حضرت ابوذر رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اللہ کا ڈر رکھو، جہاں کہیں بھی ہو اور برائی کے بعد نیکی کرلو تاکہ نیکی برائی کو مٹا دے اور لوگوں کے ساتھ خوش خلقی کے ساتھ معاملہ کرو”۔
(ترمذی، مسند احمد و دارمی)
فائدہ:۔
یہ ایک نہایت اہم حدیث مبارکہ ہے جو کہ خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کی اصلاح کے لیے فرمائی ہے۔ جس میں سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ سبحانہ و تعالٰی کے خوف کے متعلق فرمایا۔ انسان جہاں کہیں اور جس حالت میں بھی ہو، امیر ہو یا مفلس، بااختیار ہو یا کمزور، رات کی تاریکی اور تنہائی میں ہو یا دن کی روشنی اور لوگوں کی نگاہوں کے سامنے، اللہ تعالٰی کی عظمت کا پاس و لحاظ اسے ہمیشہ ہونا چاہیے۔ یہی چیز اسے ہر قسم کے ظلم و زیادتی یا ذلت و پستی اور ہر قسم کے گناہوں سے بھی محفوظ رکھے گی اور یہی چیز اسے اللہ تعالٰی سے بھی قریب کرے گی۔ یہاں تک کہ وہ اللہ تعالٰی کا محبوب ترین بندہ بن سکتا ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ اگر بدقسمتی سے انسان سے کوئی برائی سرزد بھی ہوجائے تو اللہ تعالٰی کی رحمت سے وہ مایوس نہ ہو فوراً اس گناہ کی تلافی کی فکر کرے۔ اس کی بہترین شکل بھی سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتا دی وہ یہ کہ توبہ و استغفار کے ساتھ ساتھ کوئی ایسا نیک عمل کرے جس سے اس گناہ اور برائی کے برے اثرات اس کے دل و دماغ سے زائل ہو جائیں اور اس کی زندگی گناہ کی آلودگیوں سے پاک ہو جائے۔ یہ چیز اللہ تعالٰی کی رحمت کو اس کی طرف متوجہ کرنے میں بےحد موثر ثابت ہوگی۔
پھر جس طرح اللہ تعالٰی کا یہ خاص حق ہے کہ بندہ ہر مقام پر اور ہمیشہ اپنے اللہ کو یاد رکھے اور اس کی طرف سے غافل نہ ہو۔ اسی طرح بندگان خدا کا بھی اس پر یہ حق ہے کہ ان کے ساتھ اس کا جو معاملہ بھی ہو اس میں وہ حسن اخلاق کو ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھے۔ مخلوق خدا کا ہم پر حق بھی ہے اور ہمارے لیے اس کی کسوٹی بھی ہے کہ ہم کس طرح کے آدمی ہیں۔ خودغرض، مغرور اور پست قسم کے یا عالی ظرف، بلند اور باکردار۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تعلیمات میں ایمان کے بعد جن چیزوں پر بہت زیادہ زور دیا ہے اور انسان کی سعادت کو ان پر موقوف بتلایا ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آدمی اخلاق حسنہ اختیار کرے اور برے اخلاق سے اپنی حفاظت کا انتظام کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے جن مقاصد کا قرآن پاک میں ذکر کیا گیا ہے ان میں سے ایک یہ بھی بتلایا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو انسانوں کا تزکیہ کرنا ہے اور اس تزکیہ میں اخلاق کی اصلاح اور درستی کی خاص اہمیت ہے۔
ایک روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ اللہ تعالٰی نے مجھے اخلاقی خوبیوں اور اچھے کاموں کی تکمیل کے لیے بھیجا ہے۔ (بحوالہ شرح السنہ)۔
اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بڑی حقیقت کا اظہار فرمایا ہے کہ میرے بعثت کی اصل غرض و غایت اخلاق و اعمال کے مکارم و محاسن کی تکمیل ہے۔ اخلاق درحقیقت فطری جذبات اور احساسات ہی کا دوسرا نام ہے۔ جس کا اظہار انسان کے مختلف اعمال و افعال کے ذریعے سے ہوتا رہتا ہے۔ ارادہ و اختیار اور جذبات و احساسات کے صحیح اور بہترین استعمال سے اس کی زندگی کی نمود ہوتی ہے جس کو ہم مثالی اور پسندیدہ زندگی کہتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی زندگی کو مختلف اکائیوں میں تقسیم کرنے کی بجائے اسے ایک کل قرار دیا اور زندگی کے ہر شعبہ کے متعلق خواہ اس کا تعلق معاشرت و معیشت سے ہو یا حکومت و سیاست سے۔ اخلاق کے صحیح اصول و ضوابط بیان فرمائے اور انہیں زندگی میں عملاً کردکھایا اور انہی اصلوں پر سوسائٹی اور ریاست کا نظام قائم فرمایا۔
انسان کی زندگی اور اس کے نتائج میں اخلاق کی بڑی اہمیت ہے۔ اگر انسان کے اخلاق اچھے ہوں تو اس کی اپنی زندگی بھی قلبی سکون اور خوش گواری کے ساتھ گذرے گی اور دوسروں کے لیے بھی اس کا وجود رحمت اور چین و سکون کا ضامن ہوگا اور اس کے برعکس اگر انسان کے اخلاق برے ہوں تو خود بھی وہ زندگی کے لطف و سرور سے محروم رہے گا اور جن سے اس کا واسطہ اور تعلق ہوگا ان کی زندگیاں بھی بے مزہ اور تلخ ہوں گی۔ یہ تو خوش اخلاقی اور بداخلاقی کے وہ نقد دنیاوی نتائج ہیں جن کا ہم اور آپ روز مرہ مشاہدہ اور تجربہ کرتے رہتے ہیں۔ لیکن مرنے کے بعد والی ابدی زندگی میں ان دونوں کے نتیجے ان سے بدرجہا زیادہ اہم نکلنے والے ہیں۔ آخرت میں خوش اخلاقی کا نتیجہ ارحم الراحمین کی رضا اور جنت ہے اور بداخلاقی کا انجام خداوند قہار کا غضب اور دوزخ کی آگ ہے۔ اللہ تعالٰی ہر امتی کو اس محفوظ فرمائے۔ آمین۔