Author Topic: محسن المجالس  (Read 1264 times)

0 Members and 1 Guest are viewing this topic.

Offline Master Mind

  • 4u
  • Administrator
  • *
  • Posts: 4478
  • Reputation: 85
  • Gender: Male
  • Hum Sab Ek Hin
    • Dilse
    • Email
محسن المجالس
« on: December 17, 2009, 03:29 PM »
محسن المجالس
قافلہ حسینی۱کی مدینہ سے روانگی
مجلس اول قافلہ حسینی کی مدینہ سے روانگی خاندان زہرا پر بلند آواز سے ایک صلواة…! مزاج معلی کی نفاستیں اگر برداشت کر سکیں تو صلواة بلند آواز سے پڑھیں… ہم میں سے ہر انسان آلِ محمد کے احسانات کا دائمی مقروض ہے‘ اب جس جس لوحِ ضمیر پر‘ تختی دیدئہ و دل پر آلِ محمد کے احسانات کا کوئی نقش محفوظ ہو تو صلواة خمس سمجھ کر پڑھیں‘ بلند آواز سے… بڑی نوازش‘ ماشاء اللہ چشم بدور‘ مجمع میری توقع سے بھی زیادہ ہے اور صلواة بھی اسی معیار کی ہونا چاہئے‘ صلواة پڑھو بلند۔ محسن نقوی دعا گو ہے کہ محمد و اہل بیت محمد کا خالق محمد و اہل بیت محمد کو اپنی پہچان اور تعارف کے لئے پیدا کرنے والا اللہ… محمد و اہل بیت محمد کے تصدق و طفیل میں کائنات کو پیدا کرنے والا بحق محمد و آل محمد عشرہ محرم میں اس بارگاہ جلیلتہ القدر میں آپ کی حاضری کا آپ کو بہترین اجر عطا فرمائے۔ دعا کرتا ہوں کہ امن کا اللہ شیعان آلِ محمد کو عشرہ محرم میں ہر قسم کے شرپسند عناصر کے سازشی ہتھکنڈوں سے محفوظ رکھے‘ شیعوں کی عزت و ناموس کا محافظ بنا رہے‘ خالق کوئی آنچ نہ آنے دے عباس کے پرچم پر‘ آلِ محمد کے تصدق و طفیل میں بخیر و عافیت ہم شہداء اعظم کو خراج عقیدت پیش کر سکیں۔ مجھے روزانہ اسی وقت آپ سے گفتگو کی سعادت نصیب ہو گی اور یہ جو بارہ تیرہ سال سے میں آپ کی خدمت کربلا گامے شاہ میں کرتا ہوں‘ مولائے کائنات کی بارگاہ میں قبول ہو۔ آپ سے صرف اتنی گزارش ہے کہ ذرا وقت سے تشریف لایا کریں تاکہ مجھے یہ احساس نہ ہونے پائے کہ ابھی مومنین مصروف ہوں گے یا نہیں آئے ہوں گے‘ وہ باتیں جو مجھے کہنا ہوتی ہیں‘ ذرا وقت پر تشریف لائیں تاکہ میں کہہ سکوں۔ آج یکم محرم ہے‘ ۴ ۲ ہجری کا آغاز ہو رہا ہے‘ عجیب سال ہے‘ ایک طرف چودہ ایک طرف بارہ ہے‘ بڑا مقدس اور برکت والا سال ہے‘ چودہ سو بارہ ہجری خالق کرے کہ یہ سال مسلمانان عالم کے لئے انتہائی پرامن اور تحفظ دینے والا سال‘ اتحاد و اتفاق دینے والا سال گزرے۔ خوش بختی یہ ہے ہماری کہ سال کا آغاز ہو رہا ہے‘ اس حسین کے نام سے جس نے پوری انسانیت کے لئے امن کا ایک پیغام چھوڑا ہے۔ اس وقت میری گفتگو پوری انتظامیہ تک پہنچ رہی ہے‘ اس لئے یہ گفتگو آپ کے لئے قابل توجہ ہے کہ ہم ہر سال عشرہ محرم اسی انداز سے مناتے ہیں‘ جیسے اب منا رہے ہیں‘ مجالس کرتے ہیں‘ ماتم کرتے ہیں‘ نوحے پڑھتے ہیں‘ سبیلیں لگاتے ہیں‘ کربلا کے ۷۲ شہیدوں کی یاد میں سوگوار رہتے ہیں‘ دس دن ہم امن کا پرچار کرتے ہیں‘ پوری دنیائے انسانیت کو مقصد شہادت عظمیٰ سمجھاتے ہیں‘ حسین اس لئے کربلا میں شہید ہوئے‘ حسین اس لئے شہید نہیں ہوئے کہ مسلمانوں کا کوئی فرقہ حسین کی یاد منانے والوں کو کافر کہے‘ بڑے پرامن طریقے سے برادری کے ایک فرد کی حیثیت سے دردمندانہ گزارش ہے میری کہ شیعوں سے زیادہ پرامن قوم کوئی نہیں۔ دس دن دور سے نظر آتا ہے کہ کسی مظلوم کی یاد منا رہے ہیں‘ مظلوم کی یاد منانے والا کبھی ظالم نہیں ہو سکتا‘ مقتول کی یاد میں آنسو بہانے والا کبھی قاتل نہیں ہو سکتا‘ دین کے چوروں کی نشاندہی کرنے والا کبھی چوری چھپے کسی پر حملہ نہیں کرتا‘ نہیں سمجھے آپ‘ یہ باتیں نوٹ کر لیجئے۔ اللہ اور محمد کے سامنے اپنے دین کے‘ اپنے دین کے اصولوں کے جواب دہ ہیں ہم۔ میں اس ایمان بھرے مجمع میں بتائے دیتا ہوں کہ ہم اللہ پر ایمان رکھتے ہیں‘ اللہ کو وحدہ لاشریک مانتے ہیں‘ ہم توحید پر ایمان رکھتے ہیں‘ ہم عدل پر ایمان رکھتے ہیں‘ ہم یقین رکھتے ہیں کہ اللہ عادل ہے‘ توحید کے بعد ہمارے دین کی دوسری اصل… دوسری بنیاد… اصول عدل ہے‘ ہم ختم نبوت پر ایمان رکھتے ہیں‘ ہم اس بات پر یقین کامل رکھتے ہیں کہ ختمی مرتبت کے ہوتے ہوئے نہ ہم کسی کو نبی کہہ سکتے ہیں‘ نہ مان سکتے ہیں‘ نہ مسلمان مان سکتے ہیں جو نبوت کا دعویٰ کرے۔ ہم امامت پر کامل ایمان رکھتے ہیں‘ محمد سے لے کر مہدی تک چہاردہ معصومین ہماری زندگی اور شہ رگ حیات ہیں‘ بلکہ شہ رگ سے بھی زیادہ قریب تر ہیں۔ ہم قیامت پر ایمان رکھتے ہیں‘ اللہ کے فرشتوں پر‘ کتابوں پر‘ محشر پر‘ قبر کے حساب پر ایمان رکھتے ہیں‘ اگر اسلام اس کے سوا کچھ ہے تو ہمیں بتایا جائے؟ (ذرا بولتے آؤ میرے ساتھ) اگر اسلام اس کے سوا کچھ ہے تو…؟ جملہ اہل اسلام کے ہاں پہلی شرط ہے‘ لا الہ الا اللہ وہ ہمارا ایمان دوسری شرط اسلام ہے‘ محمد رسول اللہ وہ ہمارا کلمہ‘ تیسری شرط اسلام ہے‘ مسلمانوں کے نزدیک قیامت ہمارا ایمان ہے‘ تمہارا قیامت کا وارث کوئی نہیں‘ ہمارا وارث بھی ہے۔ (جاگتے آؤ ذرا جاگتے آؤ) تمہیں پتہ نہیں قیامت کب آئے گی‘ ہمیں پتہ ہے قیامت کب آئے گی‘ تم آج بھی عیسائی پامسٹوں اور عیسائی منجموں اور عیسائی ماہرین علم نجوم کے کہنے پر قیامت فلاں دن آئے گی… "ہمارا ایمان ہے کہ جب تک ہمارا آخری طلوع نہ ہوا‘ نہیں آ سکتی۔" اس کے علاوہ ہمارے فروع دین ہیں‘ (میرے شیعہ سنی بھائی موجود ہیں‘ توجہ) اصول دین ہیں‘ (پوری توجہ) اصول دین انہیں کہتے ہیں جو کسی مقام پر بدلے نہ جائیں مثلاً توحید اللہ ایک ہے‘ اکیلا ہے‘ وہ وحدہ لا شریک ہے‘ کائنات کا خالق ہے‘ یہ نہیں کہ گھر میں اللہ ایک ہے‘ بازار میں اللہ دو ہیں‘ یہ نہیں کہ پاکستان میں اللہ ایک ہے‘ انگلینڈ میں اللہ دو ہو جاتے ہیں‘ جہاں ہو گا اللہ ایک ہو گا۔ دوسرا اصول ہمارا عدل ہے‘ اللہ عادل ہے‘ منصف نہیں‘ منصف اور عادل میں بڑا فرق ہے۔ منصف نکلا ہے انصاف سے‘ انصاف نکلا ہے نصف سے (ہے توجہ)‘ میں کہتا ہوں یہ نوٹ بک میری ہے‘ شاہ جی کہتے ہیں یہ نوٹ بک میری ہے‘ ایک آدمی کے پاس جاتے ہیں انصاف کے لئے وہ نوٹ بک کے صفحے گنے اور آدھے آدھے گن کے آدھی کاپی اسے دے دی‘ آدھی کاپی مجھے دے دی جائے‘ ہم انصاف کے قائل نہیں‘ عدل کا تقاضا یہ ہے کہ چاہے چھ مہینے لگ جائیں جس کی نوٹ بک ہے اسے ملے‘ اللہ عادل ہے منصف نہیں‘ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں عدالتیں ہیں انصاف نہیں‘ عدالت میں عدل ہونا چاہئے۔ تیسرا ہمارا اصول دین ہے نبوت‘ تمام نبیوں پر ہمارا ایمان‘ حسین کا نانا آخری نبی ہے‘ ہمارا ایمان ہے‘ اس کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا‘ قیامت تک اس پر ہمارا ایمان‘ یہ اصول بھی نہیں بدلے گا‘ نہ خلوت میں‘ نہ جلوت میں‘ نہ بازار میں‘ نہ بزم میں‘ نہ محفل میں‘ نہ تنہائی میں‘ نہ گھر میں‘ نہ باہر کہیں نہیں بدلے گا۔ چوتھا اصول دین ہمارا امامت ہے‘ ہمارے بارہ امام ہیں جو نبوت کی لائی ہوئی شریعت اور قوانین پر امت محمدیہ سے عمل کراتے ہیں (سمجھ میں آ گئی ہے یہ بات)۔ پہلا امام علی بادشاہ ہے‘ دوسرا امام علی کا بیٹا حسن ‘ تیسرا امام ہمارا علی کا بیٹا حسین (امام تو دیکھو نا ہمارے)‘ چوتھا امام حسین کا بیٹا‘ نام علی ‘ لقب زین العابدین‘ سیدالساجدین‘ قیامت تک سجدہ کرنے والوں کا سردار‘ عبادت کرنے والوں کی زینت‘ (کسی اپنے کا ایک لقب ایسا لاؤ نا)‘ پانچویں محمد باقر ‘ نام محمد‘ لقب باقر‘ باقر اسے کہتے ہیں کہ علم کے سمندر کی تہہ میں جا کر سیپیاں لا کر واپس آ کر معرفت کی سیپیاں بانٹنے والا۔ باقر کہتے ہیں‘ علم کی خیرات بانٹنے والے کو‘ باقر وہ لفظ ہے اسے جس طرح بگاڑو گے اپنے معنی دیتا جائے گا‘ باقر علم کے سمندر کا تیراک‘ اسے آپ پیار سے باقرو کہہ دو‘ اپنے معنی تبدیل نہیں کرے گا‘ باقرو کا مطلب ہے کھلے‘ چہرے والا‘ باقری کہہ دو‘ باقری اولاد‘ باقرہ کہہ دو‘ فرات کے ساتھ پڑھا جانے والا‘ یہ ہیں آلِ محمد کے کمالات‘ ہمارا چھٹا امام جعفر صادق جعفر نام‘ صادق لقب‘ جنت میں جس نہر سے انبیاء کو دودھ پلایا جائے گا اسے جعفر کہتے ہیں۔ جعفر صادق ‘ صادق کے معنی ہیں سچا‘ ساتواں امام موسیٰ کاظم ‘ آٹھواں علی رضا ‘ نواں محمد تقی ‘ دسواں علی نقی ‘ گیارہواں حسن عسکری ‘ بارہواں مہدی آخرالزمان ‘ نام محمد لقب مہدی‘ ہادی‘ صاحب الزمان‘ صاحب العصر‘ لقب بقیتہ اللہ‘ صاحب الامر۔ یہ ہیں ہمارے اصول دین‘ پہلا اصول دین توحید‘ کہیں نہیں بدلے گا‘ دوسرا عدل کہیں نہیں بدلے گا‘ تیسرا اصول دین نبوت کہیں نہیں بدلے گا‘ چوتھا امامت کہیں نہیں بدلے گا‘ ان بارہ کے مقابلے میں ہم کسی کو امام تسلیم کرنے کے لئے تیار ہی نہیں‘ پانچواں اصول قیامت کہیں نہیں بدلے گا۔ بارہ کے بارہ معجز نما‘ بارہ کے بارہ اللہ کی طاقت کے مظہر‘ بارہ کے بارہ قوی‘ بارہ کے بارہ ہمارے مددگار‘ بارہ کے بارہ ہماری شفاعت میں شامل‘ بارہ کے بارہ کی شکلیں ایک جیسی‘ بارہ کے بارہ کی عقلیں ایک جیسی‘ بارہ کے بارہ کا کردار ایک جیسا‘ بارہ کے بارہ کا معیار ایک جیسا‘ بارہ کے بارہ کی رفتار ایک جیسی‘ بارہ کے بارہ کا مزاج ایک جیسا‘ بارہ کے بارہ کی معراج ایک جیسی‘ بارہ کے بارہ کی گفتگو ایک جیسی‘ بارہ کے بارہ کی جستجو ایک جیسی‘ بارہ کے بارہ کا انداز ایک جیسا‘ بارہ کے بارہ کا اعجاز ایک جیسا‘ بارہ کے بارہ کا رنگ ایک جیسا‘ بارہ کے بارہ کی امنگ ایک جیسی‘ بارہ کے بارہ کی ذہنیت ایک جیسی‘ بارہ کے بارہ کی نیت ایک جیسی‘ بارہ کے بارہ کی شخصیت ایک جیسی‘ بارہ کے بارہ کی شریعت ایک جیسی۔(نعرئہ حیدری) پانچواں اصول ہے قیامت‘ قیامت نے آنا ہے‘ ٹل نہیں سکتی‘ قیامت نے آنا ہے‘ ٹل کر نہ رہے گی۔ یہ پانچ اصول توحید‘ عدل‘ نبوت‘ امامت‘ قیامت‘ شیعوں کے پانچ کبھی نہیں بدلیں گے‘ چاہے جلوت میں ہوں یا خلوت میں ہوں‘ زندہ ہوں مر جائیں‘ گھر میں ہوں‘ گھر سے باہر ہوں‘ تنہا ہوں‘ بیمار ہوں‘ شفایاب ہوں‘ ملک میں ہوں‘ ملک سے باہر ہوں جہاں بھی ہوں یہ اصول نہیں بدلیں گے۔ اس کے علاوہ ہمارے ہیں فروع دین‘ اصول جمع ہے اصل کی‘ اصل کے معنی ہیں جڑ‘ بنیاد‘ فروع جمع ہے فرع کی‘ ف- ر- ع فرع‘ فرع کہتے ہیں شاخ کو فروع یعنی شاخیں‘ جڑیں ہماری ہیں پانچ‘ جس پر دین کا شجر کھڑا ہے۔ فروع دین ہیں‘ اس کی شاخیں اصول اور فروع میں فرق کیا ہے؟ اصول کبھی نہیں بدلتے‘ فروع بدلتے رہتے ہیں‘ نماز ایک ہے فروع دین‘ گھر میں پوری سفر میں آدھی‘ روزہ گھر میں پورا‘ سفر میں قضا‘ مریض ہو تو نہ رکھے‘ جب شفایاب ہو جائے تب رکھے‘ سفر میں ہو نہ رکھے‘ جب گھر میں ہو قضا کی ادا کرے‘ تیسرا فروع دین حج‘ طاقت ہے تو کرو‘ استطاعت ہے تو کرو اگر استطاعت نہیں تو واجب نہیں‘ زکوٰة مال ہے تو دو‘ بچت ہے تو دو ورنہ کوئی بات نہیں‘ پانچواں خمس‘ جس طرح مال بچے‘ پانچواں حصہ سادات کا غریب سادات کا‘ بچ جائے تو دو ورنہ نہیں۔ یہ سہم امام ہے‘ سہم معصوم ہے‘ چھٹا جہاد‘ طاقت ہے تو کرو‘ بچہ ہے‘ مریض ہے یا جہاد کرنے کے قابل نہیں تو کوئی واجب نہیں۔ ساتواں ہے تولا‘ آلِ محمد کی ولادت کی محبت ماں کے دودھ کی طرح رگوں میں رواں رہے‘ آٹھواں تبرا‘ تبرا کا مطلب بھی غلط لیتے ہیں‘ بعض ہمارے دوسرے فرقہ کے دوست‘ تبرے کا مطلب گالی گلوچ نہیں‘ تبرے کا مطلب ہے بریت اختیار کرنا‘ جو شخص آلِ محمد کا دشمن ہو‘ اس سے دور ہو جانا‘ بیزاری اختیار کرنا‘ تعلق نہ رکھنا‘ یہ نہ ہو کہ قیامت کے دن وہ ہمیں لے ڈوبے(غلط تو نہیں کہہ رہا)‘ گفتگو ذرا خشک ہو گئی‘ مگر ہے ضروری اس لئے کہہ رہا ہوں کہ اس کے بعد کی بات میرا خیال ہے کہ آپ کی سمجھ میں آ جائے۔ یہ ہیں ہمارے فروع دین‘ وہ ہیں ہمارے اصول دین‘ اس کے علاوہ کیا ہے تیرا اسلام بھائی وہ ہمیں بتا دے۔(ٹھیک ہے نا) فروعی اختلاف ہیں‘ نماز ہاتھ کھول کے پڑھو‘ نماز ہاتھ باندھ کے پڑھو‘ روزہ سورج ڈوبے آخری کنارہ زائل ہو نہ ہو روزہ کھول دو‘ چاہے اس کی سزا میں ساری رات کیوں نہ کھڑا ہونا پڑے‘ روزہ کھول دو‘ یہ فروعی اختلافات ہیں یہاں تک آپ میری بات کو سمجھ گئے ہیں تو اب میں۔ شیعوں کا یہ ایمان واضح کرنے کے بعد "میں کسی کافر کو یہ حق نہیں دیتا کہ وہ ہمیں کافر کہے۔" (تھک گئے ہو‘ ذرا جاگ کے سنو!) تخریبی نہ کوئی شیعہ نہ کوئی شیعہ خطیب۔ پاکستان ہمیں اپنی زندگی سے زیادہ عزیز‘ پاکستان کی سرحدیں ہمیں جان سے زیادہ عزیز‘ جب بھی پاکستان پر کوئی مشکل وقت آیا شیعوں نے سب سے زیادہ قربانیاں دیں۔ پاکستان کی بنیاد کی رکھی جانے والی پہلی اینٹ شیعوں کے خون پر رکھی گئی‘ پاکستان کا نام وجود میں لانے والا محمد علی پاکستان اور اسلام ہماری میراث ہے‘ اسلام پھیلا ہے‘ شعب ابی طالب سے یا خدیجتہ الکبری کی دولت کی بدولت "وہ ہمارے"، پاکستان بنا ہے راجہ محمود آباد کی دولت سے اور قائداعظم کی فکر سے "یہ دونوں بھی ہمارے"، پاکستان ہمیں اپنی زندگی سے زیادہ عزیز‘ مگر حسینیت پاکستان سے زیادہ عزیز اس لئے کہ پاکستان کا مطلب کیا "لا الہ الا اللہ" اور "چشتی اجمیری" کہہ گیا کہ حقا کہ بنائے لا الہ است حسین لا الہ کی بنیاد‘ اگر پاکستان کی بنیاد بچانا چاہتے ہو تو مینار پاکستان کے قریب حسین کا علم بلند کر کے‘ جو اس کے سائے میں آنا چاہئے "وہ ہمارا بھائی ہے،‘ (تھکے ہوئے ہو خوف کی وجہ سے)‘ زندگی ایک دن جانی ہے‘ مقصد انتظامیہ سے کہنا چاہتا ہوں کہ یہ دس دن سیدالشہداء کی یاد منانے کے لئے جو آنا چاہے وہ ہمارا بھائی‘ یہ دس دن "حسین اصحاب حسین ‘ انصار حسین کے لئے وقف ہیں۔" ان میں کوئی "شرپسند عنصر"… یا "تخریب کار عناصر" اگر ماتم حسین میں گڑبڑ کریں گے وہ یاد رکھیں کہ انہیں ہم ان کا شجرئہ نسب بتانا جانتے ہیں۔ علی کی عزت کی قسم شیعیت انتظامیہ کے تعاون سے کبھی نہیں پھیلی‘ "شیعیت کو بچانے کے لئے ہمارا اپنا لہو بہت ہے"، اپنی لاشیں بہت ہیں‘ لیکن ہم تو چاہتے ہیں کہ کوئی اپنا نسب بتائے۔ انتظامیہ کے ساتھ ہم دس دن مکمل تعاون کریں گے‘ شیعوں کی طرف سے کوئی گڑبڑ کا اندیشہ ہے ہی نہیں۔ "میں شیعوں کی طرف سے ضمانت دیتا ہوں کہ ان دس دنوں میں کہیں کسی شیعہ کی طرف سے کوئی گڑبڑ پھیلے‘ انتظامیہ مجھے آ کر گولی مار دے۔" مگر عزاداری کے جلوسوں کی راہ میں اگر کوئی رکاوٹ بنے یا رکاوٹ پیدا کرنے کی کوشش کرے تو انتظامیہ اس کے ساتھ خود نمٹے‘ بات لیڈروں کی نہیں‘ کون لیڈر ہے‘ کون لیڈر نہیں‘ میں نے اشتہار پڑھا ہے کہ امن کمیٹیوں کے افراد جلوسوں کے ساتھ جائیں گے‘ امن کمیٹیوں کی شرکت حکماً ہے‘ یہ غلط ہے ہمیں نہ چھیڑو کہ پھر ہماری زبان بیان قضا بنے گی جہاں جہاں تم ستم کرو گے وہاں وہاں کربلا بنے گی (نعرئہ حیدری) چونکہ انتظامیہ موجود ہے‘ اس لئے میں پہلی مجلس میں یہ پیغام دے رہا ہوں‘ ہمیں پاکستان کی سرحدیں بھی اپنی زندگی سے زیادہ عزیز ہیں‘ لیکن یہ جو علم ہے ناں ماں کے دودھ کی پہلی دھار کی قسم کھا کے وعدہ کیا ہوا ہے کہ جب تک ہماری زندگی ہے‘ جب تک یہ دنیا ہے اٹل وعدہ ہے اپنا اے سخی عباس کے پرچم یہ دنیا کیا ہے محشر کو بھی ہم بیدار کر دیں گے اگر شبیر کے ماتم پر پابندی ہو جنت میں تو پھر جنت میں بھی جانے سے ہم انکار کر دیں گے (آخری آدمی تک جسے میری یہ بات اچھی لگی ہو تو مل کر بلند آواز سے "نعرئہ حیدری"، یاعلی ) انتظامیہ کا فرض ہے کہ وہ ہمارا تحفظ کرے ہم انتظامیہ کے ساتھ مکمل تعاون کریں گے‘ ہم اسے کچھ نہیں کہیں گے‘ ہم تو کربلا گامے شاہ کے گیٹ پر بھی تلاشی دیتے ہیں‘ اپنی سیکورٹی کے لئے‘ ہماری قوم کا ہر فرد تعاون کرے گا‘ ہر جوان تعاون کرے گا‘ ہر بزرگ تعاون کرے گا‘ اگر کسی کی یہ بھول ہو کہ ہم انہیں مٹا دیں گے‘ ہمیں اس وقت بھی نہیں مٹایا جا سکا جب ہمارا ایک تھا۔(یاحسین تیرے ماتم دار چپ ہیں) ہمارا ایک تھا مختار ثقفی‘ اس وقت ایک تھا‘ گوشت مودة حسین جیل کی سلاخیں کھا گئیں‘ ہڈیوں کا ڈھانچہ بچ گیا‘ زنجیروں میں جکڑا ہوا‘ سترہ سیڑھیاں زیر زمین زندان میں‘ نہ سورج کے ابھرنے کا علم نہ ڈوبنے کا پتہ‘ چپ پڑا ہوا ہے‘ کبھی کبھی سجدہ کرتا ہے‘ زخم دکھتے ہی خون آتا ہے‘ ہلکا سا‘ کڑی پہ کڑی مار کے کہتا ہے: "یاعلی تیری بھی خیر تیرے چاہنے والوں کی بھی خیر‘ یاعلی تیری محبت کا مزا تو اب آ رہا ہے۔"(نعرئہ حیدری) یاعلی تیرے چاہنے والوں کی خیر‘ یہ تو اتنے ہیں‘ اس وقت ایک تھا‘ ابن زیاد (لعنت)… اس وقت کے ابن زیاد نے حکم دیا‘ ہے کوئی حسین کا نام لینے والا‘ میں اسے بتاؤں کہ حسین کی محبت کتنا بڑا جرم ہے۔ ایک کھڑا ہوا اس نے کہا‘ خوش نہ ہو‘ ایک ہے سہی‘ لیکن ہے تیرے زندان میں‘ مختار ابوعبیدہ ثقفی کا بیٹا‘ زندان میں پڑا ہے‘ اسے لینے کے لئے چار سو سپاہی گئے‘ زندان کے دروازے پر پہنچے‘ دروازہ کھولا‘ ایک سپاہی دوسرے سے کہتا ہے تو جا‘ وہ کہتا ہے میری موت آئی ہے‘ علی کا بھوکا شیر ہے‘ میں کیوں جاؤں؟ ادھر مختار نے اپنے زیور درست کئے‘ مجبوراً کسی نہ کسی کو تیار کر کے انہوں نے بھیجا‘ ایک سپاہی نے چند سیڑھیاں نیچے اتر کے آواز دی‘ مختار کہتا ہے شیر کی کچھار میں کس نے آواز دی؟ کہا باہر آ۔ مختار باہر نکلا‘ چار سو سپاہی دشمن کے مسلح سامنے کھڑے ہیں‘ علی کا بھوکا شیر زنجیروں میں جکڑا ہوا‘ گردن میں طوق‘ ہاتھوں میں ہتھکڑیاں‘ پاؤں میں زنجیر‘ کمر میں لنگر… نہ سپاہیوں سے خوف آیا نہ چہرے کا رنگ زرد ہوا‘ آسمان پر چمکتے ہوئے سورج کو دیکھ کے کہتا ہے کہ میرے مولا علی کی انگشت کی پًشت پر اگے ہوئے ناخن کی ہلکی سی جنبش کے اشارے سے واپس پلٹ آنے والے پیر بھائی "تیرا کیا حال ہے؟" (آخری آدمی تک گونج آئے نعرے کی) "تیرا کیا حال ہے؟" سپاہیوں کا رنگ زرد ہوا‘ آواز آئی مختار ہم سے کلام کر‘ کہتا ہے کیوں آئے ہو؟ ابن زیاد نے بلایا ہے‘ کہتا ہے ایک شرط پر چلوں گا (قیدی ہے شرط اپنی طرف سے لگا رہا ہے) کون سی شرط؟ میں آگے آگے چلوں گا تم پیچھے پیچھے‘ پتہ چلے کہ میں قیدی نہیں‘ مودة علی کا بے تاج بادشاہ ہوں‘ سپاہی پیچھے پیچھے‘ مختار آگے آگے۔ ابن زیاد نے آرڈیننس پاس کیا (کوئی تو ہو گا لفظوں کا قدردان) بارہ عشرے ہو گئے مجھے یہاں پڑھتے ہوئے اور جب تک زندگی ہے زندگی کے آخری سانس تک نوکری دینا ہے۔ اس وقت کے ابن زیاد نے آرڈیننس پاس کیا (اسے بھی بڑا ناز تھا آرڈیننسوں پر) خبردار مختار باغی ہے‘ دربار میں آ رہا ہے‘ کوئی سپاہی‘ کوئی درباری‘ کوئی کرسی والا اس کے استقبال میں کھڑا نہ ہو۔ ادھر دروازے کے افق سے مودة علی کا دمکتا ہوا آفتاب مختار طلوع ہوا۔ اللہ جانے کیسی ہیبت تھی‘ اس کی آنکھوں میں؟ ہر کرسی نشین نے کرسی چھوڑی‘ دونوں ہاتھوں کو پیشانی پر رکھتے ہوئے ہر ایک نے کہا‘ ہمارا سلام‘ ہمارا سلام‘ ہمارا سلام‘ زنجیروں کی جھنکار سے مودة علی کے ترانے بنتا ہوا آگے بڑھا۔ جہاں قیدیوں کے ٹھہرنے کی جگہ تھی وہاں نہیں رکا‘ آگے بڑھا اور آگے آیا اور آگے آیا‘ ابن زیاد ملعون کے سامنے آ کے ایک کمان کے فاصلے پر… دیکھ کے کہتا ہے‘ ابن زیاد‘ ابن زیاد‘ ابن زیاد! مودة علی کی مسلسل عبادت میں بے وقت دخل دینے کا سبب کیا ہے؟ (کوئی سمجھ نہیں رہا) مودة علی کی مسلسل عبادت میں بے وقت دخل دینے کا سبب کیا ہے؟ ابن زیاد کہتا ہے تو باغی ہے۔ مختار کہتا ہے‘ ابن زیاد تیرے بوسیدہ کاغذوں میں میرا عقیدہ رکھنے والا قیامت تک باغی کہلائے گا‘ لیکن میں مودة علی کا بے تاج بادشاہ ہوں۔ ابن زیاد کہتا ہے‘ مختار میں تیرے لئے سزائے موت کا اعلان کرتا ہوں۔ شیعو! میرے لفظ سننا اپنی قوم کو اپنی ہسٹری‘ اپنی تاریخ بتا رہا ہوں‘ کسی قوم کے کسی فرد‘ کسی کے مسلک پر‘ کسی کے عقیدے پر محسن نقوی طنز نہیں کر رہا‘ اپنی قوم کو اپنا مزاج‘ اپنی قوم کو اپنا Meinfesto‘ اپنی قوم کو اپنی Line of Demartion دے رہا ہے‘ کسی پر طنز نہیں‘ آواز آئی میں تیرے لئے سزائے موت تجویز کرتا ہوں‘ سزائے موت کا نام سن کر مختار کے خشک ہونٹوں پر تبسم کی کہکشاں نمودار ہوئی۔ (میرے جیسے نیم پڑھے لکھے دوستوں کے لئے کہہ رہا ہوں) مختار مسکرایا‘ ابن زیادہ کہتا ہے‘ جلاد قریب آ۔ اس نے دوبارہ سزائے موت کا اعلان سنایا‘ مختار ہنس پڑا‘ جلاد قریب آیا‘ ابن زیادہ کہتا ہے‘ تلوار کی نوک مختار کی شہ رگ پر رکھ‘ جلاد نے تلوار کی نوک زنجیروں میں جکڑے ہوئے مختار کی شہ رگ پر رکھی‘ دیکھنا شیعو! جب تلوار کی نوک مختار کی شہ رگ پر آئی نا‘ تلوار کی نوک سے شہ رگ پہ چبھن محسوس ہوئی‘ مختار نے کھا جانے والی آنکھوں سے جلاد کو دیکھا‘ جلاد کے ہاتھوں میں رعشہ آیا‘ مختار کی رگوں میں درد محسوس ہوا‘ مختار مسکرا کے کہتا ہے یاعلی تیری محبت کا لطف تو آب آ رہا ہے۔ (نعرئہ حیدری) (جاگتے آؤ نا) یاعلی تیری محبت کا لطف تو اب آ ر ہا ہے‘ ابن زیاد کہتا ہے‘ جلاد رک جا‘ جلاد رک گیا۔ کہتا ہے‘ مختار تم علی والے۔ (یہ لفظ نہیں سمجھو گے تو تم جانو علی بادشاہ جانے) جس کی سمجھ میں آ جائے گا‘ یہ لفظ اس کی رگوں سے نام علی ضرور پھوٹے گا۔ ابن زیاد کہتا ہے‘ مختار‘ مختار! تم علی والے‘ تم علی والے… موت کا نام سن کر‘ موت کا نام لے کر‘ موت کی آغوش میں پل کر‘ مسکراتے کیوں ہو؟ مختار نے انگڑائی لی‘ (شاہ جی) زنجیریں گریں‘ اس کے قدموں میں آئیں‘ علی کا غلام آزاد ہوا اور آگے بڑھا‘ چار چکر دربار کے لگائے‘ مختار آگے بڑھ کے کہتا ہے ابن زیاد‘ ابن زیاد! اس وقت کا ابن زیاد لکنت آلود زبان میں کہتا ہے مختار تو اتنا قریب کیوں آ گیا ہے؟ مختار کہتا ہے ابن زیاد تو اپنا سوال دہرا‘ دیکھ کے لکنت آلود زبان میں کہتا ہے‘ مختار تم علی والے موت کا نام سن کے مسکراتے کیوں ہو؟ ابن زیاد نے جب سوال دہرایا‘ مختار نے چار چکر دربار کے لئے اور کہا‘ سن ابن زیاد‘ سن ابن زیاد! میں ابھی کم سن بچہ تھا کہ مودة علی کے تاجور بادشاہ نے‘ میں ابھی مودة علی کی آغوش میں پل رہا تھا کہ نبوت کے وارث علی نے‘ قرآن کے وارث علی نے‘ شریعت کے وارث علی نے‘ کل کی خبریں دینے والے علی نے‘ سورج پلٹانے والے علی نے‘ تقدیر کی طنابیں کھینچنے والے علی نے‘ میرے مقدر کے مالک علی نے‘ قرآن بولنے والے علی نے‘ مجھے اپنی آغوش میں بٹھا کر میرے گھنگریالے بالوں کو بوسہ دے کر میری پیشانی چوم کر کہا تھا کہ مختار تو ایک دن بڑا ہو کر اسی منبر پر ایک عرصہ حکومت کرتے ہوئے تین لاکھ چھیالیس ہزار دشمنان علی کو تہ و تیغ کرے گا: "او بے ضمیر اور نمک حرام ابن زیاد ابھی تیرے جیسا کتا مارا ایک نہیں موت پہلے آ گئی۔" اب نعرہ سنا جن کی رگوں میں علی پھوٹتا ہے۔(نعرئہ حیدری‘ یاعلی … نعرئہ تکبیر‘ اللہ اکبر… نعرئہ رسالت‘ یا رسول اللہ… نعرئہ حیدری‘ یاعلی … ایٹم بم نعرئہ حیدری‘ یاعلی ) او نمک حرام‘بے ضمیر ابن زیاد تیرے جیسا کتا مرا ایک نہیں‘ موت پہلے آ گئی‘ موت کا وارث تو علی ہے۔ سارے مختار مزاج دیوانے جاگ گئے ہو‘ سارے جاگ گئے ہو‘ پڑھوں رباعی‘ بتا دینا چاہتا ہوں‘ انتظامیہ کو کہ وہ دشمنان ملک کو پہچانیں‘ شرپسند عناصر کو پہچانیں‘ وہ جو یا رسول اللہ کے دشمن ہیں‘ انہیں میرے بریلوی دوست بھی پہچانیں‘ دونوں سنی شیعہ اکٹھے مل کر ان سے کہیں کہ اگر تم یا کے دشمن ہو تو پھر یا تم رہو گے یا ہم رہیں گے۔ پہلی رباعی پڑھ رہا ہوں‘ چالیس منٹ تک متواتر جگانے کے پورے چالیس منٹ کی گفتگو کے بعد پہلی رباعی پڑھ رہا ہوں‘ اگر میری یہ رباعی ضائع ہو گئی تو مجھے قبر تک دکھ ہو گا‘ تم سے تو میں ناراض ہو نہیں سکتا‘ بولنا ضرور روح اذان ہے باپ تو بیٹا نماز دیں مسجد علی کی ہے تو مصلیٰ حسین کا ایسے نہیں جاگتے آؤ‘ بولتے آؤ‘ میرے ساتھ‘ آخری آدمی تک نہ بولے تو مجھے چین کیسے آئے‘ دور دور سے آئے ہوئے عزادارو! علی صرف جزو اذان نہیں بلکہ… روح اذان ہے باپ تو بیٹا نماز دیں مسجد علی کی ہے تو مصلیٰ… میں پھر پڑھتا ہوں تاکہ یہ نہ کہیں کہ دوسرے مصرعے میں محسن نقوی لغزش لسانی کا شکار ہو گیا‘ دیکھو! میں اپنے آپ کو کتنا نوٹ کرتا ہوں‘ کبھی آپ بھی اپنے آپ کو نوٹ کیا کریں‘ اپنی خاموشی بھی چبھے گی‘ آپ کو روح اذان ہے باپ تو بیٹا نماز دیں مجھے امام حسین کی عزت کی قسم اس مجلس میں… میں ممنون ہوں‘ ان بزرگوں کا جو شجاع آباد سے بسیں بھر کے آتے ہیں‘ ملتان سے‘ میلسی سے‘ فیصل آباد سے‘ راولپنڈی سے کچھ میرے دوست بیٹھے ہوئے ہیں‘ کچھ سٹوڈنٹ بیٹھے ہوئے ہیں‘ میں شکرگزار ہوں ان سب کا‘ لیکن حسین کا واسطہ دس راتیں میرے ساتھ انقلابی بن کے بولتے رہا کرو‘ تاکہ مجھے تنہائی کا احساس نہ ہو‘ رباعی اب سنیں روح اذان ہے باپ تو بیٹا نماز دیں مسجد علی کی ہے تو مصلیٰ حسین کا جاگیر کبریا ہوئی تقسیم اس طرح کعبہ علی کا عرش معلی حسین کا (نعرئہ حیدری) میں دیکھتا ہوں

Offline Master Mind

  • 4u
  • Administrator
  • *
  • Posts: 4478
  • Reputation: 85
  • Gender: Male
  • Hum Sab Ek Hin
    • Dilse
    • Email
Re: محسن المجالس
« Reply #1 on: December 17, 2009, 03:30 PM »
تشریح نہیں کرتا‘ کون سمجھتا ہے وہ موج میں ہے جس کو ملا ہے غم حسین قصر ارم تو اس کے لئے سنگ و خشت ہے کربلا گامے شاہ کا مجمع ہے‘ پورے ملک کا چنا ہوا مجمع ہے‘ نئی روشنی سکول ہے نہیں کہ میں قصر ارم کا معنی بتاؤں‘ جنت کا محل‘ سنگ کا معنی بتلاؤں‘ پتھر‘ خشت کا معنی بتلاؤں‘ اینٹوں کا ڈھیر کہ جس کو غم حسین ملا اس کے لئے قصر ارم اینٹوں اور پتھروں کے ڈھیر سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا‘ کیونکہ وہ موج میں ہے جس کو ملا ہے غم حسین قصر ارم تو اس کے سنگ و خشت ہے جس سلطنت پہ راج ہے میرے حسین کا اس سلطنت کا ایک جزیرہ بہشت ہے (نعرئہ حیدری) تحت الثریٰ ہے بغض علی کی گھٹن کا روپ جنت میرے حسین کی بخشش کا نام ہے کوثر علی کے سجدئہ وافر کی ہے زکوٰة دوزخ بتول پاک کی رنجش کا نام ہے حسین لکھو… قبا کا سینہ بنے سفینہ ذرا طبیعت رواں دواں ہو ہوا میں خوشبو کے دائرے ہوں خلا میں کرنوں کا سائباں ہو زمین زمرد اگل رہی ہو‘ گلاب گلنار آسمان ہو ہر ایک کونپل کنول اچھالے کلی کلی کنج کن فکاں ہو چمن کے سینے پہ فصل گل کا نشاں بہ انداز کہکشاں ہو جبین کونین پنجتن کے کرم سے فردوس انس و جاں ہو ہر ایک ذرہ بنے ستارہ ہر ایک ستارہ گہر فشاں ہو سبھی سمندر ہوں میرے بس میں شجر شجر میرا رازداں ہو درود کی انجمن سجاؤں‘ دین میں جبریل کی زباں ہو خیال ہو سلسبیل جیسا‘ دلوں میں لفظوں کا کارواں ہو نگر سجاؤں میں ھل اتٰی کا محبتوں سے بھرا جہاں ہو کہیں قبیلہ ہو اولیا کا‘ کہیں پہ بہلول کی دکاں ہو بچھا کے مسند بشارتوں کی دلوں پہ ادراک مہرباں ہو میں اپنی سوچوں کو آب کوثر میں غسل دے دوں تو امتحاں ہو پڑھوں میں تسبیح فاطمہ جب تو کعبہ فکر میں اذاں ہو اگر یہ سب کچھ ملے تو مدح شہنشاہ مشرقین لکھوں حیا کی تختی پہ اپنی پلکوں سے پھر میں لفظ حسین لکھوں (نعرئہ حیدری) حسین کیا ہے؟ خیال خیمہ‘ خلوص خامہ خرد خزانہ حسین کیا ہے؟ زبان وحدت پر انما کا حسین ترانہ حسین کیا ہے؟ ضمیر زم زم خمیر کوثر کرم نشانہ حسین کیا ہے؟ تمام نبیوں کے دین محکم کا آب و دانہ حسین کیا ہے؟ محیط عالم‘ مشیر مرسل مئہ زمانہ حسین کیا ہے؟ تھکے ہوئے دین کے درد کا آخری ٹھکانہ حسین کیا ہے؟ خلوص پرور مشیتوں کا حسین گھرانہ حسین کیا ہے؟ تمام غیرت کی ایک آواز نمازیانہ حسین کیا ہے؟ یزیدیت کے بدن پر عبرت کا تازیانہ حسین وہ ہے کہ موت جس کو ادب سے جھک کر سلام کر لے حسین وہ ہے جو نوک نیزہ پر خود خدا سے کلام کر لے (نعرئہ حیدری) حسین اب بھی سمجھ رہا ہے یزیدیت کے سبھی اشارے حسین اب بھی سجا رہا ہے زمین پر شمس و قمر ستارے حسین اب بھی بدل رہا ہے ستم کی طغیانیوں کے دھارے حسین اب بھی سنا رہا ہے سناں پر قرآں کے درد پارے حسین اب بھی سنبھل سنبھل کے بچا رہا ہے سبھی سپارے حسین اب بھی لٹا رہا ہے نبی کے دیں پر سجل دلارے حسین اب بھی یہ چاہتا ہے کہ مشکلوں میں کوئی پکارے یزیدیت کو یہ وہم کیوں ہے کہ صرف اک دن حساب ہو گا حسین سے جو جہاں بھی الجھے وہیں پہ خانہ خراب ہو گا یکم محرم ہے آؤ اگر حسینی ہو تو ہمارے ساتھ مل کر حسین کی یاد مناؤ‘ تیرا کیا نقصان ہوا ہے؟ تو نے تو لا الہ ایئرکنڈیشن کمروں میں سیکھا ہے‘ تیرا کیا خرچ ہوا ہے؟ نقصان ہوا ہے تو حسین کا‘ جس کا باپ تجھے برا لگتا ہے‘ اس کا خرچ ہوا ہے دین پر‘ تیرا خرچ ہوتا تو ایسے نہ کرتا‘ جیسے ہو رہا ہے… کائنات کا سب سے بڑا مظلوم ہے حسین … تجھے کیا پتہ حسین ہے کون؟ جب بچپن تھا اس کا… اس نے عید کی رات کہا تھا‘ نانا… اوروں کے بچوں کی سواریاں ہیں نانا… میری سواری ہے نہیں۔ رسول نے کہا‘ حسین تیری سواری میں ہوں گا‘ صبح ہوئی‘ ایک شانے پر حسن ‘ دوسرے شانے پر حسین لے کے چلا۔ حسین کہتا ہے نانا… اور سواریوں کی باگیں ہیں‘ ہماری کوئی نہیں۔ رسول نے اپنی زلفیں دونوں بچوں کے ہاتھوں میں دے کے کہا‘ یہ لو تمہاری سواری کی باگیں‘ جس طرف موڑتے جاؤ گے سواری مڑتی جائے گی‘ صرف سواری نہیں مڑے گی‘ جس طرف تم باگیں موڑو گے رسالت مڑتی جائے گی‘ چند قدم آگے چل کر حسین کہتا ہے نانا… لوگوں کی سواریاں بولتی ہیں ہماری سواری نہیں بولتی۔ رسول کہتے ہیں‘ تمہاری سواری بھی بولے گی‘ رسول نے الاف کہا‘ دوسری دفعہ الاف کہا‘ تیسری دفعہ الاف کہنے کا ارادہ کیا‘ جبرائیل آئے اور عرض کیا‘ یا رسول اللہ اب الاف نہ کہنا‘ اللہ کہہ رہا ہے کہ میں دوزخ کی آگ بجھا دوں گا۔ رسول نے کہا‘ جبرائیل اللہ سے جا کے کہہ دے‘ میں تیرے کہنے پر اب الاف نہیں کہتا‘ جبرائیل اللہ سے کہہ دے کہ میں تیرے کہنے پر نہیں کہتا‘ اب اگر حسین نے دوبارہ کہہ دیا بول تو اس کے سامنے بھی انکار نہیں کروں گا۔ مجھے ایمان سے بتاؤ مسلمانو! پانچ سال کی عمر میں حسین کے ناز رسول نے اٹھائے‘ ستر قدم کے فاصلے پہ دہلیز فاطمہ ہے‘ مسجد نبوی کی طرف اور مسجد نبوی سے دہلیز تک‘ ستر مرتبہ آئے… گھر آئے حسین … میں نے پوچھا اتنی دیر کہاں رہے؟ کہا‘ اماں نانا نے کاندھوں پر اٹھایا تھا‘ آج عید کا دن تھا‘ نانا نے ہمیں شانوں پر بٹھا کر تیری دہلیز سے مسجد نبوی تک ستر چکر لگائے۔ کھڑی ہوئی زہرا ‘ آواز آئی حسین میرا بابا… نفیس مزاج ہے‘ گرمی کا موسم ہے‘ دھوپ ہے‘ اتنی تکلیف دی ہے تو نے میرے بابا کو… معصوم بچپن کے انداز میں سامنے آ کے کہتا ہے اماں… میں حسین ہوں‘ میں حسین ہوں‘ تیرا دودھ پیا ہے‘ علی جیسے باپ کا خون میری رگوں میں ہے… اماں ٹھیک ہے‘ تیرا بابا نفیس مزاج ہے‘ اماں میں نے قرض اٹھایا ہے… اماں میں تیرا وہ بیٹا ہوں جو قرض سے زیادہ ادا کروں گا… تیرا بابا ستر مرتبہ تیرے دروازے سے مسجد نبوی کے دروازے تک گیا ہے میں اپنے خیمے سے میدان تک بہتر (۷۲) نہ جاؤں… تو حسین نہ کہنا۔ (سلامت رہو‘ سلامت رہو) ایام غم ہیں ضرورت نہیں ہوئی زیادہ پڑھنے کی‘ چونکہ آج یکم محرم ہے‘ میں ہر سال ترتیب سے عشرہ پڑھا کرتا ہوں‘ گامے شاہ میں… اسی ترتیب سے شروع کر رہا ہوں‘ جن کی آنکھوں میں غم حسین ہر وقت جھلکتا رہتا ہے‘ انہیں دعوت دے رہا ہوں‘ جو نہ رو سکے‘ کوئی جبر نہیں‘ جسے آنسو نہ آئیں جسے رونا نہ آئے‘ زبردستی نہیں‘ حسین نام ہی ایسا ہے۔ آقائے مہدی ما زندرانی نے لکھا ہے‘ قبلہ… حسین کہا کرتے تھے جب اپنے ساتھ کھیلنے والے ہم سن بچے کہتے تھے‘ حسین تو ہنستا کیوں نہیں؟ مسکراتا کیوں نہیں؟ ہمارے ساتھ کھیلتا کیوں نہیں؟… تو حسین اپنے ہم سنوں کو کہا کرتے تھے کہ میرا نام میرے بابا نے‘ میرے نانا نے‘ میری ماں نے ایسا رکھا ہے کہ میری اماں کہتی ہیں‘ قیامت تک جب کوئی تیرا نام لے گا روئے گا ضرور‘ میرے نام میں کوئی ایسی تاثیر ہے۔(قبلہ) کوئی لے‘ کوئی کتنا ہنس کیوں نہ رہا ہو‘ منہ سے حسین کا نام لے پھر ہنس نہیں سکتا۔ (مصائب کا اپنا انداز ہے) اگر روتا نہیں چپ ضرور کر جاتا ہے۔ تم سارے عزادار بیٹھے ہوئے ہو تمہیں رلانے کی کوشش نہیں کرتا‘ رلانے کا سامان پیدا کرتا ہوں‘ جس کا جی چاہے روتا آئے‘ یہ راتیں یہ راتیں ہیں رونے کی‘ رات کے اس وقت میری مائیں‘ میری بہنیں دور دور سے اپنے گھروں کا خیال چھوڑ کر اپنی چھوٹی چھوٹی اولادیں لے کے بی بی زینب کو پرسہ دینے کے لئے دس راتیں آئیں گی‘ یہ تاثیر ہے یہ غم شبیر کا معجزہ ہے۔ میری مائیں‘ بہنیں بھی یہاں رات کے اس وقت سیدہ زینب کو پرسہ دے رہی ہیں‘ اجازت دو میں مصائب کے دو لفظ کہہ کے آغاز کروں۔ یزید (لعنت) تخت نشین ہوا‘ نہ ہوتا یہ تخت نشین… نہ زہرا کا بھرا گھر اجڑتا‘ دو چار لفظ‘ پہلی مجلس ہے زیادہ دیر تکلیف نہیں دیتا کل سے بہت زیادہ مصائب پڑھیں گے‘ انشاء اللہ! یزید تخت نشین ہوا‘ مالی سبطین سے پڑھ رہا ہوں‘ یزید تخت نشین ہوا جب معاویہ مر گیا‘ یزید موجود نہیں تھا شکار کھیلنے گیا ہوا تھا‘ معاویہ نے ایک وصیت لکھوائی‘ اس نے وصیت میں لکھوایا کہ میں نے بنیادیں کھوکھلی کر دی ہیں‘ اسلام کی‘ تجھے زیادہ کوششیں نہیں کرنا پڑے گی۔ تخت سنبھالتے ہی چار آدمیوں سے فوری طور پر بیعت لینا‘ پہلا عبدالرحمن بن ابوبکر‘ دوسرا عبداللہ ابن زبیر‘ تیسرا عبداللہ ابن عمر‘ چوتھا حسین ابن علی ۔ اس نے وصیت میں لکھا کہ عبدالرحمن بن ابوبکر اگر تیرے ساتھ مل جائے تو بہت اچھا ہے‘ اس پر اعتماد کر لینا‘ عبداللہ ابن زبیر پر اعتماد نہ کرنا‘ عبداللہ ابن عمر تجھ سے بھاگ جائے گا‘ ایک شخصیت ہے حسین اس نے رسول کی زبان چوسی ہے‘ بتول کا دودھ پیا ہے‘ اس کی رگوں میں علی کا خون ہے‘ وہ تیری بیعت نہیں کرے گا‘ کوشش کرنا رات کے اندھیرے میں خاموشی کے ساتھ قتل کر کے اس کے قتل سے بری الذمہ ہو جانا ورنہ سارے مسلمان تیرے خلاف ہو جائیں گے‘ میں نے مالی السبطین کا حوالہ دیا ہے۔ یزید واپس آیا‘ اس نے وصیت پڑھی‘ اس نے خط لکھا‘ گورنر مدینہ ولید کو‘ مروان اس کا مشیر تھا‘ اس نے خط میں لکھا کہ یہ چاروں اس وقت مدینے میں ہیں‘ عبداللہ ابن عمر‘ عبدالرحمن ابن ابوبکر‘ عبداللہ ابن زبیر اور حسین ابن علی ‘ جیسے جیسے یزید کے باپ نے لکھا تھا ویسے ویسے اس نے لکھا‘ چنانچہ ولید نے سپاہی بھیجا۔ عبدالرحمن ابن ابوبکر گھر سے باہر نہیں نکلا‘ عبداللہ ابن عمر مدینے سے بھاگ گیا‘ عبداللہ ابن زبیر نے کہا‘ کل صبح آیا اور چلا گیا‘ ایک بچ گیا‘ زہرا کا بیٹا‘ مظلوم حسین نانا کی قبر پہ بیٹھا قرآن پڑھ رہا تھا۔ (مولا سلامت رکھے‘ میں پہنچ گیا مصائب کے لئے تیرے مزاج کے مطابق‘ مصائب کے اس لمحے پر جہاں تیری آنکھیں منتظر ہیں)۔ حسین قرآن پڑھ رہا ہے‘ سامنے مزار محمد ہے‘ سپاہی نے آ کے کہا‘ السلام علیکم یا ابن رسول اللہ! حسین نے دیکھا اور کہا کیوں آئے ہو؟ ولید نے دربار میں بلایا ہے‘ حسین نے قرآن کی رحل بند کی‘ نانا کی قبر کو دیکھا‘ ولید کے سپاہی کو دیکھا‘ عبا کے دامن سے آنسوؤں کو پونچھا اور کہا: انا للہ و انا الیہ راجعون مجھے ظہر کی نماز کے بعد سے تیرا انتظار تھا‘ ولید سے کہنا میں رات کے وقت آؤں گا۔ یہ آواز سنی عباس نے قمر بنی ہاشم نے کہ میرا مولا کہہ رہا ہے کہ میں رات کو آؤں گا۔ گھر میں عباس نے آ کے اکبر سے کہا‘ عون سے کہا‘ قاسم کو کہا‘ محمد کو کہا‘ ۸ شاگرد تھے بنی ہاشم کے‘ جناب عباس نے بتایا کچھ نہیں‘ صرف یہ کہا کہ عشاء کی نماز کے بعد اپنے اپنے حجرے میں رہنا‘ میں اللہ اکبر کہوں تو حویلی میں آ جانا‘ مولا اور حکم۔ عباس کہتے ہیں اس سے آگے میں بھی کچھ نہیں جانتا‘ بس آ جانا‘ سارے بنی ہاشم چلے گئے‘ عشاء کی نماز کے بعد۔ (دو لفظ کہتا ہوں‘ ثانی زہرا مہربانی کرے گی‘ سکون کے ساتھ تو سن رہا ہے‘ خود بخود آنسو آئیں گے)۔ عادت تھی جناب حسین کی نماز عشاء سے فارغ ہو کر شریکتہ الحسین بی بی زینب کے حجرے کی طرف آتے‘ بی بی حجرے میں نہیں ہوتی تھی‘ نماز ختم کر کے بی بی زہرا کی حویلی میں دروازے کی اوٹ میں کھڑی ہو جاتی‘ حسین مسجد سے واپس آتے‘ کافی دیر تک حسین کی پیشانی چوم کے واپس آتی۔ آج کافی دیر ہو گئی‘ حسین مسجد سے واپس نہیں آئے‘ کھڑی رہی انتظار میں‘ زہرا کی حویلی کے دروازے کی اوٹ میں۔ (اللہ تجھے وہ زیارتیں نصیب کرے‘ مجھے یہ شرف نصیب ہوا ہے‘ میں جناب زہرا کا گھر دیکھ آیا ہوں)۔ کافی دیر کھڑی رہی‘ جب کافی دیر ہو گئی‘ آسمان کی طرف دیکھ کے کہتی ہے بار الٰہی خیر ہو‘ رات کافی ہو گئی ہے حسین نہیں آیا۔ نماز سے فارغ ہو کے بنی ہاشم گھروں کو چلے گئے‘ حسین نانا کی قبر کے پاس آیا‘ آواز آئی نانا میرا سلام‘ ولید نے دربار میں بلایا ہے‘ لگتا ہے تیری حاضری میں دن کم رہ گئے‘ نانا میں حسین دو تین دن کا مہمان ہوں تیرے شہر میں… روتے روتے غش کر گیا حسین ‘ حسین نے خواب میں کیا دیکھا‘ جلدی سے اٹھا‘ جلدی اپنی ماں زہرا کے دروازے پر آیا‘ دروازہ بھاری نظر آیا‘ پوچھا کون ہے؟ آواز آئی کون ہو سکتی ہے‘ میں تیرے حصے کی بہن زینب ہوں… حسین روتا رہا ہے‘ بی بی کہتی ہے‘ نہ رو‘ تین چار راتیں ہو گئی ہیں‘ میں دیکھتی ہوں‘ تہجد کی نماز سے پہلے اٹھ اٹھ گھر سے باہر جا کے اللہ جانے تو کیوں روتا ہے۔ تیرا حال‘ تیری آنکھیں‘ تیری بہن سے چھپی ہوئی نہیں ہیں‘ بتلا حسین تیرے رونے کا سبب کیا ہے؟ دونوں ہاتھ بی بی زینب کے سر پر حسین زینب کی چادر پر بوسہ دے کے کہتا ہے زینب بہن‘ ولید نے مجھے دربار میں یاد کیا ہے۔ (میں پڑھ گیا مصائب) دربار کا نام آیا‘ سیدو! مجھے معاف رکھنا‘ بی بی تڑپ گئی‘ آواز آئی‘ دربار… تو… اور… رات‘ حسین کہتا ہے‘ یہ مدینہ ہے میں حسین ہوں‘ بی بی زینب رو کے کہتی ہے‘ حسین کچھ ہو‘ جب سے اماں زہرا دربار سے خالی لوٹ کے آئی ہے‘ دربار سے اعتماد اٹھ گیا ہے‘ جب سے حسن بھائی کا جنازہ واپس آیا ہے مسلمانوں پر اعتماد نہیں رہا… نہیں جانے دیتی… حسین نے کہا‘ زینب بہن میں جانتا ہوں‘ میرا قاتل ولید نہیں‘ میرا مقتل مدینہ نہیں… میرا مدفن مدینہ نہیں۔ جب کہا نا کہ میرا مدفن مدینہ نہیں‘ بی بی نے کہا ضرور جانا ہے‘ لیکن ضمانت دے کے جا‘ واپس آئے گا‘ جب ضامن کا نام آیا‘ رونے والو! حسین نے زینب کے چہرے کو دیکھا‘ آواز آئی‘ زینب بہن میں جو کہہ رہا ہوں‘ ولید میرا قاتل نہیں‘ میں جو کہہ رہا ہوں مدینہ میرا مقتل نہیں‘ میں جو کہہ رہا ہوں مدینہ میرا مدفن نہیں‘ بی بی کہتی ہے میں جو کہہ رہی ہوں ضامن دے کے جا۔ حسین کہتا ہے میں ضامن کیسے دوں؟ بی بی کہتی ہے میں ضامن کے بغیر جانے نہیں دوں گی۔ حسین جانے لگا‘ بی بی کا ہاتھ حسین کی عبا کے دامن میں آیا… اللہ جانے کیسے گزر رہی تھیں‘ حضرت عباس کی زوجہ نے کھڑے ہو کر دیکھا‘ بی بی کا ہاتھ عبا کے دامن میں‘ حسین کہتے ہیں مجھے جانے دے‘ بی بی کہتی ہے بغیر ضمانت کے نہیں جانے دوں گی۔ یہ منظر دیکھ کے زوجہ حضرت عباس آئی عباس کے حجرے میں‘ عباس سویا ہوا ہے‘ سینے پہ فضل بیٹھا ہوا ہے‘ عباس کبھی فضل کا بایاں رخسار چومتا ہے‘ کبھی دایاں رخسار چومتا ہے‘ بی بی نے حجرے کی دہلیز پہ بیٹھ کے زمین پر لکیریں کھینچنا شروع کیں‘ فضل نے دیکھا‘ ماں کو آواز دی‘ بابا دیکھ میری ماں زمین پر بیٹھی ہے‘ تڑپ کے اٹھا عباس ‘ آواز آئی میری زندگی میں زمین پہ کیوں بیٹھی ہے؟ بی بی رو کے کہتی ہے عباس تو جانے اور فضل جانے‘ مدینہ اجڑ رہا ہے‘ آواز آئی کیا ہوا؟ آواز آئی میں دیکھ آئی ہوں زہرا کی حویلی میں حسین کہتا ہے جانے دے‘ زینب کہتی ہے کوئی ضمانت دے۔ عباس نے فضل کو سینے سے ہٹایا‘ عباس اٹھا‘ عباس باہر آیا‘ تلوار ہاتھ میں جلال کے عالم میں۔ (اللہ جانے تم سمجھو یا نہ سمجھو) جب عباس جلال کے عالم میں زہرا کی حویلی میں آتا تھا‘ زمین میں زلزلہ آتا تھا‘ ادھر زلزلہ آیا‘ ۸ جوانان بنی ہاشم ننگی تلواریں ہاتھ میں لئے ہوئے اپنے اپنے حجرے سے باہر آئے‘ ادھر دروازے میں یہ عالم ہے‘ حسین کہتا ہے جانے دے‘ بی بی کہتی ہے نہیں جانے دوں گی‘ ضمانت دے کے جا‘ ادھر عباس آیا‘ بی بی زینب نے حسین کو دیکھا‘ پھر عباس کو دیکھا‘ عباس کا ایک ہاتھ حسین کے قدموں پہ‘ ایک ہاتھ بی بی زینب کے قدموں پہ آیا۔ جب بی بی نے جھک کے دیکھا عباس ہے‘ عبا کا دامن چھوڑ دیا اور آنسو پونچھ کے کہا‘ حسین اب جا‘ ضامن آ گیا‘ میرا عباس آ گیا۔ عباس کہتا ہے‘ آقا زادی کیا حکم ہے؟ بی بی عباس کو دیکھ کے کہتی ہے‘ عباس حسین کو دیکھ‘ حسین کا عمامہ دیکھ‘ پیشانی دیکھ‘ آنکھیں دیکھ‘ ہاتھ بھی دیکھ‘ جیسا حسین جا رہا ہے ویسا لوں گی۔ (پتہ نہیں تیری سمجھ میں آئی میری بات یا نہیں‘ ماشاء اللہ آ گئے اس معیار پر) جیسا دوں گی ویسا حسین لوں گی‘ حسین چلے۔ عباس کہتے ہیں مولا مجھے ساتھ لے چلو‘ حسین نے کہا عباس تو میرے ساتھ آ‘ مولا اٹھارہ بنی ہاشم میرے ساتھ آئیں گے‘ اچھا عباس ولید کے دربار کے نزدیک آیا۔ (جتنا رو چکے ہو کافی ہے آج کے دن‘ ایک گھنٹہ پڑھ چکا ہوں‘ختم کرتا ہوں)۔ ولید کے دربار کے نزدیک آیا حسین ‘ حسین نے کہا عباس یہیں رک جا‘ عرض کی مولا رکتا نہیں‘ کیوں عباس ؟ مولا ضمانت دے آیا ہوں اپنی آقا زادی کو… کوئی گستاخ اگر گستاخی کرے عباس سے بی بی ناراض ہو جائے گی‘ حسین نے کہا عباس مجھے تنہا جانے دے‘ یہ دروازہ ہے‘ تو علی کا بیٹا ہے‘ یہ دروازہ خیبر کے دروازے سے زیادہ وزنی نہیں‘ مجھے جانے دے‘ اگر کسی نے گستاخی کی‘ میں اونچی آواز سے اللہ اکبر کہوں گا‘ پھر تیری مرضی تو جان دروازہ جانے‘ اچھا مولا ۔ تلواریں نیاموں سے نکلیں‘ عباس دہلیز پہ بیٹھا‘ حسین کی آہٹ پر کان ہیں عباس کے‘ حسین اندر گیا۔(علم عباس میرے اردگرد ہیں‘ جیسا میں نے کتابوں میں اپنی گناہگار آنکھوں سے پڑھا ہے ویسا سنا رہا ہوں‘ کوئی مبالغہ نہیں‘ کوئی حاشیہ آرائی نہیں‘ جیسے میں مصائب پڑھنے کا عادی ہوں ویسے پڑھ رہا ہوں‘ تیری مرضی ہے تو جس انداز میں سنے‘ میرا کوئی جبر نہیں)۔ حسین آئے دربار میں‘ ولید نے کرسی پیش کی‘ حسین بیٹھے۔ (ختم کر رہا ہوں بات‘ اس سے زیادہ نہیں پڑھوں گا) ولید کہتا ہے مولا معاویہ مارا گیا‘ حسین کہتا ہے ہر شخص اپنے ٹھکانے کی طرف جائے گا‘ یہ ہے حسین کا جواب‘ کہتا ہے یزید تخت نشین ہو گیا‘ حسین کہتے ہیں انا للہ و انا الیہ راجعون۔ ولید کہتا ہے‘ مولا ‘ یزید نے خط بھیجا ہے‘ حسین سے کہو کہ وہ میری بیعت کرے ورنہ… ورنہ کا لفظ تھا حسین کرسی سے اٹھے‘ ولید کہتا ہے مولا کیا جواب لکھوں… حسین نے کہا کیا تو نہیں جانتا کہ میں علی کا بیٹا ہوں؟ کیا تو نہیں جانتا کہ میری رگوں میں علی کا خون ہے؟ ادھر حسین کھڑا ہوا‘ مروان نے دیکھا‘ آواز آئی وقت یہی ہے حسین کو قتل کر دے‘ حسین پھر ہاتھ نہیں آئے گا۔ حسین واپس مڑا اور مروان کو دیکھ کے کہا‘ تیری یہ مجال‘ تو میرے نانا کے شہر میں مجھے قتل کی دھمکی دے‘ حسین نے کہا بلاؤں عباس کو… حسین کی زبان سے عباس نے عباس کا نام سنا‘ شیر کی طرح اٹھا‘ ادھر حسین نے اللہ اکبر کہا‘ تکبیر کی آواز تقدیر کی آواز تھی‘ عباس نے دونوں ہاتھ دروازے پر رکھے‘ دروازہ گرا‘ اٹھارہ بنی ہاشم کے ہمراہ عباس دربار میں پہنچا۔ (مجھے علی کی عزت کی قسم جو لفظ میں نے پڑھے ہیں) چار قدم حسین پیچھے ہٹا‘ عباس کے سینے پہ ہاتھ ہے‘ حسین کہتا ہے عباس رک جا‘ عباس رک جا‘ عباس رک جا۔ قبضہ تلوار پہ ہاتھ آیا‘ کہتا ہے مولا یہ مدینہ ہے‘ حسن کا جنازہ تھا‘ تو نے اجازت نہیں دی تھی‘ آج مجھے پوچھ لینے دے کہ زہرا کے لال کے ساتھ عباس کی زندگی میں گستاخی کون کرتا ہے۔ (سنبھل کے بیٹھ‘ روتا بھی آ سنتا بھی آ‘ صرف ۳ منٹ اور پڑھنا ہے‘ زیادہ نہیں) مولا وہ حسن کا جنازہ تھا‘ میں نے اس وقت بھی کوشش کی تھی‘ تو نے اجازت نہیں دی تھی‘ آج تو وعدہ کر کے آیا ہے عباس کسی نے گستاخی کی‘ میں تکبیر کہوں گا‘ پھر تو جان یا دروازہ جانے‘ چار قدم پیچھے ہٹا ہے حسین ‘ عباس کے چہرے کو دیکھا‘ علی کا چہرہ معلوم ہوا‘ حسین پیچھے ہٹا‘ آواز آئی‘ عباس میں حسین کہہ رہا ہوں‘ رک جا۔ جب دیکھا نا عباس کا جوش ٹھنڈا نہیں ہوا‘ اس وقت حسین کہتا ہے‘ اکبر میرے قریب آ‘ اکبر قریب آیا‘ حسین نے اکبر کے کان میں کچھ کہا‘ اکبر جانے لگا‘ اکبر کے دامن میں ہاتھ آیا عباس کا‘ اکبر نے کہا‘ حسین کا بیٹا بن کے نہیں ہاتھ جوڑ کے کہتا ہوں‘ میرا شاگرد بن کے بتا تو کہاں جا رہا ہے‘ حسین نے کیا کہا؟ اکبر کہتا ہے چاچا میرا بابا کہتا ہے‘ جلدی جا سکینہ کو لے آ‘ عباس رکتا نہیں… (سلامت رہو‘ سلامت رہو‘ سلامت ہو) سکینہ کا نام آیا عباس نے تلوار نیام میں رکھی‘ ہاتھ جوڑ کے عرض کی‘ مولا یہ دربار ہے‘ کہاں سکینہ ‘ کہاں دربار۔ آج پوچھ لینے دو‘ مولا عباس آج تو دربار میں سکینہ کا نام نہیں سن سکتا‘ جس سکینہ کا نام سن کے تیری تلوار نیام میں چلی گئی‘ اللہ جانے اس سے کتنا بڑا دربار تھا‘ جب ساڑھے تین سال کی سکینہ معصومہ کافی دیر کھڑی رہی‘ ساری رات دربار میں کھڑی رہی‘ صبح یزید نے دیکھا‘ یہ بچی کون ہے؟ شمر نے کہا یہ حسین کی بیٹی سکینہ ہے۔ یزید کہتا ہے کہ اس کے کانوں سے خون کیوں بہہ رہا ہے؟ سجاد آگے بڑھا اور اس نے کہا‘ یزید! شمر نے طمانچے مارے ہیں۔ (سن رہے ہو‘ بین سن رہے ہو‘ آوازیں‘ یہ ہے درد‘ رات کے اس وقت‘ اللہ جانے کس کس مومنہ اور مومن کے ذہن میں سکینہ کا دربار میں کھڑے رہنے کا منظر گھوم گیا) مجھے غازی کی قسم‘ جب ولید کے دربار میں عباس نے سکینہ کا نام سنا‘ زمین پر بیٹھ گئے‘ حسین کے قدموں پر ہاتھ رکھ کے عرض کی‘ مولا وعدہ کر آج کے بعد اس قسم کے کسی دربار میں سکینہ کا نام نہیں لے گا‘ مولا میری غیرت برداشت نہیں کر سکتی‘ میں غیرت مند ہوں‘ میری معصومہ کہاں‘ یہ دربار کہاں۔ (میری ایک ماں بین کر کے کہہ رہی ہے ہائے مولا غازی کی پیاری سکینہ ) او میری ماں یہی سکینہ ۷ محرم سے ۰ محرم کی دوپہر تک غازی کو تلاش کرتی رہی اور کہتی تھی کسی کو غازی مل جائے تو اسے کہنا‘ سکینہ اپنے لئے پانی نہیں مانگتی‘ میرا اصغر پیاس سے مر جائے گا۔ (بس بھائی‘ ڈھائی گھنٹے ہو گئے ہیں‘ پہلی مجلس ہے مجھے پڑھتے ہوئے) حسین واپس آیا‘ عباس کے عمامے گردن میں‘ کبھی اکبر روکتا ہے عباس ‘ کبھی حسین روکتا ہے عباس کو کہ نہ رو عباس ۔ عباس ہاتھ جوڑ کے اتنا کہتا ہے مولا مجھے اتنا بتا دے کہ میری زندگی میں گستاخی کیسے ہوئی؟ حسین کہتا ہے عباس گستاخی کوئی نہیں ہوئی‘ عباس میں غریب ہوں‘ مدینے کا چار دن کا مہمان ہوں مدینے میں‘ عباس میرے ساتھ آ‘ پیچھے پیچھے عباس ‘ آگے آگے حسین ۔ حسین اپنی حویلی میں داخل ہوا‘ زینب کھڑی تھی دروازے پر‘ حسین کے چہرے کا رنگ دیکھا‘ حسین کا عمامہ دیکھا‘ اکبر سے کہتی ہے جا شمع لے آ‘ میرا عباس کہاں ہے؟ عباس کی حالت کیا ہے؟ عباس کبھی اکبر کے پیچھے‘ کبھی قاسم کے پیچھے‘ کبھی عون کے پیچھے‘ کبھی اندھیرے میں چلا جاتا ہے۔ بی بی کہتی ہے‘ میرے سامنے کیوں نہیں آتے عباس ؟ اکبر کہتا چچا عباس بی بی زینب بلا رہی ہے۔ عباس کہتا ہے اگر بی بی نے پوچھ لیا کہ عباس تیری زندگی میں تو بھی زندہ رہا اور گستاخی کیسے ہو گئی؟ میں کیا جواب دوں گا؟ عباس سامنے آیا‘ آنکھیں دیکھیں‘ پوچھا عباس کیا ہوا؟ بی بی کچھ نہیں‘ بھائی سے پوچھ‘ اللہ جانے جو مجھے ہر مرتبہ روک کیوں رہا ہے؟ کیا دوسری دفعہ کیسے؟ بی بی میری عمر ابھی کم تھی‘ بڑے بھائی حسن کا جنازہ جب واپس آیا تھا‘ میں دوڑ کے آیا تھا‘ تلوار لینے کے لئے حسین دوڑ کے آیا تھا تجھے روکنے کے لئے کہ عباس کو تلوار نہ دینا‘ اس نے مدینے میں نہیں لڑنا۔ حسین ‘ میں نے ٹھیک کہا تھا تو نے مدینے میں نہیں لڑنا‘ بیٹھ گئے بہن بھائی‘ بی بی کہتی ہے کیا کہا ولید نے؟ حسین کہتا ہے‘ انہوں نے کہا کہ بیعت کر۔ بیعت کا نام سنا بی بی زینب کھڑی ہوئی‘ آواز دی‘ حسین تو نے کیا جواب دیا؟ حسین کہتے ہیں زینب بہن تو بتا مجھے کیا جواب دینا چاہئے؟ علی کی بیٹی کہتی ہے نہیں بیعت نہیں کرنی۔ حسین کہتا ہے بہن تو پھر وطن چھوڑنا ہو گا‘ بی بی کہتی ہے میں حاضر۔ حسین کہتے ہیں میری لاش پر اترنا ہو گا‘ بی بی کہتی میں حاضر۔ حسین کہتے ہیں یہ چادر نہیں بچے گی‘ بی بی کہتی ہے "چادر بچے نہ بچے اسلام بچ جائے"۔ انا للہ و انا الیہ راجعون
[/size]

Offline Ajnabi

  • Super Moderator
  • *
  • Posts: 3083
  • Reputation: 148
  • Gender: Male
Re: محسن المجالس
« Reply #2 on: December 18, 2009, 04:03 PM »
 JazaKallah




Offline Super boy

  • Moderator
  • *
  • Posts: 4179
  • Reputation: 582
  • Gender: Male
Re: محسن المجالس
« Reply #3 on: December 20, 2009, 11:59 AM »
 JazaKallah
Ghalat Jagah Te Laayii,Ghaltii Sadii Si
Utto'n Keeti Laa Parwayii,Ghaltii Sadi Si
Ohda Kuj Gya Nai Saada Kuj Rehya Nai
Bewafa Naal Layi Yarii Ghaltii Sadii Si...!!!