بچا ھی کیا ھے سو حد سے گُزر کے دیکھتے ھیں
کہ ٹُوٹ کب کے چُکے اب بکھر کے دیکھتے ھیں
سُنا ھے جو بھی گیا اُس کو مل گئی منزل
سو اُس کی راہ سے ھم بھی گُزر کے دیکھتے ھیں
ستارہ ایک ابھی آسماں پہ باقی ھے
کچھ انتظار زرا اور کر کے دیکھتے ھیں
بس ایک جھلک سے تو ملتا نہیں نظر کو قرار
جو دیکھتے ھیں تو پھر آنکھ بھر کے دیکھتے ھیں