حضرت نوح عليہ السلام
قرآن مجيد،بہت سى آيات ميں نوح كے بارے ميں گفتگو كرتا ہے اور مجمو عى طور پر قرآن كى انتيس سورتوں ميںاس عظيم پيغمبر كے بارے ميں گفتگو ہوئي ہے ،ان كانا م43/ مرتبہ قرآن ميں آيا ہے _
قرآن مجيد نے ان كى زندگى كے مختلف حصوں كى باريك بينى كے ساتھ تفصيل بيان كى ہے ايسے جوزيادہ تر تعليم وتربيت اور پندو نصيحت كے پہلوئوں سے متعلق ہيں _
مورخين ومفسرين نے لكھا ہے كہ نوح كا نام "" عبد الغفار ""يا عبد الملك""يا""عبدالاعلى "" تھااور ""نوح"" كا لقب انھيں اس لئے ديا گيا ہے ، كيونكہ وہ سالہا سال اپنے اوپر يا اپنى قوم پر نوحہ گريہ كرتے رہے _آپ كے والد كا نام ""لمك ""يا"" لامك ""تھا اور آپ كى عمر كى مدت ميں اختلاف ہے ،بعض روايات ميں 1490 /اور بعض ميں 2500 /سال بيان كى گئي ہے ، اور ان كى قوم كے بارے ميں بھى طولانى عمريں تقريبََا300/ سال تك لكھى گئي ہيں ،جوبات مسلم ہے وہ يہ ہے كہ آپ نے بہت طولانى عمر پائي ہے، اورقرآن كى صراحت كے مطابق آپ50 9/ سال اپنى قوم كے درميان رہے ( اور تبليغ ميں مشغول رہے)_
نوح كے تين بيٹے تھے ""حام""""سام"" يافث ""اور مو رخين كا نظريہ يہ ہے كہ كرئہ زمين كى اس وقت كى تمام نسل انسانى كى بازگشت انھيں تينوں فرزندوں كى طرف ہے ايك گروہ ""حامي"" نسل ہے جو افريقہ كے علاقہ ميں رہتے ہيں دوسرا گروہ ""سامى ""نسل ہے جوشرق اوسط اور مشرق قريب كے علاقوں ميں رہتے ہيں اور ""يافث "" كى نسل كو چين كے ساكنين سمجھتے ہيں _
950/سال تبليغ 7/مومن
اس بارے ميں بھى ،كہ نوح (ع) طوفان كے بعد كتنے سال زندہ رہے ،اختلاف ہے بعض نے 50 /سال لكھے ہيں اور بعض نے 60 /سال _(1)نوح عليہ السلام كا ايك اور بيٹا بھى تھا جس كا نام ""كنعان ""تھا جس نے باپ سے اختلاف كيا، يہاں تك كہ كشتى نجات ميں ان كے ساتھ بيٹھنے كے لئے بھى تيار نہ ہوا اس نے برے لوگوں كے ساتھ صحبت ركھى اور خاندان نبوت كے ا قدار كو ضائع كرديا اور قرآن كى صراحت كے مطابق آخر كاروہ بھى باقى كفار كے مانند طوفان ميں غرق ہوگيا _اس بارے ميں كہ اس طويل مدت ميں كتنے افراد نوح(ع) پر ايمان لائے ،اور ان كے ساتھ كشتى ميں سوار ہوئے ،اس ميں بھى اختلاف ہے بعض نے 80/اور بعض نے 7/ افراد لكھے ہيں _
نوح عليہ السلام كى داستان عربى اور فارسى ادبيات ميں بہت زيادہ بيان ہوئي ہے ، اور زيادہ تر طوفان اور آپ كى كشتى نجات پر تكيہ ہوا ہے _ نوح عليہ السلام صبر وشكر اور استقامت كى ايك داستان تھے ، اور محققين كا كہنا ہے كہ وہ پہلے شخص ہيں جنھوں نے انسانوں كى ہدايت كےلئے وحى كى منطق كے علاوہ عقل واستدلال كى منطق سے بھى مددلى (جيسا كہ سورہ نوح كى آيات سے اچھى طرح ظاہر ہے ) اور اسى بناء پر آپ اس جہان كے تمام خدا پرستوں پر ايك عظيم حق ركھتے تھے _
قوم نوح عليہ السلام كى ہلا دينے والى سرگزشت
اس ميں شك نہيں كہ حضرت نوح عليہ السلام كا قيام اور ان كے اپنے زمانے كے متكبروں كے ساتھ شديد اور مسلسل جہاد اور ان كے برے انجام كى داستان تاريخ بشر كے فراز ميں ايك نہايت اہم اور بہت عبرت انگيز درس كى حامل ہے_
--------------------------------------------------------------------------------
(1)يہود كے منابع (موجودہ توريت ميں بھى نوح كى زندگى كے بارے ميں تفصيلى بحث آئي ہے ،جو كئي لحاظ سے قرآن سے مختلف ہے اور توريت كى تحريف كى نشانيوں ميں سے ہے ، يہ مباحث توريت كے سفر""تكوين ""ميں فصل 6،7،8 ،9 اور 10 ميں بيان ہوئے ہيں _
قرآن مجيد پہلے مرحلے ميں اس عظيم دعوت كو بيان كرتے ہوئے كہتا ہے ""ہم نے نوح كو ان كى قوم كى طرف بھيجا اور اس نے انھيں بتايا كہ ميں واضح ڈرانے والا ہوں""_ (1)
اس كے بعد اپنى رسالت كے مضمون كو صرف ايك جملہ ميںبطور خلاصہ بيان كرتے ہوئے كہتا ہے ميرا پيغام يہ ہے كہ "" اللہ ""كے علاوہ كسى دوسرے كى پرستش نہ كرو(2) پھر بلا فاصلہ اس كے پيچھے اسى مسئلہ انذاراور اعلام خطر كوتكرار كرتے ہوئے كہا :""ميں تم پر درد ناك دن سے ڈرتا ہوں ""_(3)
اصل ميں اللہ (خدا ئے يكتا ويگانہ ) كى توحيد اور عبادت ہى تمام انبياء كى دعوت كى بنياد ہے _
اب ہم ديكھيں گے كہ پہلا ردّ عمل اس زمانے كے طاغوتوں ،خود سروں اور صاحبان زرو زوركا اس عظيم دعوت اور واضح اعلام خطركے مقابلے ميںكيا تھامسلماََسوائے كچھ بيہودہ اور جھوٹے عذر بہانوں اور بے بنياد استدلالوں كے علاوہ كہ ان كے پاس كچھ بھى نہيں تھا جيساكہ ہر زمانے كے جابروں كے طريقہ ہے _
انہوں نے حضرت نوح كى دعوت كے تين جواب دئے : ""قوم نوح(ع) كے سردار اور سرمايہ داركا فرتھے انہوں نے كہا: ہم تو تجھے صرف اپنے جيسا انسان ديكھتے ہيں""_(4)
حالانكہ اللہ كى رسالت اور پيغام تو فرشتوں كو اپنے كندھوں پر لينا چاہيئے نہ كہ ہم جيسے انسانوں كو ،اس گمان كے ساتھ كہ انسان كا مقام فرشتوں سے نيچے ہے يا انسان كى ضرورت كو فرشتہ انسان سے بہتر جانتا ہے_
امام زادوں كو زائرين كى تعداد سے پہچاناجاتا ہے
ان كى دوسرى دليل يہ تھى كہ : انہوںنے كہا : اے نوح(ع) :"" ہم تيرے گردوپيش اور ان كے درميان كہ جنہوں نے تيرى پيروى كى ہے سوائے چند پست ، ناآگاہ اور بے خبرتھوڑے سن وسال كے نوجوانوں كے كہ جنہوں نے مسائل كى ديكھ بھال نہيں كى كسى كو نہيںديكھتے ""_
--------------------------------------------------------------------------------
(1)سورہ ہود آيت 25
(2)(3)سورہ ہود آيت 26
(4)سورہ ہود آيت27
كسى رہبر اور پيشوا كى حيثيت اور اس كى قدر ورقيمت اس كے پيروكاروں سے پہچانى جاتى ہے اور اصطلاح كے مطابق صاحب مزار كو اس كے زائرين سے پہچانا جاتا ہے جب ہم تمہارے پيروكاروں كو ديكھتے ہيں تو ہميں چند ايك بے بضاعت،گمنام،فقير اور غريب لوگ ہى نظر آتے ہيں جن كا سلسلہ روز گار بھى نہايت ہى معمولى ہے تو پھر ايسى صورت ميں تم كس طرح اميد كر سكتے ہو كہ مشہور و معروف دولت مند اور نامى گرامى لوگ تمہارے سامنے سر تسليم خم كرليں گے_؟
ہم اور يہ لوگ كبھى بھى ايك ساتھ نہيں چل سكتے ہم نہ تو كبھى ايك دستر خوان پر بيٹھے ہيں اور نہ ہى ايك چھت كے نيچے اكھٹے ہوئے ہيں تمہيں ہم سے كيسى غير معقول توقع ہے_
يہ ٹھيك ہے كہ وہ اپنى اس بات ميں سچے تھے كہ كسى پيشوا كو اس كے پيروكاروں سے پہچانا جاتا ہے ليكن ان كى سب سے بڑى غلطى يہ تھى كہ انھوں نے شخصيت كے مفہوم اور معيار كو اچھى طرح نہيں پہچانا تھا_ان كے نزديك شخصيت كا معيارمال و دولت لباس اور گھر اور خوبصورت اور قيمتى سوارى تھا ليكن طہارت،تقوى ،حق جوئي جيسے اعلى انسانى صفات سے غافل تھے جو غريبوں ميں زيادہ اور اميروں ميں كم پائي جاتى ہيں_
طبقاتى اونچ نيچ بدترين صورت ميں ان كى افكار پر حكم فرما تھي_ اسى لئے وہ غريب لوگوں كو""اراذل""، ذليلسمجھتے تھے_
اور اگر وہ طبقاتى معاشرے كے قيد خانے سے باہر نكل كر سوچتے اور باہر كى دنيا كو اپنى آنكھوں سے ديكھتے تو انھيں معلوم ہوجاتا كہ ايسے لوگوں كا ايمان اس پيغمبر كى حقانيت اور اس كى دعوت كى سچائي پر بذات خود ايك دليل ہے_
اور يہ جو انہيں ""بادى الرا ى ""(ظاہر بين بے مطالعہ اور وہ شخص جو پہلى نظر ميں كسى چيز كا عاشق اور خواہاں ہوتا ہے ) ;كا نام ديا ہے حقيقت ميں اس بناء پر ہے كہ وہ ہٹ دھرمى اور غير مناسب تعصبات جو دوسروں ميں تھے وہ نہيںركھتے تھے بلكہ زيادہ تر پاك دل نوجوان تھے جوحقيقت كى پہلى كرن كو جوان كے دل پر پڑتى تھى جلدى محسوس كرليتے تھے وہ اس بيدارى كے ساتھ جو كہ حق كى تلاش سے حاصل ہوتى ہے ،صداقت كى
نشانياں،انبياء كے اقوال وافعال كا ادراك كرليتے تھے _(1)
ان كاتيسرا اعتراض يہ تھا كہ قطع نظر اس سے كہ تو انسان ہے نہ كہ فرشتہ ، علاوہ ازيں تجھ پر ايمان لانے والے نشاندہى كرتے ہيں كہ تيرى دعوت كے مشتملات صحيح نہيں ہيں ""اصولى طور پر تم ہم پر كسى قسم كى برترى نہيں ركھتے كہ جس كى بناء پر ہم تمہارى پيروى كريں ""_(2)
""لہذا ہم گمان كرتے ہيں كہ تم جھوٹے ہو""_(3)
حضرت نوح عليہ السلام كے جوابات
قرآن ميں ان بہانہ جو اورا فسانہ ساز افراد كو حضرت نوح(ع) كى طرف سے ديئے گئے جوابات ذكركيے گئے ہيں پہلے ارشاد ہوتا ہے:
اے قوم :"" ميں اپنے پرورد گار كى طرف سے واضح دليل اور معجزہ كا حامل ہوں اور اس نے اس رسالت وپيغام كى انجام دہى كى وجہ سے اپنى رحمت ميرے شامل حال كى ہے اور يہ امر اگر عدم توجہ كى وجہ سے تم سے مخفى ہوتو كيا پھر بھى تم ميرى رسالت كا انكار كرسكتے ہو اور ميرى پيروى سے دست بردار ہوسكتے ہو""_(4)
يہ جواب قوم نوح(ع) كے مستكبرين كے تين سوالوں ميں سے كس كے ساتھ مربوط ہے؟ مفسرين كے درميان بہت اختلاف ہے ليكن غور وخوض سے واضح ہو جاتا ہے كہ يہ جامع جواب تينوں اعتراضات كا جواب بن سكتا ہے كيونكہ ان كا پہلا اعتراض يہ تھا كہ تم انسان ہو آپ نے فرمايا يہ بجاہے كہ ميں تمہارى طرح كا ہى انسان ہوں ليكن اللہ تعالى كى رحمت ميرے شامل حال ہوئي ہے اور اس نے مجھے كھلى اورواضح نشانياں دى ہيں اس بناء پر ميرى انسانيت اس عظيم رسالت سے مانع نہيں ہوسكتى اور يہ ضرورى نہيں كہ ميں فرشتہ ہوتا _
ان كا دوسرا اعتراض يہ تھا كہ تہارے پيروكار بے فكر اور ظاہر بين افراد ہيں _آپ نے فرمايا تم بے فكر