پھر وصال کیسے ہو!
جب کسی کی آہٹ کو کان ہی ترس جائیں
بے ثمر دعاؤں کے حرف لوٹ کر آئیں
رات دن کا ہر لمحہ جب محال ہو جائے
پھر وصال کیسے ہو
شاخ سے بکھر جائیں چہرے سب گلابوں کے
راستے پکڑ لیں جب راستے عذابوں کے
بے امید خوابوں کی حد کمال ہو جائے
پھر وصال کیسے ہو
وحشتوں کی نگری میں ناچتے ہیولے سے
زندی کے صحرا میں بے صدا بگولے سے
روپ دلکشی کا جب بے جمال ہو جائے
پھر وصال کیسے ہو