محسن المجالس
قافلہ حسینی۱کی مدینہ سے روانگی
مجلس اول قافلہ حسینی کی مدینہ سے روانگی خاندان زہرا پر بلند آواز سے ایک صلواة…! مزاج معلی کی نفاستیں اگر برداشت کر سکیں تو صلواة بلند آواز سے پڑھیں… ہم میں سے ہر انسان آلِ محمد کے احسانات کا دائمی مقروض ہے‘ اب جس جس لوحِ ضمیر پر‘ تختی دیدئہ و دل پر آلِ محمد کے احسانات کا کوئی نقش محفوظ ہو تو صلواة خمس سمجھ کر پڑھیں‘ بلند آواز سے… بڑی نوازش‘ ماشاء اللہ چشم بدور‘ مجمع میری توقع سے بھی زیادہ ہے اور صلواة بھی اسی معیار کی ہونا چاہئے‘ صلواة پڑھو بلند۔ محسن نقوی دعا گو ہے کہ محمد و اہل بیت محمد کا خالق محمد و اہل بیت محمد کو اپنی پہچان اور تعارف کے لئے پیدا کرنے والا اللہ… محمد و اہل بیت محمد کے تصدق و طفیل میں کائنات کو پیدا کرنے والا بحق محمد و آل محمد عشرہ محرم میں اس بارگاہ جلیلتہ القدر میں آپ کی حاضری کا آپ کو بہترین اجر عطا فرمائے۔ دعا کرتا ہوں کہ امن کا اللہ شیعان آلِ محمد کو عشرہ محرم میں ہر قسم کے شرپسند عناصر کے سازشی ہتھکنڈوں سے محفوظ رکھے‘ شیعوں کی عزت و ناموس کا محافظ بنا رہے‘ خالق کوئی آنچ نہ آنے دے عباس کے پرچم پر‘ آلِ محمد کے تصدق و طفیل میں بخیر و عافیت ہم شہداء اعظم کو خراج عقیدت پیش کر سکیں۔ مجھے روزانہ اسی وقت آپ سے گفتگو کی سعادت نصیب ہو گی اور یہ جو بارہ تیرہ سال سے میں آپ کی خدمت کربلا گامے شاہ میں کرتا ہوں‘ مولائے کائنات کی بارگاہ میں قبول ہو۔ آپ سے صرف اتنی گزارش ہے کہ ذرا وقت سے تشریف لایا کریں تاکہ مجھے یہ احساس نہ ہونے پائے کہ ابھی مومنین مصروف ہوں گے یا نہیں آئے ہوں گے‘ وہ باتیں جو مجھے کہنا ہوتی ہیں‘ ذرا وقت پر تشریف لائیں تاکہ میں کہہ سکوں۔ آج یکم محرم ہے‘ ۴ ۲ ہجری کا آغاز ہو رہا ہے‘ عجیب سال ہے‘ ایک طرف چودہ ایک طرف بارہ ہے‘ بڑا مقدس اور برکت والا سال ہے‘ چودہ سو بارہ ہجری خالق کرے کہ یہ سال مسلمانان عالم کے لئے انتہائی پرامن اور تحفظ دینے والا سال‘ اتحاد و اتفاق دینے والا سال گزرے۔ خوش بختی یہ ہے ہماری کہ سال کا آغاز ہو رہا ہے‘ اس حسین کے نام سے جس نے پوری انسانیت کے لئے امن کا ایک پیغام چھوڑا ہے۔ اس وقت میری گفتگو پوری انتظامیہ تک پہنچ رہی ہے‘ اس لئے یہ گفتگو آپ کے لئے قابل توجہ ہے کہ ہم ہر سال عشرہ محرم اسی انداز سے مناتے ہیں‘ جیسے اب منا رہے ہیں‘ مجالس کرتے ہیں‘ ماتم کرتے ہیں‘ نوحے پڑھتے ہیں‘ سبیلیں لگاتے ہیں‘ کربلا کے ۷۲ شہیدوں کی یاد میں سوگوار رہتے ہیں‘ دس دن ہم امن کا پرچار کرتے ہیں‘ پوری دنیائے انسانیت کو مقصد شہادت عظمیٰ سمجھاتے ہیں‘ حسین اس لئے کربلا میں شہید ہوئے‘ حسین اس لئے شہید نہیں ہوئے کہ مسلمانوں کا کوئی فرقہ حسین کی یاد منانے والوں کو کافر کہے‘ بڑے پرامن طریقے سے برادری کے ایک فرد کی حیثیت سے دردمندانہ گزارش ہے میری کہ شیعوں سے زیادہ پرامن قوم کوئی نہیں۔ دس دن دور سے نظر آتا ہے کہ کسی مظلوم کی یاد منا رہے ہیں‘ مظلوم کی یاد منانے والا کبھی ظالم نہیں ہو سکتا‘ مقتول کی یاد میں آنسو بہانے والا کبھی قاتل نہیں ہو سکتا‘ دین کے چوروں کی نشاندہی کرنے والا کبھی چوری چھپے کسی پر حملہ نہیں کرتا‘ نہیں سمجھے آپ‘ یہ باتیں نوٹ کر لیجئے۔ اللہ اور محمد کے سامنے اپنے دین کے‘ اپنے دین کے اصولوں کے جواب دہ ہیں ہم۔ میں اس ایمان بھرے مجمع میں بتائے دیتا ہوں کہ ہم اللہ پر ایمان رکھتے ہیں‘ اللہ کو وحدہ لاشریک مانتے ہیں‘ ہم توحید پر ایمان رکھتے ہیں‘ ہم عدل پر ایمان رکھتے ہیں‘ ہم یقین رکھتے ہیں کہ اللہ عادل ہے‘ توحید کے بعد ہمارے دین کی دوسری اصل… دوسری بنیاد… اصول عدل ہے‘ ہم ختم نبوت پر ایمان رکھتے ہیں‘ ہم اس بات پر یقین کامل رکھتے ہیں کہ ختمی مرتبت کے ہوتے ہوئے نہ ہم کسی کو نبی کہہ سکتے ہیں‘ نہ مان سکتے ہیں‘ نہ مسلمان مان سکتے ہیں جو نبوت کا دعویٰ کرے۔ ہم امامت پر کامل ایمان رکھتے ہیں‘ محمد سے لے کر مہدی تک چہاردہ معصومین ہماری زندگی اور شہ رگ حیات ہیں‘ بلکہ شہ رگ سے بھی زیادہ قریب تر ہیں۔ ہم قیامت پر ایمان رکھتے ہیں‘ اللہ کے فرشتوں پر‘ کتابوں پر‘ محشر پر‘ قبر کے حساب پر ایمان رکھتے ہیں‘ اگر اسلام اس کے سوا کچھ ہے تو ہمیں بتایا جائے؟ (ذرا بولتے آؤ میرے ساتھ) اگر اسلام اس کے سوا کچھ ہے تو…؟ جملہ اہل اسلام کے ہاں پہلی شرط ہے‘ لا الہ الا اللہ وہ ہمارا ایمان دوسری شرط اسلام ہے‘ محمد رسول اللہ وہ ہمارا کلمہ‘ تیسری شرط اسلام ہے‘ مسلمانوں کے نزدیک قیامت ہمارا ایمان ہے‘ تمہارا قیامت کا وارث کوئی نہیں‘ ہمارا وارث بھی ہے۔ (جاگتے آؤ ذرا جاگتے آؤ) تمہیں پتہ نہیں قیامت کب آئے گی‘ ہمیں پتہ ہے قیامت کب آئے گی‘ تم آج بھی عیسائی پامسٹوں اور عیسائی منجموں اور عیسائی ماہرین علم نجوم کے کہنے پر قیامت فلاں دن آئے گی… "ہمارا ایمان ہے کہ جب تک ہمارا آخری طلوع نہ ہوا‘ نہیں آ سکتی۔" اس کے علاوہ ہمارے فروع دین ہیں‘ (میرے شیعہ سنی بھائی موجود ہیں‘ توجہ) اصول دین ہیں‘ (پوری توجہ) اصول دین انہیں کہتے ہیں جو کسی مقام پر بدلے نہ جائیں مثلاً توحید اللہ ایک ہے‘ اکیلا ہے‘ وہ وحدہ لا شریک ہے‘ کائنات کا خالق ہے‘ یہ نہیں کہ گھر میں اللہ ایک ہے‘ بازار میں اللہ دو ہیں‘ یہ نہیں کہ پاکستان میں اللہ ایک ہے‘ انگلینڈ میں اللہ دو ہو جاتے ہیں‘ جہاں ہو گا اللہ ایک ہو گا۔ دوسرا اصول ہمارا عدل ہے‘ اللہ عادل ہے‘ منصف نہیں‘ منصف اور عادل میں بڑا فرق ہے۔ منصف نکلا ہے انصاف سے‘ انصاف نکلا ہے نصف سے (ہے توجہ)‘ میں کہتا ہوں یہ نوٹ بک میری ہے‘ شاہ جی کہتے ہیں یہ نوٹ بک میری ہے‘ ایک آدمی کے پاس جاتے ہیں انصاف کے لئے وہ نوٹ بک کے صفحے گنے اور آدھے آدھے گن کے آدھی کاپی اسے دے دی‘ آدھی کاپی مجھے دے دی جائے‘ ہم انصاف کے قائل نہیں‘ عدل کا تقاضا یہ ہے کہ چاہے چھ مہینے لگ جائیں جس کی نوٹ بک ہے اسے ملے‘ اللہ عادل ہے منصف نہیں‘ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں عدالتیں ہیں انصاف نہیں‘ عدالت میں عدل ہونا چاہئے۔ تیسرا ہمارا اصول دین ہے نبوت‘ تمام نبیوں پر ہمارا ایمان‘ حسین کا نانا آخری نبی ہے‘ ہمارا ایمان ہے‘ اس کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا‘ قیامت تک اس پر ہمارا ایمان‘ یہ اصول بھی نہیں بدلے گا‘ نہ خلوت میں‘ نہ جلوت میں‘ نہ بازار میں‘ نہ بزم میں‘ نہ محفل میں‘ نہ تنہائی میں‘ نہ گھر میں‘ نہ باہر کہیں نہیں بدلے گا۔ چوتھا اصول دین ہمارا امامت ہے‘ ہمارے بارہ امام ہیں جو نبوت کی لائی ہوئی شریعت اور قوانین پر امت محمدیہ سے عمل کراتے ہیں (سمجھ میں آ گئی ہے یہ بات)۔ پہلا امام علی بادشاہ ہے‘ دوسرا امام علی کا بیٹا حسن ‘ تیسرا امام ہمارا علی کا بیٹا حسین (امام تو دیکھو نا ہمارے)‘ چوتھا امام حسین کا بیٹا‘ نام علی ‘ لقب زین العابدین‘ سیدالساجدین‘ قیامت تک سجدہ کرنے والوں کا سردار‘ عبادت کرنے والوں کی زینت‘ (کسی اپنے کا ایک لقب ایسا لاؤ نا)‘ پانچویں محمد باقر ‘ نام محمد‘ لقب باقر‘ باقر اسے کہتے ہیں کہ علم کے سمندر کی تہہ میں جا کر سیپیاں لا کر واپس آ کر معرفت کی سیپیاں بانٹنے والا۔ باقر کہتے ہیں‘ علم کی خیرات بانٹنے والے کو‘ باقر وہ لفظ ہے اسے جس طرح بگاڑو گے اپنے معنی دیتا جائے گا‘ باقر علم کے سمندر کا تیراک‘ اسے آپ پیار سے باقرو کہہ دو‘ اپنے معنی تبدیل نہیں کرے گا‘ باقرو کا مطلب ہے کھلے‘ چہرے والا‘ باقری کہہ دو‘ باقری اولاد‘ باقرہ کہہ دو‘ فرات کے ساتھ پڑھا جانے والا‘ یہ ہیں آلِ محمد کے کمالات‘ ہمارا چھٹا امام جعفر صادق جعفر نام‘ صادق لقب‘ جنت میں جس نہر سے انبیاء کو دودھ پلایا جائے گا اسے جعفر کہتے ہیں۔ جعفر صادق ‘ صادق کے معنی ہیں سچا‘ ساتواں امام موسیٰ کاظم ‘ آٹھواں علی رضا ‘ نواں محمد تقی ‘ دسواں علی نقی ‘ گیارہواں حسن عسکری ‘ بارہواں مہدی آخرالزمان ‘ نام محمد لقب مہدی‘ ہادی‘ صاحب الزمان‘ صاحب العصر‘ لقب بقیتہ اللہ‘ صاحب الامر۔ یہ ہیں ہمارے اصول دین‘ پہلا اصول دین توحید‘ کہیں نہیں بدلے گا‘ دوسرا عدل کہیں نہیں بدلے گا‘ تیسرا اصول دین نبوت کہیں نہیں بدلے گا‘ چوتھا امامت کہیں نہیں بدلے گا‘ ان بارہ کے مقابلے میں ہم کسی کو امام تسلیم کرنے کے لئے تیار ہی نہیں‘ پانچواں اصول قیامت کہیں نہیں بدلے گا۔ بارہ کے بارہ معجز نما‘ بارہ کے بارہ اللہ کی طاقت کے مظہر‘ بارہ کے بارہ قوی‘ بارہ کے بارہ ہمارے مددگار‘ بارہ کے بارہ ہماری شفاعت میں شامل‘ بارہ کے بارہ کی شکلیں ایک جیسی‘ بارہ کے بارہ کی عقلیں ایک جیسی‘ بارہ کے بارہ کا کردار ایک جیسا‘ بارہ کے بارہ کا معیار ایک جیسا‘ بارہ کے بارہ کی رفتار ایک جیسی‘ بارہ کے بارہ کا مزاج ایک جیسا‘ بارہ کے بارہ کی معراج ایک جیسی‘ بارہ کے بارہ کی گفتگو ایک جیسی‘ بارہ کے بارہ کی جستجو ایک جیسی‘ بارہ کے بارہ کا انداز ایک جیسا‘ بارہ کے بارہ کا اعجاز ایک جیسا‘ بارہ کے بارہ کا رنگ ایک جیسا‘ بارہ کے بارہ کی امنگ ایک جیسی‘ بارہ کے بارہ کی ذہنیت ایک جیسی‘ بارہ کے بارہ کی نیت ایک جیسی‘ بارہ کے بارہ کی شخصیت ایک جیسی‘ بارہ کے بارہ کی شریعت ایک جیسی۔(نعرئہ حیدری) پانچواں اصول ہے قیامت‘ قیامت نے آنا ہے‘ ٹل نہیں سکتی‘ قیامت نے آنا ہے‘ ٹل کر نہ رہے گی۔ یہ پانچ اصول توحید‘ عدل‘ نبوت‘ امامت‘ قیامت‘ شیعوں کے پانچ کبھی نہیں بدلیں گے‘ چاہے جلوت میں ہوں یا خلوت میں ہوں‘ زندہ ہوں مر جائیں‘ گھر میں ہوں‘ گھر سے باہر ہوں‘ تنہا ہوں‘ بیمار ہوں‘ شفایاب ہوں‘ ملک میں ہوں‘ ملک سے باہر ہوں جہاں بھی ہوں یہ اصول نہیں بدلیں گے۔ اس کے علاوہ ہمارے ہیں فروع دین‘ اصول جمع ہے اصل کی‘ اصل کے معنی ہیں جڑ‘ بنیاد‘ فروع جمع ہے فرع کی‘ ف- ر- ع فرع‘ فرع کہتے ہیں شاخ کو فروع یعنی شاخیں‘ جڑیں ہماری ہیں پانچ‘ جس پر دین کا شجر کھڑا ہے۔ فروع دین ہیں‘ اس کی شاخیں اصول اور فروع میں فرق کیا ہے؟ اصول کبھی نہیں بدلتے‘ فروع بدلتے رہتے ہیں‘ نماز ایک ہے فروع دین‘ گھر میں پوری سفر میں آدھی‘ روزہ گھر میں پورا‘ سفر میں قضا‘ مریض ہو تو نہ رکھے‘ جب شفایاب ہو جائے تب رکھے‘ سفر میں ہو نہ رکھے‘ جب گھر میں ہو قضا کی ادا کرے‘ تیسرا فروع دین حج‘ طاقت ہے تو کرو‘ استطاعت ہے تو کرو اگر استطاعت نہیں تو واجب نہیں‘ زکوٰة مال ہے تو دو‘ بچت ہے تو دو ورنہ کوئی بات نہیں‘ پانچواں خمس‘ جس طرح مال بچے‘ پانچواں حصہ سادات کا غریب سادات کا‘ بچ جائے تو دو ورنہ نہیں۔ یہ سہم امام ہے‘ سہم معصوم ہے‘ چھٹا جہاد‘ طاقت ہے تو کرو‘ بچہ ہے‘ مریض ہے یا جہاد کرنے کے قابل نہیں تو کوئی واجب نہیں۔ ساتواں ہے تولا‘ آلِ محمد کی ولادت کی محبت ماں کے دودھ کی طرح رگوں میں رواں رہے‘ آٹھواں تبرا‘ تبرا کا مطلب بھی غلط لیتے ہیں‘ بعض ہمارے دوسرے فرقہ کے دوست‘ تبرے کا مطلب گالی گلوچ نہیں‘ تبرے کا مطلب ہے بریت اختیار کرنا‘ جو شخص آلِ محمد کا دشمن ہو‘ اس سے دور ہو جانا‘ بیزاری اختیار کرنا‘ تعلق نہ رکھنا‘ یہ نہ ہو کہ قیامت کے دن وہ ہمیں لے ڈوبے(غلط تو نہیں کہہ رہا)‘ گفتگو ذرا خشک ہو گئی‘ مگر ہے ضروری اس لئے کہہ رہا ہوں کہ اس کے بعد کی بات میرا خیال ہے کہ آپ کی سمجھ میں آ جائے۔ یہ ہیں ہمارے فروع دین‘ وہ ہیں ہمارے اصول دین‘ اس کے علاوہ کیا ہے تیرا اسلام بھائی وہ ہمیں بتا دے۔(ٹھیک ہے نا) فروعی اختلاف ہیں‘ نماز ہاتھ کھول کے پڑھو‘ نماز ہاتھ باندھ کے پڑھو‘ روزہ سورج ڈوبے آخری کنارہ زائل ہو نہ ہو روزہ کھول دو‘ چاہے اس کی سزا میں ساری رات کیوں نہ کھڑا ہونا پڑے‘ روزہ کھول دو‘ یہ فروعی اختلافات ہیں یہاں تک آپ میری بات کو سمجھ گئے ہیں تو اب میں۔ شیعوں کا یہ ایمان واضح کرنے کے بعد "میں کسی کافر کو یہ حق نہیں دیتا کہ وہ ہمیں کافر کہے۔" (تھک گئے ہو‘ ذرا جاگ کے سنو!) تخریبی نہ کوئی شیعہ نہ کوئی شیعہ خطیب۔ پاکستان ہمیں اپنی زندگی سے زیادہ عزیز‘ پاکستان کی سرحدیں ہمیں جان سے زیادہ عزیز‘ جب بھی پاکستان پر کوئی مشکل وقت آیا شیعوں نے سب سے زیادہ قربانیاں دیں۔ پاکستان کی بنیاد کی رکھی جانے والی پہلی اینٹ شیعوں کے خون پر رکھی گئی‘ پاکستان کا نام وجود میں لانے والا محمد علی پاکستان اور اسلام ہماری میراث ہے‘ اسلام پھیلا ہے‘ شعب ابی طالب سے یا خدیجتہ الکبری کی دولت کی بدولت "وہ ہمارے"، پاکستان بنا ہے راجہ محمود آباد کی دولت سے اور قائداعظم کی فکر سے "یہ دونوں بھی ہمارے"، پاکستان ہمیں اپنی زندگی سے زیادہ عزیز‘ مگر حسینیت پاکستان سے زیادہ عزیز اس لئے کہ پاکستان کا مطلب کیا "لا الہ الا اللہ" اور "چشتی اجمیری" کہہ گیا کہ حقا کہ بنائے لا الہ است حسین لا الہ کی بنیاد‘ اگر پاکستان کی بنیاد بچانا چاہتے ہو تو مینار پاکستان کے قریب حسین کا علم بلند کر کے‘ جو اس کے سائے میں آنا چاہئے "وہ ہمارا بھائی ہے،‘ (تھکے ہوئے ہو خوف کی وجہ سے)‘ زندگی ایک دن جانی ہے‘ مقصد انتظامیہ سے کہنا چاہتا ہوں کہ یہ دس دن سیدالشہداء کی یاد منانے کے لئے جو آنا چاہے وہ ہمارا بھائی‘ یہ دس دن "حسین اصحاب حسین ‘ انصار حسین کے لئے وقف ہیں۔" ان میں کوئی "شرپسند عنصر"… یا "تخریب کار عناصر" اگر ماتم حسین میں گڑبڑ کریں گے وہ یاد رکھیں کہ انہیں ہم ان کا شجرئہ نسب بتانا جانتے ہیں۔ علی کی عزت کی قسم شیعیت انتظامیہ کے تعاون سے کبھی نہیں پھیلی‘ "شیعیت کو بچانے کے لئے ہمارا اپنا لہو بہت ہے"، اپنی لاشیں بہت ہیں‘ لیکن ہم تو چاہتے ہیں کہ کوئی اپنا نسب بتائے۔ انتظامیہ کے ساتھ ہم دس دن مکمل تعاون کریں گے‘ شیعوں کی طرف سے کوئی گڑبڑ کا اندیشہ ہے ہی نہیں۔ "میں شیعوں کی طرف سے ضمانت دیتا ہوں کہ ان دس دنوں میں کہیں کسی شیعہ کی طرف سے کوئی گڑبڑ پھیلے‘ انتظامیہ مجھے آ کر گولی مار دے۔" مگر عزاداری کے جلوسوں کی راہ میں اگر کوئی رکاوٹ بنے یا رکاوٹ پیدا کرنے کی کوشش کرے تو انتظامیہ اس کے ساتھ خود نمٹے‘ بات لیڈروں کی نہیں‘ کون لیڈر ہے‘ کون لیڈر نہیں‘ میں نے اشتہار پڑھا ہے کہ امن کمیٹیوں کے افراد جلوسوں کے ساتھ جائیں گے‘ امن کمیٹیوں کی شرکت حکماً ہے‘ یہ غلط ہے ہمیں نہ چھیڑو کہ پھر ہماری زبان بیان قضا بنے گی جہاں جہاں تم ستم کرو گے وہاں وہاں کربلا بنے گی (نعرئہ حیدری) چونکہ انتظامیہ موجود ہے‘ اس لئے میں پہلی مجلس میں یہ پیغام دے رہا ہوں‘ ہمیں پاکستان کی سرحدیں بھی اپنی زندگی سے زیادہ عزیز ہیں‘ لیکن یہ جو علم ہے ناں ماں کے دودھ کی پہلی دھار کی قسم کھا کے وعدہ کیا ہوا ہے کہ جب تک ہماری زندگی ہے‘ جب تک یہ دنیا ہے اٹل وعدہ ہے اپنا اے سخی عباس کے پرچم یہ دنیا کیا ہے محشر کو بھی ہم بیدار کر دیں گے اگر شبیر کے ماتم پر پابندی ہو جنت میں تو پھر جنت میں بھی جانے سے ہم انکار کر دیں گے (آخری آدمی تک جسے میری یہ بات اچھی لگی ہو تو مل کر بلند آواز سے "نعرئہ حیدری"، یاعلی ) انتظامیہ کا فرض ہے کہ وہ ہمارا تحفظ کرے ہم انتظامیہ کے ساتھ مکمل تعاون کریں گے‘ ہم اسے کچھ نہیں کہیں گے‘ ہم تو کربلا گامے شاہ کے گیٹ پر بھی تلاشی دیتے ہیں‘ اپنی سیکورٹی کے لئے‘ ہماری قوم کا ہر فرد تعاون کرے گا‘ ہر جوان تعاون کرے گا‘ ہر بزرگ تعاون کرے گا‘ اگر کسی کی یہ بھول ہو کہ ہم انہیں مٹا دیں گے‘ ہمیں اس وقت بھی نہیں مٹایا جا سکا جب ہمارا ایک تھا۔(یاحسین تیرے ماتم دار چپ ہیں) ہمارا ایک تھا مختار ثقفی‘ اس وقت ایک تھا‘ گوشت مودة حسین جیل کی سلاخیں کھا گئیں‘ ہڈیوں کا ڈھانچہ بچ گیا‘ زنجیروں میں جکڑا ہوا‘ سترہ سیڑھیاں زیر زمین زندان میں‘ نہ سورج کے ابھرنے کا علم نہ ڈوبنے کا پتہ‘ چپ پڑا ہوا ہے‘ کبھی کبھی سجدہ کرتا ہے‘ زخم دکھتے ہی خون آتا ہے‘ ہلکا سا‘ کڑی پہ کڑی مار کے کہتا ہے: "یاعلی تیری بھی خیر تیرے چاہنے والوں کی بھی خیر‘ یاعلی تیری محبت کا مزا تو اب آ رہا ہے۔"(نعرئہ حیدری) یاعلی تیرے چاہنے والوں کی خیر‘ یہ تو اتنے ہیں‘ اس وقت ایک تھا‘ ابن زیاد (لعنت)… اس وقت کے ابن زیاد نے حکم دیا‘ ہے کوئی حسین کا نام لینے والا‘ میں اسے بتاؤں کہ حسین کی محبت کتنا بڑا جرم ہے۔ ایک کھڑا ہوا اس نے کہا‘ خوش نہ ہو‘ ایک ہے سہی‘ لیکن ہے تیرے زندان میں‘ مختار ابوعبیدہ ثقفی کا بیٹا‘ زندان میں پڑا ہے‘ اسے لینے کے لئے چار سو سپاہی گئے‘ زندان کے دروازے پر پہنچے‘ دروازہ کھولا‘ ایک سپاہی دوسرے سے کہتا ہے تو جا‘ وہ کہتا ہے میری موت آئی ہے‘ علی کا بھوکا شیر ہے‘ میں کیوں جاؤں؟ ادھر مختار نے اپنے زیور درست کئے‘ مجبوراً کسی نہ کسی کو تیار کر کے انہوں نے بھیجا‘ ایک سپاہی نے چند سیڑھیاں نیچے اتر کے آواز دی‘ مختار کہتا ہے شیر کی کچھار میں کس نے آواز دی؟ کہا باہر آ۔ مختار باہر نکلا‘ چار سو سپاہی دشمن کے مسلح سامنے کھڑے ہیں‘ علی کا بھوکا شیر زنجیروں میں جکڑا ہوا‘ گردن میں طوق‘ ہاتھوں میں ہتھکڑیاں‘ پاؤں میں زنجیر‘ کمر میں لنگر… نہ سپاہیوں سے خوف آیا نہ چہرے کا رنگ زرد ہوا‘ آسمان پر چمکتے ہوئے سورج کو دیکھ کے کہتا ہے کہ میرے مولا علی کی انگشت کی پًشت پر اگے ہوئے ناخن کی ہلکی سی جنبش کے اشارے سے واپس پلٹ آنے والے پیر بھائی "تیرا کیا حال ہے؟" (آخری آدمی تک گونج آئے نعرے کی) "تیرا کیا حال ہے؟" سپاہیوں کا رنگ زرد ہوا‘ آواز آئی مختار ہم سے کلام کر‘ کہتا ہے کیوں آئے ہو؟ ابن زیاد نے بلایا ہے‘ کہتا ہے ایک شرط پر چلوں گا (قیدی ہے شرط اپنی طرف سے لگا رہا ہے) کون سی شرط؟ میں آگے آگے چلوں گا تم پیچھے پیچھے‘ پتہ چلے کہ میں قیدی نہیں‘ مودة علی کا بے تاج بادشاہ ہوں‘ سپاہی پیچھے پیچھے‘ مختار آگے آگے۔ ابن زیاد نے آرڈیننس پاس کیا (کوئی تو ہو گا لفظوں کا قدردان) بارہ عشرے ہو گئے مجھے یہاں پڑھتے ہوئے اور جب تک زندگی ہے زندگی کے آخری سانس تک نوکری دینا ہے۔ اس وقت کے ابن زیاد نے آرڈیننس پاس کیا (اسے بھی بڑا ناز تھا آرڈیننسوں پر) خبردار مختار باغی ہے‘ دربار میں آ رہا ہے‘ کوئی سپاہی‘ کوئی درباری‘ کوئی کرسی والا اس کے استقبال میں کھڑا نہ ہو۔ ادھر دروازے کے افق سے مودة علی کا دمکتا ہوا آفتاب مختار طلوع ہوا۔ اللہ جانے کیسی ہیبت تھی‘ اس کی آنکھوں میں؟ ہر کرسی نشین نے کرسی چھوڑی‘ دونوں ہاتھوں کو پیشانی پر رکھتے ہوئے ہر ایک نے کہا‘ ہمارا سلام‘ ہمارا سلام‘ ہمارا سلام‘ زنجیروں کی جھنکار سے مودة علی کے ترانے بنتا ہوا آگے بڑھا۔ جہاں قیدیوں کے ٹھہرنے کی جگہ تھی وہاں نہیں رکا‘ آگے بڑھا اور آگے آیا اور آگے آیا‘ ابن زیاد ملعون کے سامنے آ کے ایک کمان کے فاصلے پر… دیکھ کے کہتا ہے‘ ابن زیاد‘ ابن زیاد‘ ابن زیاد! مودة علی کی مسلسل عبادت میں بے وقت دخل دینے کا سبب کیا ہے؟ (کوئی سمجھ نہیں رہا) مودة علی کی مسلسل عبادت میں بے وقت دخل دینے کا سبب کیا ہے؟ ابن زیاد کہتا ہے تو باغی ہے۔ مختار کہتا ہے‘ ابن زیاد تیرے بوسیدہ کاغذوں میں میرا عقیدہ رکھنے والا قیامت تک باغی کہلائے گا‘ لیکن میں مودة علی کا بے تاج بادشاہ ہوں۔ ابن زیاد کہتا ہے‘ مختار میں تیرے لئے سزائے موت کا اعلان کرتا ہوں۔ شیعو! میرے لفظ سننا اپنی قوم کو اپنی ہسٹری‘ اپنی تاریخ بتا رہا ہوں‘ کسی قوم کے کسی فرد‘ کسی کے مسلک پر‘ کسی کے عقیدے پر محسن نقوی طنز نہیں کر رہا‘ اپنی قوم کو اپنا مزاج‘ اپنی قوم کو اپنا Meinfesto‘ اپنی قوم کو اپنی Line of Demartion دے رہا ہے‘ کسی پر طنز نہیں‘ آواز آئی میں تیرے لئے سزائے موت تجویز کرتا ہوں‘ سزائے موت کا نام سن کر مختار کے خشک ہونٹوں پر تبسم کی کہکشاں نمودار ہوئی۔ (میرے جیسے نیم پڑھے لکھے دوستوں کے لئے کہہ رہا ہوں) مختار مسکرایا‘ ابن زیادہ کہتا ہے‘ جلاد قریب آ۔ اس نے دوبارہ سزائے موت کا اعلان سنایا‘ مختار ہنس پڑا‘ جلاد قریب آیا‘ ابن زیادہ کہتا ہے‘ تلوار کی نوک مختار کی شہ رگ پر رکھ‘ جلاد نے تلوار کی نوک زنجیروں میں جکڑے ہوئے مختار کی شہ رگ پر رکھی‘ دیکھنا شیعو! جب تلوار کی نوک مختار کی شہ رگ پر آئی نا‘ تلوار کی نوک سے شہ رگ پہ چبھن محسوس ہوئی‘ مختار نے کھا جانے والی آنکھوں سے جلاد کو دیکھا‘ جلاد کے ہاتھوں میں رعشہ آیا‘ مختار کی رگوں میں درد محسوس ہوا‘ مختار مسکرا کے کہتا ہے یاعلی تیری محبت کا لطف تو آب آ رہا ہے۔ (نعرئہ حیدری) (جاگتے آؤ نا) یاعلی تیری محبت کا لطف تو اب آ ر ہا ہے‘ ابن زیاد کہتا ہے‘ جلاد رک جا‘ جلاد رک گیا۔ کہتا ہے‘ مختار تم علی والے۔ (یہ لفظ نہیں سمجھو گے تو تم جانو علی بادشاہ جانے) جس کی سمجھ میں آ جائے گا‘ یہ لفظ اس کی رگوں سے نام علی ضرور پھوٹے گا۔ ابن زیاد کہتا ہے‘ مختار‘ مختار! تم علی والے‘ تم علی والے… موت کا نام سن کر‘ موت کا نام لے کر‘ موت کی آغوش میں پل کر‘ مسکراتے کیوں ہو؟ مختار نے انگڑائی لی‘ (شاہ جی) زنجیریں گریں‘ اس کے قدموں میں آئیں‘ علی کا غلام آزاد ہوا اور آگے بڑھا‘ چار چکر دربار کے لگائے‘ مختار آگے بڑھ کے کہتا ہے ابن زیاد‘ ابن زیاد! اس وقت کا ابن زیاد لکنت آلود زبان میں کہتا ہے مختار تو اتنا قریب کیوں آ گیا ہے؟ مختار کہتا ہے ابن زیاد تو اپنا سوال دہرا‘ دیکھ کے لکنت آلود زبان میں کہتا ہے‘ مختار تم علی والے موت کا نام سن کے مسکراتے کیوں ہو؟ ابن زیاد نے جب سوال دہرایا‘ مختار نے چار چکر دربار کے لئے اور کہا‘ سن ابن زیاد‘ سن ابن زیاد! میں ابھی کم سن بچہ تھا کہ مودة علی کے تاجور بادشاہ نے‘ میں ابھی مودة علی کی آغوش میں پل رہا تھا کہ نبوت کے وارث علی نے‘ قرآن کے وارث علی نے‘ شریعت کے وارث علی نے‘ کل کی خبریں دینے والے علی نے‘ سورج پلٹانے والے علی نے‘ تقدیر کی طنابیں کھینچنے والے علی نے‘ میرے مقدر کے مالک علی نے‘ قرآن بولنے والے علی نے‘ مجھے اپنی آغوش میں بٹھا کر میرے گھنگریالے بالوں کو بوسہ دے کر میری پیشانی چوم کر کہا تھا کہ مختار تو ایک دن بڑا ہو کر اسی منبر پر ایک عرصہ حکومت کرتے ہوئے تین لاکھ چھیالیس ہزار دشمنان علی کو تہ و تیغ کرے گا: "او بے ضمیر اور نمک حرام ابن زیاد ابھی تیرے جیسا کتا مارا ایک نہیں موت پہلے آ گئی۔" اب نعرہ سنا جن کی رگوں میں علی پھوٹتا ہے۔(نعرئہ حیدری‘ یاعلی … نعرئہ تکبیر‘ اللہ اکبر… نعرئہ رسالت‘ یا رسول اللہ… نعرئہ حیدری‘ یاعلی … ایٹم بم نعرئہ حیدری‘ یاعلی ) او نمک حرام‘بے ضمیر ابن زیاد تیرے جیسا کتا مرا ایک نہیں‘ موت پہلے آ گئی‘ موت کا وارث تو علی ہے۔ سارے مختار مزاج دیوانے جاگ گئے ہو‘ سارے جاگ گئے ہو‘ پڑھوں رباعی‘ بتا دینا چاہتا ہوں‘ انتظامیہ کو کہ وہ دشمنان ملک کو پہچانیں‘ شرپسند عناصر کو پہچانیں‘ وہ جو یا رسول اللہ کے دشمن ہیں‘ انہیں میرے بریلوی دوست بھی پہچانیں‘ دونوں سنی شیعہ اکٹھے مل کر ان سے کہیں کہ اگر تم یا کے دشمن ہو تو پھر یا تم رہو گے یا ہم رہیں گے۔ پہلی رباعی پڑھ رہا ہوں‘ چالیس منٹ تک متواتر جگانے کے پورے چالیس منٹ کی گفتگو کے بعد پہلی رباعی پڑھ رہا ہوں‘ اگر میری یہ رباعی ضائع ہو گئی تو مجھے قبر تک دکھ ہو گا‘ تم سے تو میں ناراض ہو نہیں سکتا‘ بولنا ضرور روح اذان ہے باپ تو بیٹا نماز دیں مسجد علی کی ہے تو مصلیٰ حسین کا ایسے نہیں جاگتے آؤ‘ بولتے آؤ‘ میرے ساتھ‘ آخری آدمی تک نہ بولے تو مجھے چین کیسے آئے‘ دور دور سے آئے ہوئے عزادارو! علی صرف جزو اذان نہیں بلکہ… روح اذان ہے باپ تو بیٹا نماز دیں مسجد علی کی ہے تو مصلیٰ… میں پھر پڑھتا ہوں تاکہ یہ نہ کہیں کہ دوسرے مصرعے میں محسن نقوی لغزش لسانی کا شکار ہو گیا‘ دیکھو! میں اپنے آپ کو کتنا نوٹ کرتا ہوں‘ کبھی آپ بھی اپنے آپ کو نوٹ کیا کریں‘ اپنی خاموشی بھی چبھے گی‘ آپ کو روح اذان ہے باپ تو بیٹا نماز دیں مجھے امام حسین کی عزت کی قسم اس مجلس میں… میں ممنون ہوں‘ ان بزرگوں کا جو شجاع آباد سے بسیں بھر کے آتے ہیں‘ ملتان سے‘ میلسی سے‘ فیصل آباد سے‘ راولپنڈی سے کچھ میرے دوست بیٹھے ہوئے ہیں‘ کچھ سٹوڈنٹ بیٹھے ہوئے ہیں‘ میں شکرگزار ہوں ان سب کا‘ لیکن حسین کا واسطہ دس راتیں میرے ساتھ انقلابی بن کے بولتے رہا کرو‘ تاکہ مجھے تنہائی کا احساس نہ ہو‘ رباعی اب سنیں روح اذان ہے باپ تو بیٹا نماز دیں مسجد علی کی ہے تو مصلیٰ حسین کا جاگیر کبریا ہوئی تقسیم اس طرح کعبہ علی کا عرش معلی حسین کا (نعرئہ حیدری) میں دیکھتا ہوں