Author Topic: راہ ہدایت  (Read 843 times)

0 Members and 1 Guest are viewing this topic.

Offline Ajnabi

  • Super Moderator
  • *
  • Posts: 3083
  • Reputation: 148
  • Gender: Male
راہ ہدایت
« on: January 27, 2010, 01:05 AM »
کہتے ہیں کہ کسی بھی عمل کے پیچھے اس کی اہمیت کارفرما ہوتی ہے۔ کوئی بھی کام اہمیت کو پیشِ نظر رکھ کر کیا جاتا ہے۔ اگر ہم کسی کام کو مُناسب اور ضروری سمجھتے ہیں تو یقیناً اس کو ترجیح دیتے ہیں اور اپنی سب مصروفیات پر فوقیت دیتے ہوئے جلد سے جلد سرانجام دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی دنیا کا اصول ہے جس کی ہم سب پیروی کرتے ہیں۔
اب بات یہ ہے کہ کسی کام کی اہمیت کا اندازہ کیسے ہو کہ وہ کتنا ضروری ہے؟ کیا اسے دوسرے کاموں پر ترجیح دی جاسکتی ہے؟ تو اس کیلئے اللہ نے انسان کو شعور جیسی نعمت سے نوازا ہے۔ جس کے زریعے انسان بہت سی مشکلات کا حل نکال لیتا ہے، اسی شعور کی بدولت اپنی زندگی کا زائچہ تیار کرتا ہے اور اپنی ترجیحات طے کرلیتا ہے جس کے زریعے سے اپنی زندگی کی گاڑی کو جیسے کیسے بھی ہو دھکا لگا لیتا ہے۔ بات اگر یہیں تک ہو تو ٹھیک ہے مگر ایک ایسی حقیقت کا سامنا ہے جسے کبھی چاہ کر بھی جھٹلا نہیں سکتا، پسِ پُشت نہیں ڈال سکتا اور وہ حقیقت ہے اُخروی زندگی۔۔۔۔۔ کہ جس کے بارے میں اُس کا شعور اُس کی عقل بہت محدود ہے۔ یہاں وہ اپنی عقل کو استعمال کرکے اپنی مرضی کی ترجیحات تشکیل نہیں دے سکتا ہے، ہاں مگر بہت آسان طریقہ ہے اس مسئلہ کے حل کا اور وہ ہے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ترجیحات قائم کی ہیں اُن کو اپنی زندگی کی ترجیحات میں شامل کرلیا جائے تو ہماری زندگی بھی آسان ہوجائے اور آخرت بھی خوبصورت ہو جائے گی انشاءاللہ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سب سے بڑی اور اہم ترجیح جو اللہ نے قائم کی ہے وہ نماز ہے، "نماز جنت کی کنجی ہے"۔۔۔۔۔۔۔� �۔۔ "نماز دین کا سُتون ہے" ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ " بیشک نماز بے حیائی اور بُری باتوں سے روکتی ہے"۔۔۔۔۔۔۔� �۔۔۔۔۔۔ " نماز نیند سے بہتر ہے" ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ان سب حقائق کی موجودگی میں نماز کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے۔
ایک دفعہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ دنیا میں ہر چیز کی پیمائش کا، ہر چیز کے نتائج اخز کرنے کا پیمانہ موجود ہے، کیا ایسا بھی کوئی پیمانہ ہے کہ جس سے ہمیں یہ معلوم ہوسکے کہ ہماری نماز قبول ہورہی ہے یا نہیں۔۔۔۔؟
تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ! ہاں ہے۔۔ اگر نماز پڑہنے کے بعد تم بُرائی سے دور رہو اور تُمہارا ضمیر تُمہیں بُرائی سے روکے اور ملامت کرے تو سمجھو کہ تہاری نماز قبول ہورہی ہے، وگرنہ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔
اگر اپنی سوچوں کو چند لمحات کیلئے میدانِ کربلا میں لے جائیں تو حقیقت مزید واضح ہو جاتی ہے۔ حضرت امام حُسین رضی اللہ عنہہُ نے اللہ اور اس کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم
کے احکامات کوپیشِ نظر رکھا اور دین کی حفاظت کیلئے اپنی قیمتی اور مُبارک جان کو قربان کردیا مگر اللہ اور اس کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی قائم کردہ ترجیحات کو پسِ پُشت نہیں ڈالا، نمازِ عصر کا وقت تھا یزیدی فوج آپ سے لڑائی کیلئے برسرِپیکار تھی مگر آپ نے ایک قاصد کو بھیجا کہ ہمیں نماز ادا کرنے کی مہلت دی جائے مگر جواب انکار کی صورت میں ملا۔۔۔ تو فیصلہ فرمایا کہ آدھے لوگ لڑیں اور آدھے نماز ادا کریں اور جب نماز مکمل کرلیں تو وہ لڑنے والوں کی جگہ لے لیں اور انہیں نماز ادا کرنے دیں۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ یہاں ہمارے لئے لمحہء فکریہ ہے کہ جان جانے کا اندیشہ ہے مگر نماز سے غفلت منظور نہیں، کوئی بہانہ نہیں کہ اے اللہ ہم تیرے سامنے کس حالت میں ہیں نماز کیسے ادا کریں۔۔۔۔۔ """یہاں میں ایک اور تصحیح کرتا چلوں کہ آجکل ہم نظریہ ضرورت کو درمیان میں کھینچ لاتے ہیں کہ فلاں حالت میں فلاں جائز ہے مگر میں یہاں نظریہء ضرورت کی قطعاً نفی کروں گا، ورنہ حضرت امام حُسین رضی اللہ عنہہُ بھی نظریہ ضرورت کے پیشِ نظر یزید کی بیعت کرسکتے تھے اور بعد میں اس کے خلاف جہاد کرسکتے تھے، مگر یہ ان کی شان کے خلاف تھا کہ یہ تو دھوکا دہی کے مترادف تھا حالانکہ جو یزید کر رہا تھا وہ بالکل غلط تھا تو ایسی صورت میں ایسے شخص کے ساتھ مصلحتاً ایسا کیا جاسکتا تھا، مگر اپنی جان کی قربانی کو اُصولوں کی سودے بازی پر ترجیح دی"" توغرض یہ کہ ایسی حالت میں بھی نماز کی پابندی کی۔۔۔۔۔۔ اور جب آپ نے نماز کے بعد دُعا کی تو اللہ سے عرض کی کہ اے اللہ دیکھ لے آج میں نے تیرے دین کی حفاظت اور اپنے نانا کی لاج رکھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔۔۔۔ میری مدد فرما۔۔۔ مجھے سُرخُرو فرما۔۔۔۔۔۔ ۔ ایک سوال زہن میں آتا ہے کہ غزوہء بدر کی تاریخ یہاں کیوں نہیں دُہرئی گئی۔۔۔۔؟ کیا اللہ ان مجاہدین کو یزید کی فوج پر بھاری نہیں کرستا تھا۔۔۔۔؟ کیا اس کی قُدرت میں یہ نہیں تھا۔۔۔۔۔؟ ہاں ۔۔ ہاں تھا۔۔۔۔مگر مقصود کچھ اور تھا۔۔۔ کہ امتحانات قابل لوگوں سے ہی لئے جاتے ہیں نالائق اور گمراہ لوگوں کی اصلاح کیلئے، نواسہء رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دین کیلئے شہادت ہمارے لئے مثال قئم کرنے کیلئے تھی کہ دیکھو اللہ نے اپنے دین کیلئے کتنے عظیم لوگوں سے کیسے کیسے امتحانات لئے کیسی کیسی قربانیاں مانگیں، مگر تم کو کتنا آسان دین عطا فرمادیا کہ بس صرف میری نماز ادا کرو اور میرے احکامات پر عمل کرو باقی تم سے کچھ مقصود نہیں۔۔۔۔ تم تو کسی قابل ہی نہیں ہو تم سے تو کوئی قربانی نہیں مانگی ماسوائے اپنی خواپشات کی قربانی کے جو کربلا جیسی قربانی کے سامنے نہائیت ہی حقیر ہے، مگر پھر بھی تم شکوہ کرتے ہو، پھر بھی تم غفلت کرتے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ کسی شاعر نے کیا خوب منظر پیش کیا ہے کربلا کا بلکہ اس ساعت کو ایک شعر میں بیان کردیا ہے کہ دل پُر سوز ہوجاتا ہے۔
سب آگئے فرشتے عبادت کو چھوڑ کر
کرب وبلا میں دیکھنے سجدہ حُسین کا

کیا ہمارے پاس کوئی گنجائش باقی رہتی ہے نماز کو چھوڑنے کی۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔؟ ہماری ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے کہ ہمیں آخرت کی فکر ہی نہیں ہے۔ ہمین اس دنیا نے اپنی رنگینی میں مبتلا کردیا ہے، فانی زندگی نے ایسا گمراہ کردیا ہےکہ موت جیسی حقیقت کو بُھلائے بیٹھے ہیں،، جس کی وجہ سے نماز ہماری ترجیحات میں شامل نہیں۔۔
حضرت عُمر رضی اللہ عنہہُ جن کو دنیا میں جنت کی بشارت مل چکی تھی مگر اکثر گھاس کا تنکا اٹھا کر فرماتے تھے کہ اے اللہ کاش تو نے مجھے ایسا تنکا بنا دیا ہوتا کہ میں قیامت میں تیرے حساب سے بچ جاتا۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک شرطیہ جنتی کو حساب کی اتنی فکر اور ایک ہم کہ جنہیں زرا احساس بھی نہیں کہ ہمارا کیا ہوگا۔۔۔۔۔۔ ۔۔؟ اگر ہم کبھی نماز پڑہتے بھی ہیں تو اپنی اغراض کیلئے کہ اللہ سے فلاں شے کی دُعا مانگیں تو اللہ شائید ہمیں عطا فرما دے، فرض کی ہماری نظر میں کوئی اہمیت ہی نہیں ہے، اور یہی ایک بنیادی وجہ تصفیہ طلب بات ہے کہ ہماری نظر میں نماز کی اہمیت یہ ہے کہ اگر پڑھ لی جائے تو اللہ خوش ہوکر ہمیں انعام دے گا، ہمارا فلاں مسئلہ حل ہو جائے گا، ہمیں ثواب مل جائے گا۔ ہمارے زہن میں موجود اسی تاثر نے ہمیں نماز سے غافل کر رکھا ہے کہ اگر نہ پڑھی تو بس ثواب ہی نہیں ملے گا۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔ نہیں خُدارا نہیں۔۔۔۔۔۔ ۔۔ نماز صرف ایک ثواب کا زریعہ نہیں بلکہ ایک فرضِ اکبر ہے۔ جس سے غفلت میں ہماری ہلاکت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔
یا اللہ مُجھے نمازی بنا دے اور تباہی سے بچا لے۔۔۔۔۔۔۔
یا اللہ میری مدد فرما، مُجھ پر رحم فرما اور شیطان کے چُنگل سے نجات فرما۔ آمین

وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات




Offline King

  • Sr. Member
  • *
  • Posts: 1652
  • Reputation: 4
  • Gender: Male
Re: راہ ہدایت
« Reply #1 on: January 27, 2010, 09:02 AM »
 JazaKallah