گلابی پُھول دِل میں کِھل چکے تھے
ہم اس موسم میں تجھ سے مل چکے تھے
توجہ سے تیری پھر کُھل رہے تھے
وگرنہ زخم تو یہ سِل چکے تھے
ستون کتنا سہارا ان کو دیتے
جو گھر بُنیاد سے ہی ہِل چکے تھے
پُرانی اجنبیت لوٹ آئی
ہم اُن سے اور وہ ہم سے مل چکے تھے
تر و تازہ تھی جاں راہِ جنوں میں
اگرچہ پاؤں اپنے چھل چکے تھے