اگر تم لوٹ آتے تو تمھیں لگتا
ہوائیں خشبوؤں سے لے کے پھولوں سے
چرا کر رنگ تتلی کے پروں سے،
گنگناتی ہیں
چمن کی خشک شاخوں نے
گلابوں اور پتوں کا لبادہ اوڑھ کر
اٹھانے کی پھر سے ادا پائی
نئے انداز سے دھکن نے بجنے کا ہنر سیکھا
محبت کا سلیقہ تھا بہت مشکل مگر سیکھا
کسی کے بندہونٹوں پہ دعائیں اُگ رہی ہیں یوں
کہ جیسے دور بھٹکا سا کوئی آہوپلٹ کر آگیا گھر کو
لگا سچ مچ کسی عابد نے سجدے سے اٹھایا سر اچانک بعد صدیوں کے
اور اپنے سامنے معبود کے پیکر کو پایا،مسکرا اٹھا
ذارا سوچو ، کہ اس کو گھڑی کیسی لگی ہوگی؟
زمانے بعد ایسی بے خودی کیسی لگی ہوگی ؟
اگر تم لوٹ آتے تو…… مگر تم لوٹ کر آتے بھی تو کیسے
کسی کو جیتے جی تم نے چِتا میں خود جلا ڈالا
مِٹا ڈالا …… بُھلا ڈالا
فقط اب راکھ باقی ہے
مگر جاناں!
اگر تم لوٹ آتے تو