پیش لفظ
چار دانگ عالم میں ہر طرف بے چینی اور تیرگی پھیلی ہوئی ہےنفس پرستی' ہوس پرستی' جہالت و گمراہی کے تاریک سائے روئے زمین کا احاطہ کر چکے ہیں۔ انسان سکون اور امن کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ ظلم و استبداد کی چیرہ دستیوں نے انسان کی تصویر کو بری طرح مسخ کر دیا ہے۔ انسانیت اپنا گھر تلاش کرتی پھرتی ہے اسے ایک ایسے گہوارے کی ضرورت ہے جہاں اسے سکون' امن اور راحت کی نعمت میسر ہو۔ وسیع و عریض شاہراہیں اسے منزل کا پتہ نہ دے سکیں۔ فلک بوس عمارتوں کا شکوہ اس کا مداوا نہ کر سکا۔ شاہی محلات کی آسائشیں اس کی ضرورت کو پورا نہ کرسکا۔ مال و دولت سے یہ گوہر نایاب حاصل نہ ہو سکا۔ سورج چاند تاروں کی روشنیاں اسکی تاریکی کا علاج کرنے میں ناکام رہیں۔ اسے روحانیت کے ایک ایسے چراغ کی ضرورت ہے جس کی لو میں وہ اپنے من کی تاریک کوٹھڑی کو اس طرح منور کر سکے کہ ۔'تابر تو عرضہ دارد احوال ملک دارا'۔ یہ چراغ دنیا میں کہیں کہیں روشن ہوتے ہیں مگر ان کی روشنی سے ایک عالم منور ہو جاتا ہے۔ اس روشنی میں رہروان شوق اپنی منزل کا نشان معلوم کرتے ہیں ۔ کچھ لوگ منزل کو پا بھی لیتے ہیں اور کچھ کو خود منزل اس طرح اپنی آغوش میں لے لیتی ہے کہ منزل اور رہرو منزل میں دوئی کا تصور باقی نہیں رہتا۔ یہ لوگ خدا کے وہ مقبول بندے ہوتے ہیں جن کی بدولت کار گہہ عالم میں بہار ہے۔
از صد سخن پیرم یک نکتہ مرا یاد است
عالم نہ شود ویراں تا میکدہ آباد است
جہاں امن اور سکون کی نعمت میسر ہوتی ہے ہر دکھ درد کا علاج ہوتا ہے تاریک دل ان کی نگاہ سے بقعہ نور بن جاتے ہیں ۔ مردہ دل حیات دوراں سے سرشارہو جاتے ہیں۔ مساجد بلاشبہ شعائر اللہ ہیں یہ مقبولان بارگاہ قدس انہیں مساجد میں جبہ سائی اور سجدہ ریزی کرتے رہے اور گوہر مقصود کو حاصل کیا۔ مگر اس دوران نفس امارہ کے ساتھ ان کی جنگ جاری رہی اسے شکست دیکر نفس لوامہ سے گزرے ان کا نفس نفس مطمئنہ قرار پایا اور اس طرح ان کی منزل' فادخلی فی عبادی' کے لائق ہو کر یعنی اپنے شیخ سے نسبت کامل کرنے کے بعد وادخلی جنتی کے اعزاز سے نوازی گئی ان نفوس قدسیہ کے ہاں جب موت مہمان ہوتی ہے حیات دائمی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ جہاں جہاں قدم رکھتے ہیں' فیض بانٹتے چلے جاتے ہیں ان کی رہگزر میں ہر نقش پا پر عاشق کو لیلیٰ مقصود منتظر نظر آتی ہے۔ ایسے مرد کامل کے بارے میں حافظ شیرازی نے فرمایا تھا
بر زمینے کہ نشان کف پائے تو بود
سالہا سجدہ صاحب نظراں خواہد بود
حضرت خواجہ محمد یار فریدی رحمتہ اللہ علیہ کا شمار انہیں نفوس قدسیہ میں ہے جنہوں نے عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اپنی ہستی کو اس طرح مٹایا کہ وہ خود عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بن گئے۔ جن کی سوچ اور فکر میں نشست و برخاست میں گفتار و کردار میں ظاہر و باطن میں عبادت و ریاضت میں الغرض ان کی زندگی پاک کو کسی بھی زاویے سے دیکھا جائے تو بقول حافظ شیرازی
نیست بر لوح دلم جز الف قامت یار
چہ کنم حرف دگر یاد نہ داد استا دم
آپ کے خرمن ہستی میں بجز عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوئی اور دانہ نظر نہیں آئے گا۔ آپ علیہ الرحمتہ نے ترویج و اشاعت دین کے لئے گراں قدر خدمات دی ہیں انہیں حضرات کے نقش قدم ہمارے لئے مشعل راہ ہیں۔ ان کی زندگی پاک کے ہر پہلو میں ہمارے غم کا علاج اور نشان منزل ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ان بز رگان کی سیرت پاک سے استفادہ کرنے کی کوشش کریں ان کے ملفوظات کو پڑھیں اور عمل کریں اور انہیں لوگوں تک پہنچائیں۔ جو قوم اپنے اسلاف کے اس قیمتی اثاثے کو فراموش کردیتی ہے اسکی اپنی بقا غیر یقینی ہو جاتی ہے یہی حوالہ ہے جس کی بدولت ہماری پہچان ہوتی ہے جسے ہم نظر انداز کر کے نہ صرف اپنا بلکہ قوم کا عظیم نقصان کر رہے ہیں۔ میرے دل میں ایک عرصے سے حضرت والا کے حالات زندگی جمع کرنے کی خلش تھی بے بضاعتی کے باوجود اس عظیم کام کا ٓآغاز کیا ہے۔ زیر نظر کتاب " حضرت خواجہ محمد یار فریدی رحمتہ اللہ علیہ اہل دانش کی نظر میں" اس سلسلے کی ابتدائی کوشش ہے جو انشاءاللہ العزیز مستقبل قریب میں ملفوظات کی ضحیم کتاب پر منتج ہو گی۔ اس کتاب کی تدوین میں مقالہ نگار دانشور خواتین و حضرات نے جس عرق ریزی عقیدت و محبت اور فن کے پورے نکھار کے ساتھ حضرت خواجہ صاحب علیہ الرحمتہ کے بارے میں خوبصورت خیالات کا اظہار کیا ہے وہ جہاں بذاتِ خود ان کے لئے باعث سعادت ہے وہاں میں دل کی گہرائیوں سے ان کی کاوش کا شکر گزار اور بے حد ممنون ہوں اللہ تعالیٰ ان کو اس کا اجر عظیم عطا فرمائے۔ آمین
غلام قطب الدین فریدی
سجادہ نشین آستانہ عالیہ
حضرت خواجہ محمد یار فریدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
گڑھی شریف ۔ تحصیل خان پور۔ ضلع رحیم یار خان