رات میں اس کشمکش میں ایک پَل سویا نہیں
کل میں جب جانے لگا تو اُس نے کیوں روکا نہیں
یوں اگر سوچوں تو اِک اِک نقش ہے سینے پہ نقش
ہائے وہ چہرہ کہ پھر بھی آنکھ میں بنتا نہیں
کیوں اُڑاتی پھر رہی ہے در بدر مُجھکو ہَوا
میں اگر اِک شاخ سے ٹوٹا ہُوا پتّا نہیں
درد کا رستہ ہے یا ہے ساعتِ روزِ حساب
سینکڑوں لوگوں کو روکا ایک بھی ٹھہرا نہیں
شبنمی آنکھوں کے جگنو، کانپتے ہونٹوں کے پُھول
ایک لمحہ تھا جو امجد آج تک گُزرا نہیں