ادھر دیکھ لینا ادھر تم دیکھ لینا
کنکھیوں سے اسکو مگر دیکھ لینا
نہ دینا خطِ شوق گھبرا کے ساقی
محل موقع اے نامہ بر دیکھ لینا
تغافل میں شوخی نرالی ادا تھی
غضب تھا وہ منہ پھیر کر دیکھ لینا
ہمیں جان دیں گے ، ہمیں مر مٹیں گے
ہمیں تم کسی وقت پر دیکھ لینا
دیئے جاتے ہیں آج کچھ لکھ کے تمکو
اسے وقتِ فرصت مگر دیکھ لینا