دشت میں پیاس بجھاتے ہوئے مَر جاتے ہیں
ہم پرندے کہیں جاتے ہوئے مَر جاتے ہیں
ہم ہیں سوکھے ہوئے تالاب پہ بیٹھے ہوئے ہنس
جو تعلق کو نبھاتے ہوئے مَر جاتے ہیں
اُن کے بھی قتل کا الزام ہمارے سَر ہے
جو ہمیں زہر پلاتے ہوئے مَر جاتے ہیں
یہ محبت کی کہانی نہیں مَرتی لیکن
لوگ کردار نبھاتے ہوئے مَر جاتے ہیں
ہم ہیں وہ ٹوٹی ہوئی کشتیوں والے فراز
جو کناروں کو ملاتے ہوئے مَر جاتے ہیں