وزیر خزانہ شوکت ترین نے استعفیٰ کیوں دیا اور فوراً منظور کیوں کر لیا گیا؟ دونوں سوالوں کا جواب ایک ہے کہ شوکت ترین نے شوکت عزیز بننے سے انکار کر دیا تھا۔ رینٹل پاور پلانٹس کی کرپشن کے علاوہ بھی کچھ ہے کہ کوئی این آر او بھی ان کے لئے کافی نہیں۔ فی الحال شوکت ترین کی کابینہ سے رخصتی ضروری تھی۔ آئندہ بجٹ سے کچھ پہلے یہ استعفیٰ بہت اہم ہے جبکہ تین برسوں کا بجٹ آنےوالا ہے۔ وہ قابل آدمی ہے غیور اور بہادر ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو حمیت اور حیرت دونوں کے معانی نہیں آتے۔ مخدوم گیلانی بھی شوکت عزیز نہیں بن سکا۔ اس سے کچھ زیادہ بن گیا ہے۔ شوکت عزیز تو صرف اپنے صدر مشرف کا وفادار اور تابعدار ملازم تھا۔ مخدوم گیلانی سیاستدان ہے افسران کی طرح اور افسر ہے سیاستدان کی طرح۔ صدر زرداری کے ساتھ وفاداری نبھانے کی مجبوری میں شریف برادران کے ساتھ روابط بڑے ضروری تھے۔ آرمی چیف اور چیف جسٹس کے لئے بھی مروت یعنی حساسیت دکھائی گئی۔ چیف جسٹس کو بھی چیلنج کیا آرمی چیف کے لئے بھی مخالفانہ بیانات دئیے پھر چیف جسٹس کی ساری باتیں مان لیں اس”مہربانی“ کے لئے بھی شکریہ ادا کیا۔ یہ تاثر دیا کہ کچھ منوایا بھی ہے مگر صدر زرداری کے سوا کسی کو بتایا نہیں۔ پوری بات کبھی صدر زرداری کو بھی نہیں بتائی۔ ڈیمو کریٹ ڈپلومیٹ اور بیورو کریٹ، تھری ان ون، مگر مائنس ون کے لئے صرف صدر زرداری ۔کبھی کسی نے مخدوم گیلانی کے خلاف بات نہیں کی۔ پتلے بھی نہیں جلائے جبکہ اس بار عدالتی فیصلوں پر برہمی مخدوم گیلانی نے دکھائی۔ اس کے بعد درہم برہم ہو کے بھی صاف بچے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ اس کی خوش فہمی ہے کہ صدر زرداری نہ بچا تو بھی وہ بچ جائے گا۔ شریف برادران اسے وزیر اعظم نہیں رہنے دیں گے۔ تیسرا سیاستدان چودھری نثار بھی پوری طرح تیار ہے۔
مجھے غم ہے اور غصہ بھی کہ اس نے شوکت ترین کا استعفیٰ کیوں قبول کیا ہے۔ اس نے شیری رحمان اور رضا ربانی کا استعفیٰ بھی قبول کر لیا تھا مگر ڈاکٹر بابر اعوان کا استعفیٰ قبول نہ کیا۔ یہ ساری ایک طرح کی باتیں ہیں۔ اس کی تشریح پھر کبھی کروں گا۔ رضا ربانی تو اب بھی راضی برضا ربانی ہے وہ سیاستدان ہے اور اسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا البتہ آئینی کمیٹی کے مراحل اور منازل میں فاصلہ بڑھتا جاتا ہے اس میں صدر زرداری سے زیادہ مخدوم گیلانی کا حصہ ہے۔ تیسری بار وزیر اعظم کی شرط ختم ہو گئی تو اس کا کیا بنے گا۔ پھر وہ اپنی اہلیہ اور بیٹے کی پناہ میں کہیں چلا جائے گا۔ اگر جانے نہ دیا گیا تو ....؟اس کی بڑی خواہش ہے کہ شیری رحمان پھر وزیرنی بن جائے۔ خواہش تو کچھ کچھ صدر زرداری کی بھی ہے مگر قمرالزمان کائرہ بھی شیری رحمان اور شیخ رشید کی طرح وزارت اطلاعات و نشریات پسند کرنے لگا ہے۔ شیری رحمان کو بڑا زعم تھا اور اپنی وزارت میں مداخلت پر غصہ تھا۔ وہ بے محابا ایوان صدر جاتی رہتی تھی۔ اس دفعہ بے تحاشا چلی گئی جسے صدر زرداری نے محسوس کیا تو ساتھ باادب بیٹھے ہوئے مخدوم گیلانی نے بھی محسوس کیا۔ صدر زرداری نے کہا کہ ابھی بات کرتے ہیں۔ وہ بے قرار تھی۔ استعفیٰ دینے کی دھمکی دی۔ کہیں اور یہ دھماکہ بھی ہوتا تو کچھ نہ ہوتا۔ صدر زرداری نے استعفیٰ منظور کرنے کا اعلان کر دیا۔ شیری رحمان کو توقع نہ تھی اور پھر اس سے زبردستی استعفیٰ لیا گیا۔ اطلاعاً عرض ہے کہ دبئی سے لاہور آنے پر فرزانہ راجہ کے علاوہ شیری رحمان 24 گھنٹے زرداری صاحب کا حوصلہ بڑھاتی رہی۔ یہ وہی شیری رحمان ہے کہ جب ایم این اے بننے سے پہلے صحافی تھی تو اس نے سب سے پہلے اپنے رسالے میں زرداری صاحب کو مسٹر ٹین پرسنٹ کہا تھا۔ زرداری صاحب بڑے گہرے آدمی ہیں۔ ویسے کئی خواتین و حضرات اب ان کے قریب ہیں۔ وہ تو شریف برادران کو بھی اپنے قرب و جوار میں رکھنا چاہتے ہیں مگر شریف صاحبان کو پتہ ہے کہ قریب کب ہونا ہے اور دور کب ہونا ہے۔ مرکز میں مسلم لیگ ن کے وزیر شذیر مستعفی ہو گئے مگر پنجاب حکومت میں ابھی تک پیپلز پارٹی کے وزیر شذیر موجود ہیں۔ ایسی کئی باتوں کی گہرائیوں کو معلوم کرنے کا ابھی موقعہ شریف برادران کے پاس نہیں ہے۔ سنا ہے کہ سب کچھ چودھری نثار کے مشوروں سے ہو رہا ہے۔ نواز شریف نے جنرل مشرف کو آرمی چیف بھی چودھری نثار کے مشورے پر بنایا تھا۔
شوکت ترین کے استعفیٰ سے بات کہاں سے کہاں چلی گئی ہے۔ وہ اپنے شعبے کا ممتاز اور معتبر آدمی ہے۔ چار دن کی چاندنی کے لئے اندھیرے کی اندھیر نہیں ہونے دینا چاہتا تھا۔ مگر زیادہ دیر ”اندھیر نگری اور چوپٹ راج“ کو برداشت کرنا مشکل تھا۔ ان کا اختلاف کرائے کے بجلی گھروں کے حوالے سے تھا۔ راجہ پرویز مشرف تو مہاراجہ ہو چکا ہے۔ اس نے استعفیٰ نہیں دیا نہ اس سے استعفیٰ لیا گیا ہے۔ مخدوم گیلانی اس کی تعریفیں کرتا رہا۔ دونوں میں کچھ سانجھا ہے۔ اس لوٹ مار میں حکومت کے کئی راجے مہاراجے رانیاں مہارانیاں شامل ہیں۔ رینٹل پاور پلانٹس کی ڈیل میں کس قدر بے ضابطگیاں اور بدعنوانیاں ہوئی ہیں۔ یہ ایک راز ہے اس سے بھی کبھی پردہ نہیںاٹھے گا۔ شوکت ترین کو سلام کہ وہ ڈیل میں شریک نہیں ہوئے اور وزارت چھوڑ دی۔ کمال یہ کہ انہوں نے سینٹ کی رکنیت بھی چھوڑ دی ہے۔ سینٹری تو ان کے کاروبار کے لئے رکاوٹ نہ تھی اس سے تو ہزار فائدے تھے۔ بات کچھ اور ہے۔ اندر خانے کی بات، وہ ایک اور معرکہ کریں کہ ان سب رازوں سے پردہ اٹھائیں۔ قوم کو سب کچھ بتا کے جائیں یہ بھی ان کے پاس امانت ہے۔ یہ بھی بتائیںکہ مالی کرپشن کو ثابت کرنا کیوں مشکل ہے۔ شوکت ترین معاشی حالت کو بدلنے جا رہے تھے اس کے لئے انہوں نے اپنی بدنامی قبول کر لی مگر ناکامی قبول نہیں کی۔ لوگ ان کے لئے بھی باتیں بنانے لگے تھے۔ انہوں نے یہ تو برداشت کیا مگر یہ برداشت نہیں کیا کہ ملک و قوم کی بربادی میں شریک ہوں۔ کئی ایجنسیاں انہیں روکتی رہیں ان کے سلک بنک کے لئے پیشکش کی مگر انہوں نے بے کار وزیر شذیر ہونے کی بجائے اپنے بنک کا سربراہ ہی رہنا قبول کر لیا اور ایک عہدہ اپنے پاس رکھا۔ مجھ سے نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے صدر کرنل جمشید ترین نے بات کی تو میرے دل میں شوکت ترین کے لئے بہت عزت پیدا ہوئی۔
کئی دفعہ سندھ کے نام نہاد وزیر اعلیٰ قائم مقام علی شاہ نے انہیں شوکت عزیز کہا اور جان بوجھ کر کہا۔ حاضرین کی ہنسی سے ان کا قہقہہ بڑا ہوتا تھا۔ اس کے باوجود این ایف سی ایوارڈ کی منظوری کی خاطر یہ تمسخر بھی قبول کیا۔ اسحاق ڈار پر پھر ڈورے ڈالے جا رہے ہیں۔ نوید قمر اسی طرح وزیر خزانہ تھا جیسے مخدوم گیلانی وزیر اعظم ہے ایک وزیر خزانہ تھا جس کا نام مجھے یاد نہیں۔ مجھے موجودہ وزیروں کے نام یاد نہیں ہیں مگر وہ کچھ بہتر وزیر تھا۔ شوکت ترین جیسا ہو گا۔ وہ ریل کے ذریعے دارالحکومت کراچی جا رہا تھا کہ کسی نے بتایا پاکستان کے لئے امریکی امداد بند کر دی گئی ہے۔ اس نے شکر ادا کیا کہ پاکستان کو خدا نے بچا لیا ہے۔ وہ ابھی کراچی نہیں پہنچا تھا کہ وزارت خزانہ سے اسے ہٹا دیا گیا۔ امریکی امداد جاری و ساری ہے اور پاکستان برباد ہو رہا ہے مگر پاکستان امریکی امداد کے باوجود ابھی تک بچا ہوا ہے۔
٭٭٭٭٭٭