میرے دل کی راکھ کرید مت اسے مسکراکے ہوانہ دے
یہ چراغ پھر بھی چراغ ہے کہیں تیراہاتھ جلانہ دے
میں اداسیاں نہ سجاسکوں تیرے جسم و جاں کے مزار پر
نہ دئے جلیں میری آنکھوں میں مجھے اتنی سخت سزانہ دے
وہ جو ختم کردے میراوجودوہ الم میرے خدانہ دے
توغفور ہے تو رحیم ہے مری لغزشوں کی سزانہ دے
یوں ہی دیکھ چاند کی پتیوں نے بکھر بکھر کے تمام شب
ترانام لکھاہے ریت پر کوئی لہر آکے مٹانہ دے
یوں ہی دل جلانے کے شوق میں کئی لوگ جاں سے گزر گئے
تراناک نقشہ ہے موم کاکہیں غم کی آگ گھلانہ دے
یہاں لوگ پھر تے ہیں رات کسی کسی مصلحت کے نقاب میں
یہ تیرے نگاہ کی سادگی کہیں دل کاحال بتانہ دے
میں غزل کی شبنمی آنکھوں سے یہ دکھوں کے پھول چناکروں
مری سلطنت میرافن رہے مجھے تخت و تاج خدانہ دے