Author Topic: حضرت عباس کی شہادت  (Read 1198 times)

0 Members and 1 Guest are viewing this topic.

Offline Master Mind

  • 4u
  • Administrator
  • *
  • Posts: 4478
  • Reputation: 85
  • Gender: Male
  • Hum Sab Ek Hin
    • Dilse
    • Email
حضرت عباس کی شہادت
« on: December 17, 2009, 03:40 PM »
حضرت عباس کی شہادت
مجلس ششم حضرت عباس کی شہادت خاندان زہرا پر بلند آواز سے صلواة پڑھیں۔ مزاج عالی پر ناگوار نہ گزرے تو صلواة بلند آواز سے پڑھیں خاندان تطہیر کے احسانات کو سامنے رکھتے ہوئے صلواة خمس سمجھ کے بلند آواز سے پڑھیں۔ بڑی نوازش… بہت بہت شکریہ…! محمد و اہل بیت محمد کا خالق محمد و اہل بیت کے تصدق اور طفیل میں آپ کا ان مجالس میں حاضری کا آپ کو بہترین اجر عطا فرمائے۔ آپ سے میری گزارش ہے کہ کثرت مجالس اور سفر کی وجہ سے میری آواز شاید کافی متاثر ہو آپ میرے الفاظ کو اپنی سماعتوں میں جگہ دیتے جائیں میری حوصلہ افزائی ہوتی جائے گی یہ دارالشفاء ہے یقینا۔ آج میں جس ہستی کا تذکرہ کرنے لگا ہوں اس کے صدقے میں خالق مہربانی کرے گا صلواة اتنی بلند پڑھیں جتنے آل محمد بلند ہیں… (پوری توجہ) آج ساری مجلس کردگار وفا کے نام ہے کردگار وفا وفا کی سلطنت کا مطلق العنان سلطان میں پہلے لفظ سے آخری لفظ تک آج کی مجلس کا ایک ایک لفظ جناب امیرالمومنین کی غیرت و شجاعت کے عظیم وارث "سرکار وفا"، "باب الحوائج" حضرت عباس کے نام کرتا ہوں۔ آپ سے دست بستہ گزارش ہے کہ جتنا جلال عباس کے نام میں ہے اسے سامنے رکھتے ہوئے بہت اعلیٰ معیار پر اپنی سماعتوں کو رکھیں تاکہ مجلس مکمل طور پر پُرنور ہو جائے جو باب الحوائج سے اپنی حاجتیں طلب کرنا چاہتا ہے صلواة اسی معیار سے پڑھے۔ پہلا لفظ اسی سے مجھے محسوس ہو جائے گا کہ پوری توجہ سے آپ سماعت فرما رہے ہیں پہلا لفظ کہ جو شیر اپنی ماں کی آغوش میں اپنے بدترین دشمن کو سزا دے کر اپنی دلیری کی خالق سے سند حاصل کرے اسے "اسد" کہتے ہیں جو شیر اپنی ماں کی آغوش میں اپنی ماں کی گود میں اپنے منافق ترین اور بدبخت ترین دشمن کو سزا دے کر اپنی بہادری کی اپنے خالق سے سند حاصل کرے اسے "اسد" کہتے ہیں۔ پھر کہتا ہوں: جو شیر اپنی ماں کی گود میں اپنے بدترین منافق ترین بدنیت ترین اپنے دور کے ابوجہل کو سزا دے کر اپنے خالق سے دلیری کی سند حاصل کر لے اسے "اسد" کہتے ہیں جس شیر کی پہلی گونج سے ہوا راستہ بھول جائے اسے ضیغم کہتے ہیں جس شیر کے قدموں کی آہٹ سے پرندے اپنے آشیانوں میں سہم جائیں اسے غضنفر کہتے ہیں جو شیر آنکھ اٹھائے اور ماحول کی تقدیر بدل دے اسے قسور کہتے ہیں جو شیر بلاشرکت غیرے حکمرانی کرے اسے قیصر کہتے ہیں۔اورجو شیر اپنے شکار کو دو برابر حصوں میں تقسیم کر کے خود نہ کھائے بلکہ بھوکے حیوانوں کے لئے "رزق" بنا کے چھوڑ دے اسے "حیدر" کہتے ہیں۔ (نعرئہ حیدری) جو شیر شکار کی تلاش میں خود نہ نکلے بلکہ شکار اسے تلاش کرتا ہوا اس کے قدموں پہ آ کے خالق سے دعا کرے کہ مجھے اس کا رزق بنا اسے "عباس" کہتے ہیں۔(نعرئہ حیدری) جو شیر اپنے شکار کی تلاش میں خود نہ نکلے بلکہ بے نیازی سے اپنے مسکن کے دہانے پر بیٹھا رہے اور ڈاروں کی ڈاریں خود چل کے اس کے پاس آئیں اور دعا مانگیں کہ خالق ہمیں اس کا رزق بنا اسے "عباس" کہتے ہیں۔ وفا کا کردگار عباس سلطنت وفا کا مطلق العنان سلطان عباس علی کی شجاعت کا وارث عباس کربلا والوں کی مشکل میں مشکل کشاء عباس کائنات کے ہر مجبور انسان کے لئے باب الحوائج عباس پہلے دن سے آخری دن تک جس نے اپنی وفا کو مستند بنا دیا۔ عباس وہ لفظ ہے جسے لکھو تو کہیں زیر نہیں آتی جس کا نام زیر نہ ہو وہ دشمن سے کیسے زیر ہو؟ (جاگتے آؤ… جاگتے آؤ) چار حرف ہیں عباس کے نام ہیں… ع- ب- ا- س پہلا صرف ع- دوسرا ب تیسرا الف اور چوتھا حرف "س"، یہ حروف کہاں سے لئے گئے۱ # چن لی خیال نے جو ازل سے علی کی عین "ب" بضعتہ الرسول کی عصمت کا زیب و زین "الحمد" کے "الف" کا سراپا دلوں کا چین والانس کی یہ سین یہ نطق دل حسین ہر حروف کائنات کا عکاس بن گیا دیکھا جو غور کر کے تو عباس بن گیا (نعرئہ حیدری) ایک چھوٹا سا واقعہ سناتا ہوں پھر ذکر عباس ایک کتاب شائع ہوئی ہے اس کا نام ہے "ملاقات امام زمان " نوٹ کر لو یہ کتاب مرتب کی ہے آقائے حسن ابطحی نے ایران سے تعلق ہے ان کا بہت بڑے سکالر ہیں بہت بڑے سکالر ہیں بہت بڑے عالم ہیں آقائے حسن ابطحی انہوں نے یہ کتاب مرتب کی ہے دو جلدوں میں فارسی میں لکھی ہے اس کا ترجمہ ولی العصر ٹرسٹ نے شائع کیا ہے اب آ گئی ہے ہر جگہ… "ملاقات امان زمان " جن لوگوں نے جاگتے ہوئے یا خواب میں امام زمانہ کی زیارت کی ہے معصوم سے مشورے کئے ہیں معصوم سے ہدایات لی ہیں وہ سارے واقعات اس کتاب میں درج ہیں ان کے انٹرویوز درج ہیں سارے واقعات درج ہیں جس جس نے ملاقات کی اس میں ایک عنوان ہے جس کے لئے میں نے یہ بات شروع کی "حضرت عباس کی مجلس میں امام زمانہ کی حاضری"، اس میں اس نے لکھا ہے کہ ایک مجتہد حج پہ جا رہے تھے اپنا قافلہ لے کے تو انہوں نے دو رکعت نماز زیارت معصوم پڑھی کہ امام زمانہ مجھے زیارت کرائیں اور حج کے بارے میں کچھ ہدایات دیں ابھی وہ دعا مانگ رہے تھے کہ کمرہ روشن ہو گیا امام تشریف لائے۔ مولا فرماتے ہیں کہ حج پر جا رہے ہو تمہیں مبارک ہو۔ مجتہد نے عرض کی سرکار کچھ ہدایات دیں۔ معصوم نے کہا جو ہدایات درج ہیں شرع میں وہی پوری کرو اور اپنی طرف سے امام زمانہ نے ارشاد فرمایا کہ میں یہ کہتا ہوں کہ جب یوم عرفہ یعنی عرفہ کے دن میدان عرفات میں جاؤ تو وہاں ایک مجلس کرنا اور منادی یہ کرنا کہ کوئی بیمار ہو کوئی معذور ہو کوئی اولاد چاہتا ہو وہ سب اس مجلس میں آئیں شرط یہ ہے کہ مجلس کا موضوع "حضرت عباس " ہو۔ کتاب کا حوالہ میں نے دیا "ملاقات امام زمان " عنوان کا حوالہ دیا مجلس عباس میں امام زمانہ کی حاضری وہ کہتا ہے مولا کوئی خاص بات ہے۔ سرکار فرماتے ہیں کہ جو مجلس سرکار وفا حضرت عباس کے نام سے منسوب ہو جس مجلس میں مومنین و مومنات یہ طے کر کے آئیں کہ اس مجلس میں صرف قمر بنی ہاشم حضرت عباس کا ذکر ہو گا جو مجلس مخصوص ہو حضرت عباس کے نام سے محمد سے عسکری تک سب میرے ذمے یہ فرض عائد کرتے ہیں کہ میں اس مجلس میں خود جاؤں سب کچھ چھوڑ کے اس مجلس میں جاؤں اور جو مومنین اور مومنات حضرت عباس کے فضائل سن کے خوش ہوں اور عباس کے مصائب پر بے تحاشہ روئیں میں امام زمانہ کی حیثیت سے ان کے دل کی حاجات وہیں خود لکھ کے ان کی قبولیت پہ اپنے دستخط کر کے فرشتوں کے ذمے لگاؤں کہ ابھی یہ مجلس سے اٹھ کر باہر نہ جائیں کہ ان کی حاجتیں پوری ہو جائیں۔ یہ تھا پیغام جو میں آپ کو سنانا چاہتا تھا کبھی کوئی حاجت ہو تو حضرت عباس کے نام کی مجلس کر کے چونکہ امام زمانہ نے کہا ہے شک ہم کر نہیں سکتے معصوم کا قول ہے خدانخواستہ خاکم بدھن یہ فرمان من گھڑت ہو نہیں سکتا امام زمانہ امام حاضر کا قول ہے۔ اس نے آگے لکھا کہ میں نے مجلس کرائی ایک مستور مفلوج تھی جس کو فالج ہوا تھا ویل چیئر یعنی پہیوں والی کرسی پہ بیٹھ کے آئی مجلس میں میں ذکر عباس کر رہا تھا وہ بی بی زیادہ داد دے رہی تھی بہت زیادہ تسبیح و تحلیل کر رہی تھی۔ جناب عباس کے ذکر پہ خوش ہو رہی تھی میں نے دیکھا کبھی کبھی وہ مستور کسی ایک خاص سامع کی طرف دیکھتی ہے۔ کہتا ہے میں نے بھی دیکھا اس سامع کی طرف وہ میرا معصوم امام تشریف فرما تھا معصوم نے فرمایا تھا کہ میرا بتانا نہیں آخر امام نے اس مستور سے کہا کہ کرسی چھوڑ کے چلنا پھرنا شڑوع کر اس نے کہا مولا میں تو چل پھر نہیں سکتی۔ امام نے کہا میں تجھے حکم دیتا ہوں وہ کرسی سے اتری اور چلنا شروع کیا اس نے محسوس کیا کہ وہ پہلے سے زیادہ تندرست ہے۔ وہ آگے لکھتا ہے کہ میں نے بتا دیا کہ امام موجود ہے اگر کچھ مانگنا ہو تو مانگ لو شرط یہ ہے کہ ذکر عباس میں گم ہو کے فضائل اس طرح سے سنو معصوم آپ کی پوری کرے اور مصائب بھی اس طرح سنیں تاکہ معصوم آپ کی حاجتیں پوری فرما دے۔ میں نے یہ قول اس لئے پڑھا کہ میرا فرض تھا اس لئے کہ کسی کے دل میں کوئی خواہش ہو میں نے امام کا قول آپ کو سنا دیا میں معصوم کی خدمت میں گزارش کرتا ہوں کہ مولا آپ کا قول ہے آپ کا فرمان ہے آپ صادق ہیں اتنے مومنین و مومنات مجمع میں تشریف لائیں صدارت فرمائیں میں ذکر عباس شروع کرنے لگا ہوں جو جو فضائل سن کے خوش ہوتا جائے آپ دلوں کے راز بہتر جانتے ہیں جس جس کی جو خواہش ہو تمنا ہو آپ قبول فرماتے ہیں آپ مہربانی کریں آپ کو عباس کا واسطہ آپ تشریف لائیں اور مومنین و مومنات کی خواہشات اور نیک تمناؤں پر دستخط کر کے شرف قبولیت بخشیں چونکہ میں نے امام کو دعوت دی ہے اب اجازت ہو تو شروع کر دوں ذکر عباس میرا ایمان ہے میرا یقین ہے کہ اتنی دیر میں زمین کی کتابیں سمیٹ کے یہ خاندان زہرا پہنچ جاتا ہے۔ پہلی رباعی پیش خدمت ہے۱ # شجاعت کا صدف مینارہ الماس کہتے ہیں غریبوں کا سہارا بے کسوں کی آس کہتے ہیں یزیدی سازشیں جس کے علم کی چھاؤں سے ترسیں اسے ارض و سما والے سخی عباس کہتے ہیں (نعرئہ حیدری) عباس کی وفا سے جسے بھی عناد ہو اس کو خطاب کوفی و شامی دیا کرو جب بھی مقابلے میں صفیں ہوں یزید کی عباس کے علم کو سلامی دیا کرو (نعرئہ حیدری) سینے میں جو عباس کے قدموں کی دھمک ہے ہیبت رخ گیتی کی سر عرش تلک ہے یہ کہہ کے گزرتا ہے گرجتا ہوا بادل بجلی تیرے عباس کے لہجے کی کڑک ہے (چمن چمن کلی کلی علی علی علی علی نگر نگر گلی گلی علی علی علی علی ) (نعرئہ حیدری) نبضیں لرز رہی ہیں ضمیر حیات کی سانسیں اکھڑ رہی ہیں دل کائنات کی عباس کے غضب کا اثر ہے کہ آج تک ساحل سے دور دور ہیں موجیں فرات کی (نعرئہ حیدری) کیوں کہہ رہے ہو رین بسیرا ہے زندگی صحرائے کربلا کا سویرا ہے زندگی ڈرتی ہے ان سے موت بھی جن کی نگاہ میں عباس کے علم کا پھریرا ہے زندگی (دم مست قلندر علی علی کعبے کا گوہر علی علی ذرا اگلے بولو علی علی ذرا پیچھے بولو علی علی … نعرئہ حیدری) وسعت جری میں گردش دوراں کی باگ ہے عباس کی وفا میرے دیں کا سہاگ ہے عباس کے کرم کی سند ہے وہ بہشت عباس کا غضب ہی جہنم کی آگ ہے (نعرئہ حیدری) نوبت بجی سجی وہ خیالوں کی انجمن! (میرا ایمان ہے جو شک کرے وہ جانے اور امام جانے میرے امام کی رِیت ہے میں نے اولاد بھی لینی ہے رزق بھی لینا ہے شفاء بھی لینی ہے اپنے قرضے بھی ادا کروانے ہیں میں نے کیا کچھ لینا ہے اپنے امام سے میرا امام مجھ سے زیادہ بہتر جانتا ہے یہ اپنا عقیدہ ہے میں نے تو سب کچھ امام زمانہ سے مانگنا ہے اور لینا ہے آج اس کی صدارت ہے یہ اپنی اپنی مودة ہے جنون ہے جس کو جتنی مودة ہو گی اتنا وہ لے گا)۱ # نوبت بجی سجی وہ خیالوں کی انجمن پیدا ہوئی جبیں تخیل پہ اک شکن بکھری شفق میں ڈھل کے نکھرتی ہوئی کرن پہنا عروس وقت نے غیرت کا پیرہن ابھرا ہے ماہتاب جو امام البنین کا ملتا ہے آسمان سے مقدر زمین کا (نعرئہ حیدری) اللہ رے بچپنے میں یہ عباس کی پھبن انگڑائیوں میں گم ہے قیامت کا بانکپن آنکھیں ہیں شوخ شوخ تو چہرہ چمن چمن رخسار پھول پھول تو زلفیں شکن شکن عباس کبریا کا عجب انتخاب تھا طفلی میں بھی علی کا مکمل شباب تھا حیدر کے بعد ملک شجاعت کا نامور وہ بادشاہ صبر و تحمل کا ہمسفر جس نے کیا امام شریعت کے دل میں گھر جس کے نقوش پا کی بھکارن بنی سحر جب بھی نبی کے دیں پہ کوئی حرف آ گیا عباس فاطمہ کی دعا بن کے چھا گیا (نعرئہ حیدری) کردار کردگار کی شاہی میں لازوال گفتار بولتے ہوئے قرآن کی مثال رفتار میں وہ عزم کہ محشر میں پائمال چہرے پہ وہ جلال کہ یاد آئے ذوالجلال وہ حشر کی تیش کا بھلا کیوں گلا کرے عباس کا علم جسے چھاؤں عطا کرے (علی کا واسطہ دیکھنا میری طرف نقوی صاحب شاہ صاحب میر صاحب ایک مصرعہ ہے میں بھی اگر دس جنم لے کے واپس آؤں تو دوبارہ آ کر پھر بھی ایسا مصرعہ نہیں کہہ سکتا۔ عباس نے دیا ہے یہ مصرعہ ہے تیری سمجھ میں آ گیا تو قیامت تک میرے حق میں دعا تجویز فرض ہو جائے گی)۱ # جس کی جبیں کے تل سے زیادہ نہ تھی فرات مٹھی میں تند و تیز شجاعت کی کائنات قدموں کی ٹھوکروں سے لپٹتے تھے معجزات عباس کربلا میں وہ جوہر دکھا گیا بوڑھے بہادروں کو علی یاد آ گیا (نعرئہ حیدری) (معراج میں لے کے جا رہا ہوں آپ کو میری اپنی مودة ہے میرا اپنا عشق ہے اپنا جنون ہے اپنی عقیدت ہے) حملے وہ تیغ تیغ تو بازو یہ ڈھال ڈھال آنکھ ہیں زخم زخم تو مجروح بال بال اعضاء میں چور چور تو زخمی ہے خال خال دریا لہو لہو ہے تو پانی ہے لال لال پیاسہ پلٹ رہا ہے مگر سرفراز ہے عباس کبریا تو نہیں بے نیاز ہے (سلامت رہو مجھے پتہ ہی نہیں چلا کہ میں ۴۷ منٹ پڑھ گیا یہ جذبہ تھا نا عباس کا)۔ اتنا بڑا عباس ہاتھ ملتا گیا اجازت نہیں ملی چونکہ امام زمانہ کی صدارت ہے زیادہ دیر زحمت نہ ہوں امام زمانہ کو… دنیا جہان کی سلطنت میں… مصائب کا آغاز کر رہا ہوں ۳۴ سال کا عباس ہاتھ ملتا گیا اجازت نہیں ملی اگر اجازت مل جاتی تو کربلا کا نقشہ اور ہوتا جس کے دل میں قبر ہے عباس کی… وہ یہ نہ دیکھے کہ ساتھ کون بیٹھا ہے۔ عباس ملک وفا کا وہ سلطان ہے کہ ساری زندگی خود کو حسین کا غلام کہلواتا رہا بچپن میں حسین کا غلام کہلوایا ساری زندگی غلام بن کے رہا۔ (شاہ جی) یہ وہ عباس ہے دسویں کی رات جب بی بی فضہ نے کہا بی بی زینب سے کہ بی بی ہر مستور پریشان ہے۔ بی بی نے فضہ سے کہا ساری مستورات کو اکٹھا کرو جب بیبیاں اکٹھی ہوئیں تو بی بی زینب نے کہا گھبراؤ نہیں تمہارے پردے کی میں زینب ضامن ہوں۔ تمہاری چادروں کی میں زینب ضمانت دیتی ہوں گھبراؤ نہیں لیکن دوسرے دن ۱۰ محرم کو جب عباس کا علم عباس کے ہاتھ سے گرا بی بی نے مڑ کے دیکھا بیبیوں کی طرف دیکھ کے رو کے کہتی ہے رات جو میں نے ضمانت دی تھی اپنے الفاظ واپس لیتی ہوں میرا آسرا ٹوٹ گیا میرا سہارا ٹوٹ گیا میرا عباس گر پڑا میں نے وعدہ کیا تھا وہ میرا بھائی گر پڑا۔ یہ وہ عباس کہ ۲۸ رجب کو جب حسین نے مدینہ چھوڑا جب مدینہ سے باہر شجرة الوداع کے پاس پہنچا تو حسین نے دیکھا کہ ایک ضعیفہ ہے کمر جھکی ہوئی ہے عصا کے سہارے چلتی ہوئی بار بار اشارے کر کے کہتی ہے قافلے والو! رک جاؤ رک جاؤ۔ رک گیا قافلہ… قریب گیا اس مستور کے حسین گھوڑے سے اترا اپنی عبا اس کی چادر پہ ڈال کے کہا اماں ام البنین آپ اتنا سفر کر آئی ہیں خیریت تو ہے؟ عباس کی ماں ام البنین کہتی ہے زہرا کے بیٹے میں زہرا کی کنیز ہوں معافی چاہتی ہوں تجھے اتنی تکلیف دی میرا عباس کہاں ہے؟ حسین کہتے ہیں وہ سامنے ہے۔ بی بی کہتی ہے عباس کو بلا عباس ٓقریب آیا ماں کی قدم بوسی کی ماں کے قدم چومے۔ آواز آئی عباس اپنی بہن رقیہ کو بلا بی بی رقیہ قریب آئی حسین اگر تکلیف نہ سمجھے تو تھوڑی دیر انتظار کر میں عباس اور رقیہ کو ساتھ لے جا رہی ہوں تھوڑی دیر میں میں ابھی واپس آئی عباس اور رقیہ کو ساتھ لے کے بی بی کہاں آئی؟ رسول کے روضے پر۔ عباس دروازہ بند کر عباس نے دروازہ بند کیا بی بی کہتی ہے میں کون ہوں؟… اماں تو میری ماں ہے۔ عباس یہ کیا ہے؟ اماں یہ نبی۱کی قبر ہے۔ آواز آئی کہیں روشنی تو نہیں آ رہی ناں؟ اماں روشنی نہیں ہے ضعیفہ ماں نے اپنے سینہ سر سے چادر اتاری۔ عباس اپنا دایاں ہاتھ مجھے دے رقیہ اپنا دایاں ہاتھ مجھے دے میرے سر پر ہاتھ رکھ دو دوسرا ہاتھ نبی۱کی قبر پہ رکھ کر میرے ساتھ وعدہ کرو نبی۱کی قبر کو ضامن بنا کے میری چادر کی قسم کہ دونوں وعدہ کرو کہ سفر میں کہیں زینب اور حسین کو چھوڑ تو نہیں جاؤ گے؟(یہ ہے ماں… روتے بھی آؤ سنتے بھی آؤ… پتہ نہیں میرا بزرگ نوجوان پیچھے کھڑے ہو کے رو رہا ہے اس نے نہ عباس کو زین سے گرتے ہوئے دیکھا نہ حسین کی پریشانی دیکھی کھڑے ہو کر ماتم کر رہا ہے رو رہا ہے حسین کی پریشانیوں کے صدقے میں مولا اس کی پریشانیاں دور کرے۔"آمین!") جب بی بی نے کہا نا عباس اور رقیہ کہیں سفر میں زینب اور حسین کو چھوڑ تو نہیں جاؤ گے عباس نے قسم کھا کے کہا اماں تیری چادر کی قسم! اگر بچ کے آئیں گے وہ تجھے بتائیں گے کہ عباس نے کس طرح وفا کی ہے۔ بی بی رقیہ سے کہا جوان لڑتے رہتے ہیں شہید ہوتے رہتے ہیں رقیہ وعدہ کرو کہ عباس کے ہاتھ سے گرتے ہوئے علم کو ایسے لو گی کہ زہرا کی بیٹیوں کو احساس تک نہ ہو کہ عباس مارا گیا ہم بے آسرا ہو گئے یہ وفا ہے ام البنین کی۔ جب رہا ہو کے آئے اور مدینے میں منادی ہوئی بشر ابن یزلم مہاری نے جب مدینے کی گلیوں میں مدینے کے بازاروں میں منادی کی کہ مدینے والو! حسین مارا گیا پردہ دار شام کی قید گزار کے مدینے سے باہر آ گئیں… جب یہ اطلاع پہنچتے پہنچتے جناب ام البنین تک پہنچی بی بی دو کنیزوں کو ساتھ لے کر عصا کے سہارے وہاں پہنچی جہاں بشیر منادی کر رہا تھا بی بی اس وقت پہنچی جب بشیر کہہ رہا تھا لوگو! عباس مارا گیا جب یہ سنا بی بی نے کہا… خاموش… بشیر خاموش ہوا… پوچھا یہ بی بی کون ہے؟ آواز آئی آنکھوں پہ ہاتھ رکھ یہ عباس کی ماں ام البنین ہے۔ آنکھوں پہ ہاتھ رکھ کے کہتا ہے بی بی پرسہ لے تیرا عباس مارا گیا بی بی کہتی ہے میں عباس کا نہیں پوچھتی مجھے یہ بتا میرا حسین کیسا ہے؟ آواز آئی بی بی حسین بھی مارا گیا۔ بی بی کہتی ہے اچھا یہ بات کہ پہلے حسین مارا گیا یا عباس آواز آئی عباس پہلے مارا گیا… بی بی کہتی ہے اب یہ بتلا (لفظ سن لو ساری رات رونے کے لئے کافی ہیں) جب بشیر نے کہا پہلے عباس مارا گیا بی بی کہتی ہے اچھا یہ بتا… عباس کتنے دن لڑتا رہا؟ آواز آئی کیوں بی بی؟ بی بی کہتی ہے ایک دن میں دشمن سے مرنے والا عباس نہیں کتنے دن لڑا ہو گا؟ کتنے مارے ہوں گے؟ عباس آسانی سے شکست نہیں کھاتا۔ بشیر نے رو کے کہا بی بی تیرے عباس کو اجازت نہیں ملی۔ بی بی رو کے کہتی ہے کس نے اجازت نہیں دی؟ آواز آئی… حسین و زینب نے… اچھا اب یہ بتا کہ زخم عباس کے سینے پر تھے یا پشت پر… بی بی سینے پر… اب یہ بتا کہ اس کے بعد عباس کی لاش زہرا کی بیٹیوں کے سامنے تو نہیں گئی؟ آواز آئی نہ… بی بی ام البنین رو کے کہتی ہے اب یقین آ گیا حسین بھی مارا گیا زینب بھی قید ہو گئی اب یقین آ گیا۔ (کرتا آ ماتم…) بی بی کہتی ہے اب یقین آ گیا حسین بھی مارا گیا زینب بھی شام گئی ہو گی کیونکہ میرا عباس جو مارا گیا۔ (میں رات بھی ڈر گیا تھا میں نے رات عین مصائب کی معراج پر پہنچ کر مجلس چھوڑ دی تھی لیکن افسوس ہے کہ میرے بعض دوست کہتے تھے کہ آج مصائب کم پڑھیں انہیں یہ نہیں پتہ کہ جب آدمی مصائب میں کھو جاتا ہے اس وقت کیا ہوتا ہے نرم دل شیعہ ہوں میں عباس کی شہادت اس طرح پڑھوں جسے من و عن میں نے پڑھا ہے کتابوں میں مجھے پاک ذوالجلال کی قسم نہ یہ شامیانے رہیں گے نہ یہ دیواریں رہیں گی مومن ٹکریں مار مار کے مر جائیں گے پردہ دے کے پڑھتے ہیں مومن ہیں نرم دل میری مائیں بہنیں بیٹھی ہیں)۔ عباس بذات خود اتنا بڑا مصائب ہے… جناب سجاد رہا ہو کے آئے مدینے میں ایک مجلس کروائی ذاکر بلوایا ذاکر نے امام زین العابدین کے سامنے کسی بات پر عباس کا نام لیا میرا زخمی اور بیمار آقا آہستہ سے کھڑا ہوا دونوں ہاتھ پیشانی پہ آئے اور کہا: السلام علیک یا قمربنی ہاشم… "اے قمر بنی ہاشم تجھ پہ میرا سلام"۔ پھر ذاکر نے عباس کا نام لیا پھر سجاد کھڑا ہوا سلام پڑھا جب سات دفعہ میرا مولا سجاد کھڑا ہوا تو ذاکر کہتا ہے مولا آپ نماز پڑھتے ہوئے تھک جاتے ہیں تیرے پاؤں میں زخم آ جاتا ہے مولا آپ کیوں بار بار کھڑے ہوتے ہیں؟ مولا تو بیمار ہے اتنی دیر کھڑے رہنے کی سکت نہیں تو پھر تو عباس کے نام پر بار بار کھڑا کیوں ہوتا ہے؟ مولا فرماتے ہیں ذاکر تو قیامت تک عباس کا نام لیتا رہے میں بار بار کھڑا ہوتا رہوں لیکن میں پھر بھی عباس کے احسان کا قرض ادا نہیں کر سکتا۔ مولا کون سا احسان؟ آواز آئی کیا یہ احسان کم ہے کہ دسویں کی رات زہرا کی بیٹی کو کوئی خوف نہیں تھا۔ (ختم کرتا ہوں مصائب!) دو محرم کو عباس آیا کربلا میں۔ (آنکھوں پہ پٹی باندھ کے اپنی ماؤں اور بہنوں سے کہہ رہا ہوں رقیہ کے بھائی کا ذکر ہے عباس کی بہن لاہور میں تمہاری مہمان ہے شام سے بی بی زینب آئے یا نہ آئے میں لاہور میں عباس کے نام کی مجلس پڑھ رہا ہوں آؤ عباس کی بہن کو مل کے پرسہ دیتے ہیں اللہ جانے میری آقازادی کہاں بیٹھی ہے؟) کل اگر بی بی پاک دامنا جاؤ تو کہنا بی بی رات ہم نے پرسہ دیا تھا پرسہ قبول کر جو مسافر ہیں وہ بے شک آج رات کو چلے جائیں جناب رقیہ کو پرسہ دینے کے لئے عباس اتنا بڑا نام ہے غازی کے علم کی قسم میں بہت عزت کرتا ہوں مومنین کی بہت احترام کرتا ہوں عزاداروں کا جو میرے سامنے بیٹھے ہیں ان کی جوتیاں میرے سر کا تاج ہیں۔ میں مصائب شروع کر رہا ہوں میں سید ہوں سیدوں سے معافی لے کے آؤ ہم سیدوں کو پرسہ دیں ایک دوسرے کی گردن میں بانہیں ڈال کے ایک دوسرے کو سید پرسہ دیں عباس کا۔ عباس اکیلا نہیں گیا جب عباس کی موت کی خبر خیمے پہنچی ہے۔ علامہ آقائے دربندی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں ۴۸ یتیموں کے ہاتھوں میں کاسے خالی رہے روح پرواز کر گئی۔انا للہ و انا الیہ راجعونo ہمارا عباس مارا گیا ہمیں پانی کوئی نہیں پلائے گا۔(سلامت رہو سلامت رہو روتے آؤ اگر دعائیں قبول کرانی ہیں اس نوجوان کو بٹھا دو بھائی تو اگر بے ہوش بھی ہو جائے گا تجھے پانی دینے والے ہیں سادات کے بچوں کو پانی نہیں ملا)۔ عباس کی شہادت کی خبر ۴۸ بچوں پر بجلی بن کے گری روح پرواز کر گئی کاسے ہاتھوں میں رہ گئے۔( تسلی سے پڑھوں گا حوصلہ روتے آؤ سنتے آؤ صفت شاہ صاحب کہہ رہے ہیں کیا وہ ظالم مسلمان تھے؟ شاہ جی کلمہ پڑھتے تھے مجھے علی کی عزت کی قسم پڑھتا ہوں مصائب پڑھتا ہوں یہ وہ باتیں کہہ رہا ہوں جو بعد میں شاید نہ کہہ سکوں)۔ یہ وہ عباس ہے جب ۱۱ محرم کو تیری آقازادی زینب خاک شفا کا برقعہ پہن کر خاک شفا کی چادر سر پر پہن کر میری آقازادی بغیر پلان کے اونٹ پر سوار ہوئی شہیدوں کے سر نیزے پہ سوار ہوتے رہے عباس کا سر نیزے پر ۹ دفعہ سوار ہوا گر پڑا پھر گر پڑا۔(رونے والو! کہاں تک برداشت کرو گے؟) جب سر نو دفعہ نیزے پر سوار نہیں ہوا تو شمر کہتا ہے سجاد تیرے چچا کا سر نیزے پر سوار کیوں نہیں ہوتا؟ (ثانی زہرا میں بڑے مشکل موڑ پر ہوں) شمر نے کہا سجاد تیرے چچا کا سر نیزے پہ سوار کیوں نہیں ہوتا؟ ظالم تجھے کیا خبر ہے سجاد ماتم کر کے کہتا ہے میری پھوپھی کا سر ہے برہنہ سر پر چادر نہیں میرے چچا کا سر نیزے پہ سوار ہوتا ہے آنکھ کھلتی ہے میری آقازادی کا سر نظر آتا ہے عباس کا سر نیزے سے گر پڑتا ہے۔ (اب اگر مجھے دعائیں دینے کے لئے بیٹھے ہو میں اگر غلط پڑھوں میرا حشر شمر کے ساتھ ہو بی بی میری شفاعت نہ کرے اگر میں صحیح پڑھوں تو زہرا کی بیٹی کو پرسہ دو آنکھیں پیاری نہ کرو نہ چہرے نہ ہاتھ ماتم بھی کرو پرسہ بھی دو)۔ جب ۹ دفعہ عباس کا سر نیزے پر سوار نہیں ہوا تو شمر کہتا ہے اچھا یہ سوار نہیں ہوتا شمر نے سر دیا خولی کو… خولی (لعنت) نے ایک رسی لے کے عباس کے ایک کان سے لے کر اس کان تک رسی عباس کے سر میں ڈالی پتہ نہیں کس چیز سے ڈالی رسی ڈال کے سر گھوڑے کی گردن میں باندھا میں نے قسم کھا کے بات کی ہے عباس کا سر خولی کے گھوڑے کی گردن میں… مجھے علی کی عزت کی قسم… جب سر واپس ملے بی بی زینب پہچان نہیں سکیں پوچھا یہ کس کا سر ہے؟ کہا عباس ہے۔ بی بی رو کے کہتی ہے سجاد میرا عباس ایسا تو نہیں تھا… (کرتے آؤ ماتم کرتے آؤ ماتم… حوصلہ اور میرے نوجوان پاک غازی کی قسم… بی بی زینب کی چادر کی قسم میں نے قسمیں کھائیں ہیں میں اس لئے قسمیں کھاتا ہوں کہ سنو مصائب مجھے پاک علی کی قسم عباس تیار ہوا جو لوگ آگے آ کے بیٹھے ہیں اور کہتے ہیں محسن نقوی مصائب پڑھا کر وہ سنیں بھی سہی… میں مصائب پڑھنے لگا ہوں)۔ ۹ محرم کی رات گزر گئی دسویں کی رات گزر گئی دسویں کی صبح ہوئی اکبر کی لاش خیمے میں آئی قاسم کی لاش خیمے میں آئی عباس اپنے خیمے میں آیا کب خیمے میں آیا؟… جب فضل کی ماں سامان سمیٹ کے فضل کو ساتھ لے کے تیاری کر کے بیٹھی ہے۔ آواز آئی فضل کی ماں کہاں جاتی ہے؟ فضل کی ماں کہتی ہے تو جان کربلا جانے میں جا رہی ہوں نجف۔ آواز آئی کیوں جاتی ہے؟ آواز آئی حسین کی پیاری بیٹی سکینہ چودہ دفعہ تیرے خیمے کا چکر لگا لگا کر کہتی ہے میرا اصغر مر جائے گا میرے اصغر کے لئے پانی لے آ اصغر کو پانی پلا دو۔ عباس کہتا ہے حسین اجازت نہیں دیتا۔ جب عباس نے کہا کہ حسین مولا اجازت نہیں دیتا دو چھوٹے چھوٹے ہاتھ عباس کے قدموں پر آئے عباس نے جھک کر دیکھا ساڑے تین سال کی سکینہ ہاتھ جوڑ کے کہتی ہے چاچامیں زندگی بھر پانی نہیں مانگوں گی میرا اصغر مر جائے گا۔ میرے اصغر کے لئے پانی لا دے۔ (کرتے آؤ ماتم کرتے آؤ ماتم) (امام زمانہ کی موجودگی میں امام زمانہ کی حاضری میں اللہ جانے یہ مجلس کہاں تک پہنچے گی ایک لفظ بھی محسن نقوی اپنی طرف سے کہے امام زمانہ سزا دے شہادت پڑھتا ہوں تو روتا آ…) عباس کہتا ہے شہزادی تیرا بابا اجازت نہیں دیتا آواز آئی بابا کی میں ذمہ دار ہوں۔ عباس نے خود اٹھائی زرہ پہنی عباس نے تلوار لی مشکیزہ اٹھایا سکینہ کہتی ہے مشکیزہ میں پہناؤں گی۔ عباس کہتا ہے میرا قد بڑا ہے تیرا قد چھوٹا ہے سکینہ کہتی ہے نا چاچا مشکیزہ میں خود پہناؤں گی جب سکینہ نے ضد کی عباس نے جھکنا شروع کیا جھکتے جھکتے دونوں ہاتھ عباس کے سکینہ کے قدموں پہ آئے عباس کا منہ پھر گیا مدینے کی طرف آواز آئی اماں ام البنین آ دیکھ اپنے بیٹے کی وفا آ دیکھ عباس کی وفا اماں حسین کی بیٹی کے پاؤں ہیں میرے ہاتھ ہیں۔ (روتا آ کرتا آ ماتم… حوصلہ حوصلہ میں ہاتھ جوڑ کے کہتا ہوں اور میرا کمسن نوجوان بیٹھ جا بیٹھ جا مجھے دو منٹ کے لئے پڑھنے دے)۔ ادھر عباس تیار ہوا اور حسین اور زینب عباس کے خیمے میں آئے آواز آئی عباس کہاں جا رہے ہو؟ مولا پانی لینے تیری بیٹی نے تیری ضمانت دی ہے مولا بی بی سکینہ نے ذمہ لیا ہے کہ میرا بابا کچھ نہیں کہے گا۔ اچھا عباس وعدہ کر لڑے گا تو نہیں؟ میں غریب ہوں عباس کہتا ہے تیری غربت کی قسم میں نہیں لڑوں گا اچھا عباس ہر مستور جمع ہوئی۔ ۸۸ مستورات ۱۲۲ بچے سادات کے عباس کے گرد کھڑے ہیں عباس کہتا ہے میری سواری کہاں ہے؟ عباس کی سواری آئی عباس نے گھوڑے کو دیکھا پھر آسمان کی طرف دیکھ کر کہا واغربتاہ تین دفعہ عباس نے کہا ہائے او میری غربت۔ حسین کہتے ہیں عباس کیا ہوا؟ آواز آئی مولا انصاف تو کر ۱۸ جوانان بنی ہاشم میرے شاگرد ہیں میں جب پہلے سوار ہوتا تھا عون و محمد گھوڑے کی باگیں پکڑتے تھے دائیں رکاب میں اکبر کا ہاتھ بائیں رکاب میں قاسم کا ہاتھ آج کوئی بھی نہیں۔ عباس کا یہ کہنا تھا کہ ایک مستور کا ہاتھ عباس کے گھوڑے کی رکاب میں آیا آواز آئی سوار ہو میرے اکبر کا استاد میں اکبر کی ماں لیلیٰ ہوں۔ (سلامت رہو سلامت رہو سلامت رہو میرا مولا امام زمانہ یہ ہے عباس کا ماتم جو رو رہا ہے اس کے جو مقاصد ہیں عباس کا صدقہ آج کی رات میرے مولا پورے کر ہمارا پرسہ قبول فرما)۔ بائیں رکاب میں ہاتھ آیا سوار ہو میرے قاسم کا استاد میں ام فروہ ہوں عباس سوار ہوا اللہ جانے سمجھ سکو یا نہ سمجھ سکو… عباس کا گھوڑا نہیں غازی کا گھوڑا نہیں (بابا صفت شاہ) عباس کا جنازہ ہے جو خیمہ گاہ میں پھر رہا ہے کوئی مستور رکاب چومتی ہے کوئی کہتی ہے واغربتاہ کوئی کہتی ہے وا حجابا ہائے او میری چادر ہائے او میرا پردہ۔ عباس تیار ہوا (دو لفظ سن لو مصائب کے) عباس باہر آیا حمید ابن مسلم کہتا ہے یہ پہلا نوجوان ہے جو نو دفعہ باہر آیا نو دفعہ واپس خیمے میں گیا حسین کہتے ہیں عباس کوئی مستور مر جائے گی عباس اندر جاتا تھا پھر باہر آتا تھا جب دسویں دفعہ باہر آیا عباس جانے لگا میدان کی طرف عباس نے مڑ کے دیکھا میرے آقا حسین کے عمامے کے پیچ گردن میں پاؤں میں نعلین نہیں دوڑتا آتا ہے اور حسین کہہ رہا ہے دیکھو یہ بھی میرا بھائی ہے وہ میرا بیٹا تھا یہ بھی میرا بھائی ہے۔ عباس چلا گیا (مجلس ختم میں چپ اس لئے کر گیا… ایک گھڑی کے لئے سانس لے لوں) عباس چلا گیا۔ ساڑھے تین سال کی سکینہ کہتی ہے بابا مجھے اٹھا میں دیکھوں حسین نے سکینہ کو اٹھایا اپنی چھوٹی چھوٹی بانہیں بابا کی گردن میں ڈال کے کہتی ہے کہ بابا میرا چاچا آ جائے گا میرا اصغر پانی پی لے گا میرا چا چا آ جائے گا میرا اصغر پانی پی لے گا میرا چاچا واپس آ جائے گا میرا اصغر پانی پی لے گا حسین کہتا ہے سکینہ نہ خود رو نہ مجھے رلا۔ آواز آئی بابا! تجھے تیری غربت کی قسم مجھے صرف ایک دفعہ بتا دے میرا چاچا واپس آ جائے گا میرا اصغر پانی پی لے گا جب چوتھی دفعہ سیکنہ نے کہا حسین نے سکینہ کو اتارا کربلا کی ریت سکینہ کے بالوں میں ڈالی آواز آئی سکینہ اگر ضد کرتی ہے تو سن پھر سن پھر سن واپس میرا بھی نہیں آتا بچتا تیرا بھی نہیں۔ ہائے ہائے ہائے… واپس میرا بھی نہیں آتا بچتا تیرا بھی نہیں میرا بھی مارا جائے گا تیرا بھی مارا جائے گا۔ (حوصلہ حوصلہ او میرے نوجوانو! آخری لفظ پڑھنے دو…) واپس میرا بھی نہیں آئے گا بچتا تیرا بھی نہیں۔ (مجھے کوئی پتہ نہیں میں کہاں کھڑا ہوں قبلہ پاک مہدی کی قسم امام کی قسم کھا کے کہہ رہا ہوں)۔ عباس گیا مشکیزہ بھرا دوش پر رکھا گھوڑے پر سوار ہوا کہتا ہے سکینہ پانی مل گیا میں آ رہا ہوں۔ (بہتر تو یہی ہے مجلس یہاں ختم کر دوں اب کیسے سن سکو گے… اچھا پڑھتا ہوں مکمل شہادت پڑھتا ہوں)۔ عباس چلا ایک ظالم نے وار کیا عباس کا بایاں بازو کٹ کے گرا آواز آئی اصغر کی خیرات عباس نے مشکیزہ دائیں بازو میں ڈالا ایک ظالم نے دائیں بازو پہ تلوار ماری مشکیزہ کٹنے لگا عباس نے مشکیزہ منہ میں لیا آواز آئی سکینہ کی خیرات۔ اب سنو بھائی! ایک سکینہ کے لئے آنسو روک سکتے ہو یا آنسو بہتے رہیں میری بات سن لو تیز رفتار گھوڑا ہو عباس کے سر میں گرز لگا ۳۰۰ تیر مشکیزے میں لگے۔ عباس نے مشکیزے کو دیکھا آسمان کی طرف دیکھ کے کہا بار الٰہا! میں مر جاؤں مشکیزہ پڑا رہے حسین میری لاش پر آئے حسین مشکیزہ لے جائے سکینہ کے لئے پانی لے جائے۔ مشکیزہ چھد گیا دوڑتے ہوئے گھوڑے سے عباس گرا بھائی دوڑتے ہوئے گھوڑے سے اگر سوار گرے رو یا نہ رو اتنا بتا دے کہ وہ کس کے سہارے گرتا ہے؟ اوئے بازوؤں کے سہارے گرتے وقت دونوں ہاتھ اپنے چہرے پہ رکھتا ہے عباس کے دونوں بازو نہیں ہیں گھوڑا دوڑ رہا ہے عباس دوڑتے ہوئے گھوڑے سے گرا تین دفعہ آواز آئی مولا حسین جلدی آ… مولا حسین جلدی آ… مولا حسین جلدی آ… پھر کوئی آواز نہیں آئی۔ (بس آخری لفظ میں علم برآمد کراتا ہوں وہاں پہنچ کے تمہیں عباس کا واسطہ اٹھنا نہیں پرسہ دیں اور میں ختم کروں) عباس گرا گھوڑے سے حسین گرا کرسی سے زینب گری خیمے میں۔ حسین آئے عباس کی لاش پر آواز آئی عباس بھائی میں آ گیا ہوں جیسے آیا نہیں بتاتا عباس بھائی میں آ گیا ہوں عباس کے ہاتھ تو ہیں نہیں عباس نے تین دفعہ سرزمین پر مارا آواز آئی: السلام علیک ایھا الغریب "غریب حسین میرا سلام۔" حسین نے عباس کا سر زانو پہ لیا عباس کی آنکھوں میں تیر ہیں حسین کہتا ہے عباس دیکھ میری طرف آواز آئی میری آنکھوں میں تیر ہیں۔ حسین نے ایک ایک کر کے تیر نکالے عباس نے آنکھیں پھر بھی نہیں کھولیں آواز آئی عباس آنکھ کھول میں حسین ہوں میں آ گیا ہوں آواز آئی مولا آنکھیں بعد میں کھولوں گا پہلے یہ بتا سکینہ تو ساتھ نہیں آئی مولا میں تیری بیٹی سے شرمندہ ہوں اگر سکینہ نے پوچھ لیا چاچا عباس پانی کہاں ہے؟ مولا میں کیا جواب دوں گا؟ عباس کہتا ہے مولا میری نوکری قبول کر حسین کہتا ہے شاباش عباس عباس کہتا ہے مولا کوئی اور خدمت؟ حسین کہتا ہے عباس آخری وقت ہے ایک خواہش ہے میرے دل میں تو نے ساری زندگی خود کو میرا غلام کہلوایا ہے آج میں حسین ہاتھ جوڑ کے سوال کرتا ہوں مجھے ایک دفعہ بھائی کہہ۔ آواز آئی مولا حسین نہ میں اپنی اماں ام البنین سے وعدہ کر کے آیا ہوں میں تیرا غلام بن کے رہوں گا۔ حسین کہتا ہے عباس میں تیری لاش پہ چل کے آیا۔ مولا تیری مہربانی تیر کھینچے مجھے بھائی کہہ آواز آئی مولا میری ماں ناراض ہو گی میں نے ماں سے وعدہ کیا ہے مولا میرا عہد نہ توڑ ماں سے وعدہ کیا ہے ساری زندگی تیرا غلام بن کے رہوں گا جب کئی بار ماں کا نام آیا عباس کے سرہانے عباس کے سر والی طرف سے ایک مستور کی چیخ نکلی آواز آئی عباس تو ام البنین کا نہیں تو مجھ… زہرا کا بیٹا ہے میں زہرا تیری ماں آ گئی… عباس حسین کو بھائی کہہ عباس نے تین دفعہ کہا ہائے او میرا غریب بھائی! ہائے او میرا غریب بھائی! ہائے او میرا غریب بھائی! لے آئیں علم لے آئیں علم حسین نے علم اٹھایا خالی مشکیزہ لیا خیمے کی طرف چلے بی بی فضہ نے منہ پر ماتم کیا اور کہا بی بی زینب ہم اجڑ گئے عباس مارا گیا حسین جو صرف علم لے کے آیا ہے علمدار نہیں آیا۱ # آیا ہے علم اور علمدار نہ آیا #…#…# ہو خم پر جس کا اعلانِ امیرالمومنین ہونا اسے جچتا ہے سلطانِ فلک فخر زمیں ہونا بشر تو کیا فرشتے دل ہی دل میں کہہ اٹھے محسن علی کو زیب دیتا ہے نبی کا جانشین ہونا # شجاعت کا صدف مینارئہ الماس کہتے ہیں غریبوں کا سہارا بے کسوں کی آس کہتے ہیں یزیدی سازشیں جس کے علم کی چھاؤں سے لرزیں اسے ارض و سما والے سخی عباس کہتے ہیں! الا لعنۃ اللہ علی القوم الظالمین

Offline Ajnabi

  • Super Moderator
  • *
  • Posts: 3083
  • Reputation: 148
  • Gender: Male
Re: حضرت عباس کی شہادت
« Reply #1 on: December 18, 2009, 04:02 PM »
 JazaKallah