آشناء راز
تحریر:۔ راجا رشید محمود
تاریخ تصوف کی ترسی ہوئی خشک زمین پر تذکرہ نویسی کا چھڑکاؤ تو ہوتا رہا ہے۔ تحقیق و تصنیف کا ترشح اس کے چہرے پر چھینٹے ڈالتا رہا لیکن سحاب اخلاص نے عبدالنبی المختار حضرت خواجہ محمدیار فریدی رحمتہ اللہ علیہ سے پہلے اس دھرتی کو محبت کی آواز اور عقیدت کے سروں میں یوں جل تھل نہ کیا تھا' عقیدت و ارادت کا بادل پہلے یوں کھل کر نہ برسا تھا۔ اور تاریخ تصوف کی زمین اس سج دھج سے سیراب نہ ہوئی تھی۔ جس طرح زبان اور دل کی ہم زبانی سے سلطان الکاملین حضرت خواجہ محمدیار فریدی رحمتہ اللہ علیہ نے وحدت الوجود کو سامعین کے وجود میں رچا بسا دیا اور شعر سخن کےآہنگ میں اس ادق فلسفے کی تشریح کی' وہ اپنے طرز کی پہلی مثال ہے۔ وحدت الوجود ہم عامیوں کے فہم و ذکا سے ارفع بات تھی۔ تصنیف و تالیف کی دھرتی میں روحانی و طریقت کی تخم ریزی بہت ہوئی' بڑے قدر آور بوٹے اور سربکف درخت پیدا ہوئے اور ان کی تعلیمات کی گھنی چھاؤں میں ابن آدم نے سکھ کا سانس لیا۔ انسانیت کے تھکے ہارے قافلے یہاں سستا کر منازل زیست کی طرف بڑھتے رہے۔ یعنی منزلوں پر منزلیں مارتے ہوئے یہاں تک پہنچتے تو اپنے منتہائے مقصود کو پا لینے کے بعد انھی درختانِ سبز میں سے کسی کے سائے میں زندگی گزار دیتے۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر " ہمہ اوست" کے حوالے سے ان درختوں پر گل ہائے تقریر اور اثمار گفتگو کی کمی رہی۔ کتابوں کی دنیا میں وحدت الوجود کا چرچا رہا لیکن عامی اس فلسفے کی تہ تک نہ اتر سکے فتوحات مکیہ سے لے کر الروض المجود تک کا علم انہیں مرعوب تو کرتا رہا' مرغوب نہ ہوا۔ یہ سعادت برہان محبت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت خواجہ محمد یار فریدی رحمتہ اللہ علیہ کے حصے میں آئی کہ انہوں نے عامتہ الناس کی زبان میں بات کی اور فتوحات مکیہ کے ادق مقامات اور وحدت الوجود کی شرح میں تحریر کی گئی دوسری تصانیف کے سنگلاخ نکات کو اپنی زبان فیض ترجمان میں پانی کر دیا۔ وحدت الوجود کو عوام کی سمجھ کےمطابق پیش کرنا اور ہر کسی کو کسی نہ کسی حد تک اس کے معانی و مفاہیم تک رسا کرنا حضرت خواجہ محمد یار فریدی رحمتہ اللہ علیہ قدس سرہ کے سوا کسی کا منصب نہ ہوا۔
ایں سعادت بزور بازو نیست
تانہ بخشد خدائے بخشندہ
گلشن تصوف میں فلسفوں اور نظریوں کےپھولوں کی جتنی قسمیں سامنے آئیں ان کے رنگوں' ان کی خوشبووں کے تخصص اور پودوں کی جزئیات کے متعلق جتنی رہنمائی کی گئی تھی۔۔۔ سچی بات یہ ہے کہ ہم اس سے معطرو معنبر رہتے تھے' اسی کے زیر اثر معصیت کے ٹوکرے اور حرص ہوا کی گٹھڑیاں ہم نے اپنے سروں سے اتار پھینکیں! معرف الہٰی اور عرفان نفس کے وسیلے یہی تو ہیں۔ مگر فلسفی وحدت الوجود کے جن پھولوں کی طرف ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حضرت خواجہ محمد یار فریدی رحمتہ اللہ علیہ کے دم قدم سے متوجہ ہوئی' انہوں نے مشام جاں کو معطر کر دیا۔ اس ۔۔۔۔۔۔ کی طرف جس نے دست طلب بڑھایا نور کے دھاروں کے ۔۔۔۔۔۔۔ ہو گیا۔ مفاہیم و معانی کی روشنی کا یہ جھرنا سرمدی ہے۔
حضرت خواجہ محمد یار فریدی رحمتہ اللہ علیہ نور اللہ مرقدہ حمد کہتے ہیں جو جس کی حمد کرتے ہیں وہ محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوتے ہیں۔ وہ نعت کہتے ہیں تو بات خدا وند عظیم و کریم تک جا پہنچتی ہے۔ وہ اپنی شیریں گفتاری کا سبب مدح و حمد کو قرار دیتے ہیں۔
ارچہ بیکارم' بکر دم کار را
صد ہزار الحمد آں دلدار را
تا ثنا خوان محمد گشتہ ام
رشک می آید بمن ابرار را
گرچہ حسان نیستم سحبان نیم
مدح او شیریں کند گفتار را
مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھنا اور خدا کو پانا کیسا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے۔
مصطفٰی دیدم خدارا یافتم
مبدا و ہم منتہی را یا ۔۔۔۔۔۔۔۔
یکے بینم خدا و مصطفٰی را' فاش می گویم
کہ بیروں رفتہ ام زا قلیم فرق و امتیاز ایں۔۔۔۔
دونوں جہاں کی نعمتیں کافور ہوگئیں
اٹھی رخ جمال سے چلمن جو میم کی
حقیقت محمد دی پا کوئی نئیں سگدا
ایتھاں چپ دی جا ہے الا کوئی نئیں سگدا
محمد دی صورت ہے صورت خدا دی
مرے دل توں نقشہ مٹا کوئی نئیں سگدا
حضرت خواجہ محمد یار فریدی رحمتہ اللہ علیہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حمد الٰہ یں ہمیشہ تر زبان دکھائی دیتے ہیں۔ اور اس نکتے میں وحدت الوجود کو بیان کرتے نظر آتے ہیں۔
شد عمر محمد ہمہ در حمد محمد
الحمد کہ در حمد الہ است زباں۔۔۔۔۔
خدا کوں ڈٹھوسے محمد دے اوہلے
محمد کو ڈہنڈیں ڈکھینڈیں گزر گئ
اتھاں خود عبد سڈویندے اتھاں حق نال مل ویندے
دماغیں کوں چکر ڈینڈے ہے الٹی چال کیا پچھدیں
او لاچار تھی تے اناالحق الیندے
جیکوں راز اپنا ڈسیندے محمد
حجۃ العارفین حضرت خواجہ محمد یار فریدی رحمتہ اللہ علیہ نے جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے فلسفہ وحدت الوجود کو تقریر میں بھی قابل فہم بنا دیا اور شعر و سخن میں بھی سہل ممتنع بنا دیا۔ فرماتے ہیں
در پنج وقت جانب کعبہ است سجدہ
در ہر زماں بہ سوئے محمد نماز
ہر کسے دارد تمنائے دگر
دین و ایمانم تمانے
منکران مشرب توحید حق
غافلنداز لا و الائے
مصطفٰی دانند فرق برق
ہا بر فرق اعدائے نبی
دیں دعو محمد کے میرا
سوز و گداز کیا جانیں
ہمارے ممدوح حسن سرکار علیہ الصلوۃ والسلام کی تعریف و ثنا میں تر زبانی کرتے ہیں تو اپنے دل سے قلم ترشواتے ہیں۔
از قد او قدم ترا شیدند
ازید او کرم ترا شید ند
بہر تحری قصہ حسنش
از دل ما قلم ترا شید ند
ز تحت الثری تا سر عرش اعظم
چلو دیکھ لو جلوہ ہائے محمد
قمر چیر ڈالا' کیا موم پتھر
زہے قوت دست و پائے محمد
۔۔۔۔ قبلہ جاں صورت زیبائے محمد
شد کعبہ دل نقش کف پائے محمد
قامت اوہست قیامت بقیامتہ
قربان بقیام قد بالائے محمد
جن لوگوں نے حضرت قبلہ خواجہ محمدیار فریدی رحمتہ اللہ علیہ قدس سرہ السامی کی تقاریر سنی ہیں وہ زبان میں جادو کے مفہوم سے آگاہ ہو چکے ہیں۔ مخالفین نے بھی اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے کہ حضرت خواجہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی تقریر کا جادو سر چرح کر بولتا تھا۔ ان کے حضور سننے والوں کے سر نیاز خم ہو کر رہتے تھے۔ خود فرماتے ہیں۔
سجدہ من فرض شد بر جملہ
نقش پائے مصطفایم کیستم
اور آقا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنی اس نسبت کے قدیمی ہونے کا اعلان یوں کرتے ہیں ۔
اے خاص قدیمی بردی ہے
اے کتڑی تیڈے در دی ہے
اے کٹھڑی تیغ نظر دی ہے
ہے روز ازل دی اج دی نئیں