Author Topic: مشکلات Ú©Û’ باوجود پاکستان عالم اسلام Ú©ÛŒ امیدوں کا مرکز ہے : وزیراعظم یوسف رضا گیل  (Read 1120 times)

0 Members and 1 Guest are viewing this topic.

Offline bakr124

  • Sr. Member
  • *
  • Posts: 1263
  • Reputation: 49
    • Email
اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی) وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ بزرگان دین نے ہر علاقے میں شمع اسلام کو روشن کیا‘ ہتھیار نہیں اٹھائے‘ خون بہایا اور نہ ہی خوف و دہشت کی فضا قائم کی‘ لوگوں پر اپنے عقائد مسلط کرنے کی کوشش نہیں کی‘ حسن سلوک‘ رواداری‘ تحمل و برداشت کی مثالیں قائم کر کے محبت کی وہ شمعیں فروزاں کیں جن سے خطے کو جہالت کی گہرائیوں سے نکلنا نصیب ہوا۔ وفاقی وزارت مذہبی امور کے زیراہتمام قومی سیرت کانفرنس کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہاکہ نبی اکرم ﷺنے دنیا کی تمام اقوام کو برابری اور مساوات کا درس دیا‘ مشائخ‘ عظام اور علمائے کرام کی تبلیغی کوششوں سے پوری دنیا میں اسلام کو پھلنے اور پھولنے کا موقع ملا۔ نبی اکرم ﷺکے صدقے پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ اس سال قومی سیرت کانفرنس کا عنوان ”تبلیغ کی حکمت عملی تعلیمات نبوی کی روشنی میں“ ہے۔ حکومت نبی اکرمﷺ کی تعلیمات کو عام کرنے کے لیے ہر مثبت تجویز کا خیرمقدم کرتی ہے‘ تمام تر مشکلات کے باوجود آج بھی پاکستان عالم اسلام کی اُمیدوں کا مرکز ہے۔ سیرت النبی پر پچھلی کئی صدیوں سے علمائے کرام اور محققین روشنی ڈالتے رہے ہیں ‘میرا ایمان ہے یہ سلسلہ تاقیامت جاری رہے گا۔ حضور اکرم کی ذات گرامی رشدو ہدایت کا ابدی چشمہ ہے جس سے چشمہ سے ہدایات کے دریا ہمیشہ رواں رہیں گے۔ دنیا ترقی کرے گی‘ حیات رسول پاک ہر دور میں انسانیت کے دکھوں کے مداوا کا سامان مہیا کرتی رہے گی۔ ہمیں یہ بات مان لینی چاہئے کہ رسول اللہ ﷺکی ساری زندگی کھلی کتاب ہے جس کا کوئی ورق پوشیدہ نہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ نبی اکرم نے ہر ایک کے ساتھ بھلائی کا حکم دیا۔ دعوت و تبلیغ کی بنیاد سراسر بھلائی اور خیر خواہی پر ہے۔ نبی اکرم کی تعلیمات سے یہ سبق ملتا ہے کہ دین کی ابتداءسب سے پہلے اپنی ذات اور اپنے گھر سے ہونی چاہئے پھر اپنی بستی اور شہر سے یہ سلسلہ آگے بڑھنا چاہئے۔ تمام انسانوں اور پوری دنیا کو تبلیغ کے دائرے میں داخل کر لیا جاتا ہے۔ نبی اکرمﷺ نے دنیا کی تمام اقوام کو برابری اور مساوات کا درس دیا ہے۔ تبلیغ کے لیے قریش و غیر قریش‘ عرب و عجم‘ روم و ہند کی تخصیص نہیں فرمائی بلکہ دنیا کی ہر قوم اور ہر گوشہ تک پیغام الہٰی پہنچانا فرض قرار دیا۔ اسلام نے اپنے ماننے والوں کے لیے یہ ضروری قرار دیا کہ وہ خیر کی دعوت دیں‘ اچھائی کرنے اور برے کاموں سے روکنے کی دعوت دیں۔ ایک دوسرے کو سچائی کی نصیحت کرتے رہیں۔ مسلمانوں کو یہ فرض بھی بتایا ہے کہ وہ دوسروں کو تاریکی سے نکالنے کے لیے جدوجہد کریں۔ نبی اکرم کی عالمگیر تعلیمات کا مقصد پوری دنیا میں امن و سلامتی کا قیام اور نسل انسانی کی مکمل حفاظت تھا۔ آپ نے اپنے عالمگیر انسانی پیغام کے ذریعے جو انقلاب برپا کیا اس کے بنیادی مقاصد میں قتل و غارت گری اور ہمیشہ کے لیے فساد کا خاتمہ تھا۔ میں اس بات پر کامل ایمان رکھتا ہوں اگر رہبر انسانیت کے دیئے ہوئے عملی نمونوں اور توقیر انسانیت پر مشتمل تعلیمات پر آج بھی صدق دل سے عمل کیا جائے تو نہ صرف مسلمانوں اور امت مسلمہ کے لیے دنیا اور آخرت کی کامیابی کی راہیں کھل جائیں گی بلکہ پوری دنیا میں امن و سکون کا دور دورہ ہو جائے گا۔ ملک میں بے شمار مساجد‘ دینی درسگاہیں‘ خانقاہیں اور دینی جماعتیں اپنی اپنی جگہ تبلیغ کا کام کر رہی ہیں‘ سوچنے کا مقام یہ ہے کہ ہمارے ہاں افراتفری اور شدت پسندی کی روش کیونکر پیدا ہو گئی۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہماری تبلیغی کاوش اس راہ سے ہٹ گئی جو نبی اکرم نے ہم سب کے لیے پسند فرمائی ہے۔ یہ لمحہ فکریہ ہے ہمیں سوچنا چاہئے ہمارے ہاں کہاں خرابیاں ہیں‘ ان خرابیوں کو کس طرح دور کیا جاسکتا ہے۔ یہ بات درست نہیں کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے‘ اگر ایسا ہوتا تو جاوا سماٹرا‘ انڈونیشیا‘ ملائشیا‘ وسط افریقہ میں آج مسلمانوں کی آبادی اور حکومتیں کیسے قائم ہو سکتی تھیں‘ صرف علماءو اولیائے کرامؒ کے تبلیغی مشن کے نتیجہ میں یہ علاقے اسلام کے نور سے منور ہوئے۔ نبی اکرم کی زندگی میں ہی یہ روشنی تمام عرب میں پھیل گئی تھی۔ آج بھی جزیرہ العرب میں 18 ملین سے زائد مسیحی و یہودی آبادی ہےں جن کے آبا¿ و اجداد نبی اکرم کے زمانے میں ہی عیسائیت و یہودیت کے پیروکار تھے۔ مسلمانوں کی 500 سالہ حکومت کے باوجود کسی نے انہیں زبردستی مسلمان بنانے کی کوشش نہیں کی‘ برصغیر میں مسلمانوں نے ہزار سال حکومت کی لیکن آج بھی اس خطے کی اکثریت غیر مسلم ہے۔ اس کی وجہ حکمرانوں کی دین سے لگاﺅ میں کمی نہیں۔ اصل وجہ یہ ہے کہ اسلام میں زبردستی نہیں جو افراد قبول اسلام کی سعادت سے فیض یاب ہوئے ‘ اس کی وجہ بزرگان دین کا ذاتی کردار‘ اخلاق‘ انسان دوستی اور دلوں کو گرویدہ کر دینے والا طریقہ تبلیغ ہے۔ بزرگان دین نے ہر علاقے میں شمع اسلام کو روشن رکھا۔ انہوں نے ہتھیار نہیں اٹھائے‘ خون نہیں بہایا اور خوف و دہشت کی فضاءقائم نہیں کی تھی۔ اپنے عقائد دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش نہیں کی تھی بلکہ حسن سلوک‘ رواداری‘ تحمل و برداشت کی مثالیں قائم کر کے محبت کی وہ شمعیں فروزاں کیں جن سے اس علاقے کو جہالت کی گہرائیوں سے نکلنا نصیب ہوا۔ پروفیسر میکس وولز کا قول ہے کہ اسلام دراصل تبلیغی مذہب ہے جس نے اپنے آپ کو تبلیغی بنیادوں پر قائم کیا۔ اس کی قوت سے ترقی کی جس پر اس کی زندگی کا انحصار ہے‘ اسلام اگر کسی چیز کا نام ہے تو وہ دعوت حق ہے۔ مسلمانوں کی زندگی کا مقصد نیکی کا پرچار اور برائیوں سے انکار ہے۔