آنا چاہے گا تو میں اسے پناہ میں لے لوں گا۔ اور مجھے کسی کام کے کرنے میں جو مجھے کرنا ہے اتنا تردد نہیں ہوتا جتنا تردد مجھے مومن کی روح قبض کرنے میں ہوتا ہے۔ وہ موت سے دلگیر ہوتا ہے اور مجھے اس کا دلگیر ہونا گوارا نہیں ہوتا اور موت اس کے لیے ناگزیر ہوتی ہے”۔
(بخاری)
فائدہ:۔
اس حدیث سے مومن کی زندگی میں نوافل کی اہمیت کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ فرائض کا درجہ اگرچہ دین میں سب سے بڑا ہے اس لیے سب سے پہلے فرائض ہی ہماری توجہ کے مستحق ہوتے ہیں۔ نوافل اس بات کی علامت ہیں کہ بندہ اطاعت و بندگی کو اپنے لیے کوئی ناگوار بوجھ نہیں سمجھتا۔ بلکہ وہ اللہ تعالٰی کی اطاعت میں زیادہ سے زیادہ سرگرم رہنا چاہتا ہے۔ اس طرح وہ اللہ تعالٰی کی خاص عنایت کا مستحق قرار پاتا ہے اور اللہ تعالٰی اس سے محبت کرنے لگتا ہے۔ اس کی واضح علامت یہ ہوتی ہے کہ اس کے اعضاء و جوارح مرضی رب کے تابع ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے بندہ خلق ربانی کا مظہر بن جاتا ہے اور ایسا ہی شخص ہوتا ہے جسے دیکھ کر اللہ یاد آئے۔
نفل عبادات کی اہمیت کا اندازہ اس حدیث سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ: ”قیامت کے دن بندے کے اعمال میں سے سب سے پہلے جس چیز کا حساب ہوگا وہ نماز ہے۔ اگر وہ ٹھیک نکلی تو یہ شخص کامیاب و کامران ہوگا اور اگر وہ ٹھیک نہ نکلی تو خسارے اور نقصان میں رہے گا۔ اگر اس کے فرائض میں کچھ کمی ہوگی تو اللہ تعالٰی (فرشتوں سے) فرمائے گا۔ دیکھو! کیا میرے بندے کے پاس کچھ نفل اعمال بھی ہیں۔ چنانچہ فرائض کی کمی ان نوافل سے پوری کردی جائے گی۔ اس طرح دوسرے اعمال کا معاملہ ہوگا”۔ (بحوالہ ترمذی و نسائی)۔ یعنی اور جتنے بھی اسلامی فرائض میں ان کی کمی انہی جیسے دوسرے نفلی اعمال سے پوری کردی جائے گی۔ لیکن اس حقیقت سے بھی بے خبر نہیں رہنا چاہیے کہ فرائض کے مقام میں اور نوافل کے مقام میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ فرائض کی تھوڑی سی کمی پورا کرنے کے لیے نوافل کا بہت بڑا ذخیرہ درکار ہے۔
ایک اور خاص بات اس حدیث سے یہ معلوم ہوئی کہ اللہ تعالٰی مومن کو دلگیر و کبیدہ خاطر نہیں دیکھنا چاہتا۔ اللہ تعالٰی تمام تر استغناء اور جلالت شان کے باوجود اس کی خبر گیری فرماتا ہے اور کی جانب سے اس کا اہتمام ہوتا ہے کہ بندے کی موت ایک فطری امر ثابت ہو۔ اسی لیے عام حالات میں موت کی باری بیماری اور کبرسنی کے بعد آتی ہے جبکہ انسان کا دل دنیا سے سرد ہوجاتا ہے اور وہ آلام اور پریشانیوں سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ایسے موقع پر موت ہی اس کے لیے چارہ ساز ہوتی ہے۔ پھر مومن کے لیے موت کو ہلاکت نہیں بتایا گیا بلکہ اسے لقائے رب سے تعبیر کیا گیا جو انسان کے لیے سب سے بڑی نعمت ہے۔ اللہ تعالٰی مومن بندے کے لیے متردد ہوتا ہے۔ قربان جائے خدائے رب العزت و بزرک و برتر کی اس شان رحمت پر تردد کا حقیقی مفہوم وہی ہوسکتا ہے جو اللہ تعالٰی کے شایان شان ہو لیکن اس سے مومن کے اعزاز و اکرام کا اندازہ تو ہم کر ہی سکتے ہیں۔