نکل کے حلقۂ شام و سحر سے جائیں کہیں
زمیں کے ساتھ نہ مل جائیں یہ خلائیں کہیں!
سفر کی رات ہے پچھلی کہانیاں نہ کہو
رُتوں کے ساتھ پلٹتی ہیں کب ہوائیں کہیں!
فضا میں تیرتے رہتے ہیں نقش سے کیا کیا
مجھے تلاش نہ کرتی ہوں یہ بلائیں کہیں!
ہوا ہے تیز‘ چراغِ وفا کا ذِکر تو کیا
طنابیں خیمۂ جاں کی نہ ٹوٹ جائیں کہیں!
میں اوس بن کے گُلِ حرف پر چمکتا ہوں
نکلنے والا ہے سُورج‘ مجھے چھپائیں کہیں!
مرے وُجود پہ اُتری ہیں لفظ کی صورت
بھٹک رہی تھیں خلاﺅں میں یہ صدائیں کہیں
ہوا کا لمس ہے پاﺅں میں بیڑیوں کی طرح
شفق کی آنچ سے آنکھیں پگھل نہ جائیں کہیں!
رُکا ہوا ہے ستاروں کا کارواں امجد
چراغ اپنے لہو سے ہی اَب جلائیں کہیں