برسوں کے بعد دیکھا ، اک شخص دلربا سا
اب ذہن میں نہیں ہے پر نام تھا بھلا سا
ابرو کھچے کھچے سے ، آنکھیں جھکی جھکی سی
باتیں رکی رکی سی ، لہجہ تھکا تھکا سا
الفاظ تھے کہ جگنو ، آواز کے سفر میں
بن جائے جنگلوں میں جسطرح راستہ سا
خوابوں میں خواب اسکے، یادوں میں یاد اسکی
نیندوں میں گھل گیا ہو جیسے کہ رتجگا سا
پہلے بھی لوگ آئے کتنے ہی زندگی میں
وہ ہر طرح سے لیکن اوروں سے تھا جدا سا
اگلی محبتوں نے وہ نامرادیاں دیں
تازہ رفاقتوں سے دل تھا ڈرا ڈرا سا
کچھ یہ کہ مدتوں سے ہم بھی نہیں تھے روئے
کچھ زہر میں بجھا تھا احباب کا دلاسہ
پھر یوں ہوا کہ ساون آنکھوں میں آبسے تھے
پھر یوں ہوا کہ جیسے دل بھی تھا آبلہ سا
اب سچ کہیں تو یاروں ہم کو خبر نہیں تھی
بن جائے گا قیامت اک معاملہ ذرا سا
تیور تھے بے رخی کے انداز دوستی کے
وہ اجنبی تھا لیکن لگتا تھا آشنا سا
ہم دشت تھے کہ دریا ہم زہر تھے کہ امرت
ناحق زعم تھا ہم کو جب وہ نہیں تھا پیاسا
ہم نے بھی اسکو دیکھا کل شام اتفا قاً
اپنا بھی حال ہے اب لوگوں فراز کا سا