حضرت امام حسن کی شہادت
مجلس پنجم حضرت امام حسن کی شہادت صلواة بلند آواز سے مزاج معلی پر ناگوار نہ گزرے تو صلواة بلند آواز سے پڑھیں اپنے آپ کو ہر قسم کی بلیات ارضی و سماوی سے محفوظ رکھنے کے لئے بلند ترین صلواة پڑھیں۔ بہت زیادہ سامعین ہیں اگر صلواة کم محسوس ہو تو طبیعت سیراب نہیں ہوتی صلواة اتنی بلند آواز سے پڑھیں جتنے آلِ محمد تمہارے ذہن میں بلند ہو سکتے ہیں… نوازش… بہت دور سے جو میرے مہربان بزرگ دوست احباب تشریف لائے ہیں میں ان کے لئے دعاگو ہوں کہ محمد و آلِ محمد کا خالق اللہ ان کی حاضری کو شرف قبولیت بخشے آج پھر گرمی بہت زیادہ ہے ایسی صلواة پڑھیں کہ گرمی کا احساس ختم ہو جائے۔ کائنات میں ہر مملکت کا ایک اصول ہے کہ چار چیزیں ضروری ہیں کوئی نیا ملک یا مملکت وجود میں آئے اس کے لئے چار چیزیں ضروری ہو ں گی پہلی چیز زمین ہونی چاہئے جس پر مملکت قائم ہو سکے دوسری اس مملکت کا عَلم ہونا چاہئے یعنی جھنڈا یا پرچم ہونا چاہئے جو اس ملک کا شناختی نشان ہو پہچان ہو تاکہ پتہ چل سکے یہ فلاں ملک کا نشان ہے۔ تیسری فوج ہونی چاہئے جو ملک کا دفاع کرے چوتھی اس ملک کے پاس ایسے ذرائع ہونا چاہئیں جس سے اس ملک میں بسنے والے چاہئیں جس سے اس ملک میں بسنے والے خود کو سکھی محسوس کریں اور خوش ہو کر اس ملک کی خدمت کر سکیں۔ یہ چار چیزیں ہوں تو ایک مملکت وجود میں آتی ہے۔ حسینیت کی مملکت! حسین نے جو ملک آباد کیا اس کا نام ہے حسینیت حسینیت میں یہ چار چیزیں آئیں تو پھر ملک وجود میں آیا حسینیت کے ملک کے لئے پہلی شرط "زمین حسین نے ۶۰ ہزار دینار میں ۱۲ مربع میل زمین خریدی یہ الگ بات ہے کہ چودہ سو سال پہلے خرید کی جانے والی ۱۲ مربع میل زمین بعد میں پوری کائنات پر محیط ہو گئی۔ دوسرا کسی ملک کا پرچم عَلم یا جھنڈا حسینیت کا اپنا عَلم ہے حسین چونکہ عالمین کا فاتح ہے۔(گرمی نہیں رہے گی اگر آپ نے میری یہ بات سن لی) حسین چونکہ عالمین کا فاتح ہے اس کا پرچم بھی ہر جگہ ملے گا آپ کو… جبکہ یہ شرط ہے بین الاقوامی قانون ہے کسی ایک ملک میں رہنے والے دوسرے ملک کا علم یا جھنڈا نہیں لگا سکتے جیسے پاکستان میں رہنے والے اپنے گھر پر ہندوستان کا جھنڈا نہیں لگا سکتے قانونی طور پر جرم ہے یہ کائنات کا واحد فاتح ہے حسین ۔(ذرا جاگتے آؤ یہ چھوٹا سا نعرہ نہیں چاہئے… نعرئہ حیدری) حسین کا علم نہ دھرتی کا محتاج حسین کا علم نہ کسی ہائیکورٹ کا محتاج حسین کا علم نہ کسی قانون کا پابند حسین کا علم نہ کسی سپریم کورٹ کا محتاج حسین کے علم نے ثابت کیا ہے کہ جو بھی میری سلطنت کا باسی ہے وہ جس ملک میں جہاں بھی ہے جس وقت چاہے اپنے گھر پر میرے ملک کا پرچم لہرا دے اس عباس کا پنجہ یقین کامل کے ساتھ نصب کر دے میں حسین اس بات کی ضمانت دیتا ہوں کہ اگر حادثے گزریں گے تو وہاں سے پوچھ کے گزریں گے۔ تیسری بات جو حسین کے پرچم میں ہے وہ یہ ہے کہ ہر مملکت کا قانون ہے کہ اس ملک میں کوئی حادثہ ہو جائے یا اس کے کسی حلیف ملک میں کوئی حادثہ ہو جائے وہ مملکت کا علم ایک ہفتے کے لئے دس دن یا پندرہ دن کے لئے سر نگوں رہتا ہے لیکن عباس کا علم ۱۱ محرم کو اس طرح بلند ہوا کہ ہزار بار قیامت آ جائے ساری دنیا کے علم زمین بوس ہو جائیں عباس کا علم اڑتا جائے گا اڑتا جائے گا اڑتا جائے گا سر نگوں نہیں ہو گا حسنین کے علم کی بلندی کی یہ امتیازی حیثیت ہے۔ تیسری بات مملکت کے وجود کو قائم رکھنے کے لئے فوج ہونی چاہئے حسین کی فوج بہت خوبصورت فوج بہت تھوڑی فوج کمال ہے آج تک وہ فوج زندہ ہے دنیا درخواستیں دے رہی ہے ہمیں اس فوج میں بھرتی کیا جائے کہیں علی اکبر کے نام کی فورس کہیں سپاہ شہزادہ قاسم کہیں سپاہ عباس کہیں سپاہ اہل بیت کہیں سپاہ علی اصغر ۔ جب ان کی فوج کی بھرتی ختم ہوتی ہے تو پھر ان کے غلام بھرتی شروع کر دیتے ہیں کہیں مختار فورس کہیں اور فورس شروع ہو جاتی ہے اپنی فوج اپنی بھرتی اپنی سرزمین۔ چوتھی چیز ہے اس ملک کا قانون ہر ملک کا اپنا آئین اپنا قانون ہوتا ہے حسینیت کا بھی اپنا ایک قانون ہے آج سے چودہ سو سال پہلے لکھا گیا حسینیت کے ملک کا قانون اور ابد تک لکھا جائے گا ہم پاکستان میں رہتے ہیں اگر پاکستان کا قانون یاد کیا جائے تو کافی وقت لگتا ہے ہر ملک کا اپنا اپنا قانون ہے۔(اگر میری بات سمجھ آ گئی تو بڑا لطف آئے گا) اللہ رہے عظمت حسین حسینیت کے ملک کا بھی اپنا ایک قانون ہے حسینیت کا صرف ایک قانون ہے کوئی دو دفعات میں کوئی دو تعزیرات میں صرف اور صرف ایک قانون ہے ازل سے ابد تک اٹل ہو گیا ہے یہ قانون۔ دنیا کا کوئی غیرت مند اور باضمیر انسان حسینیت کے دائرے سے باہر نہیں جا سکتا اور کوئی بے غیرت اور بے ضمیر انسان حسینیت کے دائرے میں آ نہیں سکتا۔(نعرئہ حیدری) صرف اور صرف یہی ایک قانون ہے دس لاکھ یا دو لاکھ کی فوج ہو بے غیرت اور بے ضمیر انسانوں کی اس میں اگر ایک باضمیر اور غیرت مند ہو تو حسین اس کے لئے ایک رات بڑھا دیتا ہے کہ وہ آ جائے حُر کے لئے حسین نے اپنی شب شہادت کو ملتوی کر دیا۔ میرا ذہن نہیں مانتا کہ حسین نے ایک رات مہلت مانگی ہو کہ مجھے ایک رات کی مہلت دو یہ حسین کے اصول کے خلاف ہے کہ حسین یزید سے ایک رات کی مہلت مانگے بلکہ حسین نے کہا کہ میں حسین تمہیں ایک رات کی مہلت دیتا ہوں سوچ لو کل تک میری فوج میں سے اگر کوئی ایک تمہارے ساتھ مل گیا تو اپنے حق سے دستبردار ہو جاؤں گا اور اگر کل تک تمہاری فوج میں سے کوئی VIP کوئی انتہائی چیف آف دی آرمی سٹاف انسان تمہیں چھوڑ کے تمہیں ٹھکرا کے میری فوج میں آ گیا تو یزیدیت اپنی شکست مان لے گی یا نہیں؟ ایک رات کی مہلت دیتا ہوں سنا ۹ لاکھ نے سمجھا ایک نے۔ جب اس نے سمجھا اس نے حسین کو دیکھا حسین نے اسے دیکھا اس نے سوچا میں نے غلطیاں کیں میں نے گستاخیاں کیں حسین نے آنکھوں ہی آنکھوں میں کہا میں سخی نہیں میں کریم ہوں۔ ہزاروں کے مجمع میں یہ فرق بتا دوں سخی کون ہوتا ہے اور کریم کون ہوتا ہے سخی وہ ہوتا ہے جس سے مانگا جائے اور وہ دے کریم وہ ہوتا ہے جو سوالی کا چہرہ پڑھ کے دے دے۔ حسین سخی نہیں کریم ہے۔ حسین نے کہا مانگ کیا چاہتا ہے؟ میں نے تیرا چہرہ پڑھ لیا ہے حُر دریا پہ گیا لہریں حُر کی دسترس سے دور نکل گئیں-(اچھا لفظ ہو مجھے خود مزا آتا ہے) اچھا لفظ ہے کہ دریا کی لہریں حُر کی دسترس سے دور نکل گئیں حُر نے کہا دریا بھی وہی لہریں بھی وہی آیا بھی وضو کرنے ہوں۔ پانی سے آواز آئی میری اولاد پہ پانی بند کر کے میرے جہیز کو ہاتھ لگاتا ہے شرم نہیں آتی پیچھے ہٹا حُر واپس آیا۔ حسین کے دروازے پر ایک رات کی مہلت تھی سوچ رہا تھا حسین مجھے گستاخی سزا دے گا۔ عباس نے تلوار نکالی حسین نے کہا عباس نہ اس کے لئے تو میں نے رات ملتوی کی میں کائنات کا بڑا حکیم ہوں میرا اسلام امانت تھا بیمار ہو گیا تھا ملوکیت نے بیمار کر دیا تھا میں نے دیکھا سوچا اسلام کی تشخیص کی۔ ساتویں سے میں نے کھانا پینا چھوڑ دیا اب پتہ چلا ہے کہ اسلام کو خون کی ضرورت ہے دسویں کی رات جس جس گروپ کا خون اسلام کے خون سے ملتا تھا اسے کہہ دیا بیٹھ جاؤ جس کے خون کا گروپ اسلام سے نہیں ملتا تھا اسے کہہ دیا چلے جاؤ میں چراغ بجھا دیتا ہوں اگر کسی بچے کے خون کا گروپ بھی اسلام سے ملتا تھا وہ لے دیا اور اسلام کو دیا ورنہ ٹھکرا دیا۔ حسینیت ایک سلطنت ہے ہم جس میں آباد ہیں ہم جس میں زندہ ہیں ہمیں سکون کیا ہے کہ ہر ملک کی سرحد ملتی ہے کسی اور ملک سے حسینیت ایسی سلطنت ہے جس کی سرحد اگر ملتی ہے تو صرف جنت سے حسینیت کی سرحد عبور کرو جنت شروع قبلہ ایک بڑی بات یہ ہے کہ ایک ملک سے دوسرے ملک میں جانے کے لئے ویزے کی ضرورت ہے۔ حسینیت کی سلطنت سے جنت کی سلطنت میں جانے کے لئے کسی ویزے کی ضرورت نہیں صرف اپنے سینے پر ماتم کا نشان دکھاؤ اور جنت میں چلے جاؤ پھر دوسرے ملک میں چلے جاؤ جب تک واپس نہ آؤ اپنوں کو خط لکھتے رہو میں زندہ ہوں میں خیریت سے ہوں تمہاری خیریت نیک مطلوب ہے۔ جو حسینیت میں چلا جائے موت قریب نہیں آتی چاہے وہ جنت میں رہے یا حسینیت میں اسے رزق ملتا ہے: من مات علی حب آلِ محمد مات شہیدا "جسے حب آلِ محمد میں موت آئے وہ شہید ہے۔" حسین بہت بڑی عظیم ہستی کا نام ہے اور اسی کے ماتم پر فتوے لگانا حسینیت کے آئین کی خلاف ورزی اور اس خلاف ورزی کی سزا ہے جہنم… ساری عمر جہنم… (رباعی) دیتا ہے سدا ماتم شبیر پر فتوے پھر اس پہ شفاعت کا طلبگار بھی تو ہے کیوں اتنا حسد ہے تجھے شبیر کے غم سے شاید تیری شہ رگ میں امیہ کا لہو ہے ایک وعدہ ہم حسین سے بھی کر لیتے ہیں۔ (آرام آرام سے سن لیں شاید یہ مصرعہ بعض لوگوں کے سروں سے گزر جائے) مولا حسین تیری مودة سے عہد ہے اس عہد پہ حضور ہمیں پھر غرور ہے ہم تیرے دشمنوں کو نہ بخشیں گے حشر تک اور حشر میں بھی ان سے الجھنا ضرور ہے (اب نعرہ سناؤ اگر علی پیارا لگتا ہے) آؤ آج ہم سب مل کے یہ حلف اٹھائیں "یزیدیت (لعنت) حد سے بڑھ چلی ہے صفیں سنبھالو قدم بڑھاؤ۔" (مرنا ایک دن ہے جو رات قبر میں آنی ہے وہ رات قبر سے باہر آ نہیں سکتی اگر کوئی ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھ کے کرکٹ دیکھتا ہے کہ موت نہ آ جائے موت ٹیلی ویژن سے نکل کر بھی آ سکتی ہے) موت سے نہیں ڈرنا چاہئے۔ کہیں جعفر علی میر صاحب کھڑے ہوں تو ان کے "ندائے شیعہ" کے لئے دے رہا ہوں یہ بات یزیدیت حد سے بڑھ چلی ہے صفیں سنبھالو قدم بڑھاؤ جناب عباس کا علم تھام کے عزیزو حلف اٹھاؤ حلف اٹھاؤ کہ اب امیہ کی نسل سے انتقام لیں گے جو مر گئے تو بھی کیا برا ہے علی سے کوثر کا جام لیں گے حلف اٹھاؤ کہ آسماں سے بھی اب یہ پرچم بلند ہو گا برستے بارود میں بھی اپنے سخی کا ماتم نہ بند ہو گا حلف اٹھاؤ کہ سانس لیں گے یزیدیت کا نشاں مٹا کر ہر ایک مشکل کو ٹال دیں گے ہر ایک زمانے میں مسکرا کر حلف اٹھاؤ کہ ہر سقیفے کو بیخ و بن سے اکھاڑ دیں گے جناب عباس کے علم کو عدو کے سینے میں گاڑ دیں گے میں بار بار کہہ رہا ہوں کہ جعفر علی میر سن لیں جو صدر انتظامیہ ہیں آج کل عزاداری کی پشت پناہی میں سب سے آگے آگے ہیں ان کی نذر کر رہا ہوں ان کے لئے کہہ رہا ہوں "ندائے شیعہ" کے لئے کہہ رہا ہوں وہ اچھی طرح غور سے سن لیں حلف اٹھاؤ کہ اب یہ نکتہ کریں گے سینے میں نقش ایسا حسینیت کے مخالفوں سے ہو خوف کیوں اتحاد کیسا حلف اٹھا چکے ہو اب عباس کے علم کے سامنے وعدہ کرو جو زندگی ہے تو ہر ستم کی ہر ایک زنجیر توڑ دیں گے حسین تیری قسم ہے تیرے عدو کی گردن مروڑ دیں گے حسینیت زندہ باد… یزیدیت مردہ باد! اب وہ دور گزر گیا جب حسین دیکھتا تھا اور کہتا تھا ھل من ناصر ینصرنا اور کوئی نہیں ہوتا تھا اب نہیں اب ہو نا تم بہت غریب تھا حسین خود غریب تھا مگر تمہیں تو غریب نہیں رہنے دیا خود اجڑ گیا تمہیں آباد کر گیا خود اپنے بیٹوں کی لاش پر بھی نہیں رویا تمہیں کہہ گیا تم فکر نہ کرو اگر تمہارا جوان بیٹا مر گیا تو میں علی اکبر کے پہلو میں جگہ دوں گا۔ وہ میرا بھائی حسن تھا جسے نانا کی قبر کے ساتھ مسلمانوں نے جگہ نہیں دی آج ۵ محرم کا دن گزر گیا ۶ محرم کی رات آ گئی چار راتیں رہ گئی ہیں باقی کل ۷ محرم کی رات ہے کل عباس کا علم برآمد ہو گا پرسوں ۸ کی رات ہے ایک بہن اور ایک بھائی کا اکٹھا جنازہ برآمد ہو گا پھر ۹ محرم کی رات ہے شہزادہ علی اکبر کی اذان اور اس سے اگلی رات حسین کی غربت پھر سارا سال ہے تم ہو شام غریباں کے بعد جیسے چاہو زندہ رہو ان چار راتوں میں حسین کو پرسہ دو۔ روتی آنکھوں سے دعا کرو کہ میرے بھائی میرے بہنوئی سید دلاور حسین شاہ کے بہنوئی کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے چونکہ میں حسین کے غم میں مصروف ہوں مجھے اطلاع ملی تھی مولا شہزادہ علی اکبر کے صدقے میں اسے شفائے کاملہ عطا فرمائے۔ آج میں نے شاہدرہ میں مجلس پڑھی تھی مجھے اطلاع ملی تھی میں ایئرپورٹ پر بھی گیا بھائی سے معافی چاہتا ہوں وجہ ایسی تھی۔ آج ۶ محرم کی رات ہے مجھے حکم ملا ہے کہ میں ۱۳ سال کے شہزادے کی شہادت سناؤں کہیں تھک نہ جانا یہی موسم تھا جب حسین کربلا میں تھا تین دن کی پیاس چھوٹے چھوٹے معصوم اللہ جانے کیسے دلاسہ دیتا تھا کسی کو سینے سے لگاتا تھا کسی سے کہتا تھا کہ میرے منہ میں اپنی زبان رکھ وہ حسین کے منہ میں اپنی زبان رکھتا جب وہ منہ میں زبان رکھتا اور کہتا تھا کہ آقا آپ کی زبان تو میری زبان سے بھی زیادہ خشک ہے کسی سے کہتا کہ میری انگوٹھی منہ میں رکھو گے تیری پیاس ختم ہو جائے گی۔ کسی سے کہتا کہ سکینہ مت گھبرا پانی آ گیا تو اصغر کو سب سے پہلے دوں گا۔(ہاں شروع کروں شہادت سید زادو! جتنے سید زادے بیٹھے ہیں مولا سلامت رکھے مولا زندگی دراز کرے عزاداری کر رہے ہو کاظمی صاحبان اختر جمیل اور ان کے بھائی مولا ان کی زندگی دراز کرے ان سے اجازت لے کے) ۲۸ صفر ۵۰ ہجری ہفتے کا دن شام کا وقت بنی ہاشم کے محلے کی گلیاں ایک روزہ دار آخری شام کائنات کا شریف ترین امام شکل رسول۱کی بیٹا بتول کا کسی کو کچھ نہ کہنے والا دشمن کو حکومت دے دی کہا تو خوش ہو ہم جی لیں گے ہمیں کچھ نہ کہہ لیکن جعدہ ملعونہ (ج- ع- د- ہ اسے جعدہ بھی پڑھتے ہیں اور جعدہ بھی پڑھتے ہیں) بدقسمتی سے یہ زوجہ تھی امام حسن کی سرکار اس کے گھر آئے عادل امام کہتا ہے میں روزے سے ہوں مجھے افطار کرنا ہے۔ (تیری آنکھیں تیار ہو گئیں تیرے دل میں قبر ہے امام حسن کی معافی چاہتا ہوں گرمی بہت زیادہ ہے لیکن اگر رو پڑیں گے تو باپ بیٹا خوش ہو جائیں گے حسن بھی قاسم بھی گھروں کا خیال چھوڑ دو مصائب بے خود ہونے کا نام ہے جنون کا نام ہے مودة کا نام ہے جس کے دل پہ چوٹ لگتی ہے وہی روتا ہے جبر کوئی نہیں۔ میں کہوں ضرور روؤ تیرے دل پہ ٹھیس پہنچے تیرا دل پگھلے خود بخود آنسو آئیں گے ورنہ صرف اتنا سوچ لو کل صبح یا آج رات گھر جاؤ… سات اور نو سال کے بچے سوئے ہوئے ہوں صرف اتنا یاد کر لو کہ عون و محمد بھی اتنے پیارے ہوں گے بی بی زینب کو حالانکہ بہت زیادہ پیارے تھے میں آغاز کرتا ہوں ہاتھ جوڑ کے سیدوں سے مومنوں سے اجازت لے کے میرے ساتھ ساتھ چلتے آؤ تاکہ میں ان شہزادوں کی شہادت سنا سکوں خدا کرے میری آنکھیں بھی سرخرو ہو جائیں تیری آنکھیں بھی سرخرو ہو جائیں)۔ بڑے عجیب انداز سے بی بی زینب گھر سے باہر آئی ہے جب حسین نے تیاری کی بی بی زینب نے کہا میں بھی ساتھ جاؤں گی حسین نے کہا اپنے شرعی وارث حضرت عبداللہ سے اجازت لے۔ بی بی کہتی ہے ٹھیک ہے حسین اپنے گھر آئی سامنے جناب عبداللہ بستر بیماری پر دونوں بیٹیاں پاس بیٹھیں ہیں دونوں بیٹے بھی بیٹھے ہیں بی بی دہلیز عبور کر کے مٹی پر بیٹھ گئی۔ بی بی زینب بیٹھ گئی مٹی پر عون و محمد نے دیکھا مٹی پر… عون و محمد اترے اور کہا بابا دیکھ تو سہی ہماری ماں مٹی پر بیٹھی ہے۔ جناب عبداللہ اٹھے بستر سے زمین پر آ کے کہتے ہیں زہرا کی بیٹی میری زندگی میں خیریت تو ہے؟ دونوں ہاتھ بی بی زینب نے اپنے سر پر رکھے یہ عرب کا دستور ہے سوالی ہونے کا جب دونوں ہاتھ سر پہ رکھے تو حضرت عبداللہ نے کہا کیا چاہتی ہو؟ بی بی کہتی ہے چاہتی تو کچھ نہیں زندگی میں پہلی بار سوال کر رہی ہوں میرا بھائی حسین سفر پر جا رہا ہے مجھے میری ماں کی وصیت تھی کہ حسین کو اکیلا نہ چھوڑنا میں اجازت لینے آئی ہوں مجھے روکنا نہیں ماں کی وصیت ہے مجھے ضرور جانا ہے۔ (مل کے دعائیں مانگیں) جعدہ نے پانی میں یا دودھ میں زہر ملایا زہر بھی ایسا کہ… نو دفعہ پہلے امام کو زہر مل چکا تھا آج جو زہر دیا وہ خصوصی طور پر شام سے آیا تھا۔ ہائے او شام تو نے سادات کو بڑے دکھ دیئے ہیں تو نے تو قبروں سے قبریں نہیں ملنے دیں سادات کی۔ قبلہ! زہر آیا شام سے دینے والے نے کہا جعدہ اس زہر کا ایک تنکا اگر سمندر میں ڈالا جائے تو کئی سال تک مچھلیوں کی نسلیں تباہ ہو جاتی ہیں اس نے وہ زہر ملایا دودھ میں تیرے امام کے سامنے زہر آیا۔ جام کو دیکھا جعدہ کو دیکھا ٹھنڈی سانس لی: اناللہ و انا الیہ راجعونo جعدہ کو دیکھ کر کہا میرے امام فرماتے ہیں میرے معصوم بچے ہیں کیا میں تیرا عادل شوہر نہیں؟ کیا میں تیرا شریف امام نہیں؟ نو دفعہ پہلے بھی تو زہر دے چکی ہے۔ اس نے کہا مولا کچھ دودھ ہے پئیں۔ سرکار نے ایک گھونٹ دودھ پیا جام واپس کیا یہ کہتی ہے مولا بدن میں نقاہت ہے روزہ تھا تھوڑا سا اور لیں۔ رو کے امام کہتا ہے تیرا کام اسی سے ہو جائے گا زہر نے اپنا کام شروع کیا اترتے ہی جیسے جگر میں آگ لگ گئی۔ کہتی ہے مولا آپ کی طبیعت خراب ہے جا کے فروہ کے گھر سو جائیں سید کہتا ہے جعدہ میں تیرے گھر سونے نہیں آیا وہاں سے نکلا۔ مالی سبطین کے الفاظ ہیں جعدہ کے گھر سے نکل کے جگر کے ٹکڑے باہر آنا شروع ہوئے نانا کی قبر تک جاتے جاتے گلی میں مکانوں کا سہارا لے کے حسن چودہ دفعہ بیٹھا چودہ مرتبہ اٹھا نانا کی قبر پہ آیا… عبا کے بٹن کھول کے نانا کی قبر پر سینہ رکھ اور کہا نانا مجھے زہر مل گیا۔ میرا ایمان ہے رسول قبر سے باہر آئے کہا حسن بیٹے کیا ہوا؟ نانا زہر مل گیا ہے نانا جگر کے ٹکڑے باہر آ رہے ہیں۔ حسن میرے پاس کیوں آیا ہے؟ آواز آئی نانا اگر میں کل تیرے پاس آؤں مجھے قبر کی جگہ دے دے گا؟ رسول۱کا جواب سنو گے پیشانی چوم کے کہتا ہے حسن کوئی آنے دے میں تو انکار نہیں کرتا۔ (بھائی محمد علی سر اٹھا کے میری بات سن شجاع آباد سے آیا ہے میں شکرگزار ہوں مولا تجھے سلامت رکھے) جب رسول نے کہا نا میں تو انکار نہیں کرتا۔ حسن نے کہا نانا آپ کا بہت بہت شکریہ نانا کی قبر سے اٹھ کر سیدھا جنت البقیع میں ماں کی قبر پہ آیا۔ ماں کی آواز آئی حسن بیٹا کیا ہوا؟ اماں زہر مل گیا کہاں گئے تھے؟ اماں نانا کی قبر پہ گیا تھا۔ بتول کی آواز آئی کیوں گیا تھا؟ اماں میں نانا کی قبر پہ گیا تھا اماں میں نے نانا سے کہا ہے قبر کی جگہ دے دے۔ بتول کمر تک باہر آ کے کہتی ہے منہ پر ماتم کر کے کہا نہ خود اجڑ نہ مجھے قبر میں اجاڑ شروع سے میرے پاس آ جانا میں ماں ہوں میں برباد ہو کر بھی میری قبر کا نشان رہے نہ رہے تجھے جگہ دے دوں گی مجھے قبر ملے نہ ملے تجھے قبر مل جائے گی۔ حسن نے کہا اماں مجھے اجازت دے جا میرے بیٹے۔ آواز آئی اماں کہاں جاؤں؟ بی بی نے کہا ام فروہ کے گھر جانا جناب حسن ام فروہ کے گھر آئے۔ جناب ام فروہ کے گھر (ذہن میں منظر دیتے جاؤ آنسو جانیں اور پردے میں آئی ہوئی بی بی جانے اور کوئی آیا ہو یا نہ آیا ہو بی بی رقیہ ضرور آئی ہوئی ہو گی لاہور میں ہے گامے شاہ میں روزانہ آ کے مجلس سنتی ہو گی کوئی ملتا ہو یا نہ ملتا ہو ۸ سے ۱۰ محرم کی رات تک… یا یہ عباس کے سامنے جاتی ہو گی یا عباس اسے ملنے آتا ہو گا ضرور جاتی ہو گی اور کہتی ہو گی آج حسن کی شہادت کا پرسہ دینے والے آئے تھے اتنی مستورات تھیں) ام فروہ کے دروازے پر آیا دروازہ بند تھا اتنی سکت نہیں تھی امام میں کہ دستک دیتا میرا غریب حسن دروازے کی ٹیک لگا کے اپنے گھر کی دہلیز پر بیٹھ گیا خشک حلق سے آہستہ سے چیخ نکلی قاسم کی ماں دروازہ کھول۔ بی بی نے دروازہ کھولا بی بی نے چہرے کا رنگ دیکھا آواز آئی میں اجڑ گیا کیا ہوا؟ آواز آئی جلدی سے میرا بستر بنا مجھے زہر مل گیا میں نانا کے مزار سے ہو آیا اماں سے بھی مل آیا ہوں میرے لئے بستر بنا۔ بی بی نے بستر بنایا میرا غریب امام بستر پہ آیا امام نے آنکھ کھولی آواز آئی میرا قاسم کہاں ہے؟ یہ ہے ۵۰ ہجری کا واقعہ اس وقت قاسم کی عمر ساڑھے تین سال تھی۔(جس کی ساڑھے تین سال کی اولاد ہے مولا قاسم کے صدقے ان کی عمر دراز کرے) ساڑھے تین سال کا شہزادہ قاسم بی بی کہتی ہے آج شام ہی سے سو گیا ہے۔ حسن کہتے ہیں آج کوئی سونے کی رات ہے؟ میری عبا کے بٹن کھول کے قاسم کو میرے سینے پہ سلا دے سوئے ہوئے ساڑھے تین سال کے قاسم کو جب ماں نے باپ کے سینے پہ سلایا اتنا گرم سینہ تھا حسن کا قاسم کی آنکھ کھل گئی۔ کہتا ہے اماں مجھے یہاں سے اٹھا لے یہاں گرمی بہت ہے جناب ام فروہ کہتی ہیں قاسم قاسم ! ہے باپ کا سینہ ہے آج کی رات سرکار حسن کبھی قاسم کے رخسار چومتے ہیں کبھی قاسم کے بازو چومتے ہیں کبھی قاسم کے ہاتھ چومتے ہیں۔ فروہ رونے لگی امام کہتا ہے فروہ تو نہ رو یہ جوان ہو گا اس کی شادی ہو گی تیرے غم دور ہو جائیں گے۔ جناب فروہ کہتی ہے مولا اجازت ہو تو تیری بہن زینب کو اطلاع دوں۔ حسن کہتا ہے نہیں تو نہ جا میرے قاسم کو بھیج۔ بی بی کہتی ہے ساڑھے تین سال کا قاسم یہ کیسے اطلاع دے گا؟ حسن کہتا ہے اسے بولنے کی ضرورت نہیں پڑے گی میں اس کی شکل ہی ایسی بنا کے بھیجوں گا زینب تڑپ کے آ جائے گی۔ آواز آئی کیسی شکل بنائیں گے؟ حسن کانپتے ہوئے ہاتھوں سے کہتا ہے قاسم کو میرے سامنے کھڑا کر۔ بی بی نے قاسم کو کھڑا کیا حسن نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے قاسم کا گریباں چاک کیا کہا تھوڑی سی مٹی دے مٹی لے کے قاسم کی زلفوں میں ملائی چھوٹی چھوٹی آستینیں الٹ کے کہا قاسم ننگے پاؤں بی بی زینب کے حجرے میں چلا جا اگر سو رہی ہو تو جگانا نہیں قاسم اس کی دہلیز پر بیٹھ جانا تہجد کی نماز کے وقت اٹھے گی تیرہ چہرہ دیکھے گی پہچان جائے گی تو یتیم لگ رہا ہے۔ (حوصلے سے حوصلہ نہیں قطعاً کوئی جلدی نہیں تفصیل سے عرض کرنے لگا ہوں) قاسم گھر سے نکلا ساڑھے تین سال کا قاسم گریبان چاک سر میں خاک زلفیں پریشان پاؤں میں نعلین نہیں آستینیں الٹی ہوئیں چپ کر کے بابا کے چہرے کو دیکھ دیکھ کے کہتا ہے بابا کبھی آستین دیکھتا ہے کبھی زلفیں دیکھتا ہے کہا جانا ہے پھوپھی زینب کے حجرے میں سو رہی ہو تو اسے جگانا نہیں بابا جگانا نہیں تہجد کی نماز تک بیٹھا رہوں۔ کہا ہاں بابا اس وقت تک آپ جاگتے رہیں گے نا آپ سو تو نہیں جائیں گے؟ میں پھوپھی زینب کو لے آؤں گا ایسا نہ ہو کہ میں پھوپھی کو لے آؤں آپ سو جائیں۔ آواز آئی نا بیٹا میں انتظار کروں گا۔ شہزادہ آیا بی بی زینب کے حجرے کے قریب۔ (میری اولاد قربان ہو جائے شہزادہ قاسم پر ان محرم کی مجالس میں یا کسی مجلس میں میری ماؤں بہنو! کوئی غلط آنکھ سے تمہاری طرف دیکھے شمر کے ساتھ اس کا حشر ہو) ساڑھے تین سال کا قاسم بی بی زینب کے دروازے پر آیا قاسم دہلیز پر بیٹھ گیا دروازے کی ٹیک لگا کے ساڑھے تین سال کا قاسم نیند آ گئی ساری رات سویا رہا تہجد کی نماز کے وقت بی بی زینب نے دروازہ کھولا قاسم کا سر بی بی زینب کے قدموں میں آیا آواز آئی اماں فضہ۱جلدی سے چراغ لا۔ بی بی فضہ چراغ لائیں زلفوں میں خاک گریبان چاک آستینیں الٹی ہوئیں قاسم پر نگاہ پڑی منہ پر ماتم کر کے کہتی ہے اماں میں اجڑ گئی قاسم کیا ہوا؟ پھوپھی میرے بابا کو زہر مل گئی جگر کے ٹکڑے باہر آ رہے ہیں۔ بی بی نے قاسم کو اٹھایا منہ چوم کے کہتی ہے کچھ تو بتا؟ قاسم رو کے کہتا ہے بابا نے کہا تھا تیری شکل دیکھ کے پہچان جائے گی بابا نے اور کچھ نہیں بتایا… بی بی عباس کے حجرے کے پاس آئی رو کے کہا عباس میں اجڑ گئی جلدی آ مدینہ برباد ہو گیا۔ عباس باہر آیا بی بی حسین کے حجرے میں آئی حسین جلدی آ قاسم کی شکل دیکھتے جاؤ میرے پیچھے پیچھے آتے جاؤ کلثوم جلدی آ رقیہ جلدی آ ساری مستورات کو لے کر حسن کے دروازے پر آئی جب اندر داخل ہوئی تو اس وقت جناب ام فروہ نے ایک طشت لیا ہوا تھا حسن کے جگر کے ٹکڑے باہر آ رہے تھے۔ حسن نے دیکھا زینب کو زینب نے دیکھا حسن کو حسن نے کہا اتنی دیر! پہلے تو کبھی اتنی دیر نہیں لگائی تھی بھیا قاسم نے جگایا نہیں کچھ بتایا نہیں حسن تیری غربت کی قسم قاسم سو گیا تھا تو نے کیوں کہا تھا کہ جگانا نہیں… بی بی آئی حسن کا سر جھولی میں لیا زہرا بن کے (میرے سامنے جو ذاکرین بیٹھے ہیں ایک لفظ کہہ رہا ہوں یاد کریں) حسن کا سر جھولی میں آیا زہرا بن کے کبھی پیشانی چومتی ہے کبھی دایاں رخسار کبھی بایاں رخسار چومتی ہے رو کے کہتی ہے کہاں کہاں روؤں۔ میں نے بابا کے سر پہ پٹی باندھی اماں کے پہلو پہ پٹیاں باندھیں نانے کا جنازہ دیکھا تجھے بھی اس انداز میں دیکھ رہی ہوں زہرا بن کے کبھی حسن کی پیشانی پہ بوسہ دیتی ہے حسین ساتھ کھڑا ہے کبھی عباس کے رخسار مس ہوتے ہیں حسن کے قدموں سے کبھی حسین بھائی کی پیشانی پہ بوسہ دیتا ہے ہائے میرا غریب بھائی ہائے میرا مظلوم بھائی قبلہ! تھوڑی دیر گزری کہا حسین اپنا ہاتھ میری طرف لا حسین نے اپنا دایاں ہاتھ دیا اپنے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے ساڑھے تین سال کے قاسم کا ہاتھ دیا اور کہا حسین تو جان اور قاسم جانے وعدہ کر کہ اکبر کے اترے ہوئے کپڑے قاسم کو پہنائے گا وعدہ کر کہ قاسم کا خیال رکھے گا وعدہ کر اگر قاسم کی ماں کوئی سوال کرے گی تو ٹھکرائے گا نہیں وعدہ کر اگر تو سفر پر جائے گا اگر قاسم کی ماں سوال کرے تو اسے ساتھ لے جائے گا وعدہ کر کہ اگر مشکل وقت آئے گا تو اکبر سے پہلے قاسم کو قربان کرے گا یہ کہا اور انا للہ و انا الیہ راجعونo حسن کی آنکھیں بند ہوئیں اور مدینہ والوں کی آنکھیں کھل گئیں۔ حسین نے غسل دیا عباس نے کفن دیا صبح ہوئی عباس کہتا ہے مولا قبر کہاں بنانی ہے؟ حسین کہتا ہے نانا کی قبر کے پہلو میں کیونکہ حسن کی شکل نانا سے ملتی تھی اللہ جانے مجھے وطن نصیب ہو یا نہ ہو اسے تو قبر نانا کے پاس مل جائے قبر کھودی گئی۔ حسن کا جنازہ لے کر ۳۹ بنی ہاشم حسن کے جنازے کے ساتھ ساتھ آگے آگے پہلا پایہ اٹھایا حسین نے دوسرا عباس نے جنازے کا تیسرا پایہ اٹھایا محمد بن حنفیہ نے چوتھا پایہ اٹھایا سجاد نے۔ حسن کا جنازہ لے کر چلے جب روضہ رسول میں پہنچے ۳۰۰ تلواریں نکلیں مسلمان کہتے ہیں کیوں آئے ہو؟ حسین کہتے ہیں تمہیں شرم نہیں آئی میرا بھائی مر گیا ہے تم کہتے ہو کیوں آئے ہو۔ میں بھائی کو دفن کرنے آیا ہوں تم کہتے ہو کیوں آئے ہو مجھے پرسہ دو کیا یہی امت کی وفا ہے… آواز آئی اگر دفن کرنے آئے ہو تو دفن نہیں کرنے دیتے حسین کہتا ہے یہ میرا نانا ہے مسلمان کہتے ہیں نہیں دفن نہیں کرنے دیں گے ۳۰۰ تلواریں نکلیں۔ بس ادھر ۳۰۰ تلواریں نکلیں ادھر عباس کے چہرے کا رنگ بدلا عباس نے ۳۰۰ مسلمانوں کو دیکھا حسین کے چہرے کی طرف دیکھا حسین کہتا ہے جنازہ اٹھاؤ۔ (ہائے حسین تیری غربت) عباس کہتا ہے مولا کہاں لے جانا ہے؟ آواز آئی گھر لے جانا ہے عباس کی آنکھوں کا رنگ بدلا پھر حسین کے چہرے کو دیکھا کہاں لے چلنا ہے؟ حسین سر جھکا کے کہتا ہے گھر واپس جانا ہے۔ کائنات کا پہلا جنازہ ہے جو قبرستان سے گھر کی طرف واپس آیا جنازہ واپس چلا جنازہ گلی میں آیا کسی نے سفید رومال سے اشارہ کیا ۷۰ تیر جنازے میں آئے ۷۰ تیر حسن کے جنازے میں پیوست ہوئے۔(روتے بھی آؤ سنتے بھی آؤ) عباس نے جنازہ چھوڑا دوڑ کے آیا دروازے پر بہنیں کھڑی تھیں آواز آئی ہٹ جاؤ میری تلوار دو حسن کے جنازے میں تیر لگ گئے ہیں۔ عباس کہتا ہے زہرا کی بیٹی مجھے آنے دے میری تلوار دو۔ حسین دوڑ کے آئے آواز آئی عباس جنگ نہیں کرنی۔ عباس کہتا ہے اور کیا کرنا ہے؟ ہمارا جنازہ ہمارے گھر واپس آئے عباس زندہ رہے۔ آواز آئی عباس تو نے یہاں نہیں لڑنا سامنے کھڑی تھی ام البنین عباس ماں کے قدموں پر گرا آواز دی اماں تو سید زادی نہیں ذرا چادر دے بی بی نے چادر دی عباس نے چادر حسین کے سامنے کر کے کہا حسین تجھے اس چادر کا واسطہ ایک دفعہ جانے دے مجھے اجازت دے۔(روتے آؤ سنتے آؤ انہیں چھوڑ دے اگر کوئی بے ہوش ہو گیا ہے آج رعایت نہیں) آواز آئی تجھے تیری ماں کی چادر کا واسطہ ایک دفعہ جانے دے میں پوچھ لوں کہ ہمارے جنازے کیسے واپس آتے ہیں۔ (تمہارا یہ حال ہے مومن بے ہوش ہو رہے ہیں یقینا آج کوئی مومن مر جائے گا جب یہ حال ہے تو دوسری شہادت کیسے سن سکو گے؟) رونے والو! جنازہ گیا تھا تو کفن سفید تھا جنازہ واپس آیا تو کفن کا رنگ سرخ تھا۔ (حوصلہ میرے نوجوانو! حوصلہ حوصلہ اگر حسن کا جنازہ سننا چاہتے ہو تو قاسم کی شہادت کل پڑھوں برداشت نہیں کر سکو گے) حسین نے حسن کا جنازہ گھر میں رکھا ساری بہنیں اردگرد بیٹھیں کسی نے ادھر سے تیر کھینچا کسی نے ادھر سے تیر کھینچا تیر چنتی رہیں۔ جب حسن کو دفن کر کے آئے رات کو بی بی زینب نے خواب میں دیکھا کہ ماں زہرا کہتی ہے زینب کیا ایسے تیر چنتے ہیں زینب ! دو تیر تو حسن کی قبر میں میں نے نکالے ہیں۔ (شہزادہ قاسم کی شہادت کل پڑھوں گا) حسن کا جنازہ آیا جنازے میں تیر لگے ہوئے تھے جیسے ہی قاسم کا جنازہ آیا کوئی ٹکڑا کہیں تھا کوئی ٹکڑا کہیں تھا۔ ہر ٹکڑے سے آواز آ رہی تھی چچا میرا سلام قبول کر چچا میرا سلام قبول کر حسین نے مقتل میں چادر بچھا کر کوئی ٹکڑا کہیں سے چنا کوئی کہیں سے چنا گٹھڑی بنا کے حسین خیمے کے در پہ آیا بی بی ام فروہ نے پوچھا قاسم کی ماں نے پوچھا میرا قاسم کہاں ہے؟ حسین نے گٹھڑی دے کے کہا جو مل گیا ہے یہی قاسم ہے قاسم کی لاش گھوڑوں کے سموں سے پامال ہو گئی یہی ٹکڑے سنبھال لو یہی میرا قاسم ہے۔ الا لعنة اللہ علی القوم الظالمین