Author Topic: Tasawwuf - اہل دانش کی نظر  (Read 1817 times)

0 Members and 1 Guest are viewing this topic.

Offline Master Mind

  • 4u
  • Administrator
  • *
  • Posts: 4478
  • Reputation: 85
  • Gender: Male
  • Hum Sab Ek Hin
    • Dilse
    • Email
Tasawwuf - اہل دانش کی نظر
« on: October 28, 2009, 10:25 PM »

 
پیش لفظ
چار دانگ عالم  میں ہر طرف  بے چینی اور تیرگی پھیلی ہوئی ہےنفس پرستی' ہوس  پرستی' جہالت  و گمراہی کے تاریک سائے روئے زمین کا  احاطہ کر چکے ہیں۔ انسان سکون اور امن کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ ظلم و استبداد کی چیرہ دستیوں نے انسان کی تصویر کو بری طرح مسخ کر دیا ہے۔ انسانیت  اپنا گھر تلاش کرتی  پھرتی  ہے  اسے  ایک  ایسے گہوارے  کی ضرورت ہے جہاں اسے سکون' امن اور راحت کی نعمت  میسر ہو۔   وسیع  و  عریض شاہراہیں  اسے منزل  کا پتہ  نہ دے  سکیں۔  فلک  بوس  عمارتوں کا شکوہ اس کا مداوا نہ کر سکا۔ شاہی محلات کی آسائشیں اس کی ضرورت کو پورا نہ کرسکا۔  مال و دولت سے یہ گوہر  نایاب حاصل نہ ہو  سکا۔  سورج چاند تاروں کی  روشنیاں اسکی تاریکی کا علاج کرنے میں ناکام رہیں۔  اسے  روحانیت کے ایک  ایسے چراغ کی ضرورت  ہے جس کی لو میں وہ اپنے من کی تاریک  کوٹھڑی کو اس طرح منور کر سکے کہ ۔'تابر تو عرضہ دارد احوال ملک دارا'۔  یہ چراغ دنیا میں کہیں کہیں روشن ہوتے ہیں مگر ان کی روشنی سے ایک عالم منور ہو جاتا ہے۔ اس روشنی میں رہروان شوق اپنی منزل کا نشان معلوم کرتے ہیں ۔ کچھ لوگ منزل کو پا بھی لیتے ہیں اور کچھ کو خود منزل اس طرح اپنی آغوش میں لے لیتی ہے کہ منزل اور رہرو منزل میں دوئی کا تصور باقی نہیں رہتا۔ یہ لوگ خدا کے وہ مقبول بندے ہوتے ہیں جن کی بدولت کار گہہ عالم میں بہار ہے۔
 
 از صد سخن پیرم یک نکتہ مرا یاد است
عالم نہ  شود  ویراں  تا میکدہ آباد  است
 
جہاں امن  اور  سکون کی نعمت میسر ہوتی ہے ہر دکھ درد کا علاج ہوتا ہے تاریک دل ان کی نگاہ سے بقعہ نور بن جاتے ہیں ۔  مردہ دل حیات دوراں سے سرشارہو جاتے ہیں۔  مساجد بلاشبہ شعائر اللہ ہیں  یہ مقبولان بارگاہ قدس انہیں مساجد  میں جبہ سائی اور  سجدہ ریزی کرتے رہے اور گوہر مقصود کو حاصل کیا۔ مگر اس دوران نفس امارہ کے ساتھ ان کی جنگ جاری رہی اسے شکست دیکر نفس لوامہ سے گزرے ان کا نفس نفس مطمئنہ  قرار  پایا اور  اس طرح ان کی منزل' فادخلی فی عبادی' کے لائق ہو کر یعنی اپنے شیخ سے نسبت کامل کرنے کے بعد  وادخلی جنتی کے اعزاز سے نوازی گئی ان نفوس قدسیہ کے ہاں جب موت مہمان ہوتی ہے حیات دائمی میں تبدیل ہو جاتی  ہے۔  جہاں جہاں قدم  رکھتے ہیں' فیض بانٹتے چلے جاتے  ہیں ان کی رہگزر میں ہر نقش پا  پر عاشق کو  لیلیٰ مقصود منتظر نظر آتی ہے۔ ایسے مرد کامل کے بارے میں حافظ شیرازی نے فرمایا تھا
 
 بر زمینے کہ نشان کف  پائے تو  بود
 سالہا سجدہ صاحب نظراں خواہد بود
 
حضرت خواجہ محمد یار فریدی رحمتہ اللہ علیہ کا شمار انہیں نفوس قدسیہ  میں  ہے جنہوں نے عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اپنی ہستی کو اس طرح مٹایا کہ وہ خود عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بن گئے۔ جن کی سوچ  اور فکر میں نشست و برخاست میں گفتار  و کردار میں ظاہر  و  باطن میں عبادت و ریاضت میں الغرض ان کی زندگی پاک کو کسی بھی زاویے سے دیکھا جائے تو بقول حافظ شیرازی
 
نیست  بر  لوح   دلم  جز  الف  قامت   یار
 چہ  کنم  حرف  دگر یاد  نہ  داد  استا دم   
 
آپ کے خرمن ہستی میں بجز عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوئی اور دانہ نظر نہیں آئے گا۔ آپ علیہ الرحمتہ نے ترویج و اشاعت دین کے لئے گراں قدر خدمات دی ہیں انہیں حضرات کے نقش قدم ہمارے لئے مشعل راہ ہیں۔  ان کی  زندگی پاک کے ہر پہلو میں ہمارے غم کا علاج اور نشان منزل ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ان بز رگان کی سیرت پاک سے استفادہ کرنے کی کوشش کریں ان کے ملفوظات کو پڑھیں اور عمل کریں اور انہیں لوگوں تک پہنچائیں۔ جو قوم اپنے اسلاف کے اس قیمتی اثاثے کو فراموش کردیتی ہے اسکی اپنی بقا غیر یقینی ہو جاتی ہے یہی حوالہ  ہے  جس کی بدولت ہماری پہچان ہوتی ہے جسے ہم نظر انداز کر کے نہ صرف اپنا بلکہ قوم کا عظیم نقصان کر رہے ہیں۔ میرے دل میں ایک عرصے سے حضرت والا کے حالات زندگی جمع کرنے کی خلش تھی بے بضاعتی کے باوجود اس عظیم کام کا ٓآغاز کیا ہے۔ زیر نظر کتاب " حضرت خواجہ محمد یار فریدی رحمتہ اللہ علیہ اہل دانش کی نظر میں" اس سلسلے کی ابتدائی کوشش ہے جو انشاءاللہ العزیز مستقبل قریب  میں ملفوظات کی ضحیم کتاب پر منتج ہو گی۔  اس کتاب کی تدوین  میں  مقالہ  نگار دانشور خواتین  و حضرات  نے جس عرق ریزی عقیدت و محبت اور فن کے پورے نکھار کے ساتھ حضرت خواجہ صاحب علیہ الرحمتہ کے بارے میں خوبصورت خیالات کا اظہار کیا ہے وہ جہاں بذاتِ خود ان کے لئے باعث سعادت ہے وہاں میں دل کی گہرائیوں  سے ان کی کاوش کا شکر گزار اور بے حد ممنون ہوں اللہ تعالیٰ ان کو اس کا اجر عظیم عطا فرمائے۔  آمین 

غلام قطب الدین فریدی
سجادہ نشین آستانہ عالیہ
حضرت خواجہ محمد یار فریدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
گڑھی شریف ۔ تحصیل خان پور۔ ضلع  رحیم یار خان

Offline Master Mind

  • 4u
  • Administrator
  • *
  • Posts: 4478
  • Reputation: 85
  • Gender: Male
  • Hum Sab Ek Hin
    • Dilse
    • Email
Re: Tasawwuf - اہل دانش کی نظر
« Reply #1 on: October 28, 2009, 10:29 PM »
نعت
حضرت خواجہ محمد یار فریدی رحمتہ اللہ علیہ
 
جبینوں میں چمکی ضیائے  محمد  حسینوں  میں ہے انجلائے     محمد
زہے   قوتِ   دست  و   پائے   محمد   قمر   چیر    ڈالا  کیا    موم     پتھر
چلو   دیکھ   لو   جلوہ  ہائے محمد  زِتحت   الثریٰ   تاسر   عرشِ   اعظم
کہ  میں  بن گیا  نقش  پائے   محمد  میرے منہ کو کیوں چومتا ہے زمانہ
ابد  تک  رہے  اے  خدائے   محمد  ازل سے ہے  دل  میں  ہوائے  محمد
کہ  ہے یاد  مجھ کو  وفائے   محمد محمد کو بھولوں  یہ  ممکن نہیں  ہے
خدائے    محمد     بجائے    محمد ہے   مسجود   میرا  خدا  جانتا   ہے
تو   ثابت   ہوا     مدعائے    محمد محمد نے جس دم  محمد  کو  دیکھا
محمد   نے   بخشی خطائے محمد خطا   میری  سب  سے بڑی تھی مگر
 

Offline Master Mind

  • 4u
  • Administrator
  • *
  • Posts: 4478
  • Reputation: 85
  • Gender: Male
  • Hum Sab Ek Hin
    • Dilse
    • Email
Re: Tasawwuf - اہل دانش کی نظر
« Reply #2 on: October 28, 2009, 10:30 PM »
حضرت خواجہ محمد یار علیہ الرحمتہ اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم

از  صدائے  سکن  عشق  ندیدم  خوشتر
یاد گارے  کہ  دریں گنبد  دوار   بماند

خواجہ محمد یار رحمتہ اللہ علیہ اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم سرے سے دو باتیں یا دو عنوان ہیں ہی نہیں کہ ان کے درمیان تعلق یا تعلق کی نوعیت پر گفتگو کی جائے۔ خواجہ محمد یار علیہ الرحمتہ حب نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے  جس بلند  مقام پر  فائز  تھے  وہ لفظ "اور" کا بوجھ بھی برداشت نہیں کرتا۔ وہ خود عشق رسول علیہ الصلوۃ والسلام تھے یوم الست سے ان کا خمیر عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اٹھایا گیا تھا۔
خواجہ محمد یار علیہ الرحمتہ کا عشق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بغیر تصور اسی طرح ناممکن ہے جس طرح عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دلفریب داستان آخرین دور کے اس منفرد محب اور عاشق کے ذکر کے بغیر نامکمل ہے۔  برصغیر پاک و ہند میں عیار انگریز کی ساری کدوکاوش جذبہ عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کمزور کرنے اور  اسے کجلانے پر مرکوز رہی اور اسے یک گونہ کامیابی بھی ہوئی مگر اسے نگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فیضان سمجھنا چاہیے کہ اس نے بالکل غیر متوقع طور پر خواجہ محمد یار علیہ الرحمتہ ایسے چند باکمال لوگ پیدا کر دیے جنہوں نے حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالی عنہ سے لے کر جامی علیہ الرحمتہ تک تمام اہل محبت کے نغمات کو اس انداز میں دہرایا کہ برصغیر کے مسلمانوں کی بیمار روحوں میں نئی زندگی تازگی اور حرارت پیدا ہو گئی۔
یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ ہر دور کے مسلم مفکرین نے مسلمان قوم کی زبوں حالی انحطاط اور زوال کے علاج کے لئے فکرو سوچ کی ہمیشہ  ایک ہی راہ اختیار کی ہے اور وہ ہے محبوب ازل سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے والہانہ محبت اور آپ علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات اقدس سے رشتہ غلامی کی  از سر نو تجدید یعنی
 
 بہ مصطفے برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
 
    حضرت خواجہ محمد یار فریدی رحمتہ اللہ علیہ نے ملت اسلامیہ کو عشق و محبت کا درس دینے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ آپ نے عشق و محبت نبوی صلی اللہ علیہ کا عملی نمونہ پیش کیا۔ آپ علیہ الرحمتہ حب نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسا پیکر تھے جس کی ہر تار ذات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے جڑی ہوئی تھی۔ سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نامی' اسم گرامی آتا تو آپ یوں تڑپ اٹھتے جیسے بے خبری میں کسی نے ہتھیلی پر انگارہ رکھ دیا ہو۔
آپ علیہ الرحمتہ کی اس دعوت اور آواز میں آپ علیہ الرحمتہ کا خون جگر شامل تھا یہ آواز سرا سر حال ہونے کی بنا پر اپنی دلکشی' رعنائی' انفرادیت' اور نرالی ادا کی ایک ایسی پکار تھی جس نے اہل دل تو اپنی جگہ رہے سخت سے سخت دلوں کے بھی تار ہلا دیئے۔ یہ آواز غافل روحوں اور بے چین دلوں کے درد کا درماں ثابت ہوئی۔
ماضی قریب میں برصغیر میں بڑے بڑے نامور اور جادو بیاں خطیب ہو کر گزرے ہیں۔ مثلاً عطاء اللہ شاہ بخاری بلاشبہ اردو زبان کے بہت بڑے خطیب تھے عرصہ دراز تک متحدہ ہندوستان کا کونہ کونہ ان کے سحر انگیز خطابات سے گونجتا رہا مگر انصاف کی بات یہ ہے کہ انہیں خواجہ محمد یار رحمتہ اللہ علیہ ایسے متبع سنت' شب بیدار اور پیکر محبت کے نالوں سے قطعاً کوئی نسبت نہیں ہے وہ الفاظ کی جادوگری اور آواز کی سحر انگیزی تھی جبکہ خواجہ محمد یار رحمتہ اللہ علیہ نے نصف صدی تک منبر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  پر درد و فراق کے ایسے نغمات چھیڑے جن سے انسان تو انسان چرند پرند اور درودیوار بھی وجد میں آکر موم کی طرح پگھل اٹھے۔ خواجہ محمد یار رحمتہ اللہ علیہ  کی آواز وہ الستی آواز تھی جو ابن الفارض سے لے کر بلہے شاہ رحمتہ اللہ علیہ ' شاہ حسین رحمتہ اللہ علیہ' سلطان باہو رحمتہ اللہ علیہ'عبدالطیف بھٹائی رحمتہ اللہ علیہ اور خواجہ غلام فرید رحمتہ اللہ کا مشترک سرمایہ ہے ۔یہی وہ آواز ہے جس نے بلا امتیاز مذہب و ملت تمام انسانوں کے دل کے تار چھیڑے' اس آواز میں ذات حقیقی سے انسان کے تعلق اور نفس شناسی کے علاوہ انسانی دکھ درد غم اور خوشی اور دوسرے واردات کو اس انداز میں سمویا گیا ہے کہ ہر انسان نے اسے اپنی ترجمانی سمجھا ہے ان کی بات  'از دل خیزد و بردل ریزد' کی تھی
حضرت خواجہ محمد یار رحمتہ اللہ علیہ نے عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تحریک و تبلیغ کے لئے تین راستے اختیار کئے وعظ و تقاریر' شعر و شاعری اور عملی نمونہ پیش کرنا۔
آپ علیہ الرحمتہ کے وعظ و تقاریر روایتی انداز کے برعکس اپنے اند جزب و مستی' حدت عشق' رموز عشق اور ہر بات کے واقعاتی منظر کا ایک ایسا منفرد انداز رکھتے تھے جس کی نظیر دور دور تک نہیں ملتی۔ پچاس پچاس ہزار کا مجمع ہے مگر رات کے سمے میں جونہی محمد عربی علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ سچا عاشق
 
 سید و سرور محمد نور جاں  '  بہتر و مہتر شفیع مجرماں
 
کی دلکش صدا بلند کرتا تو واقعہ یہ ہے کہ کسی کو تن من کی خبر نہ رہتی بعض اوقات چشم زدن رات کے چار پہر گزر جاتے اور اچانک اس محفل میں شرکت کی سعادت حاصل کرنے کے لیے صبح آن دھمکتی۔
میرے والد گرامی راس الاصفیا حضرت سید مغفور القادری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے تھے " کہ ایک ایسی ہی محفل میں جب مقام محمدیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر خواجہ محمد یار رحمتہ اللہ علیہ  نے علم و عرفان کا ترانہ چھیڑا تو میں نے دیکھا کہ سامنے بیٹھے ہوئے شیخ الجامعہ مولانا غلام محمد گھوٹوی ایسے جید عالم دین کی روتے روتے داڑھی آنسووں سے تر ہو چکی تھی۔
علم سے عقل و خرد کو تو لاجواب یا مسحور کیا جاسکتا ہے  مگر بے چین روحوں' مضطرب قلوب اور شکوک و شبہات میں گرفتار سینوں کو یقین و معرفت کا نور عطا نہیں کیا جاسکتا اس کے لئے اس نگاہ کی ضرورت ہے جس کے بارے میں حضرت اقبال علیہ الرحمتہ نے فریایا ہے
 
 فقط نگاہ سے ہوتا ہے فیصلہ دل کا
 
بلا شبہ خواجہ محمد یار رحمتہ اللہ علیہ کو قدرت نے پوری فیاضی سے یہ نگاہ عطا کی تھی۔ آپ علیہ الرحمتہ نے آبائی علاقے کے علاوہ لاہور' امرتسر' جالندھر' فیروز پور پٹیالہ' لدھیانہ کے علاقوں کو اپنی تبلیغ اور رشد کا مرکز بنایا ان علاقوں میں ہزاروں لوگوں نے آپ علیہ الرحمتہ کے ہاتھ پر بیعت کی۔
ایک محفل میں آپ علیہ الرحمتہ کو فاضل بریلوی مولانا احمد رضا خان بریلوی رحمتہ اللہ علیہ کی موجودگی میں منبر نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بٹھایا گیا ایک عاشق رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اس سے بڑی خواہش اور کیا ہو سکتی ہے کہ سامنے بھی اپنے وقت کا نامور عالم' شیخ طریقت اور بلند مرتبہ عاشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہو جو علم و معرفت کی تمام لطافتووں اور باریکیوں کو نہ صرف سمجھتا ہو بلکہ خود اس راہ کا راہی ہو ' خواجہ محمد یارفریدی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنا مخصوص خطبہ شروع کیا تو فاضل بریلوی علیہ الرحمتہ نے اٹھ کر آپ رحمتہ اللہ علیہ کے گلے میں پھولوں کا ہار ڈالا اور فرمایا " سر آمد وافطین پنجاب" سوئے اتفاق مسلسل سفر اور وعظ و تقاریر کی وجہ سے آپ علیہ الرحمتہ کا گلا جواب دے گیا اور خطبے سے آگے آپ علیہ الرحمتہ ایک لفظ نہ کہ سکے مگر آپ علیہ الرحمتہ کو ساری عمر اس کا افسوس رہا۔
راقم السطور کے والد گرامی حضرت شاہ مغفور القادری رحمتہ اللہ علیہ  نے ایک دفعہ فرمایا کہ خواجہ محمد یار فریدی علیہ الرحمتہ کی کوئی ایسی بات نہ ہوتی جس کے لئے کتاب و سنت میں مضبوط دلیل موجود نہ ہو۔ ان کے مطابق دوران وعظ آپ علیہ الرحتہ  پر علم و معرفت کی ایسی پلٹ ہوتی جسے آمدکی بجائے واردات غیبی یا فیضان الہٰی کہنا زیادہ صحیح ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر محبت رسول علیہ الصلوۃ والسلام ہے کیا؟ میرے ناقص خیال میں بہترین انسانی اخلاق و مکارم' محاسن و فضائل اور اعلیٰ اوصاف وا اطوار ہی وہ چیزیں ہیں جنہیں ہر دور میں پوجا گیا ہے۔ ان کی نشرو اشاعت کی گئی ہے اور کی جانی چاہیے۔
شہادت گہ عالم میں سروردو عالم صلی اللہ علیہ وسلم اعلیٰ انسانی اوصاف و مکارم اور محامد و محاسن کا ایک ایسا کامل نمونہ ہیں جن کی نظیر تاریخ آج تک پیش نہیں کر سکی؛ آپ علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات گرامی سے محبت دراصل ان اوصاف جمیلہ اور اخلاق عالیہ سے محبت ہے جس کی دانشوران عالم ابتدائے آفرینش سے آرزو کرتے آئے ہیں۔
میرے نزدیک محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعمت عظمٰی عطا ہی اسے کی جاتی ہے جو عام انسانوں سے اپنے ذوق و فکر اور کردار عمل سے بدرجہ ممتاز اور بلند ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ جنہیں یہ نعمت عطا ہوتی ہے وہ اتباعِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں فکر و عمل کا ا یسا مینارہ نور ہوتے ہیں جن سے ہر دور کے انسان روشنی حاصل کرتے رہتے ہیں۔
حضرت خواجہ محمد یار فریدی رحمتہ اللہ علیہ انتہائی متواضع' منکسر المزاج' دردمند دل اور گداز قلب کے مالک تھے' زندگی میں شاید ہی کوئی شخص ان سے رنجیدہ خاطر ہوا ہو' وہ دوسروں کو رنج پہنچانے یا کسی کا دل دکھانے کے مفہوم سے نا آشنا تھے۔
راقم السطور کے جد امجد شیخ المشائخ سید سردار احمد قادری رحمتہ اللہ علیہ تین سال سے مدینہ منورہ میں قیام پزیر تھے۔ آپ مولانا عبدالباقی لکھنوی ثم المدنی سے دورہ حدیث اور فصوص الحکم کی تکمیل کر رہے تھےکہ اس دوران ایک دفعہ آپ علیہ الرحمتہ نے خواب میں سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت فرمائی۔ آپ علیہ الرحمتہ نے دیکھا کہ ایک انتہائی باوقار محفل میں ہزاروں لوگ حسب مراتب دم بخود بیٹھے ہیں اتنے میں سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اشارے سے خواجہ محمد یار رحمتہ اللہ علیہ اٹھے اور آپ علیہ الرحمتہ نے مولانا جامی رحمتہ اللہ علیہ  کی نعت کے یہ مصرعے انتہائی پر سوز آواز میں پڑھے۔
 
 و صلی  اللہ  علی  نور  کز و  شد  ہا   پیدا
زمیں از حب او ساکن فلک در عشق او شیدا

Offline Master Mind

  • 4u
  • Administrator
  • *
  • Posts: 4478
  • Reputation: 85
  • Gender: Male
  • Hum Sab Ek Hin
    • Dilse
    • Email
Re: Tasawwuf - اہل دانش کی نظر
« Reply #3 on: October 28, 2009, 10:32 PM »
عبدالنبی المختار حضرت خواجہ محمد یار فریدی قدس سرہ العزیز
کچھ یادیں کچھ تذکرے
بشیر حسین ناظم ۔ تمغہ حسن کارکردگی

حضرت صاحبزادہ غلام قطب الدین مدظلہ العالی اس فقیر کمتراز قطمیر کے خاص کرم فرماؤں میں سے ہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ جل مجدہ' کے فضل و کرم اور حضور رحمت دارین صلی اللہ علیہ و آلہ واصحابہ وسلم کے  مراحم کےزیر سایہ ہونے کے باعث پیکر تقویٰ و تورع ہیں' صاحب تدین و تشرع ہیں' گنج محاسن و کان محامد ہیں۔ علم ان کا سرمایہ اور عمل ان کی متاع عظیم ہے۔ وہ گفتار و کردار میں اپنے اسلاف و  رحمہم اللہ کا درخشاں نمونہ ہیں۔ اتباع سنت نبوی علی صاحبھا الصلوۃ و السلام ان کا شعار ہے اور محبت نبی مختار علیہ الصلوۃ والسلام ان کا دثار ہے۔ وہ محبتیں بکھیرتے ہیں اور مسرتیں سمیٹتے ہیں ۔ اس حلیہ علم و عمل سے آراستہ اور فضل و کمال سے پیراستہ نوجوان رعنا سے مجھے نہایت گہری محبت اور عمیق ارادت کیشی کا شرف حاصل ہے۔ وہ ایک ایسے سلسلۃ االذہب سے منسلک ہیں جس نے برصغیر پاک و ہند میں پھیلی ہوئی ظلمتوں کے سینے چاک کئے' کفر کی صر صر میں چراغ دین مصطفوی جلائے رکھا لوگوں پر جہل کی یلغار کو ہمت مردانہ سے روکا اور اسلام کے عقاید حقہ کی حفاظت و حصانت میں مومنانہ کردار ادا کیا۔
حضرت صاحبزادہ غلام قطب الدین ذاد اللہ فیوضہ سے میری پہلی ملاقات آج سے کوئی تین سال پہلے الحمراء آرٹ کونسل کے ایک ہال میں اس وقت ہوئی جب ان کے بزرگ نامی و سامی حضرت سرکار خواجہ عبدالنبی فریدی علیہ الرحمتہ قدس سرہ' کا عرس بپا تھا۔ اس دن سے آج تک میرا دل ان کی عروس محبت کے لئے اورنگ آراستہ اور حجلہ مزین ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اپنے محبوب محتشم  علیہ الصلوۃ والسلام کی عنایتوں اور اولیائے جملہ سلاسل کی برکتوں سے یہ رشتہ ارادت کیشی قائم و دائم رکھے۔ آمین۔
 حضرت خواجہ محمد یار عبد احمد مختاررحمتہ اللہ علیہ کی یاد میں منعقد ہونے والی اس تقریب میں مجھے ان کی ایک فارسی غزل جس کا مطلع یہ ہے
 
 ما سلطنت  بکوچہ  جاناں فروختیم
مور  حقیر  رابہ  سلیماں  فروختیم
 
ترنم سے پڑھنے کے لیے کہا گیا۔ اس محفل نور نگہت میں سپیکر پنجاب اسمبلی جناب میاں منظور احمد وٹو صاحب' جناب راجا رشید محمود صاحب' محترمہ بشری رحمان صاحبہ' برادر محترم جناب حاجی عبدالرشید فاروقی صاحب' حاجی علامہ محمد اقبال احمد فاروقی صاحب ' برادرم اقبال ربانی ڈائریکٹر ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن اور نعت خوان بے ہمنا و یکتا جناب محمد ثناء اللہ بٹ صاحب موجود تھے۔ چونکہ میں اپنے ممدوح خواجہ محمد یار فریدی رحمتہ اللہ علیہ کی زیارت سے کئی بار حزب الاحناف لاہور کے سالانہ جلسوں میں مشرف ہو چکا تھا اور ان کے مواعظ حسنہ سے بھی تمتع کر چکا تھا اس لئے جب میں نے اپنے دل میں ان کا نقش جمایا تو ذہن میں کچھ مناظر ابھرے جن  کے تناظر میں میں نے کچھ باتیں کیں جن سے میں خود محظوظ ہوا اور حاضرین و ناظرین  بھی مسرور و شاد کام ہوئے۔
یہ 1945ء یعنی تشکیل پاکستان سے دو سال قبل کی بات ہے کہ نعت خواں اعظم' وقت کے استاد جناب میاں غلام حسین چوہان مجھے اپنی معیت میں مرکزی حزب الاحناف لاہور  کے سالانہ اجلاس   جو مسجد وزیر خان لاہور میں منعقد تھا لے گئے۔ میرا طفولیت کا زمانہ تھا لیکن والد محترم کی تربیت کے فیضان سے میں نعت بہت اچھی پڑھتا تھا اور وہ بھی اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رحمتہ اللہ علیہ کی۔ وہاں والد محترم علیہ الرحمتہ نے مجھے دو نامور ہستیوں سے ملایا اور ان کے ہاتھ چومنے کے لئے کہا۔ میں نے تقلید کی تو دونوں نے میرے سر پر ہاتھ پھیرے مجھے دعائیں دیں اور میں اپنے والد صاحب کے ساتھ حضرت قبلہ محدث کچھوچھی رحمتہ اللہ علیہ کےپیچھے بیٹھ گیا۔ میرے میاں جی نے مجھے بتایا کہ وہ شخصیت جو صاحب حسن و جمال و خوبصورت لباس پہن کر بیٹھے ہیں ان کا نام حضرت محمد یار فریدی علیہ الرحمتہ ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ یہ حضرت مقبول بارگاہ رب العالمین اور عاشق رحمتہ اللعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ عالمان حق میں سے ہیں۔ ان کے مواعظ کی تاثیر یہ ہے کہ چلتے پانیوں کو روک لیتے اور اڑتے طائروں کی جان لے لیتے ہیں ان دنوں مجھے اتنی علمی شدھ بدھ تھی ہی نہیں کہ میں ان کے اقوال و فرمودات کا استقصاء کر سکتا البتہ اچھی آواز کی مجھے پہچان ضرور تھی۔
رات کا اجلاس حضرت محدث کچھوچھی علیہ رحمتہ کی صدارت میں تلاوت قرآن کریم سے شروع ہوا۔ اس وقت کے عظیم قاری جناب محمد طفیل صاحب نے تلاوت کی۔ بریلی سے آئے ہوئے ایک اچھے نعت خواں نے نعت پڑھی۔ پھر  حضرت قبلہ ابوالبرکات سید احمد صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے مجھے فرمایا کہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمتہ کی نعت
 
چمک تجھ سے پاتے ہیں سب پانے والے
مرا  دل بھی چمکا  دے چمکانے  والے 
 
  پڑھو۔ میرے والد محترم نے مجھے آشیرباد دی تو میں نے ایسے ذوق و شوق سے نعت پڑھی کہ مجلس پر عجیب کیفیت طاری ہو گئی۔
اس محفل میں برصغیر پاک و ہند کے چیدہ  و چنیدہ علماء و مشائخ شرکت کے لئے تشریف لاتے تھے۔ جن میں محدث کچھوچھی رحمتہ اللہ علیہ کی یہ شان تھی کہ ان کے چہرے پر نظر پڑتی تو زبان پر اللہ اکبر آجاتا ۔ بعد میں پتا چلا کہ یہ صحیح مرد مومن کی نشانی ہوتی ہے کہ اس کے چہرے پر نظر پڑے تو زبان سے اللہ اکبر نکلتا ہے۔
ان دنوں تحریک پاکستان و تشکیل پاکستان کے لئے جدوجہد اپنے عروج کو پہنچنے والی تھی ۔ قرار دادِ پاکستان کے بعد بریلوی مکتب فکر کے جید علماء ( اللہ تعالیٰ ان کے دنیوی و روحانی مراتب و مدارج بلند فرمائے) نے پورے برصغیر پاک و ہند میں تحریک پاکستان میں زبردست حصہ لیا اور مرکزی حزب الاحناف کے سالانہ جلسوں میں قرارداد پاکستان کے عملی پہلوؤں پر کام کرنے کے لئے علمائے کرام کو مخصوص علاقوں میں متعین کیا گیا۔ حضرت ممدوح ما سرکار محمد یار فریدی علیہ الرحمتہ کو بنارس سنی کانفرنس کے بعد پورے سرائیکی بیلٹ میں تحریک پاکستان و تشکیل پاکستان کے لئے فرائض سونپے گئے آپ علیہ الرحمتہ نے نہ صرف  سرائیکی بیلٹ میں  ہی تحریک پاکستان و تشکیل پاکستان لے لئے کام کیا بلکہ حضرت مولانا محمد بخش مسلم رحمتہ اللہ علیہ  کے ساتھ پنجاب کے اضلاع جہاں یونینسٹ پارٹی کا اثر و رسوخ تھا' میں بھی کامیاب دورے کئے اور انگریز کی زلہ ربا پارٹی کا طلسم و سحر اچھی طرح توڑا۔ حضرت مولانا مسلم علیہ الرحمتہ نے بتایا کہ حضرت خواجہ محمد یار فریدی رحمتہ اللہ علیہ  صوبہ سرحد میں ریفرنڈم کے وقت بھی ان کے ساتھ تھے۔ انہوں نے پختونوں کو قیام پاکستان کی برکات سے آگاہ کیا اور علالت کے باوجود پہاڑی علاقوں میں ان کے ساتھ جا کر سرحدی گاندھی عبدالغفار خان' ڈاکٹر خان صاحب اور دیگر مخالفین پاکستان کو کمر توڑ شکست دی۔
ہاں تو میں بات کر رہا تھا حزب الاحناف میں آپ علیہ الرحمتہ کی تشریف آوری کی اور خیالات کے اظہار کی حضرت قاری احمد حسن امروہی نہایت ہی خوش آواز' خوش صوت اور خوش الحان تھے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت عبدالنبی المختاررحمتہ اللہ علیہ کو بھی لحن داؤدی سے نواز رکھا تھا۔ عموماً یہ ہوتا کہ یا تو پہلے قاری احمد حسن کو کچھ بیان کرنے کے لئے کہا جاتا یا حضرت خواجہ محمد یار فریدی رحمتہ اللہ علیہ کو۔ حضرت قاری احمد حسن رحمتہ اللہ علیہ منبر پر بیٹھتے ہی خطبے کے بعد مثنوی مولانا روم رحمتہ اللہ علیہ سے چند اشعار پڑھتے تو حاضرین کرام بسمل کی طرح لوٹنے لگتے۔ تعلیم کا معیار انتا بلند تھاکہ واجبی پڑھے لکھے حضرات فارسی خوب سمجھتے تھے اور علماء کو اس طرح داد دیتے تھے جیسے کوئی علامہ کسی علامہ کی علمی قدرومنزلت کرتا ہے۔
حضرت محمد یار بندہ احمد مختار رحمتہ اللہ علیہ کو بھی مبدء فیاض نے شیریں زبانی و رنگین بیانی کے بےبہا جوہر عطا کیے ہوئے تھے اور سرکار مدینہ علیہ الصلواۃ والسلام کی حضوری کا شرف حاصل تھا۔ خواجگان چشت رحمہم اللہ کی فیاضیوں نے حضرت خواجہ محمد یار فریدی رحمتہ اللہ علیہ میں سینکڑوں خوبیاں پیدا کر دی تھیں۔ جن میں سے خوبئی سوز و گداز برذروہ معراج تھی۔ وہ بولتے تو سامعین کے دلوں کو برف کی طرح پگھلا دیتے۔ احجار کو پھول بنا دیتے۔ سنگ کو خاصیت موم بخش دیتے اور بعض دفعہ بے زبانی زبان بن جاتی تو لوگ ماہی بے آب کی طرح تڑپنے لگتے۔
جلسہ حزب الاحناف میں آپ علیہ الرحمتہ نے اپنے مخصوص انداز میں مثنوی کے چند اشعار باقاعدہ وعظ سے پہلے پڑھے تو حضرت محدث کچھوچھی رحمتہ اللہ علیہ خاص کر مولانا الشیخ عبداغفور ہزاروی اعلیٰ اللہ مقامہ ونور اللہ فریحہ' اہتراز سر سے داد دینے لگے اور کہنے لگے واہ اوئے جنے دیا پترا(تمہارے قربان جاوں اے مرد حق کے لخت جگر) جلسے کی مختلف نشستیں ہوئیں۔ اہل لاہور اور دور دراز سے آئے ہوئے لوگ منتظمین سے پوچھتے رہے کہ حضرت خواجہ محمد یار فریدی رحمتہ اللہ علیہ  کی کب باری ہے ۔ حضرت کی مقبولیت اور تاثیر وعظ کا اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
شاعر ملت ترجمان حقیقت حضرت علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے مسلمانان عالم کی سیاسی و دینی پستی و حضیض کو  بلندی و فراز میں بدلنے لئے مثنوی خودی و اسرار خودی شائع کرائی اس میں انہوں نے ہر اس مفکر کی خبر لی جو بے عملی' تکاسل' تساہل اور رسم شبیری کے خلاف تعلیم دیتارہا ہو۔ اس مثنوی میں حضرت علامہ علیہ الرحمتہ  نے افلاطون کو
 
گو  سفندے    درلباس   آدم   است
حکم  او برجان صوفی محکم است

Offline Master Mind

  • 4u
  • Administrator
  • *
  • Posts: 4478
  • Reputation: 85
  • Gender: Male
  • Hum Sab Ek Hin
    • Dilse
    • Email
Re: Tasawwuf - اہل دانش کی نظر
« Reply #4 on: October 28, 2009, 10:35 PM »
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
      فیضان فرید علیہ الرحمتہ
               بشریٰ رحمٰن     
ہنس کے کہا محمدا  میں ہوں محمد عرب


حضرت قبلہ خواجہ محمد یار فریدی رحمتہ اللہ علیہ قدس سرہ' صوفیائے کرام کی کہکشاں میں دمکتے ہوئے تابندہ و خیرہ چشم نور کی ایک ایسی کرن کی مانند ہیں جس کا شرار خون سلطان العارفین حضرت خواجہ غلام فرید رحمتہ اللہ علیہ کے شعلے سے پھوٹا۔ تمام صوفیائے کرام و اولیائے عظام کا رخ غار حرا سے پھوٹنے والے چاند کی جانب ہے۔ اسی ماہ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نور ان کے افعال و کردار پر منعکس نظر آتا ہے۔ اللہ کے یہ نرالے بندے اپنی خاکستر میں عشق حقیقی کی ایک ایسی چنگاری لے کر دنیا میں آئے جو  ابد الاباد  تک کڑی در کڑی یونہی سلگتی رہے گی نور دیتی رہے گی ایک کا سلسلہ دوسرے سے یوں ملتا ہے جیسے دور سے آسمان پر ستاروں کے جھرمٹ بالکل ایک جیسے نظر آتے ہیں۔ لیکن  ذرا قریب ہو کر دیکھیں تو ہر ستارا دوسرے سے جدا نظر آتا ہے۔ البتہ سب کا مخزن نور اور ماخذ ظہور ایک ہی ہے۔
حضرت خواجہ محد یار فریدی رحمتہ اللہ علیہ کی ساری زندگی مرشد کی نگاہ فیض کا کرشمہ ہے۔ مرشد کامل ہو تو دل کی دنیا کو زیرو زبر کر کے رکھ دیتا ہے۔ حضرت قبلہ خواجہ غلام فرید رحمتہ اللہ علیہ سائیں نے اپنی نگاہ فیض رساں سے جناب خواجہ محمد یار رحمتہ اللہ علیہ کو محمد یار فریدی بنا دیا۔
جب آپ رحمتہ اللہ علیہ فریدی ہوئے تو رمز محبت سے شناسا ہوئے۔ دید مزید کی لذت سے آگاہی ہوئی تو محمد یار' محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یار بن گیا۔ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نام کا خمار ایسا تھا کہ تزکیہ نفس و معرفت الٰہیہ کی ساری منزلیں طے کر گئے۔ اپنے ہی نام سے نسبت کا عصا نکلا جس نے حیات کے چڑھے دریا کو بیچ دھارے میں سے دو لخت کر دیا۔ جہاں وصال محبوب کا حسین سنگم تھا ' وہیں پر خواجہ محمد یار رحمتہ اللہ علیہ کو دل کی ہر تمنا کا سراغ مل گیا۔
 

ہم   نام   محمد   ہوں   مداح   محمد   بھی
ہاتھوں سے نہ چھوٹے گا دامان محمد بھی 

 
اپنے نام کی معنویت پر کس قدر نازاں ہیں
 

 خطا میری سب سے بڑی تھی مگر
محمد  نے   بخشی  خطائے   محمد
 

قدموں میں لوٹ پوٹ ہو کر رسائی کی حاصل کرنے کی ادا دیکھئے
 

ہنس کے کہا  محمدا میں ہوں محمد عرب
میرا جہاں گزر ہوا  تیرا وہاں گزر   نہیں
 

برصغیر کی پوری تاریخ میں صوفیاۓ کرام نے تبلیغ اسلام کے لئے جو سنہری کارنامے انجام دیئے ہیں انہی کی وجہ سے روح جنیدی رحمتہ اللہ علیہ و صدائے بلالی  رضی اللہ تعالٰی کی گونج ہمیشہ کے لئے اس سرزمین پر رہ گئی ہے۔ صوفی شعراء میں تین قدریں مشترک ہوتی ہیں۔
تصوف ' تبلیغ  اور  شاعری
سارے صوفی شعراء نے تبلیغ و تدریس کے لئے شاعری کو ابلاغ و اظہار کا ذریعہ بنایا بلکہ بعض شعراء نے تو کئی کئی زبانوں میں شاعری کی۔ خواجہ محمد یار فریدی رحمتہ اللہ علیہ نے بھی تین زبانوں میں شاعری کی۔
شاعری ایک الہامی کیفیت ہوتی ہے۔ ایک ایسا وجدان۔ جس میں لمحہ بھرکے لئے۔ بندے کی کوئی تار  رب سے مل جاتی ہے۔ پھر من کا طنبورہ آپ ہی آپ بجتا رہتا ہے۔ زبان گہر  اگلتی ہے اور قلم موتی چنتا رہتا ہے۔ صوفیوں کی شاعری ساری اندر کی شاعری ہے۔ اندر کے ایک خوبصورت سفر کی داستان دلآویز ہے۔
 

من  نمی  دانم کجا یم ' کیستم
در  خودی  خود  فنایم کیستم
بے  نوایم  بے نوایم  بے نوا
بے   نوایاں  را  نوایم  کیستم

 

حضرت خواجہ محمدیار رحمتہ اللہ علیہ قدس سرہ کی شاعری طلب وصل و طرب کے اندر جزب و کیف دوری و رنجوری ۔ رسائی و نارسائی۔ بندگی و زندگی ۔ کا ایک خوبصورت گلدستہ ہے۔
 

دارالشفا میں  رہ کے میں بیمار کیوں رہوں
چارہ ہے جب تو میرا تو ناچار کیوں رہوں 
 

شاعری کیا بس ایک مست الست کی سی کیفیت ہے کہ جس طرح کسی دیوانے کے ہاتھ میں نام محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اکتارا آگیا ہے۔ اور زخمی انگلیوں کی پوروں سے نغمے پھوٹ رہے ہوں۔
 

 ہم تو قرآن کے حافظ ہیں پڑھا کرتے ہیں
رخِ   محبوب   انوکھا  ہے  یہ  قرآن  اپنا 

 
خواجہ محمد یار فریدی رحمتہ اللہ علیہ کی شاعری پر اپنے مرشد قبلہ خواجہ پیر سائیں فرید علیہ الرحمتہ سائیں کی شاعری کا رنگ بھی چڑھا ہوا ہے، کیا کیجئے۔۔۔۔۔ جب مرشد قوس قزح کے سات رنگوں میں نظر آ ئے۔ تو کوئی رنگ اپنا رنگ نہیں رہتا۔ دراصل مرشد ہی کا رنگ صبغت اللہ کا مظہر ہے۔ تو پھر اس کا رنگ' حرف و آہنگ میں کیوں نہ چھلکے گا۔
 

ہر  ہک  دے   وچ    ہک   دا   جلوہ
ہر      جا       ہک     دے     ویرے

 
حضرت خواجہ غلام فرید رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
 

ہک  جلوہ  ہر  ہر طرف ڈٹھم
سو گوٹھ  ڈٹھم  سو  دیار ڈٹھم 
 

درج ذیل اشعار حضرت خواجہ محمد یار رحمتہ اللہ علیہ قدس سرہ  کے ہیں۔ مگر فکری و لسانی ہم آہنگی کی وجہ سے اکثر لوگ انہیں خواجہ غلام فرید رحمتہ اللہ علیہ کے اشعار سمجھتے ہیں۔
 

حقیقت  محمد   دی  پا  کوئی  نئیں  سگدا
اتھاں چپ دی جا ہے الا کوئی نئیں سگدا
مزاہب  دے جھگڑے اساں چھوڑ بیٹھے
محبت دا  جھگڑا  چھڑا کوئی نئیں سگدا
 

حضرت خواجہ محمد یار فریدی رحمتہ اللہ علیہ قدس سرہ  کی سرائیکی شاعری میں حزن و ملال' موسیقیت کا رچاؤ فکری بالیدگی' دل کی کیفیتوں کا اتار چڑھاؤ' روائیتی مٹھاس'ایک انمٹ آس اور سوندھی سوندھی مٹی کی باس ہے۔
 

محمد محمد پکیندیں گزر گئی
احد نال احمد ملیندیں گزر گئی

 
ان کی شاعری صحرا میں پچھلے پہر دبے پاوں چلنے والی ہواؤں کی طرح' والہانہ اور دل میں اتر جانے والی شاعری ہے
 

سدا  جیویں رقیباں وچ  تے  خوش   تھیویں  حبیباں  وچ
اساڈے  وت  نصیباں وچ'  لکھی ہئی  نت جدائی  سانول
اکھیں دی چوک توں صدقے' کجل دی نوک توں صدقے
تساڈی  جھوک توں صدقے' نہ  ٹہنڈی ہئی جدائی سانول

Offline Master Mind

  • 4u
  • Administrator
  • *
  • Posts: 4478
  • Reputation: 85
  • Gender: Male
  • Hum Sab Ek Hin
    • Dilse
    • Email
Re: Tasawwuf - اہل دانش کی نظر
« Reply #5 on: October 28, 2009, 10:38 PM »
جناب پروفیسر حفیظ تائب
اورینٹل کالج لاہور

 باغ فرید علیہ الرحمتہ کے بلبل فرید علیہ الرحمتہ

صد  ہزاراں  الصلوۃ والسلام
اے خدا از من رساں سرکاررا 

یہ شعر باغ فرید رحمتہ اللہ علیہ کے بلبل فرید رحمتہ اللہ علیہ کا ہے جن کی  یاد میں تقریب بپا ہے۔ حضرات گرامی قدر مولانا نور احمد خان فریدی نے دیوان خواجہ فرید رحمتہ اللہ علیہ کی جو شرح کی ہے اس میں جا بجا حضرت خواجہ محمد یارفریدی رحمتہ اللہ علیہ  کی تشریحات و افادات کے حوالے موجود ہیں۔ ان حوالوں کو دیکھتے ہوئے مجھے اکثر خیال آتا ہے کہ ہمارے آگے کیا کیا کاروان  جزب و شوق گزرے ہیں۔۔۔۔۔ پھر کچھ لوگوں سے خواجہ محمد یار فریدی رحمتہ اللہ علیہ کے مثنوی مولانا روم رحمتہ اللہ علیہ اور کلام خواجہ فرید رحمتہ اللہ علیہ' ایک خاص لے اور ترنگ میں پڑھنے اور ان کی دل میں اتر جانے والی تشریح  کرنے کی باتیں سنیں تو دل میں کسک سی پیدا ہوئی کہ میں اس عالم بے بدل اور عارف کامل کے مواعظ حسنہ سے کیوں محروم رہا۔
مگر جب برادرم ثناء اللہ بٹ صاحب نے دیوان محمدی عنایت فرمایا تو کسی قدر تسلی ہوئی کہ کلام ہی کسی شخص کا اصل تعارف ہوتا ہے۔ پھر جب خواجہ ممدوح سے فیض پانے والے احباب اور خواجہ غلام قطب الدین دامت برکاۃ'سے شرف ملاقات حاصل ہوا تو بہار رفتہ کا تمام تر رنگ و بو میری نظروں کے آگے پھرنے لگا۔ یوں
 

دیکھےہیں ہم نےحسن کےساماں نئے نئے
بستاں  نئے  نئے  ہیں  گلستاں   نئے  نئے
 

"دیوان محمدی" کی تحسین اس وقت تک ممکن نہیں' جب تک ابن عربی رحمتہ اللہ علیہ کے نظریہ وحدت الوجود سے کسی قدر آگاہی نہ ہو۔
ابن عربی کے فلسفہ تصوف کی جڑیں اسلامی تصوف اور الہیات کی تاریخ میں بہت گہری چلی گئی ہیں۔
انہوں نے انسان کامل کے بارے میں ایک مکمل نظریہ پیش کیا ہے۔ وہ حقیقتہ الحقائق کو الحقیقتہ المحمدیہ کا مترادف قرار دیتے ہیں۔ جس کی اعلٰی ترین اور مکمل ترین تجلی ان تمام انسانوں میں ملتی ہے' جنہیں ہم انسان کامل کے زمرے میں شمار کرتے ہیں ۔ ان میں تمام انبیاء و رسل اولیاء اور خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شامل ہیں۔
انسان کامل ابن عربی کے نزدیک وہ آئینہ ہے جس میں تمام اسرار الٰہیہ منعکس ہوتے ہیں اور وہ واحد تخلیق ہے جس میں تمام صفات الٰہیہ ظاہر ہوتی ہیں۔ انسان کامل خلاصہ کائنات یا عالم اصغر ہے۔ انسان کامل اس زمین پر خدا کا نائب ہے اور وہ واحد ہستی ہے جسے خدا کی صورت میں بنایا گیا ہے"
حضرت خواجہ محمد یارفریدی رحمتہ اللہ علیہ عظیم صوفی شاعر حضرت خواجہ غلام فرید رحمتہ اللہ علیہ کے دبستان درد اور مکتب ۔۔۔۔۔۔ کے فرد فرید ہیں۔ اور خود فرماتے ہیں
 

میں   بلبل   فرید   ہوں   باغ  فرید کا
عادی ہوں عین دید میں ہل من مزید کا 
 

خواجہ غلام فرید رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے پیشرو صوفی شعراء کی طرح زیادہ ذات واجب ہی کی محبت کے نغمات چھیڑے ہیں' مگر کہیں کہیں اور بہت کم کم احمد بلامیم اور دبستان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات بھی کی ہے جیسے
 

  حسن ازل دا  تھیا   اظہار 
 احدوں ویس وٹا تھی احمد   

 
یا پھر
 

  حسن حقیقی  نور  حجازی 
کھیڈے  ناز نیاز دی  بازی   
   صدقوں    سمجھ   سنجان
 آیا   کوٹ     شہر     وچ   

 
نعت و منقبت کے اس انداز کو اپنا کر اسے مستقل فن بنانے کا جو کٹھن کام حضرت خواجہ محمد یار فریدی رحمتہ اللہ علیہ نے سرانجام دیا ہے اس کی ایسی مکمل اور خوبصورت مثال میری نگاہ سے اب تک نہیں گزری۔
دور موجود کے لوگوں کو نعت و منقتب کا یہ انداز ضرور چونکائے گا کہ اب نعت و منقبت زیادہ تر حضور علیہ السلام کی سیرت و کردار کے حوالہ سے لکھی جا رہی ہے۔ جبکہ اس نعت و منقبت کی بنیاد انسان کامل کے ان تصورات پر ہے جن کا خلاصہ میں پہلے پیش کر چکا ہوں
ان تصورات کو وہ حدیث مبارکہ بھی تقویت دیتی ہے جس میں نور محمدی کے نور الہٰی سے تخلیق ہونے اور پھر نور محمدی سے عرش و کرسی اور کائنات انسانی کے وجود میں آنے کا مزکور ہے۔ یوں الوہیت' رسالت اور سلاسل ہدایت ایک ہی گلشن کے پھول نظر آنے لگتے ہیں۔
ان نظریات سے قطع نظر کلام  میں درد کی تفصیل نے پتھر دلوں کو بھی رلا دینے والی تاثیر پیدا کی ہے۔ اور یہ اعجاز کلام صرف عرفاء ہی کا حصہ ہے۔
انہوں نے خواجہ غلام فرید رحمتہ اللہ علیہ کی پیروی میں کافی کی صورت میں بھی نعت و منقبت کہی ہے۔
پیرایہ مثنوی سے بھی استفادہ کیاہے' مگر ان کے اصل جوہر غزلیہ نعت و منقبت میں کھلے ہیں وہ غزل کے مزاج اور ڈسپلن کو خوب جانتے ہیں اور اس صنف سخن کے وسیع تر امکانات سے بھر پور استفادہ کرتے ہوئے' انہوں نے صوفیانہ نعت و منقبت کی وہ روایت قائم کی جس کے وہ موجد بھی اور خاتم بھی ہیں
 

  ونج درد دی تفصیل کر' فرقان دی تنزیل کر 
 قرآن  دی  ترتیل کر' پتھر روا ایویں ونج تے آ   
 

وہ زبانوں کے مزاج سے بھی مکمل طور پر آگاہ ہیں۔ اور انہوں نے فارسی' اردو اور پنجابی شاعری کی عظیم روایت کو جزب کر کے اپنا انفرادی و اجتہادی آہنگ پیدا کیا ہے جسے فکر و عمل کی یکجائی نے سوز و سر مستی کے ساتھ اعتماد بخشا  جس کی بدولت وہ کہ سکتےہیں۔
 

ہم  محمد  ہیں   درس  دیتے ہیں
عشق احمد کی درس گاہ  میں ہم