دسمبر کی رات تھی
اورجنوری کی صبح
میں بستر پر آنکھیں موندے
محو خواب تھی کہ
کانوں میں سال نو کی پہلی اذان
اذان فجر کے کلمات گونجے
میں اٹھی اور نماز ادا کی
میں نے نماز کی اداءیگی کے بعد
اپنی آنکھیں موند لیں
کچھ ہی لمحوں بعد
کھڑکی سے سورج کی کرنیں
میرے گھر کے آنگن میں
پھیلنے کو بے تاب تھیں
مگر میں آنکھیں موندے
گزرے ہوے سال کا
گزرے ہوے دن کا
مشاہدہ کر رہی تھی کہ
پچھلے سال نکلنے والا سورج
بہت سی آنکھوں کو نم کر گیا
بہت سے گھروں میں ماتم کا سماں کر گیا
میرے لبوں پر گہرے شکوے تھے
سورج کی کرنیں
میری کھڑکی پر دستک دے رہی تھیں
میں نے آخر اٹھ کر
کھڑکی کھولی تو
میری آنکھوں کے عین سامنے
سال نو کا دھلا دھلایا سورج
اپنی تمام تر رعناءیوں کے ساتھ
مسکراے کھڑا تھا
کتنی چمک تھی اس کی آنکھوں میں
میں جو اداس تھی اور
گھری تھی اندیشوں میں
سال نو کا تازہ دم بادل
میرے اداس دل کو
بھگونے میری جانب بڑھ رہا تھا
اور اس کی اوٹ سے جھانکتا سورج
مجھے جھک کر نءے سال کی
مبارک باد دے رہا ہے
میں بھی آگے بڑھی اور
ہاتھ بڑھا کر سورج کو
اپنے آنگن میں لے آی
جس سے میر گھر کا آنگن
روشنیوں سے جگمگا اٹھا