کہیں پنگھٹوں کی ڈگر نہیں ، کہیں آنچلوں کا نگر نہیں
یہ پہاڑ دھوپ کے پیڑ ہیں کہیں سایہ دار شجر نہیں
مجھے ایسی بات بتائیے جو کوئی سنے تو نئ لگے
کوئی شخص بھوک سے مر گیا یہ خبر تو کوئی خبر نہیں
ترے نام سے مری راہ میں کوئی دکھ کے پھول بچھا گیا
میں تری زمین کا خواب ہوں مجھے آسمان کا ڈر نہیں
میرے ہمسفر مرے راز داں یہ اداس پلکوں کے سائباں
ترے ساتھ دھوپ کے راستوں کا سفر بھی کوئی سفر نہیں
کوئی میرؔ ہو کہ بشیرؔ ہو جو تمھارے ناز اٹھائیں ہم
یہ غزل کی دلی ہے باادب، یہاں بے ادب کا گزر نہیں