حضرت آدم عليہ السلام
خدا كى خواہش يہ تھى كہ روئے زمين پر ايك ايسا موجود خلق فرمائے جواس كا نمائندہ ہو ،اس كے صفات، صفات خداوندى كا پرتوہوں اور اس كا مرتبہ ومقام فرشتوںسے بالا ترہو، خدا كى خواہش اور ارادہ يہ تھا كہ سارى زمين اور اس كى نعمتيں ،تمام قوتيں ،سب خزانے ،تمام كانيں اور سارے وسائل بھى اس كے سپرد كردئےے جا ئيں، ضرورى ہے كہ سارى زمين اور اس كى نعمتيں عقل وشعور ،ادر اك كے و افرحصے اور خصوصى استعداد كاحامل ہو جس كى بناء پر موجودات ارضى كى رہبرى اور پيشوائي كا منصب سنبھال سكے _
يہى وجہ ہے كہ قرآن كہتا ہے :""ياد كريںاس وقت كو جب آپ كے پروردگار نے فرشتوںسے كہا كہ ميں روئے زمين پر جانشين مقرركرنے والا ہوں ""_(1)
بہر حال خدا چاہتا تھا كہ ايسے وجود كو پيدا كرے جو عالم وجود كا گلدستہ ہواور خلافت الہى كے مقام كى اہليت ركھتا ہو اور زمين پراللہ كا نمائندہ ہو مربوط آيات كى تفسير ميں ايك حديث جوامام صادق عليہ السلام سے مروى ہے وہ بھى اسى معنى كى طرف اشارہ كرتى ہے كہ فرشتے مقام آدم پہچاننے كے بعد سمجھ گئے كہ ادم اور ان كى اولا دزيادہ حقدار ہيں كہ وہ زمين ميں خلفاء الہى ہوں اور مخلوق پر اس كى حجت ہوں _
--------------------------------------------------------------------------------
(1) سورہ بقرہ آيت30
فرشتوں كا سوال
فرشتوں نے حقيقت كا ادراك كرنے كے لئے نہ كہ اعتراض كى غرض سے عرض كيا :""كيا زمين ميں اسے جانشين قرار دے گا جو فساد كرے گا اور خون بہا ئے گا_ جب كہ ہم تيرى عبادت كرتے ہيں ،تيرى تسبيح وحمد كرتے ہيں اور جس چيز كى تيرى ذات لائق نہيں اس سے تجھے پاك سمجھے ہيں""_(1)
مگر يہاں پرخدانے انہيں سربستہ ومجمل جواب ديا جس كى وضاحت بعد كے مراحل ميں آشكار ہو فرمايا :""ميں ايسى چيزوں كو جانتا ہوں جنہيں تم نہيں جانتے""_(2)
فرشتوں كى گفتگو سے معلوم ہو تا ہے كہ وہ سمجھ گئے تھے كہ يہ انسان سر براہى نہيں بلكہ فساد كرے گا، خون بہائے گا اور خرابياں كرے گا ليكن ديكھنا يہ ہے كہ آخروہ كس طرح سمجھے تھے _
بعض كہتے ہيں خدا نے انسان كے آئندہ حالات بطور اجمال انہيں بتا ئے تھے جب كہ بعض كا احتمال ہے كہ ملائكہ خود اس مطلب كو لفظ ""فى الارض""(زمين ميں) سے سمجھ گئے تھے كيونكہ وہ جانتے تھے انسان مٹى سے پيدا ہوگا اور مادہ اپنى محدوديت كى وجہ سے طبعاً مركز نزاع وتزاحم ہے كيونكہ محدود مادى زمانہ انسانوں كى اس طبيعت كو سيروسيراب نہيں كرسكتا جوزيادہ كى طلب ركھتى ہے يہاں تك كہ اگر سارى دنيا بھى ايك فرد كو دے دى جائے تو ممكن ہے وہ پھر بھى سير نہ ہو اگر كافى احساس ذمہ دارى نہ ہو تو يہ كيفيت فساد اور خونريزى كا سبب بنتى ہے _
بعض دوسرے مفسرين معتقد ہيں كہ فرشتوں كى پيشين گوئي اس وجہ سے تھى كہ آدم روئے زمين كى پہلى مخلوق نہيں تھے بلكہ اس سے قبل بھى ديگر مخلوقات تھيں;جنہوں نے نزاع،جھگڑااور خونريزى كى تھي،ان سے پہلے مخلوقات كى برى فائل نسل آدم كے بارے ميں فرشتوں كى بد گمانى كا باعث بنى _
يہ تين تفاسير ايك دوسرے سے كچھ زيادہ اختلاف نہيں ركھتيں يعنى ممكن ہے يہ تمام امور فرشتوں كي
--------------------------------------------------------------------------------
(1)سورہ بقرہ آيت30
(2)سورہ بقرہ آيت30
اس توجہ كا سبب بنا ہو اور دراصل يہ ايك حقيقت بھى تھى جسے انہوں نے بيان كيا تھا يہى وجہ ہے كہ خدا نے جواب ميں كہيں بھى اس كا انكار نہيں كيا بلكہ اس حقيقت كے ساتھ ساتھ ايسى مزيد حقيقتيں انسان اور اس كے مقام كے بارے ميں موجود ہيں جن سے فرشتے آگاہ نہيں تھے _
فرشتے سمجھتے تھے اگر مقصد عبوديت اور بند گى ہے تو ہم اس كے مصداق كامل ہيں ،ہميشہ عبادت ميں ڈوبے رہتے ہيں لہذا سب سے زيادہ ہم خلافت كے لائق ہيں ليكن وہ اس سے بے خبرتھے كہ ان كے وجود ميں شہوت وغضب اور قسم قسم كى خواہشات موجود نہيں جب كہ انسان كو ميلانات وشہوات نے گھير ركھا ہے اور شيطان ہر طرف سے اسے وسوسہ ميںڈالتا رہتا ہے لہذا ان كى عبادت انسان كى عبادت سے بہت زيادہ فرق ركھتى ہے كہاں اطاعت اور فرمانبردارى ايك طوفان زدہ كى اور كہاں عبادت ان ساحل نشينوں كى جو مطمئن، خالى ہاتھ اور سبك بارہيں _
انہيں كب معلوم تھا كہ اس آدم كى نسل سے محمد ،ابراہيم،نوح،موسي، عيسى عليہم السلام جيسے انبياء اور ائمہ اہل بيت (ع) جيسے معصوم اور ايسے صالح بندے اور جانباز شہيد مرد اور عورتيں عرصئہ وجود ميں قدم ركھيں گے جو پروانہ وار اپنے آپ كو راہ خدا ميں پيش كريں گے ايسے افراد جن كے غور وفكر كى ايك گھڑى فرشتوں كى سالہا سال كى عبادت كے بہتر ہے _
يہ بات قابل توجہ ہے كہ فرشتوں نے اپنے صفات كے بارے ميں تين چيزوں كا سہارا ليا تسبيح، حمد اور تقديس ،در حقيقت وہ يہ كہنا چاہتے تھے كہ اگر ہدف اور غرض ،اطاعت اور بندگى ہے تو ہم فرمانبردار ہيں اور اگر عبادت ہے تو ہم ہر وقت اس ميں مشغول رہتے ہيں اور اگر اپنے آپ كو پاك ركھنا يا صفحہ ارضى كو پاك ركھنا ہے تو ہم ايسا كريں گے جب كہ يہ مادى انسان خود بھى فاسد ہے اور روئے زمين كو بھى فاسد كردے گا _
حقائق كو تفصيل سے ان كے سامنے واضح كرنے كے لئے خداوندعالم نے ان كى آزمائشے كے لئے اقدام كيا تاكہ وہ خود اعتراف كريں كہ:
"" ان كے اور اولاد آدم كے درميان زمين وآسمان كا فرق ہے ""_
فرشتے امتحان كے سانچے ميں
پروردگار كے لطف وكرم سے آدم حقائق عالم كے ادراك كى كافى استعدادركھتے تھے خدا نے ان كى اس استعداد كو فعليت كے درجے تك پہنچا يا اور قرآن كے ارشاد كے مطابق آدم كو تمام اسما ء (عالم وجود كے حقائق واسرار )كى تعليم دى گئي_(1)(2)
--------------------------------------------------------------------------------
(1)سورہ بقرہ آيت31
(2) مفسرين نے اگر چہ ""علم اسماء كى تفسير ميںقسم قسم كے بيانات ديئے ہيں ليكن مسلم ہے كہ آدم كو كلمات واسماء كى تعليم بغير معنى كے نہيں دى تھى كيونكہ يہ كو ئي قابل فخربات نہيں بلكہ مقصد يہ تھا كہ ان اسماء كے معانى ومفاہيم اورجن چيزوں كے وہ نام تھے ان سب كى تعليم ہے البتہ جہان خلقت اور عالم ہستى كے مختلف موجودات كے اسماء خواص سے مربوط علوم سے باخبر وآگاہ كيا جانا حضرت ادم كے لئے بہت بڑا
اعزاز تھا _
ايك حديث ميں ہے كہ حضرت امام صادق عليہ السلام سے اس آيت (وعلم آدم الاسماء كلہا)كے متعلق سوال ہوا تو آپ نے فرمايا : (الارضين والجبال والشعاب والا وديہ ثمہ نظر الى بساط تحتہ فقال وہزا ابساط مما علمہ)_
اسماء سے مرادزمينيں ،پہاڑ،دريا،اوروادياں (غرض يہ كہ تمام موجودات ) تھے، اس كے بعد امام (ع) نے اس فرش كى طرف نگاہ كى جو آپ كے نيچے بچھا ہوا تھا اور فرمايا يہاں تك كہ يہ فرش بھى ان امور ميں سے ہے كہ خدا نے جن كى آدم كو تعليم دى _
لہذا معلوم يہ ہوا كہ علم لغت كے مشابہ نہ تھا بلكہ اس كا تعلق فلسفہ ،اور اسرار اور كيفيات وخواص كے ساتھ تھا، خداوندعالم نے آدم كو اس علم كى تعليم دى تاكہ وہ اپنى سيرتكامل ميں اس جہان كى مادى اور روحانى نعمتوں سے بہرہ ورہوسكيں اسى طرح مختلف چيزوں كے نام ركھنے كى استعداد بھى انہيں دى تاكہ وہ چيزوںكے نام ركھ سيكيں اور ضرورت كے وقت ان كا نام لے كر انہيں بلا سكيں يا منگواسكيں اور يہ ضرورى نہ ہو كہ اس كے لئے ويسى چيز دكھانى پڑے، يہ خود ايك بہت بڑى نعمت ہے اس موضوع كى اہميت ہم اس وقت سمجھتے ہيں جب ديكھتے ہيں كہ انسان كے پاس اس وقت جو كچھ ہے كتاب اور لكھنے كى وجہ سے ہے اور گزرے ہوئے لوگوں كے سب علمى ذخائران كى تحريروں ميں جمع ہيں اور يہ سب كچھ چيزوں كے نام ركھنے اور ان كے خواص كى وجہ سے ہے ورنہ كبھى بھى ممكن نہ تھا كہ ہم گذشتہ لوگوں كے علوم آنے والوں تك منتقل كرسكتے _
پھر خداوند عالم نے فرشتوں سے فرمايا :""اگر سچ كہتے ہوتو ان اشياء اور موجودات كے نام بتاو جنہيں ديكھ رہے ہو اور ان كے اسرارو كيفيات كو بيان كرو،ليكن فرشتے جو اتنا علم نہ ركھتے تھے اس امتحان ميں پيچھے رہ گئے لہذا جواب ميں كہنے لگے خدا وندا :""تومنزہ ہے ،تونے ہميں جوتعليم دى ہے ہم اس كے علاوہ كچھ نہيں جانتے ہميں نہيں معلوم تو خود ہى عليم وحكيم ہے_(1)
اگر ہم نے اس سلسلے ميں سوال كيا ہے تو يہ ہمارى ناآگا ہى كى بناء پرتھا اور آدم كى اس عجيب استعداد اور قدرت سے بے خبر تھے جو ہمارے مقابلے ميں اس كا بہت بڑا امتياز ہے ،بے شك وہ تيرى خلافت وجانشينى كى اہليت ركھتا ہے جہان ہستى كى سرزمين اس كے وجود كے بغير نا قص تھي_
اب آدم عليہ السلام كى بارى آئي كہ وہ ملائكہ كے سامنے موجود ات كا نام ليں اور ان كے اسرار بيان كريں خداوند عالم نے فرمايا :""اے آدم :فرشتوں كو ان موجود ات كے ناموں اور كاموں سے آگاہ كرو،جب آدم نے انہيں ان اسماء سے آگاہ كيا تو خداوند عالم نے فرمايا : كياميں نے تمہيں بتايا نہيں تھا كہ ميں آسمان وزمين كے غيب سے واقف ہوں اور تم جو كچھ ظاہر كرتے اور چھپا تے ہوسب سے باخبر ہوں""_(2)
اس مقام پر ملائكہ نے اس انسان كى وسيع معلومات اور فراواں حكمت ودانائي كے سامنے سرتسليم خم كرديا اور ان پر واضح ہوگيا كہ صرف يہى زمين پر خلافت كى اہليت ركھتا ہے _