دیارِغیر میں کیسے تجھے صدا دیتے
تُو مل بھی جاتا تو تجھے گنوا دیتے
تمہیں نے ہم کو سنایا نا اپنا دکھ ورنا
دُعا وہ کرتے کے ہم آسماں ہلا دیتے
ہمیں یہ زوم رہا اب کے وہ پُکاریں گے
انہیں یہ ضد تھی کے ہر بار ہم صدا دیتے
وہ تیرا غم تھا کے تاسیر میرے لہجے کی
کے جس کو حال سناتے اُسے رُلا دیتے
تمہیں بھُلانا ہی اول تو دسترس میں نہیں
جو اختیار بھی ہوتا تو کیا بھُلا دیتے
تمہاری یاد نے کوئ جواب ہی نا دیا
میرے خیال کے آنسو رہے صدا دیتے
سماعتوں کو میں تا عمر کوستا سید
وہ کچھ نا کہتے مگر ہونٹ تو ہلا دیتے