سلسلوں کی ابتدأ کو انتہا کرنا پڑا
چاہتوں میں ایک بت کو بھی خدا کرنا پڑا
بے رخی حد سے بڑھی لیکن یقیں آتا نہ تھا
دل کو سمجھانے کی خاطر حوصلہ کرنا پڑا
چند گھڑیاں باعثِ مرگِ محبت ہو گئیں
آخری ہچکی کو بھی صرفِ دعا کرنا پڑا
کیا سلیقے ڈھونڈتی اس سے بچھڑنے کی گھڑی
مجھ کو اپنے ہاتھ سے ناخن جدا کرنا پڑا
میرے جذبوں کی اڑانیں دیکھ کر وہ ڈر گیا
تنگ آ کر صید کو اِک دن رہا کرنا پڑا