رُکنے کا سمے گزر گیا ہے
جانا تیرا اَب ٹھہر گیا ہے
رخصت کی گھڑی کھڑی ہے سر پر
دل کوئی دو نیم کر گیا ہے
ماتم کی فضا ہے شہرِ دل میں
مجھ میں کوئی شخص مرگیا ہے
بُجھنے کو ہے پھر سے چشمِ نرگس
پھر خوابِ صبا بکھر گیا ہے
بس ایک نگاہ کی تھی اس نے
سارا چہرہ نِکھر گیا ہے
[/b]