Author Topic: برطانوی امیگریشن قوانین امتیازی ہیں : پاکستانی طلبہ تنظیم‘ ماہرین  (Read 1152 times)

0 Members and 1 Guest are viewing this topic.

Offline Shani

  • Newbie
  • *
  • Posts: 130
  • Reputation: 0
لندن (آصف محمود سے) نوائے وقت گروپ آف نیوز پیپرز کے زیراہتمام برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی میں نئے امیگریشن قوانین اور ان کے پاکستانی طالبعلموں پر اثرات کے موضوع پر منعقدہ مذاکرے میں پاکستانی طلبا کی برطانیہ میں نمائندہ تنظیم نیشنل یونین آف پاکستانی سٹوڈنٹس اور امیگریشن ماہرین نے نئی تبدیلیوں کو امتیازی قرار دیا ہے جبکہ ارکان یورپی و برطانوی پارلیمنٹ نے ان پر تحفظات کا اظہار کیا۔ طلبا کی نمائندہ تنظیم (NUPSA) کے ڈائریکٹر جنرل اور آکسفورڈ یونیورسٹی کے طالب علم قاسم رضا نے امیگریشن قوانین میں حالیہ تبدیلیوں کو پاکستانیوں کے ساتھ زیادتی قرار دیتے ہوئے کہاکہ انہیں لاتعداد شکایتیں موصول ہوتی ہیں جس میں پاکستانی طلبا ویزوں کے اجراءمیں غیرضروری تاخیر کی وجہ سے اپنا تعلیمی سال گنوا بیٹھے۔ انہوں نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ ہائی کمیشن کی سطح پر ایک نیٹ ورک بنائے تاکہ آئندہ پاکستان سے برطانیہ حصول تعلیم کے لئے آنے والے طالبعلم جعلی کالجوں سے بچ سکیں۔ پاکستان ینگ لیڈرز کونسل کے داخلہ امور کے شریک چیئرمین حسین ندیم نے پاکستان کی خارجہ پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان بھارت تعلقات میں کشیدگی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کی وجہ سے خا رجہ پالیسی فوج کے زیراثر ہے اور اس سے نکلنے کے لئے ابھی وقت لگے گا۔ پاکستان ینگ لیڈرز کانفرنس کی تعلیمی کمیٹی کی چیئرپرسن اور آکسفورڈ یونیورسٹی کے سینٹ جانز کالج کی طالبہ حرا عمر نے کہا کہ انگریزی زبان برطانیہ آکر تعلیم حاصل کرنے کے لئے اتنی ضروری نہیں۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان سے برطانیہ آنے والے طلبا انگریزی میں اپنی استعداد بڑھائیں۔ انہوں نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ اس سلسلے میں سلیبس میں مناسب تبدیلیاں لائیں تاکہ طلبا بین الاقوامی معیار کے مطابق تیار ہوسکیں۔ NUPSA کے ہیڈ آف میڈیا اور لندن سکول آف اکنامکس کے طالبعلم فیضان رانا نے کہاکہ حکومت پاکستان کو غیرقانونی انسانی سمگلنگ روکنے کے لئے برطانوی شراکت داروں سے مل کر ضروری اقدامات کرنے ہوں گے۔ فیضان رانا نے کہاکہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی جیسے واقعات اور پاکستانی طلبا کے لئے غیرضروری امیگریشن قوانین میں سختیاں طلبا میں شدت پسندی کے رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ برطانیہ میں سٹاپ اینڈ سرچ اور آپریشنوں کے دوران مسلمانوں کو ہفتوں حراست کا سامنا ہے۔ برطانوی خارجہ پالیسی پر اٹھنے والے تحفظات کی وجہ سے نوجوان مسلمان شدت پسند گروپوں کا شکار بن رہے ہیں۔ یورپی پارلیمنٹ کے پہلے پاکستانی نژاد برطانوی رکن سجاد کریم نے انکشاف کیاکہ مانچسٹر میں دہشت گردی کے خلاف آپریشن ”پاتھ وے“ میں گرفتار ہونے والے طلباءکے خلاف کارروائی پاکستان کی طرف سے ان کے خلاف دی جانے والی معلومات کے بعد عمل میں آئی۔ انہوں نے کہاکہ اگر اتحادی ملک کی طرف سے اس طرح کی معلومات فراہم کی جائیں تو دہشت گردی کے خلاف جنگ کی وجہ سے کارروائی کرنا حکومت برطانیہ کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ برطانوی ہاوس آف لارڈز کے رکن لارڈ نذیر احمد نے کہاکہ برطانیہ میں لیبر پارٹی نے امیگریشن قوانین میں سہولتیں پیدا کی ہیں اور قوانین میں حالیہ تبدیلیاں پاکستانیوں کے خلاف نہیں۔ انہوں نے کہاکہ حزب التحریر اور اسلام فار یو کے پر اتنی توجہ نہیں دینی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر عافیہ جیسے واقعات روکنے کے لئے پوری قوم کو متحد ہونا پڑے گا۔ پاکستان ہائی کمیشن کے قونصل جنرل نفیس زکریا نے سختی سے تردید کی کہ مانچسٹر سے گرفتار ہونے والے طلبا کو پاکستان کی معلومات پر گرفتار کیا گیا۔ پاکستانی طالب علموں کے برطانوی ویزوں میں تاخیر کی وجہ برطانوی ہائی کمیشن کی ابوظہبی منتقلی ہے۔ نفیس زکریا نے کہاکہ پاکستانی طلبا کو ویزوں سے انکار کرنے کی تعداد بھارت اور بنگلہ دیش سے زیادہ ہونے کا معاملہ بھی برطانوی حکام سے اٹھایا ہے۔ پاکستان کے قونصل جنرل نے کہاکہ بوگس کالجوں میں چھاپوں کے دوران پاکستانی قومیت کو نمایاں کرکے بدنام کرنے کا مسئلہ بھی وزیر داخلہ برطانیہ اور داخلہ امور کی سلیکٹ کمیٹی کے سامنے اٹھایا گیا ہے۔ برطانوی امیگریشن امور کے ماہر اور ایسوسی ایشن آف پاکستانی لائرز کے چیئرمین بیرسٹر امجد ملک نے کہاکہ برطانوی امیگریشن قوانین میں حالیہ تبدیلیوں سے طلبا کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے اور نئے قوانین کو امتیازی قرار دیا جاسکتا ہے۔ نئے قوانین پر تنقید کرتے ہوئے بیرسٹر امجد ملک نے کہاکہ انگریزی زبان اپنے ملک سے سیکھ کر آنے کی نئی شرط دوسری قومیتوں کے لوگوں کی برطانوی تعلیمی اداروں تک رسائی محدود کردے گی۔