Author Topic: حضرت فاطمہ کی شہادت  (Read 1187 times)

0 Members and 1 Guest are viewing this topic.

Offline Master Mind

  • 4u
  • Administrator
  • *
  • Posts: 4478
  • Reputation: 85
  • Gender: Male
  • Hum Sab Ek Hin
    • Dilse
    • Email
حضرت فاطمہ کی شہادت
« on: December 17, 2009, 03:37 PM »
حضرت فاطمہ کی شہادت
مجلس سوئم حضرت فاطمہ کی شہادت خاندان زہرا پر بلند آواز سے صلواة پڑھیں…! مزاج معلی کی نفاستیں برداشت کر سکیں تو صلواة بلند آواز سے پڑھیں خانوادئہ زہرا کے احسانات کو یاد کر کے "ھل جزاء الاحسان الا الاحسان" بلند آواز سے پڑھیں۔ جہاں تک میری نگاہ کام کر رہی ہے جسے آلِ محمد سے مودة ہے وہ بلند آواز سے صلواة پڑھنے میں بخل نہ کرے۔ سارے احباب مل کے صلواة پڑھو خاندان زہرا پر بڑی نوازش بڑی مہربانی دوست رباعیاں پڑھ رہے تھے میں بھی شعراء کے نعلین بردار کی حیثیت سے ایک رباعی سناتا ہوں۔ آج میرا خیال ہے اتنی گرمی بھی نہیں حوصلہ افزائی کے لئے تھوڑا تھوڑا میرے ساتھ بولیں۔ اجازت ہے پڑھوں رباعی محشر میں بھی انمول عقیدے لے کے عوض ہم بخشش نہ خریدیں تو گنہگار نہ کہنا جنت میں بھی شبیر تیرے غم کی قسم ہے ماتم نہ کریں ہم کو عزادار نہ کہنا (نعرئہ حیدری) جسے حسین پسند ہے وہ صلواة بلند آواز میں پڑھے۔ شمس تبریز سے کسی نے پوچھا ہر وقت علی علی کرتے ہو قبر میں جاؤ گے فرشتے سوال کریں گے کچھ ان کا بھی سوچا ہے؟ تو شمس تبریز نے کہا تھا فشار قبر کو ایسا نڈھال کر دوں گا میں مشکلوں کی طبیعت بحال کر دوں گا علی کے نام نے جرات تو دی کہ زیر لحد میں خود فرشتوں پر کوئی سوال کر دوں گا (نعرئہ حیدری) (بلند صلواة پڑھیں سارے حضرات) کائنات کے سب سے سچے انسان نے صداقت کے ملقب انسان نے سچائی کے دوسرے نام رکھنے والے انسان نے وما ینطق کے مصداق انسان نے جس کی زبان کھلے تو قرآن ترتیب پائے اس انسان نے جو چودہ ستاروں میں بکھر کے نکھر جائے اس انسان نے علی جیسا عظیم انسان جس کی غلامی پہ ناز کرے اس انسان نے کائنات کے آخری نبی نے… نبیوں کے سرتاج نے… سلطان… نے… اللہ جیسے دکھائی نہ دینے والے محب کے محبوب انسان نے کائنات کے سب سے سچے انسان نے چند سچوں میں بیٹھ کر زندگی کی آخری سچائی بیان کی۔ کائنات کے سب سے سچے انسان سے چند سچوں میں زندگی کی آخری سچائی بیان کی رسول نے کہا: انی تارکن فیکم الثقلین کتاب اللہ و عترتی اہل بیتی "انی" میں "تارکن" تم میں چھوڑ رہا ہوں "فیکم الثقلین" دو ثقلین یہ عجیب بات ہے ثقلین ایک ہو تو ثقل دو ہوں تو ثقلین یہ عربی کا کلیہ ہے قاعدہ ہے کہ دو ہم وزن ہم جنس ہم نام ہم نسب ہم مذہب ہم رنگ ہم عقیدہ ہم ملت اکٹھے ہو جائیں تو ان کے نام کے ساتھ "نی" اور "ن" ملا دیا جائے تو ثابت کر دیا جاتا ہے جیسے "ظہر" سے "ظہرین"، یعنی ظہر اور عصر کی نماز کو ملا دیا جائے تو ظہرین مغرب اور عشاء کی نماز مغربین حسن اور حسین حسنین ۔ سبط دو ہوں تو سبطین اس لئے رسول نے کہا کہ میں تم میں ثقلین چھوڑ رہا ہوں یعنی ہم وزن چیزیں چھوڑ رہا ہوں نہ ایک دوسری سے زیادہ ہے نہ دوسری پہلی سے کم ہے دونوں کا رنگ ایک ہے دونوں کی ترنگ ایک ہے دونوں کی امنگ ایک ہے دونوں کی آرزو ایک ہے دونوں کی گفتگو ایک ہے دونوں کی جستجو ایک ہے دونوں کی شکل ایک ہے دونوں کی عقل ایک ہے دونوں کا مزاج ایک ہے دونوں کا معراج ایک ہے دونوں کی گفتار ایک ہے دونوں کی رفتار ایک ہے دونوں کا معیار ایک ہے دونوں کا آغاز ایک ہے دونوں کا انجام ایک ہے دو ثقلین ہیں دو ہم وزن چیزیں ہیں دونوں ہم رنگ چیزیں ہیں ہم مرتبہ چیزیں ہیں رسول۱کہہ رہا ہے جس کی بات پر شک کرنا کفر ہے اگر ہم شک کریں تو کافر ہو جائیں رسول۱کہہ رہا ہے کہ میں تم میں دو ہم وزن چیزیں چھوڑ رہا ہوں رسول نے ہم وزن کہا ہو سکتا ہے کچھ دوست اب بھی نہ سمجھیں ہوں تو کسی زرگر کی دکان پر کسی سنار کی دُکان سے گزرے ہوں تو اس کے پاس ایک ترازو ہوتا ہے اس کے دو پلڑے ہوتے ہیں زنجیر کے ساتھ وہ ڈنڈی سے ملے ہوئے ہوتے ہیں اس کے درمیان میں ایک کانٹا یا سوئی ہوتی ہے اس سوئی سے درمیان میں ایک نقطہ کے برابر ایک نشان ہوتا ہے۔ سنار کرتا ہے ایک پلڑے میں وزن ڈالتا ہے رتی ماشہ تولہ دوسرے پلڑے میں وہ سونا چاندی ڈالتا ہے نہ وزن کو دیکھتا ہے نہ سونے چاندی کو دیکھتا ہے وہ دیکھتا ہے سوئی کو نہ ذرا ادھر ہو نہ ذرا ادھر ہو عین درمیان میں ہو اسے کہتے ہیں ثقلین "انی تارکن فیکم الثقلین" رسول نے کہا دو ثقلین چھوڑے جا رہا ہوں ایک ثقل کا نام ہے قرآن دوسری ثقل کا نام ہے اہل بیت دونوں ہیں الثقلین۔ اب آپ ثقلین کا معنی بھی سمجھ چکے ہیں اس مجلس میں میرے سنی بھائی بھی موجود ہیں حدیث ثقلین دونوں کے نزدیک متفقہ ہے اس میں کوئی اختلاف نہیں دونوں کے نزدیک معتبر اور مصدقہ ہے اور غیر متنازعہ ہے ہر کتاب میں اس کا ذکر ہے۔ رسول نے فرمایا دونوں ثقلین ہیں ایک قرآن ایک اہل بیت پڑھے لکھے دوستوں سے اگر میں سوال کروں کہ قرآن کتنا سچا ہے تو اس کا جواب ہو گا جتنے اہل بیت (اگر بات سمجھ میں آ جائے تو تھوڑی سی حوصلہ افزائی کر دیا کرو)۔ قرآن کتنا سچا ہے؟ جتنے اہل بیت اہل بیت کتنے سچے ہیں؟ جتنا قرآن قرآن کتنا وزنی ہے؟ جتنے اہل بیت اہل بیت کتنے وزنی ہیں؟ جتنا قرآن قرآن کتنا عظیم ہے؟ جتنا اہل بیت اہل بیت کتنے عظیم ہیں؟ جتنا قرآن قرآن کتنا حق پہ ہے؟ جتنا اہل بیت اہل بیت کتنا حق پر ہیں؟ جتنا قرآن (بولتے آؤ میرے ساتھ) قرآن کتنا بلند ہے؟ جتنے اہل بیت اہل بیت کتنے بلند ہیں؟ جتنا قرآن قرآن اللہ کو کتنا پیارا ہے؟ اہل بیت اللہ کو کتنے پیارے ہیں؟ قرآن محمد کے کتنے قریب ہے؟ اہل بیت محمد کے کتنے قریب ہیں؟ جتنا قرآن قرآن محمد پر کس طرح سے اتارا؟ جس طرح سے اہل بیت اہل بیت محمد پر کس طرح اترے؟ جس طرح قرآن قرآن زمین پر کیسے آیا؟ (بولتے آؤ نا میرے ساتھ) جس طرح اہل بیت اہل بیت زمین پر کس طرح آئے؟ جس طرح قرآن قرآن کی ایک مسند ہوتی ہے جہاں قرآن رکھتے ہیں جسے کہتے ہیں رحل۔ اگر قرآن کی مسند پر کوئی پہلی دوسری یا تیسری کی کتاب رکھ دے (پورے مجمع سے مخاطب ہوں)۔ اگر کوئی قرآن کی مسند پر کوئی پہلی دوسری تیسری کی کتاب رکھ دے چاہے میرا اپنا بیٹا ہی کیوں نہ ہو ڈانٹ دوں گا میں کہوں گا مسند قرآن کی بے ادبی ہے قرآن کی مسند پہ پہلی دوسری تیسری کی کتاب… وہ کہے گا بابا محکمہ تعلیم کے بہت سے لوگوں نے اس کتاب کی ترتیب دی سارے سکولوں میں پڑھائی جاتی ہے سارے بچے اسے تسلیم کرتے ہیں سارے استاد اسے تسلیم کرتے ہیں حکومت مانتی ہے یہ منتخب کتابیں ہیں ان کتابوں کا انتخاب کیا گیا ہے ان پر بہت سی کوششیں کی گئی ہیں… میں کہوں گا سب کچھ ٹھیک ہے میں یہ سب کچھ مانتا ہوں لیکن قرآن کی مسند پر کوئی بڑی سے بڑی کتاب بھی نہیں آ سکتی یہ قرآن کی مسند ہے۔ میرا بیٹا پوچھے گا بابا کوئی قرآن کی مسند پہ آ بھی سکتا ہے یا نہیں؟ میں کہوں گا کیوں نہیں۔ قرآن کا پہلا پارہ قرآن کا دوسرا پارہ تیسرا چوتھا پانچواں چھٹا ساتواں آ سکتا ہے یہ آ سکتے ہیں قرآن کی مسند پہ یہ قرآن کے پارے ہیں یہ بھی قرآن ہیں۔ حدیث ثقلین مانتے ہو تو پھر ماننا پڑے گا کہ کوئی کتاب کتنی معتبر کیوں نہ ہو کتنی بڑی کیوں نہ ہو پاکستان کے بارہ کروڑ عوام اسے تسلیم کیوں نہ کرتے ہوں لیکن قرآن کی مسند پر وہ نہیں آ سکتی پارہ آ سکتا ہے تو اہل بیت کی مسند پر بھی اہل بیت آ سکتے ہیں اہل بیت کا کوئی فرد آ سکتا ہے اس لئے اگر اہل بیت کا کوئی فرد کسی سے کہہ دے اتر آ میرے باپ کے منبر سے… تو شک نہ کرنا… کیونکہ وہ ٹھیک کہہ رہا ہے۔ قرآن اور اہل بیت ! قرآن کے مقابلے میں اگر جتنی کتابیں لاؤ گے… اگر مقابلے میں لاؤ گے تو قرآن حق پر ہو گا قرآن کے مقابلے میں… مقابلے میں… مقابلے میں… ہم کوئی کتاب لا نہیں سکتے کیونکہ قرآن حق ہے اسی طرح اہل بیت کے مقابلے میں بھی کوئی نہیں آ سکتا اگر مقابلے میں آئے گا تو وہی حشر ہو گا جو قرآن کے مقابلے میں آنے والے کا ہو گا۔ اہل بیت کسے کہتے ہیں؟ کوئی دیوانہ پھر سمجھے نہ سمجھے اہل بیت کسے کہتے ہیں؟ پڑھا لکھا دوست… جب میں حج پر گیا… اس وقت میری سمجھ میں آیا جن لوگوں نے حج کیا ہوا ہے وہ میرے دوست جانتے ہیں جب مکے میں جاتے ہیں… خانہ خدا میں ایک بہت بڑا صحن ہے اس میں ایک کمرہ ہے اس کمرے کی آپ تصویر بھی دیکھتے ہیں جسے عربی میں بیت کہتے ہیں بیت اللہ بھی کہتے ہیں ایک خوبصورت کمرہ ہے جسے سجدہ بھی کرتے ہو لیکن اس بیت کا اندازہ کیسے ہوتا ہے؟ اس پر ایک چادر ہے تو معیار یہ ہے کہ جس پہ چادر ہے وہ ہے بیت۔ (میں بات کر رہا ہوں اگر یہ بات ضائع ہو گئی تو مجھے اس بات کا بہت دکھ ہو گا اجر آلِ محمد سے لوں گا آپ سے داد اور دعا کا طالب ہوں)۔ جس پر چادر ہے وہ ہے "بیت" جس پر کالا کپڑا ہے وہ ہے بیت جتنا چادر کے نیچے ہے ہے "بیت"، جو بیت میں ہے وہ اہل بیت جتنی چادر ہے وہ ہے بیت جو کچھ بیت کے اندر وہ ہے اہل بیت ۔ اس بیت کے باہر جتنا ایریا ہے وہ حرم ہے وہ بیت نہیں جو حرم میں آیا وہ اہل حرم بیت وہی ہے جس پر چادر ہے جو چادر کے نیچے ہے وہ اہل بیت ہے۔ رسول نے یہی سمجھایا رسول آئے بیٹی سے کہا بیٹا مجھے چادر دو چادر اوڑھ کے بیٹھ گیا حسین آیا ماں کو سلام کیا۔ اماں مجھے رسول نانا کی خوشبو آ رہی ہے حسن چادر کے نیچے ہیں کوئی نواسہ کائنات میں ایسا پیدا ہی نہیں ہوا جو نانا سے اجازت لے کے چادر میں گیا ہو حسن قریب آیا نہ اس سے پہلے کبھی اجازت لی نہ اس کے بعد کبھی اجازت لی صرف اس دن اجازت لی جب نانا چادر اوڑھ کے بیٹھے تھے۔ قریب آیا حسن اور کہا نانا اجازت ہے میں بھی اس چادر کے نیچے آ جاؤں پھر حسین آئے انہوں نے سلام کیا۔ اماں مجھے نانا کی خوشبو آ رہی ہے۔ ماں بیٹا حسین تیرا نانا اور تیرا بھائی حسن چادر کے نیچے ہیں تہذیب کے کردگار حسین نے سلام کیا نانا میں چادر کے نیچے آ جاؤں؟ آ جاؤ حسین ۔ ایک محمد۱ ایک حسین ایک حسن اب علی گھر میں داخل ہوئے عصمت کل اٹھی چار قدم آگے آگے جب علی نے اپنے دروازے کے افق سے طلوع کیا ادھر بتول اٹھی بتول نے سلام کیا السلام علیکم یا امیرالمومنین علی نے جواب دے کے کہا حسنین کی ماں میرے بھائی رسول۱کی خوشبو آ رہی ہے کیا چادر کے نیچے…؟ علی نے بھی اجازت لی چادر اٹھائی چادر کے نیچے اب پنجتن ہیں چار چادر کے نیچے اکٹھے ہوئے اجلاس شروع ہوا صدارت کون کرے؟ اس وقت بتول آئی اجازت مانگی بابا میں بھی چادر میں داخل ہو جاؤں؟ آواز آئی جب تک تو نہیں آئے گی جلسہ شروع نہیں ہو گا۔ بتول چادر کے نیچے آئیں محمد۱ علی حسن حسین فاطمہ جب یہ اکٹھے ہوئے تو رسول نے ایک جملہ کہا اپنے دائیں ہاتھ کی انگلی اٹھائی۔ حدیث کساء پڑھنے والو! رسول نے کہا: ھولاء اہلبیتی چادر بھی ہے چادر کے نیچے بھی ہیں بیت بھی ہے اہل بیت بھی ہیں یہ ہیں میرے اہل بیت جو ان سے پیار کرے تو بھی ان سے پیار کر جو ان سے دشمنی کرے تو بھی ان سے دشمنی کر اللہ نے آسمان پر اجلاس بلایا اور کہا دیکھو! یہ کون ہیں؟ آواز آئی تو خود ہی بتا یہ کون ہیں؟ تعارف کرانے والا ہے اللہ آواز آئی ھم فاطمة۱ یہ فاطمہ ہے وابوھا وہ اس کا باپ ہے وبعلھا وہ اس کا شوہر ہے وبنوھا وہ اس کے دو بیٹے ہیں اس دن میری سمجھ میں آیا میں پوچھ تو لوں بار الٰہا! یہ کیوں نہیں کہتا؟ یہ محمد ہے یہ اس کا بھائی علی ہے یہ اس کی بیٹی فاطمہ ہے یہ اس کے نواسے ہیں۔ یہ علی ہے یہ اس کا بھائی محمد ہے یہ اس کی زوجہ ہے یہ اس کے بیٹے ہیں۔ آواز آئے گی نہیں۔ آسمان میں یہ خاندان پہچانا ہی بتول کے نام سے جاتا ہے… (جاگتا آ پوری توجہ سے) آسمانوں پر ان سب کا تعارف اس خاندان کا تعارف ہوتا ہی اسی نام سے جیسے میں خطبے کے بعد کہتا ہوں خاندان زہرا پر بلند صلواة پڑھیں۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ خاندان زہرا ہے ہی یہی اب اہل بیت کا مجھے بھی پتہ چلا محمد نے بھی کہا اللہ نے بھی کہا یہ مٹی یہ پانی یہ ہوا یہ ساری کائنات میں نے انہی کے لئے خلق کی ہے۔ یہ ہیں پانچ سب کچھ ہے یہ نہ ہوں تو کچھ بھی نہ ہو میری سمجھ میں بھی آ گیا اب رسول نے کہا (بھائی ہماری طرف سے چار ہزار بیٹیاں ہوں رسول۱کی ہم احترام کرتے ہیں مگر جس دن تو نے ثابت کر دیا کہ ان چار ہزار میں سے کوئی بتول ہے ہم تسلین کر لیں گے کوئی ایک اور بھی چادر کے نیچے تھی تو ہم تسلیم کر لیں گے متنازعہ کوئی مسئلہ نہیں چھیڑنا چاہتا)۔ اب رسول نے کہا کہ میں ہم وزن چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں۔ (اب سمجھ آ رہی ہے میری بات) کون کون سی دو چیزیں؟ ایک اللہ کی کتاب ایک اہل بیت ۔ اللہ کی کتاب اتنی مقدس ہے جتنی اہل بیت اہل بیت کتنے مقدس ہیں جتنی اللہ کی کتاب قرآن۔ ساری دنیا قرآن پڑھتی ہے قرآن جب تک خود نہ چاہے سمجھ میں نہیں آئے گا ساری دنیا علی کو سمجھنے کی کوشش کرتی ہے علی اس وقت سمجھ میں نہیں آ سکتا جب تک خود نہ چاہے۔ علی کی اپنی مرضی جی چاہے تو گلی میں پھرتے ہوئے ملنگ کی سمجھ میں آ جائے سمجھ میں نہ آنا چاہے تو امام شافعی جیسے کہتے رہ گئے کہ خدا کی قسم ہے ساری زندگی گزر گئی میری سمجھ میں نہیں آیا کہ رب وہ ہے یاعلی ۔(نعرئہ حیدری) سمجھ گئے اب دیکھتے ہیں کہ قرآن میں ہے کیا؟ رسول نے ایسے تو نہیں کہا۔ (توجہ میری جانب) قرآن میں ہے کیا؟ اس میں "حرف زمان ہے"، "حرف مکان" ہے لفظ "خاص" ہے لفظ "عام" ہے لفظ واحد ہے معنی جمع ہیں لفظ جمع ہے معنی واحد ہیں بحث ماضی ہے معنی مستقبل ہیں بحث مستقل ہے معنی عارضی ہیں تاویل قبل از تنزیل ہے تاویل بعد از تنزیل ہے الفاظ مولفہ ہیں الفاظ متشابھ ہیں الفاظ مقطعہ ہیں خطاب کسی قوم سے ہے مخاطب کوئی قوم ہے خطاب پیغمبر سے مراد امت۔ (ذرا جاگو ذرا جاگو!) اس دنیا میں ذکر انبیاء ہے تذکرئہ غزوات رسول ہے حقائق اسلام ہیں شرائع ادیان ہیں اس میں جذبات و محسوسات کا سوز ہے تصور و تخیلات کے شعلے ہیں شعور و ادراک کا بانکپن ہے وجدان و آگہی کا نطق ہے موج شمیم کا خرام ہے کلیوں کا روپ ہے شگوفوں کا بیروپ ہے ستاروں کا جمال ہے بھوکوں کا گداز ہے آبشاروں کا ترنم ہے صباؤں کا لمس ہے مشاہدات و بصائر کا الاؤ ہے ذہنی کشف و الہام کا سرور ہے تیقن افکار کی حلاوتیں ہیں حکایتیں ہیں شکایتیں ہیں روایتیں ہیں اس میں اس میں اختصاص ہے ایجاد ہے اجتناب ہے اس میں وصل ہے فصل ہے خبر ہے انشاء ہے تاخیر ہ تاکید ہے رخصت ہے غرعیت ہے جلال ہے مثل ہے قصص ہیں مناکحات ہیں مشاہدات ہیں۔ ولا رطب ولا یابس الا فی کتاب مبین ہے اس میں پھول کا ذکر ہے خار کا تذکرہ ہے غیر کا ذکر ہے غار کا تذکرہ ہے جمل کا ذکر ہے غار کا تذکرہ ہے غیر کا ذکر ہے یار کا تذکرہ ہے صبر کا ذکر ہے دار کا تذکرہ ہے نسب کا ذکر ہے پیار کا تذکرہ ہے اس میں آگ لگانے والوں کا ذکر ہے آگ کو گل گلزار بنانے والوں کا تذکرہ ہے اس میں زوجہ لوط کا ذکر ہے مادر عیسیٰ کا تذکرہ ہے اس میں میدان میں آ کے لڑنے والیوں کا تذکرہ ہے۔(نعرئہ حیدری) کربلا گامے شاہ کی تاریخی مجلس میں محسن نقوی تاریخی بات کر رہا ہے خبردار! قرآن شبینے میں نہیں ملتا قرآن مدینے میں ملتا ہے۔(نعرئہ حیدری) قرآن شبینے میں نہیں ملتا قرآن مدینے میں ملتا ہے قرآن تیرے جمعے کے دن کے آئینے میں نہیں ملتا قرآن آلِ محمد کے سینے میں ملتا ہے۔ (قرآن کو بے سود سمجھنے کی کوشش نہ کرو) (نہیں سمجھ میں آئے گا قرآن جب تک قرآن خود نہ چاہے قرآن سمجھ میں نہیں آئے جب تک قرآن والے خود نہ سمجھائیں)۔ قرآن میں کساء کا ذکر ہے تو صاحبان کساء سے پوچھ قرآن میں ھل اتیکا ذکر ہے تو صاحب ھل اتی سے پوچھ قرآن راستے کی خبر دیتا ہے تو راہنما سے پوچھ قرآن شفا ہے تو صاحب خاک شفاء سے پوچھ قرآن مشکل ہے تو پھر مشکل کشاء سے پوچھ۔(نعرئہ حیدری) خبردار! قرآن اور اہل بیت میں کوئی فرق نہیں۔ قرآن کانفرنس کرنے والو! قرآن و اہل بیت کانفرنس کیا کرو پھر قرآن سمجھ میں آ جائے گا۔ قرآن سمجھنا ہے تو اہل بیت سے سمجھو کیونکہ کبھی اہل بیت قرآن پڑھ لیتے ہیں تو کبھی قرآن اہل بیت کو پڑھ لیتا ہے ممکن نہیں کسی سے عداوت حسین کی سانسوں میں بٹ رہی ہے سخاوت حسین کی بازار کے ہجوم سے کہہ دو کہ چپ رہے قرآن کر رہا ہے تلاوت حسین کی یہ کہتے ہو کٹی ہوئی گردنیں کیسے قرآن پڑھتی ہیں؟ یہ اہل بیت ہیں بھائی یہ ہوں تو یہ قرآن پڑھتے ہیں اور اگر یہ نہ ہوں تو قرآن ان کی تلاوت کرتا ہے ان کا تعلق آسمان سے پہلے۔ جب اللہ نے کہا تھا: انی جاعل فی الارض خلیفہ "میں زمین میں بھیج رہا ہوں اپنا خلیفہ۔" فرشتوں نے کہا تھا وہ زمین پر فساد پھیلائے گا۔ ابھی آدم بنایا نہیں روح پھونکی نہیں شکل تیار ہوئی نہیں انہوں نے کہہ دیا یہ زمین میں فساد پھیلائے گا یہ فرشتوں کو آدم کے بارے میں پہلے علم غیب کیسے ہو گیا؟ تمہارے نزدیک تو غیب صرف اور صرف اللہ جانتا ہے اللہ نے بھی اعتراض نہیں کیا صرف اتنا کہا: انی اعلم ما لا تعلمون "میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔" آدم بنایا قرآن کہتا ہے کہ اسے اللہ نے کچھ نام سکھائے کچھ نام پڑھائے اب فرشتوں کو اکٹھا کیا پڑھو یہ نام کوشش کرتے رہے پھر کہنے لگے: سبحنک ما لا علمنا الا ما علمتنا "بارالٰہی تیری ذات پاک ہے ہمیں خبر نہیں یہ کون ہیں؟ ہم تو وہی جانتے ہیں جو کچھ تو نے پڑھایا ہے۔" اب آدم سے کہا پڑھو یہ نام اب آدم نے پڑھنے شروع کئے وہ نام جب پڑھ لئے تو فرشتوں سے کہا آدم کو سجدہ کرو (ذرا غور سے جنہیں دیوانگی کی حد تک آلِ محمد سے محبت ہے مودة ہے ان کی خاطر جنون کی ایک بات کہہ رہا ہوں)۔ جب تک نام نہیں پڑھے آدم کو سجدہ نہیں ہوا آدم نے جب نام پڑھ لئے اللہ نے کہا سجدہ کرو سب نے سجدہ کیا ایک نے نہیں کیا اللہ جانے پہلا حق پر تھا یا حق نواز تھا جیسے غریب نواز ہوتا ہے مجھے نہیں پتہ سجدہ نہیں کیا اعمال ضبط کر لئے ابلیسی لقب اختیار ہوا نام پڑھ لئے آدم کو دیکھا اللہ نے آدم کچھ اداس ہے پریشان۔ پوچھا کیوں اداس ہے؟ کہا بارالٰہی! جب سے فرشتوں نے ریفرنڈم ہارا ہے وہ میرے ساتھ بات نہیں کرتے اپنے جیسا ہے کوئی نہیں تو دکھائی نہیں دیتا تنہائی ہی تنہائی تنہائی کی حدت ہے حدت کی شدت ہے پریشان نہ ہوں تو کیا کروں؟ آواز آئی تیری پریشانی کا کوئی علاج؟ آدم کہتا ہے خالق تو نے جو مجھے نام پڑھائے تھے اگر ان کی زیارت بھی کرا دے خبردار آدم ! ابھی تک تیری وہ جسارت وہ بصیرت و بصارت نہیں کہ تو ان سے نظریں ملا سکے البتہ ایک ہے تو نے پہلی خواہش کی زندگی میں حجابوں میں ہیں وہ ہستیاں البتہ ہم ان حجابوں کی زیارت کروا دیتے ہیں۔ خالق یہ بھی بہت ہے پہلا حجاب طلوع ہوا اس پر نورانی علم سے لکھا ہوا تھا حجاب عصمت یہ کون ہے میرے اللہ؟ (عجیب موڑ پر پہنچا ہوا ہوں مجھے نہیں خبر میرے ساتھ کون کون ہے؟) پہلا حجاب طلوع ہوا حجاب پر لکھا ہے حجاب عصمت تعارف کرا رہا ہے اللہ کائنات کی پہلی مجلس پہلا ذاکر ہے اللہ پہلا سامع ہے آدم مجلس کا موضوع ہے "حجاب عصمت"، آدم کہتا ہے خالق اس میں کون ہے؟ (حجاب عصمت کا خالق اللہ مجھے اتنی طاقت دے کہ میں انہیں سمجھا سکوں اور یہ پوری طرح سمجھ سکیں)۔ اللہ تعارف کرا رہا ہے حجاب عصمت کا آدم کہتا ہے کون ہے؟ اللہ کہتا ہے کمال وحدت ہے نام اس کا جمال وجہ رسول بھی ہے یہ دین و ایمان کی روح بھی ہے دل فروع و اصول بھی ہے نوید باغے بہشت بھی ہے کلید باب قبول بھی ہے زمین پہ ہو تو علی کی زوجہ فلک پر ہو تو بتول بھی ہے یہیں سے آغاز ہے امامت یہیں نبوت کا خاتمہ ہے نظر اٹھا کے نہ دیکھ آدم حجاب عصمت میں فاطمہ ہے آدم کہتا ہے مالک حجاب عصمت کا مزید تعارف کرا یہ فکر مریم کی شاہزادی یہ قل ھواللہ کی شاہدہ ہے خطا کا امکاں نہیں ہے اس میں یہ روز اول کی زاہدہ ہے مباہلہ کی صفوں میں دیکھو تو حق کی پہلی مجاہدہ ہے میں خود حفاظت کروں گا اس کی یہ اس سے میرا معاہدہ ہے نجوم و شمس و قمر کی تخلیق ہم اسی کے سبب کریں گے جو اس کے غم میں شریک ہو گا ہم اس کو وقف طرب کریں گے یہ وہ ہے جس کے گداگروں کا میرے فرشتے ادب کریں گے اسی کی دہلیز پر پہنچ کر نبی اجازت طلب کریں گے جو اس سے نسبت رکھے گا اس پر سدا درود و سلام ہو گا یہ خود مقدس ہے اس کی اولاد پہ بھی صدقہ حرام ہو گا (نعرئہ حیدری) اسی کے نقش قدم کے ذروں نے ماہ و انجم کو نور بخشا اسی کے در کے گداگروں نے ہی آدمی کو شعور بخشا اسی کی خاطر تو حق نے صحرا کو جلوہ کوہ طور بخشا جو اس کا غم لے کے مر گیا ہے خدا نے اس کو ضرور بخشا جو فاطمہ سے رکھے مودة اسے نہ دوزخ جلا سکے گا جو اس کے گھر کو جلانے آیا وہ کیسے جنت میں جا سکے گا (سامعین کی طرف سے… نعرئہ حیدری! دم مست قلندر علی علی من کنت مولا علی علی کعبے کا گوہر علی علی زہرا کا شوہر علی علی حسین کا بابا علی علی کعبے کا کعبہ علی علی ولیوں نے پکارا علی علی نبیوں نے پکارا علی علی دم مست قلندر علی علی … نعرئہ حیدری) جو اس کے گھر کو جلانے آیا جو اس کے گھر کو جلانے آیا۔ (کئی دفعہ پڑھنے کو تیار ہوں قبلہ میں نوکر مجھے سمجھانا تو نہیں پڑتا جو اس کے گھر کو جلانے آیا بھائی جوشن رضا مولا بتول کے صدقے میں تیری پریشانیاں دور کرے) جو اس کے گھر کو جلانے آیا وہ کیسے جنت میں جا سکے گا؟ بتول اسے کہتے ہیں کہ ولادت کے پہلے لمحے سے لے کر وفات کے آخری لمحے تک ایک لمحے کے اٹھارہ ہزارویں حصے میں بھی جس سے خطا نہ ہو بتول اسے کہتے ہیں کہ نبی جیسا بابا پانچ سال کی عمر میں مسجد میں آئے تو رسول منبر چھوڑ دے بتول منبر پر آ کے بیٹھ جائے اور رسول۱کھڑا رہے جب تک بتول نہ بیٹھے۔ بتول اسے کہتے ہیں جس کے دروازے پر رسول نو نو بار دستک دے کہ بتول بیٹی اجازت ہے اندر آ جاؤں؟ (دیکھتا ہوں کس کس کی آنکھ میں درد ہے بتول کا کوئی رعایت نہیں صرف چھ راتیں رہ گئی ہیں مصائب کی انشاء اللہ مصائب پڑھیں گے)۔ میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ وفات کے وقت کیا عمر تھی جناب بتول کی؟ میری ماؤں میری بہنو تمہاری چادریں اور پردے سلامت رہیں۔ وقت وفات بتول کی کیا عمر تھی قبلہ… سترہ سال اور کچھ مہینے… مجھے پاک بتول کی عظمت کی قسم سترہ سال کچھ مہینے… سترہ سال کچھ مہینے… سارا سر سفید… کمر جھکی ہوئی پہلو پہ ہاتھ… سر سفید ہو گیا تھا… کمر جھک گئی تھی… یہ پہلی خاتون ہے۔ (میں اپنی ماؤں اور بہنوں کو دعوت دے رہا ہوں آج فاطمہ کا تذکرہ ہے) سترہ اٹھارہ سال کی بتول جب پہلی بار دربار سے واپس آئی تو بیٹی زینب کلثوم بہن سے کہتی ہے کلثوم بہن یہ ضعیفہ کون ہے؟ آواز آئی زینب نہیں پہچانا تیری ماں زہرا ہوں اماں تیرا سر سفید کیوں ہو گیا؟ کہا دربار سے ہو آئی ہوں۔ بی بی کہتی ہے زینب میں دربار سے ہو آئی ہوں۔ میں غلط پڑھوں بتول مجھے شفاعت نہ کرے اگر صحیح پڑھوں اور تو نہ روئے تیرا اپنا مقدر دربار میں گئی زہرا میں دیکھ آیا ہوں مولا تجھے بھی نصیب کرے جو حاجی صاحبان بیٹھے ہیں بھائی محمد علی میری تائید کرنا میں دیکھ آیا ہوں یہ سامنے جو دیوار ہے یہاں ہے بتول کا دروازہ جہاں اس وقت میں کھڑا ہوں دیکھ لو سامنے جو دیوار ہے یہاں ہے بتول کا دروازہ جہاں اس وقت میں کھڑا ہوں اتنے فاصلے پر منبر رسول۱کا۔ دیکھ یہ فاصلہ بعض روایتوں میں چار سو بعض میں آٹھ سو بعض میں بارہ سو صحابی کرسیوں پر بیٹھے ہوئے ہیں منبر پر حاکم بیٹھا ہے یہ سامنے باب بتول پر بتول آئی (پڑھ کتابیں) رسول۱کی بیٹی علی کی زوجہ حسنین کی ماں ۳ گھنٹے ۵۸ منٹ چپ کر کے کھڑی رہی ہے کسی کو شرم نہ آئی کہ کہہ دیتا بتول بیٹھ جا۔ (مجمع میں سے کسی نے اٹھ کر کہا محسن نقوی ذرا تفصیل سے پڑھو) تو مومن ہے عزادار ہے واسطہ دے کے کہتا ہے تفصیل سے پڑھ اگر میں تفصیل سے پڑھوں یا میں مر جاؤں گا یا کوئی درد والا مومن برداشت نہیں کر سکے گا۔ (کہا ہے تو سن تفصیل سے) ساری رات علی سے بتول پوچھتی رہی یاعلی سوال کس طرح کیا جاتا ہے؟ (او میری ماں! او میری بہن! اور میرے نوجوانو!) بتول ساری رات علی سے پوچھتی رہی یاعلی سوال کیسے کیا جاتا ہے؟ (بانی مجلس مجھے اجازت ہے کہ میں پڑھوں مصائب؟) ساری رات پوچھتی رہی کہ سوال کیسے کیا جاتا ہے؟ نہ حسن سویا نہ حسین سویا نہ زینب سوئی نہ کلثوم سوئی۔ ساری رات ماں کو دلاسے دیتے رہے اماں کوئی بات نہیں دربار نانے محمد۱کا ہے گھر تیرا اپنا ہے مسلمان حیا کریں گے ابھی کوئی وقت نہیں گزرا نانا کو آنکھ بند کئے ساری رات پوچھتی رہی (اگر تفصیل سے کہا ہے تو سن) صبح ہوئی ساتھ حسن کو لیا آٹھ سال کا حسن سات سال کا حسین درمیان میں بتول دروازے سے باہر آئی ۳ گھنٹے ۵۸ منٹ چپ کر کے کھڑی رہی بتول کے پیروں پر ورم آ گئے ۳ گھنٹے ۵۸ منٹ کے بعد خشک ہونٹوں سے آہستہ سے کہا چاچا سلمان! چاچا سلمان! سلمان کی پیشانی بتول کے قدموں پہ آئی۔ آواز آئی اتنی غریب ہو گئی ہے نوکر کو چاچا کہہ رہی ہے تو حکم کر۔ آواز آئی چاچا حاکم سے کہہ میں اتنی دیر کھڑی رہنے کی عادی نہیں ہوں تیرے دربار میں… اجازت ملے تو میں تھوڑی دیر بیٹھ جاؤں… (او غیرت مند شیعو! اجازت لے کے ایک لفظ کہتا ہوں) ۳۵۰ سال کے بوڑھے صحابی نے اپنی انگلیوں سے اپنی آنکھوں سے ابرو ہٹا کے ایک ایک صحابی کو پہچان کے کہا بتول میری آقا زادی ہے رسول۱کی اکلوتی بیٹی ہے حاکم وقت سے کہو بتول کہتی ہے میں اتنی دیر کھڑے رہنے کی عادی نہیں بھرے دربار میں اتنی اجازت ہے کہ میں بتول تھوڑی دیر کے لئے بیٹھ جاؤں۔ سلمان۱کہتا ہے اجازت تم دو ضمانت میں دیتا ہوں کہ بتول دربار میں جتنی دیر بیٹھے گی مٹی پر بیٹھے گی۔ میں آنکھوں پر پٹی باندھ کے ماؤں اور بہنوں سے درخواست کرتا ہوں کہ میرا یہ لفظ ضائع نہ کریں۔ جب سلمان نے کہا کہ اگر اجازت ہو تو حسنین کی ماں میری آقا زادی بتول تھوڑی دیر بیٹھ جائے میں ضمانت دیتا ہوں جتنی دیر بیٹھے گی زمین پر بیٹھے گی۔ پوچھ علماء سے کیا جواب ملا؟ مجھے پاک زہرا کی چادر کی قسم حاکم منبر سے اترا گستاخ لہجے میں کہتا ہے گستاخ لہجے میں کہتا ہے سلمان اپنی آقا زادی سے کہہ اب یہ منبر تیرے باپ کا نہیں۔ بی بی کہتی ہے چاچا پھر سوال نہ کرنا میرے قریب آ۔ شیعو! سلمان قریب آیا۔ جب سلمان۱قریب آیا بتول نے اپنی ردا سے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے ایک سند دی آواز آئی میرے بابا کی سند ہے۔ (اللہ کرے مجھے موت آ جائے) بی بی نے کہا میرے بابا کی سند ہے جو کچھ میں نے کتابوں میں پڑھا ہے ایک گھنٹہ تک وہ سند بارہ سو صحابیوں میں پھرائی گئی کہ یہ سند رسول کے ہاتھ کی تحریر ہے یا نہیں پہچانو یہ دستخط محمد کے ہیں یا نہیں؟ (مجلس میں ختم کر دوں تو مکمل ہے لیکن تو نے تفصیل سے کہا ہے تو سن) جب ایک گھنٹے کے بعد سب صحابہ نے اٹھ کر کہا تحریر بھی محمد۱کی ہے دستخط بھی محمد کے ہیں۔ (جیل بھیج دو محسن نقوی کو گولی مار دو محسن نقوی روایت پر پردہ نہیں ڈالتا اگر میں مر جاؤں تو سب کچھ بھلا دینا بتول کا دربار جانا نہ بھلانا)۔ حاکم نے سند لی (خدا کرے میں پڑھ سکوں مجھے یقین نہیں کہ میں پڑھ سکوں تو سن سکے گا)۔ حاکم نے سند لی منبر سے اترا سند ہاتھ میں ہے چار چکر دربار کے لئے (مجھے موت آ جائے) چار چکر دربار کے لے کے بتول کے پردے سے دور کھڑے ہو کے پوچھتا ہے یہ سند کس کی ہے؟ بی بی نے کہا میرے باباکی۔ کہتا ہے کوئی گواہ؟ ادھر سے حسن آگے بڑھا ادھر سے حسین آگے بڑھا عمامے اتار کے ہاتھوں پر رکھ کے کہتے ہیں یہ نہ کہہ ہماری ماں کو نہ جھٹلا ہم قسم کھا کے کہتے ہیں یہ حق ہماری ماں کا ہے یہ سند ہمارے نانا کی ہے جب حسن اور حسین نے گواہی دی۔ حاکم کہتا ہے یہ تیرے اپنے بیٹے ہیں کوئی اور گواہ؟ کہا کوئی گواہ نہیں۔ یہ اترا منبر کے قریب آ کے زہرا کے پردے کے قریب آ کے اس نے سند اٹھائی ہاتھ میں لے کے کہتا ہے نہیں مانتا نہیں مانتا نہیں مانتا یہ کہتا بھی رہا اور سند کے پرزے بھی کرتا گیا سند کے پرزے پرزے کر کے زمین پر گرائے کچھ ٹکڑے بتول نے چنے کچھ حسن نے اٹھائے کچھ حسین نے اٹھائے بی بی نے رو کے کہا بابا میں غریب ہو گئی… (سامعین میں کہرام ماتم بپا ہو گیا) (جی… جی… جی! میں پھر بتا رہا ہوں) حاکم نے سند کے ٹکڑے گرائے کہیں سے سلمان نے چنے کہیں سے حسن نے چنے کہیں سے حسین نے چنے کہیں سے بتول نے چنے زہرا کی آواز آئی بابا میں غریب ہو گئی۔ پڑھ دوں آگے مجھے علی کی عزت کی قسم دور دور سے آئے ہوئے مومنین (سید داؤد رضا شاہ جی) تیری دادی گئی تھی دربار میں ٹکڑے چن کے ڈالے دامن میں۔ او میری ماں مجھے ایمان سے بتا! اگر کوئی ماں کسی گھر میں سوال کرنے چلی جائے اسے کچھ نہ ملے گھر میں واپس آتی ہے اور کوئی پوچھے نہ پوچھے اولاد ضرور پوچھتی ہے اماں جب کچھ نہیں ملنا تھا تو کیوں گئی تھی؟ (اللہ مجھے موت دے دے میں بتول کا یہ واقعہ نہ پڑھوں) بتول گھر میں آئی دامن سنبھالے ہوئے سب سے پہلا سوال حسن نے کیا آواز آئی اماں جب کچھ نہیں ملنا تھا تو کیوں گئی تھی؟ بتول چپ ہے۔ نوجوانو! مولا تمہاری زندگی سلامت رکھے آلِ محمد تمہارے امتحانوں میں تمہیں کامیابی دے سید ساجد شاہ دیکھ میری طرف۔ (سامعین میں کسی عورت نے کھڑے ہو کر محسن نقوی سے کوئی درد بھرا سوال کیا)۔ ہائے او میری ماں! کوئی تیری طرح مدینے میں رونے والا ہوتا زینب مدینہ کیوں چھوڑتی؟ کوئی تیری طرح ماتم کرنے والا ہوتا سید زادیاں آدھی رات کو گھر کیوں چھوڑتیں؟ کوئی تیری طرح پرسہ دینے والا ہوتا زینب کیوں کہتی ؟بابا مدینے میں مجھے رونے کوئی نہیں آیا۔ حسن نے کہا اماں جب کچھ نہیں ملنا تھا تو کیوں گئی تھی؟ بتول خاموش ہے دوسرا سوال حسین نے کیا حسین نے کہا اجازت دو حسین کا سوال بتاؤں حسین نے کہا اماں جب حاکم غیر شریف تھا کیوں گئی تھی؟ بتول خاموش ہے تیسرا سوال کلثوم نے کیا۔ اماں جب سوال کرنے کا طریقہ نہیں آتا تھا تو دربار میں کیوں گئی تھی؟ بتول چپ ہے۔ چوتھا سوال پانچ سال کی ام المصائب بی بی زینب نے آگے بڑھ کے کیا ماں کی ردا پکڑ کے ماں کی طرف دیکھ کے کہا اماں… تو… دربار… اماں… تو… دربار… اور اتنی دیر۔ جب بی بی زینب نے کہا اماں… تو… دربار اور اتنی دیر بتول بیٹھی بیٹی کے سر سے چادر ہٹا کے بوسہ دے کے آواز آئی او زینب بیٹا! او زینب بیٹا! ہر کوئی یہ سوال کرے… تو نہ کر… آواز آئی کیوں اماں؟ بی بی کہتی ہے میں دربار گئی تھی میرا فاصلہ کوئی نہ تھا میں دربار میں گئی تھی میرے سر پر چادر تھی میں دربار گئی تھی میرے سامنے پردہ تھا میں دربار گئی تھی مجھے لوگ پہچانتے تھے میں دربار میں گئی میرا فاصلہ کوئی نہیں تھا۔ زینب ! او زینب ! زینب ! جب تو دربار جائے گی تیری عمر ہو گی ۵۴ سال کی زینب تجھے فاصلہ بتاؤں؟ (میرا خیال ہے آقا زادی بتول آئی ہوئی ہے مجلس میں جس کو جتنا درد ہو بتول کے حق کا پرسہ دو پاک زہرا ہمیں درد ہے تیرے حق نہ ملنے کا اس لئے رو رہے ہیں)۔ اچھا بتول کہتی ہے تو نہ پوچھ جب تو دربار جائے گی ایک دربار نہیں ہر شہر میں ایک دربار سجایا جائے گا زینب تیرے سر پر چادر نہیں ہو گی ۳۶ شہر ۷۲ بازار ۱۴۴ گلیاں ۲۸۸ موڑ ہر ہر موڑ پر دو لاکھ کا ہجوم لوگ کہیں گے تو باغی کی بہن ہے لوگ کہیں گے پتھر مارو لوگ پتھر ماریں گے میں دربار میں گئی تھی دو گھنٹے تین گھنٹے چار گھنٹے میں دربار میں گئی تھی میرے ہاتھ کھلے تھے جب تو دربار جائے گی تیرے ہاتھ پس گردن بندھے ہوں گے۔ آواز آئی اماں میں اٹھارہ بھائیوں کی بہن ہوں گی مجھے دربار کون لے جائے گا؟ آواز آئی جب تو قید ہو گی تیرے بھائی مارے جائیں گے۔ بتول گھر میں بیٹھی ہے علی گھر میں بیٹھا ہے میں کیا کروں؟ بتول کی شہادت پڑھوں نہیں مجلس ختم ہو جانا چاہئے… اچھا سوال کیا ہے تو سن۔ ایک وزنی دروازہ بتول پر گرایا گیا ایک شور بلند ہوا۔ (کوئی نہ کوئی مومن مر جائے گا اللہ کرے مجھے موت آ جائے آپ مجبور کرتے ہیں تو سنیں) دروازے پر شور بلند ہوا علی کہتا ہے فضہ دیکھ کون ہے۔ فضہ دروازے پر آئی آواز آئی یہ وہ دروازہ ہے جہاں رسول۱بھی اونچا نہیں بولتا تھا اونچا نہ بولو۔ بے غیرت کہتے ہیں علی کہاں ہے؟ ہم دروازہ جلانے آئے ہیں فضہ واپس آئی اور کہا یاعلی دروازہ جلنے والا ہے بتول اٹھی دروازے پر آئی مجھے زہرا کی قسم دونوں ہاتھ دروازے پر رکھے آواز دی میں زہرا ہوں میرا دروازہ نہ گراؤ میں بتول ہوں میرا دروازہ نہ گراؤ ادھر دروازہ گرا دروازہ پہلو پر لگا بتول کی آواز آئی یاعلی میرا محسن یاعلی میرا محسن شہید ہو گیا ادھر دروازہ گرا محسن شہید ہو گیا۔ بتول نے بابا کی قبر پر رو کے کہا بابا جب سے محسن شہید ہوا ہے میں دائیں ہاتھ سے تسبیح نہیں پڑھ سکتی۔ (بارالٰہا! جو رو رہے ہیں بتول کے غم میں انہیں ہر غم سے امان دے)۔ … … دشت بلا کی دھوپ میں ٹکرا کے موت سے خود زندگی کو نبض بشر میں پِرو دیا! شبیر تو نے اپنے لہو سے بصد خروش بیعت کا داغ لوح دو عالم سے دھو دیا الا لعنۃ اللہ علی القوم الظالمین

Offline Ajnabi

  • Super Moderator
  • *
  • Posts: 3083
  • Reputation: 148
  • Gender: Male
Re: حضرت فاطمہ کی شہادت
« Reply #1 on: December 18, 2009, 04:03 PM »
 JazaKallah