محبت رنگ بدلتی ہے
اور اس کا کوئی بھی رنگ مستقل نہیں ہوتا
پختہ نہیں ہوتا
نویدِ سحر کوئی
دلیل بے کراں جیسے
کسی مشکل سفر میں
قافلہ اک بے اماں جیسے
کبھی حیران سے لہجے
کوئی دل بدگماں جیسے
جُھلستی دھوپ میں سایہ
شجر مہرباں جیسے
کبھی نہ رکنے والا زندگی کا کارواں جیسے
کوئی رنگین سی
سنگین سی
اک داستاں جیسے
محبت ابتدا میں بال کھولے مسکراتی ہے
کبھی ہر نظم میں
ہر شعر میں
ہر استعارے میں
گھٹاؤں کی طرح
گِھر گھِر کے آتی اور برستی ہے
کبھی صحرا کی مانند
چند بوندوں کو ترستی ہے
کبھی اک بلبلے کی طرح
پل دو پل کو بنتی پے
کبھی صدیوں تلک
دل کے نہاں خانوں میں بستی ہے
کبھی خرد کے اندیشے
کبھی اک جوش و مستی ہے
کبھی ہنس ہنس کے روتی ہے
کبھی رو رو کے ہنستی ہے
محبت آدمی کی زندگی کا ڈھنگ بدلتی ہے
مگر خود رنگ بدلتی ہے
محبت رنگ بدلتی ہے