Author Topic: مدینے سے کربلا تک  (Read 1327 times)

0 Members and 1 Guest are viewing this topic.

Offline Master Mind

  • 4u
  • Administrator
  • *
  • Posts: 4478
  • Reputation: 85
  • Gender: Male
  • Hum Sab Ek Hin
    • Dilse
    • Email
مدینے سے کربلا تک
« on: December 17, 2009, 03:35 PM »
مدینے سے کربلا تک
مجلس دوئم مدینے سے کربلا تک خاندان زہرا پر بلند آواز سے صلواة پڑھیں…! مزاج معلی کی نفاستوں پر ناگوار نہ گزرے تو ایک دفعہ پھر صلواة پڑھیں تاحد نگاہ دیوانگان فاتح کرب و بلا کا ہجوم ہے اس دور میں ہمارے پاس خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے صرف صلواة پڑھنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں صلواة اتنی بلند پڑھیں جتنے آلِ محمد بلند ہیں… میری رات کی گفتگو سے جن دوستوں نے جن احباب نے میری حوصلہ افزائی فرمائی میں ان کا ممنون ہوں لیکن وہ بات تنہا میری بات نہیں تھی میری قوم کی بات تھی یہ قوم ان اصولوں پر مر مٹتی ہے جو اصول صدر نشین بزم زیرک نے ترتیب دیئے۔ رات میں محسوس کرتا رہا ہوں کہ یا تو آپ کے ذہنوں میں سوالیہ نشانات تھے جن کی وجہ سے زیادہ تر آپ خاموش رہے اور آج شاید گرمی کی وجہ سے خاموشی ہو لیکن آلِ محمد گواہ ہیں کہ میں نے ہر مجلس کو زندگی کی آخری مجلس سمجھ کر پڑھا ہے اور میں زندگی اور موت کا وارث حسین کو سمجھتا ہوں کسی کا زر خرید نہیں۔ صلواة اتنی بلند پڑھیں جتنا آپ کے ذہنوں میں حسین بلند ہو سکتا ہے۔ استبداد کے ہر دور میں یا تو حسین نے انسانیت کو چھڑایا ہے یا حسین والوں نے (کوئی لفظ میرا ضائع نہ ہو) حسین یقین عقیدے اور عمل کے امتزاج کا نام ہے حسین انسان نہیں "انسانیت" ہے۔(سلامت رہیں آپ) حسین ذہن نہیں "ذہنیت" ہے حسین آدمی نہیں "آدمیت" ہے حسین صرف پابند شریعت نہیں بلکہ خود "شریعت" ہے… ہاں حسین کو ہر دور نے سلامی دی ہے میرا دور بھی حسین کو سلامی دیتا ہے جس دور میں کہیں نہ کہیں یزیدیت نے سر اٹھایا اگر اس سے ٹکرا کے اس کو فضاؤں میں پاش پاش کیا ہے تو حسین نے۔ (ذرا جاگتے آؤ ذرا جاگتے آؤ میرے ساتھ ساتھ) جہاں بھی یزیدیت نے سر اٹھایا حسین نے اسے پاش پاش کیا جو دوست نہیں سمجھے سمجھائے دیتا ہوں۔ (نہیں آپ تو سمجھ گئے میرے سامنے والے نہیں سمجھے) اس دور میں بھی حسین نے بتایا کہ میرا دشمن جس دور میں ہو گا نہ اسے زمین پناہ دے گی نہ آسمان جگہ دے گا۔(سلامت رہیں) حسین نے اسے پاش پاش کر دیا نہ آسمان جگہ دیتا ہے آسمان میرے نانا کی جاگیر ہے میں اس کا نواسہ ہوں میرے دشمن کو نہ آسمان جگہ دے گا نہ زمین پناہ دے گی جہاں عزرائیل ملے گا شکار کر لے گا چاہے گھر میں ہو حضر میں ہو سفر میں ہو جہاز میں ہو کہیں بھی ہو ٹھیک ہے نا وہ کیا ان کے باپ دادا کا بھی یہی انجام ہوا؟ ہر دور میں حسین سے ٹکرانا آسان نہیں یزید جتنا کلیجہ چاہئے حسین سے ٹکرانے کے لئے سمجھ گئے یزید جتنا کلیجہ چاہئے جیسے محمد سے ٹکرانے کے لئے ابوجہل جیسا کلیجہ چاہئے علی سے ٹکرانے کے لئے مرحب جتنا بڑا کلیجہ چاہئے اسی طرح حسین سے ٹکرانے کے لئے کم از کم یزید جتنا کلیجہ چاہئے وہ تیرے پاس نہیں کیونکہ تو… معاویہ کا بیٹا نہیں۔ عقل فروغ دیں ہے تدبر حسین کا وجہ زوال کفر سیاست حسین کی اس بادشاہ دیں کی حکومت کی حد نہ پوچھ جنت ہے صرف ایک ریاست حسین کی (نعرئہ حیدری) (بڑی نوازش سلامت رہو اسی طرح جاگتے آؤ شاہ جی آپ کی فرمائش پر) "شبیر اگر دل میں تیرا نقش قدم ہے" (توجہ میری جانب کوئی لفظ میرا ضائع نہ ہو کربلا گامے شاہ کے عالمی اجتماع میں میرا لفظ ضائع ہو)۔ شبیر اگر دل میں تیرا نقش قدم ہے کچھ خوف ہے محشر کا نہ اعمال کا غم ہے یہ بھید کھلا حر کے مقدر سے جہاں میں جنت تو تیرے ایک تبسم سے بھی کم ہے (نعرئہ حیدری) (سلامت رہو آپ کے ذہنوں میں علی بلند ہو سکتا ہے اتنا بلند نعرہ سنائیں ہاتھ بلند کر کے نعرئہ حیدری)… اب تک الجھ رہا ہے یزیدی ہجوم سے۔ جاگتے آؤ اس وقت میں حسین کا واسطہ اللہ کو بھی دوں تو وہ بھی نہیں ٹھکرائے گا کربلا گامے شاہ ہے دو محرم ہے تین محرم کا چاند طلوع ہو چکا ہے اگر اس وقت حسین کا واسطہ اللہ کو دوں وہ نہیں ٹھکرائے میں ہر ایک مومن کو حسین کا واسطہ دے کے کہتا ہوں کہ میرا کوئی لفظ ضائع نہ کرنا۱ اب تک الجھ رہا ہے یزیدی ہجوم سے شبیر تو نے دین کو غازی بنا دیا تجھ پہ درود پڑھ کے پہنچتی ہے حق کے پاس تو نے نماز کو بھی غازی بنا دیا (نعرئہ حیدری) مرضی ہے تیری فکر میں ترمیم کر نہ کر سلطان عقل و عشق کو تسلیم کر نہ کر بچپن میں دیکھ لے ذرا دوش رسول پر پھر تو میرے حسین کی تعظیم کر نہ کر (نعرئہ حیدری) دکھ ہوتا ہے جب حسین کا مقابلہ انسانوں سے کرتے ہو حسین کا مقابلہ نبیوں سے کرو (تھک گئے ہو سن رہے ہو اچھی طرح سے سنو حسین تمہیں سلامت رکھے) حسین کا مقابلہ انبیاء سے کرو حسین کا مقابلہ کرنا ہے تو آدم سے کرو آدم سے کرو حسین کا مقابلہ (حضور پوری توجہ ارباب دانش صاحبان فکر پوری توجہ حسین کا مقابلہ آدم سے کرو)۱ آدم کی ذات مرکز ایمان بھی نہیں آدم کا نطق محور قرآن بھی نہیں آدم خطا کرے کوئی نقصان بھی نہیں شبیر میں خطا کا تو امکان بھی نہیں ہے ادنیٰ سی شان دیکھ شہ مشرقین کی آدم بہشت میں بھی ہے رعیت حسین کی آخری آدمی تک جسے میرا شعر پسند آیا ہے گونج کے نعرئہ حیدری… (کوئی لفظ میرا ضائع نہیں ہو رہا الحمدللہ ایک منزل آگے بڑھتا ہوں جہاں سے مجھے خوف تھا وہاں سے گزر آیا ہوں انشاء اللہ اب کوئی لفظ ضائع نہ ہو گا)۔ آدم خدا کا نور نہیں تھا حسین ہے میں اس وقت بہت بڑے مجمع میں کھڑا ہوں قبلہ "تھا" اور "ہے" میں دیکھنا ہے تھا اور ہے میں دو زمانے ہیں اب سنیں رباعی۱ آدم خدا کا نور نہیں تھا حسین ہے آدم شعاع طور نہیں تھا حسین ہے آدم خطا سے دور نہیں تھا حسین ہے آدم میرا غرور نہیں تھا حسین ہے آدم سخی ہے صاحب عزو وقار ہے لیکن حسین دوش نبی کا سوار ہے (اب تو نعرہ میرا حق بنتا ہے کوئی نعرہ لگائے یا نہ لگائے شاباش) نوح سے کر حسین کا مقابلہ۱ رتبے میں نجی تو وہی شان چاہئے اب نوح کو نجات کا سامان چاہئے کشتی ہو بادباں ہو نگہبان چاہئے کشتی کے تیرنے کو بھی طوفان چاہئے لیکن یہ معجزہ ہے شہ مشرقین کا خشکی پہ تیرتا ہے سفینہ حسین کا (نعرئہ حیدری) اب نوح کے پسر کی بغاوت بھی دیکھئے اپنے لہو میں فرق حرارت بھی دیکھئے لیکن میرے حسین کی عظمت بھی دیکھئے تاثیر تربیت کی یہ صورت بھی دیکھئے میدان حرب و ضرب میں کیا نام کر گیا ننھا سا شیر خوار بڑا کام کر گیا سلامت رہو جیو یہ ہے عشق حسین کا معجزہ میں نے تعارف نہیں کرایا صرف اتنا کہا ہے۱ ننھا سا شیر خوار بڑا کام کر گیا آنکھیں اصغر کی پیاس بجھانے کے لئے فرات بن گئیں۔ (چلو ایک رباعی اور بھی سنا دیتا ہوں)۔ ابراہیم اور حسین ! ابراہیم کو کہتے ہیں خلیل اللہ کیوں؟ اسماعیل کو ذبح کرتے وقت صبر سے کام لیا خلیل کہلایا خدا کے لئے ذرا توجہ فرمائیں خلیل اور حسین میں موازنہ کر رہا ہوں۱ انصاف چاہتا ہوں میں دنیا کے ممتحن صبر خلیل کے تو سبھی زاویے تو گن لیکن سکون شاہ بھی دیکھ امتحان کے دن سب کچھ لٹا کے بھی میرا مولا ہے مطمئن اکبر وہ سو رہا ہے یہ اصغر کی قبر ہے شبیر چپ کھڑے ہیں یہ میزان صبر ہے آج میں کوئی تقریر نہیں کرتا چونکہ آنکھیں رو پڑیں اگر فضائل پڑھتے ہوئے مومن رو پڑیں تو مجھے بزرگوں نے سمجھایا ہے اس وقت مصائب پڑھ چونکہ بی بی زینب یہی چاہتی ہیں۔ اگر اجازت دو تو رو لیں میرے معیار سے بہت زیادہ مجمع ہے میری توقع سے بڑھ کر آئے ہو آؤ پرسہ دیتے ہیں۔ میں دیتا ہوں زہرا کی بیٹی اگر وقت ملے تشریف لے آ تو ترستی گئی ہے ۴۵۹۶ میل میں دو دو لاکھ کے ہجوم میں کوئی حسین کا پرسہ دے؟ کسی نے تجھے پرسہ نہیں دیا آ… آج ہم اتنے مومن اتنی مومنات جمع ہیں چھوٹے چھوٹے بچوں کو لے کے آئے ہوئے مومن دور دور سے آئے ہوئے ہیں مومن درد ہے ان کے دل میں حسین کے اجڑنے کا قبر ہے ان کے سینے میں حسین کی آ بی بی تشریف لے آ۔ علی کی قسم…! ۴۵۹۶ میل ۲۶ شہر ۷۲ بازار ۱۴۴ گلیاں ۲۸۸ موڑ دو دو لاکھ کے ہجوم میں زہرا کی بیٹی دیکھتی تھی کوئی مجھے کہے گا تیرے حسین کا افسوس ہے تیرے اکبر کا افسوس ہے۔ مصائب کا موسم ہے مصائب کی رت ہے آ بی بی ہم پرسہ دیتے ہیں ہمیں نہ گھر پیارا ہے نہ نیند پیاری ہے تو اگر کربلا میں دس راتیں جاگتی رہی ہے آقا زادی ہم بھی جاگ رہے ہیں۔ سیدوں سے خصوصی اجازت لے کے بانیان مجلس سے خصوصی اجازت لے کے بھیک مانگنے کی راتیں ہیں دعائیں منظور کرانے کی راتیں ہیں قیمت ایک آنسو ہے شبیر کے غم میں ایک آنسو تیری آنکھ سے بہہ جائے تیرے دل میں جو دعا ہے بی بی زینب کہتی ہے بارالٰہی اس نے میرے بھائی کو گھوڑے سے اترتے نہیں دیکھا اس نے شمر کو سکینہ کے دُر اتارتے ہوئے نہیں دیکھا اس نے اکبر کے سینے میں برچھی لگتے ہوئے نہیں دیکھی اس نے ۵۷ سال کے ضعیف باپ کو جوان بیٹے کے سینے سے برچھی کا پھل نکالتے ہوئے نہیں دیکھا یہ سن کے رو رہا ہے اگر یہ کربلا میں ہوتا ایک میری چادر کوئی نہ چھینتا سکینہ کو طمانچے کوئی نہ مارتا اس کے دل میں جو دعا ہے خالق اسے پورا کر دے۔(سلامت رہو) ۲۸ رجب سن ۶۰ ہجری! ۲۸ رجب ۶۰ ہجری مغرب کی نماز کے بعد زہرا کی حویلی کا چالیس دروازہ اچانک بند ہو گیا۔ (سلامت رہو مولا تمہیں کسی غم میں نہ رلائے) زہرا کی حویلی کا چالیس دروازہ بند ہوا ۲۸ رجب ۶۰ ہجری مغرب کی نماز کے بعد کائنات کے شریف ترین خاندان کا چالیس دروازہ بند ہوا چالیس گھروں کی چابیاں چھ سال کی بیمار صغریٰ کے ہاتھوں پہ آئیں۔ (میں تیرا نوکر… میں پھر پڑھتا ہوں) چالیس دروازوں کی چابیاں چھ سال کی بیمار بیٹی جناب صغریٰ کے ہاتھ میں آئیں (مولا تیرے چھ سال کے بچوں کی عمر دراز کرے اگر چھ سال کی بچی بیمار ہو کوئی دوائی نہ لیا کر کوئی دوا نہ لیا کر اسے بستر بیماری پر سلا کے مدینے کی طرف منہ کر کے دو رکعت نماز جناب صغریٰ کو ہدیہ کر کے کہا کر صغریٰ تجھے اکبر کا واسطہ…) (سلامت رہو بھئی سلامت رہو)۔ سادات کا چالیس دروازہ اچانک بند ہوا جو دروازہ بند ہوتا ہے اس دروازے کی چابی وہ خاتون آتی ہے اس حجرے میں جہاں جناب رباب کی آغوش میں ۶ سال کی صغریٰ سوئی ہوئی ہے (ہو گی تیری بہن یا بیٹی چھ سال کی ذرا اندازہ کر وہ بیمار ہو بہت بڑا گھر ہو تو پردیس میں چلا جائے اسے پورے گھر میں اکیلا چھوڑ کے چلا جائے اللہ جانے کس کس دیوار کو ٹکریں مارے گی) رات ہوتی ہے تنہائی ہوتی ہے اندھیرا ہوتا ہے… مجھے علی کی عزت کی قسم چار دفعہ اپنے گھر سے باہر نکل کر جب تک… علی اکبر کی آواز کانوں میں آتی رہی صغریٰ مدینے کی گلیوں میں دوڑتی رہی کہیں اکبر پھر مل جائے۔ (سلامت رہو حوصلے سے صبر سے مصائب کے تیور دیکھتے آؤ یہ ہے میری قوم) قبلہ جب فہرست بنی جناب حسین اور جناب عباس بنانے لگے اور بی بی زینب ساتھ بیٹھی ہے۔ حسین نے کہا زینب بہن میں فہرست بنانے لگا ہوں بی بی بی زینب کہتی ہے میں بھی اپنا لشکر تیار کروں گی۔ حسین کہتے ہیں میری فوج کا سالار عباس ہو گا بی بی زینب کہتی ہے میری فوج کی سالار رقیہ ہو گی۔ حسین کہتے ہیں میری فوج میں اکبر ہو گا زینب سوچ کے کہتی ہے میری فوج میں صغریٰ ہو گی۔ حسین کہتے ہیں میں اصغر کو بھی لے جاؤں گا زینب کہتی ہے محسوس نہ کر کمی میں بھی نہیں آنے دوں گی اصغر کہاں تک جائے گا تیرے ساتھ حسین کہتا ہے کربلا تک بی بی کہتی ہے کربلا سے شام تک سکینہ میرے ساتھ رہے گی۔ (مولا تیرے آنسو قبول کرے ملتان سے آئے مومنو! اجازت دو میں مصائب شروع کروں) حسین کہتا ہے عباس فہرست بنا عباس نے کہا کس کا نام لکھوں؟ کہا اپنا نام لکھ جوانوں کے نام لکھ۔ حسین کہتا ہے اب میری بہنوں کے نام لکھ (میں مر نہیں جاؤں گا میرا بھی جگر ہے پتھر تو نہیں یہ ساتویں مجلس ہے آج کے دن کی) آواز آئی میری بہن زینب کا نام لکھ۔ عباس نے حسین کو دیکھا مولا کس کا نام لکھوں؟ کہا لکھ زینب بنت علی اسیرہ شام۔ عباس کے ہاتھ کانپے قلم چھوٹ گیا آواز آئی مولا تیری بہن زینب بھی سفر کرے گی؟ آواز آئی ہاں عباس کہتا ہے مولا مجھے موت کیوں نہیں آ جاتی؟ کہاں زینب کہاں سفر زینب کہتی ہے عباس لکھ میرا نام میں زینب ہو کے تجھے حکم دیتی ہوں جب حکم کا نام آیا نا مجھے علی کی عزت کی قسم عباس سے یہ نام لکھا نہیں گیا بایاں ہاتھ دونوں آنکھوں پر رکھا دائیں ہاتھ میں قلم لے کے کانپتے ہوئے لکھا زینب ز کہیں ی کہیں ن کہیں ب کہیں لکھا۔ جب حسین نے دیکھا آواز آئی شاباش عباس جیسے جیسے تو نے لکھا ہر حرف علیحدہ علیحدہ لکھا ہے ویسے ویسے زینب سفر کرے گی کبھی کربلا کبھی کوفہ کبھی شام کبھی مدینہ (سلامت رہو روتے بھی آؤ) عباس ویسے ویسے زینب سفر کرے گی (جی بھائی جی میں تیرا نوکر تو سن کے رو رہا ہے میں ۲۸ رجب کی بات کر رہا ہوں آنکھوں پہ پٹی باندھ کے اپنی ماؤں اور بہنوں سے کہتا ہوں آج کی رات میں جو مصائب پڑھ رہا ہوں تمہیں واسطہ ہے بی بی صغریٰ کا گھروں میں اولاد کا خیال چھوڑ دو دو منٹ کے لئے میری طرف توجہ دو)۱ لکھا زینب بنت علی اسیرہ شام کلثوم بنت علی اسیرہ شام حسین خاموش عباس کہتے ہیں ٹھیک ہے مولا میں تیرا بھائی نہیں میں تیرا غلام ہوں لیکن غلاموں سے اتنی نفرت تو اچھی نہیں۔ آواز آئی کون سی نفرت؟ آواز آئی تیری بہنیں جائیں میری بہن رقیہ کیوں نہ جائے؟ آواز آئی لکھ رقیہ بنت علی اسیرہ شام۔ بہنوں کے نام لکھے گئے عباس اب میرے بیٹوں کا نام لکھ عباس نے سجاد کا نام لکھا اکبر کا نام لکھا اصغر کا نام لکھا روتا رہا عباس ۔ حسین کہتا ہے اب میری بیٹیوں کے نام لکھ سکینہ بیٹھی ہے حسین کی آغوش میں کہتی ہے بابا پہلے میرا نام لکھ میں تیرے ساتھ ضرور جاؤں گی۔ حسین کہتا ہے لکھ فاطمہ کبریٰ عباس نے لکھا فاطمہ کبریٰ سکینہ کہتی ہے چچا لکھ فاطمہ صغریٰ حسین کہتا ہے نہ سکینہ صغریٰ نہیں جائے گی سکینہ نے جھولی چھوڑی دونوں ہاتھ بابا کی گردن میں ڈال کے کہا بابا صغریٰ بیمار ہے اس کی سگی ماں کوئی نہیں اسے کون دلاسے دے گا بابا تجھے اکبر کا واسطہ صغریٰ کو ساتھ لے چل۔ (سلامت رہو) (روتے بھی آؤ ماتم بھی کرتے آؤ میں نوکر) بابا اسے ساتھ لے چل آواز آئی سکینہ صغریٰ نے نہیں جانا نانا کے مزار پر چراغ کون جلائے گا؟ سکینہ نے بابا کی جھولی چھوڑی دوڑ کے آئی جناب ام رباب کے حجرے میں صغریٰ سوئی ہوئی ہے بڑی بہن ہے صغریٰ چھوٹی ہے سکینہ اندازہ لگاؤ ایک بہن جو چھوٹی ہے وہ سفر پر جا رہی ہے بڑی سفر پر نہیں جا رہی سفر کیسے گزرے گا؟ سکینہ نے صغریٰ کو سلام کیا صغریٰ میرا سلام آ سکینہ بہن… صغریٰ کیا حال ہے بیماری کا؟ آواز آئی ماں رباب نے مجھے اپنی ماں بھلا دی جب کہا نا کہ مجھے ماں بھلا دی اماں رباب نے سکینہ کہتی ہے اچھا آواز آئی سکینہ بہن تیرا شکریہ جتنی دیر کے لئے تو اماں رباب کی آغوش میں بیٹھا کرتی تھی اب تو نہیں بیٹھتی وہی وقت مجھے اماں رباب دیتی ہے میں تیری شکرگزار ہوں۔ بہن کی پیشانی چوم کے سکینہ کہتی ہے آج کی رات… صغریٰ کہتی ہے سکینہ خاموش کیوں ہو گئی ہو؟ سکینہ کہتی ہے آج کی رات ہم سفر پہ جا رہے ہیں کون کون جا رہے ہیں؟ سکینہ کہتی ہے سارے کہاں جا رہے ہو؟ بابا کہتا ہے عراق جائیں گے۔ صغریٰ کہتی ہے اچھا ہے آب و ہوا تبدیل ہو جائے گی بیمار ہوں میں بھی ساتھ جاؤں گی سکینہ رو کے کہتی ہے تو ساتھ نہیں جا رہی صغریٰ تڑپ کے اٹھی آواز آئی میں ساتھ کیوں نہیں جا رہی؟ آواز آئی فہرست دیکھ آئی ہوں جانے والوں کی فہرست بن رہی ہے صغریٰ تیرا نام فہرست میں نہیں۔ صغریٰ کہتی ہے فہرست کون بنا رہا ہے؟ چاچا عباس نام کون لکھوا رہا ہے؟ بابا حسین صغریٰ کہتی ہے میرا بھائی اکبر کہاں ہے؟ آواز آئی میرا بھائی اکبر کہاں ہے؟ آواز آئی اکبر نہیں ہے صغریٰ کہتی ہے سکینہ احسان کر میرے اکبر کو تلاش کر کے لا اسے کہہ بیمار بہن تجھے ڈھونڈ رہی ہے بیمار بہن بلا رہی ہے۔ سکینہ نے دیکھا اکبر کہیں نہیں ملا آواز آئی صغریٰ اکبر کہیں نہیں ملا۔ بن گئی فہرست (دوستو زیادہ طول نہ کروں مصائب میں تیری آنکھیں بادل بن کے برس رہی ہیں مولا تیرے آنسو قبول کرے میں سید ہوں مجھے معاف کر دینا سیدوں سے معافی مانگ کے دو لفظ کہتا ہوں) بن گئی فہرست زہرا کی حویلی کا چالیس دروازہ بند ہوا ہر بی بی آتی ہے چابی لے کے جناب رباب کے حجرے میں صغریٰ کو دیکھتی ہے آنکھوں سے برسنے لگتا ہے پانی… منہ پھیر لیتی ہے منہ دوسری طرف کر کے ہاتھ بڑھا کے صغریٰ کے بستر پر چابی رکھتی ہے باہر جا کے دیوار کی ٹیک لگا کے ہر مستور کی چیخ نکل جاتی ہے۔ جب ساری مستورات نے چابیاں دیں آخر میں بی بی زینب داخل ہوئیں صغریٰ اٹھتے ہوئے کہتی ہے پھوپھی اماں تعظیم معاف میں اٹھ نہیں سکتی بیمار ہوں میرا سلام قبول کر۔ آواز آئی صغریٰ میں بھی آئی ہوں کیوں آئی ہے پھوپھی؟ یہ چابی سنبھال صغریٰ کہتی ہے پھوپھی اماں جتنی مستورات آئی ہیں میرے پاس آتی ہیں مجھے دیکھتی ہیں ہر مستور میرے ہاتھ پر چابی رکھ کے چلی جاتی ہے میری سمجھ میں نہیں آیا۔ جناب زینب کہتی ہیں صغریٰ ہم جا رہے ہیں سفر ہمارے بعد حسین جیسے دیانتدار کی واحد امین بیٹی ہے تو مدینے میں تجھے دے رہی ہیں چابیاں اپنے گھروں کی۔ صغریٰ کہتی ہیں اچھا پھوپھی صغریٰ انہیں سنبھال کے رکھنا۔ صغریٰ کہتی ہے پھر ایسا کر ساری مستورات کو بلا میں بیمار ہوں وعدہ کرتی ہوں کسی کو کچھ نہیں کہوں گی ساری مستورات اکٹھی ہوئیں کوئی صغریٰ کی پیشانی چومتی ہے کوئی صغریٰ کے ہاتھ چومتی ہے کوئی صغریٰ کے رخساروں پر بوسہ دیتی ہے… الفراق الفراق کی آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ صغریٰ کہتی ہے بیبیو! میری بھی ایک بات سن لو (اب جس کا جگر ہو وہ میری بات سن لے اگلے سال تک یہ بات یاد آئے گی تو روئے گا)۔ صغریٰ کہتی ہے بیبیو! میری بات بھی سن لو کہہ صغریٰ آواز آئی میں بیمار ہوں تم جا رہی ہو سفر پر گرمی کا موسم ہے سفر ہے دور دراز کا اللہ جانے کب واپس آؤ گی اگر میں زندہ رہی ہر مستور کو اس کے گھر کی چابی سنبھال کے دوں گی اگر تمہارے آنے تک صغریٰ مر گئی تو ایک بات یاد رکھنا ساری چابیاں مزار محمد کے نیچے رکھی ہوئی ہوں گی خود سنبھال لینا کوئی یہ نہ کہے صغریٰ مر گئی اللہ جانے ہمارے گھروں کی چابیاں کہاں گئیں۔ (سلامت رہو کرتے آؤ ماتم اسی طرح حوصلہ حوصلہ) اچھا صغریٰ ہمارا سلام(دیکھو میری طرف بٹھا دو اس بچے کو اسے دلاسے دینے والے بہت ہیں یہ بے ہوش ہو جائے اسے پانی دینے والے بہت ہیں) مجھے علی کی عزت کی قسم ہے ۴۸ بچے کربلا سے کوفے تک مائیں بن پلان اونٹ پر سوار ہوتی تھیں ہر بچے کے ہاتھ ماں کی گردن میں ہوتے ماں کے ہاتھ گردن کے ساتھ بندھے ہوئے ہوتے اونٹوں کو چابک لگتا اونٹ تیز دوڑتے بچہ کہتا اماں میرے ہاتھوں کی گرفت ڈھیلی ہو رہی ہے۔ ماں کہتی تھی میرے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں اللہ جانے اب بچہ گرتا تھا آواز آتی اماں میں گر پڑا ماں کہتی تھی اللہ کے حوالے… اگر زندہ بچ کے آ گئی تیری قبر بناؤں گی نہ آ سکی تو اللہ کے حوالے۔ علامہ محمد حروی لکھتے ہیں کہ جب بچہ گرتا تھا ایک مستور آتی تھی کالے برقعے والی بچے کو گود میں لیتی تھی کوئی راہی گزرتا وہ کہتی مسافر… میں ہوں تیرے رسول۱کی بیٹی زہرا آ اس بچے کی قبر بنا دے اس کے بدلے میں حشر کے دن تیری شفاعت کروں گی۔ (سلامت رہو روتے بھی آؤ ماتم بھی کرتے آؤ)۔ بن گئی فہرست ہو گئی تیاری عباس محمل تیار کر مالی السبطین میں کتاب کا نام بتا رہا ہوں آقائے مہدی نے لکھا ہے سارے ذاکر پڑھتے ہیں کہ ۵۷ محمل تھے۔ مالی السبطین کا حوالہ دے کے کہہ رہاہوں وہ کہتا ہے ۲۵۰ محمل تھے۔ ۲۵۰ محمل تھے کہتا ہے میں نے دیکھا عبداللہ بن لکفان کی روایت ہے عبداللہ کہتا ہے کہ میں مغرب سے پہلے پہنچا ہوں مدینے میں مغرب سے پہلے مدینے کے لوگ ایک درخت کے نیچے بیٹھے ہوئے ایک دوسرے کو پرسہ دے رہے تھے۔ عبداللہ کہتا ہے میں وہاں بیٹھ گیا سامنے زہرا کی حویلی کا دروازہ تھا میں نے محمل گنے ۲۵۰ محمل تھے جن میں ۵۳ اونٹوں پر محمل تھے کچھ اونٹ خالی تھے۔ ۷۰ اونٹوں پر سامان اور خیمے لادے گئے ۴۰ اونٹوں پر سامان خورد و نوش ۳۰ اونٹوں پر مشکیزوں میں پانی ۵۳ اونٹوں پر محمل جن پر زہرا کی بیٹیاں سوار ہوئیں ۱۲ اونٹوں پر پتہ نہیں سن سکو یا نہ سن سکو میں کتاب کا حوالہ دے کے کہہ رہا ہوں۔ (غلط پڑھوں بی بی زینب میری شفاعت نہ کرے دو علم میرے گواہ ہیں کہتا ہے ۱۲ اونٹ ایسے تھے) عبداللہ کہتا ہے میں نے پوچھا ان پر کیا ہے؟ رو کے کہتے ہیں ان بارہ اونٹوں پر زہرا کی بیٹیوں کی چادریں ہیں زہرا کی بیٹیوں کی چادریں ہیں بارہ اونٹوں پر (اگر تیرا عشق مکمل ہو گیا تو میرا ذمہ کوئی نہیں ورنہ تو اٹھ کے ماتم کرے گا)۔ کہتا ہے ۷۰ اونٹوں پہ خیمے ۴۰ اونٹوں پہ سامان خورد و نوش ۳۰ اونٹوں پر پانی کے مشکیزے ۵۳ محمل پہ زہرا کی بیٹیاں اور باقی سید زادیاں اور بچے بارہ اونٹوں پہ زہرا کی بیٹیوں کی چادریں۔ عبداللہ کہتا ہے میں نے دیکھا ۴۵ اونٹ ایسے ہیں جن پر بہت سامان لادا گیا میں نے پوچھا وہ تو مشکیزے ہیں وہ خیمے ہیں وہ سامان خورد و نوش ہے وہ چادریں ہیں ان ۴۵ اونٹوں پر کون سا سامان ہے؟ (زہرا کی بیٹی میں تجھ سے معافی مانگ کے ایک فقرہ کہتا ہوں میرا پچاس ہزار کا مجمع سن کے اللہ جانے تجھے پرسہ دے نہ دے یہ تیری قسمت) عبداللہ کہتا ہے ایک نوجوان دوڑتا ہوا آیا اس نے سلام کیا میں نے پوچھا ۴۵ اونٹوں پر کیا ہے؟ وہ جوان رو پڑا تین دفعہ کہا واغربتاہ ہائے ہماری غربت میں نے کہا ان ۴۵ اونٹوں پر کون سا سامان ہے؟ جوان رو کے منہ پہ ماتم کر کے کہتا ہے ہمارا سفر شروع ہے ۴۵ اونٹوں پر جو سامان ہے ہمارا ایک شہزادہ ہے ۱۸ سال کا کڑیل جوان علی اکبر ہے اس کی شادی قریب ہے اس کی شادی کا سامان کچھ اس کی ماں نے بنایا ہے کچھ اس کی پھوپھیوں نے بنایا ہے یہ سارا سامان علی اکبر کی شادی کا ہے ہم نے اسے ۴۵ اونٹوں پر سوار کیا ہے۔ (تو کہتا ہے شام غریباں کو کچھ نہیں ہوا) ۴۵ اونٹوں پر تھا علی اکبر کی شادی کا سامان۔ (الحمدللہ مصائب آ گیا ہے پورے معیار پر کہو تو یہیں چھوڑ دوں کہو تو پوری تیاری پڑھوں اچھا بابا پڑھتا ہوں تیاری اسی طرح سے تو روتا آ اور سنتا آ تاکہ مل کے پرسہ دے سکیں)۔ رات ڈھلنے لگی رات ڈھلنے لگی حسین باہر آئے آواز آئی میرا سفر کا… سامان لے آ عمامہ رسول۱کا حسین نے سر پہ رکھا رسول۱کی تلوار حسین کے ہاتھوں پر آئی دوسرے ہاتھ میں رسول۱کا عصا ہے۔ عبداللہ ابن لکفان کہتا ہے اللہ مجھے برباد کرے اگر میں جھوٹ بولوں میں نے زندگی میں پہلی بار یہ محسوس کیا کہ میرے سامنے حسین نہیں رسول۱کھڑا ہے۔ میں نے لوگوں سے پوچھا یہ رسول ہے یا حسین ؟ آواز آئی یہ رسول۱کا نواسہ حسین ہے۔ حسین نے کہا این این اخیک میرا قمر بنی ہاشم بھائی عباس کہاں ہے؟ ایک نوجوان آیا اس نے کہا لبیک یا ابن رسول اللہ۔ اس نے دونوں ہاتھ حسین کے قدموں پر رکھے آواز آئی عباس بھائی جا دیکھ زہرا کی بیٹیاں تیار ہوئیں یا نہیں عباس گئے واپس آئے عرض کی مولا تیاری ہو گئی مکمل حسین چلا اٹھارہ بنی ہاشم ساتھ ہیں۔ (اب دعا کرو مجھے موت آ جائے) اٹھارہ بنی ہاشم ساتھ ہیں حسین اندر آئے جیسے جیسے حسین اندر گئے بچے حجروں سے نکل کر حسین کا ہاتھ چومنے لگے۔ کوئی کہتا ہے چاچا میں ساتھ چلوں گا کوئی کہتا ہے ماموں میری تیاری مکمل ہو گئی کوئی کہتا ہے میری اماں تیار ہو گئی حسین سب کو چھوڑ کے اٹھارہ بنی ہاشم کو ساتھ لے کے بی بی زینب کے حجرے کے دروازے پر آئے حسین کی چیخ نکلی: السلام علیک یا ایھا الصابرة و المجاہدة "اے میری صابرہ اور مجاہدہ بہن سلام ہو۔" آ زینب باہر آ آدھی رات کا وقت تھا بی بی زینب کا ایک قدم باہر آیا ۳۲ سال کا عباس پاؤں میں نعلین نہیں سر پہ عمامہ نہیں عباس زور زور سے کہتا ہے آقا زادی ابھی باہر نہ آنا ابھی اندر رہنا بی بی اندر گئی ۳۲ سال کا عباس زہرا کی حویلی میں چکر لگا لگا کے دونوں ہاتھ بلند کر کے بار بار کہتا ہے الحجاب الحجاب پردہ پردہ… حسین کہتا ہے عباس کسے کہہ رہے ہو؟ آواز آئی مولا آسمانی مخلوق سے کہہ رہا ہوں پردہ کر جاؤ ثانی زہرا باہر آ رہی ہے۔ (اللہ جانے سنو یا نہ سنو) زینب باہر آ رہی ہے۔ (دیکھو! میری طرف جتنے مومن رو رہے ہو دو لمحوں کے لئے میری طرف دیکھو میں ختم کروں مولا تمہارے بچوں کی زندگیاں دراز فرمائے)۔ جب عباس نے کہا الحجاب ہائے او زینب تیری قسمت ہائے او زینب تیرا رتبہ۔ زینب پیدل نہیں تھی زینب کا رتبہ کیا تھا؟ قبلہ جب عباس کہہ چکا الحجاب… الحجاب… الحجاب… عباس کہتے ہیں آقا زادی اب باہر آ۔ بی بی زینب نے باہر قدم رکھا (میری اولاد قربان ہو جائے مجھے موت آ جاتی یہ لفظ نہ کہنا پڑتا اے میری ماؤں بہنو! تمہاری چادریں سلامت رہیں) بی بی زینب نے قدم باہر رکھا حسین نے ہاتھ تھاما دایاں بازو حسین نے پکڑا بایاں بازو علی اکبر نے پکڑا اٹھارہ بنی ہاشم نے ہاتھوں میں ہاتھ ملائے سب کے ہاتھوں کے سائے میں بی بی زینب چلی۔ پہلا قدم زینب نے رکھا حسین نے یٰسین پڑھی عباس نے مزمل پڑھی اکبر نے سورئہ الحمد تلاوت کی عون و محمد نے سورئہ کوثر پڑھی ہر فرد اپنے اپنے حصے کی آیت پڑھتا ہے۔ بی بی زینب قدم رکھتی ہے دایاں ہاتھ ہے بی بی زینب کا حسین کی عبا میں بایاں ہاتھ علی اکبر کی عبا میں بی بی زینب قدم رکھتی ہے (اللہ جانے کہاں مصائب ختم ہو) بی بی زینب قدم رکھتی ہے (او سیدو! تم بھی ماتم کرتے آؤ اس وقت ہر آنکھ رو رہی ہے) ادھر بی بی زینب نے قدم رکھا ۳۲ سال کا عباس پیچھے مڑ کے زمین پر بیٹھ کے بی بی زینب کے نشان قدم مٹا دیتا ہے۔ آواز آئی زینب تیری اپنی قسمت۔(سلامت رہو روتے بھی آؤ ماتم بھی کرتے آؤ جی جی میں نوکر) بی بی زینب قدم رکھتی ہے عباس آگے زمین پر بیٹھ گئے بی بی زینب کے قدموں کے نشان مٹا دیتا ہے۔ (ایک جملہ سنو گے دعا کرو مجھے موت آ جائے)۔ جب چودہ قدم بی بی زینب اپنی ماں کی حویلی میں چلی اچانک حسین کی عبا چھوڑ دی اکبر کی عبا چھوڑ دی زینب زمین پر بیٹھ گئیں۔ حسین کہتا ہے زینب بہن کیوں بیٹھ گئی ہو؟ رو کے کہتی ہے حسین حسین اور کتنا چلنا ہے؟ میں تھک گئی ہوں۔ حسین رو کے کہتا ہے زینب ابھی سے تھک گئی ہو تجھے بازاروں میں چلنا ہے اور تجھے درباروں میں جانا ہے اور تجھے گلیوں میں جانا ہے۔ جو بی بی اپنے گھر میں چودہ قدم چل کے کہتی ہے میں تھک گئی ہوں وہی بی بی حسین کی لاش پہ چل کے آئی کربلا سے کوفہ کوفہ سے دمشق دمشق سے نو میل بازار… بازار سے دربار… دربار میں ساری رات لوگ شراب پیتے رہے زینب چپ کر کے کھڑی رہی۔ رات گزر گئی صبح ہوئی ایک سال زندان میں ایک سال کے بعد پھر دربار دربار کے بعد پھر بازار بازار سے پھر کوفہ… کوفہ کے بعد پھر کربلا کربلا کے بعد پھر مدینہ مدینے کے بعد پھر مصر مصر کے بعد پھر شام جب دوبارہ شام واپس آئی آسمان کی طرف منہ کر کے کہتی ہے اب میں تھک گئی ہوں اب مجھ سے چلا نہیں جاتا اب میری زندگی ختم ہو جائے گھر سے باہر آئی۔ (میں پڑھ گیا مصائب قبلہ اگر جگر کنٹرول میں ہے تو میں ایک لفظ کہتا ہوں) بی بی زینب باہر آئی محمل پہ سوار ہونے لگی عباس نے اپنا دایاں زانو آگے بڑھایا آواز آئی آقا زادی رکھ قدم سوار ہو محمل میں۔ زینب کہتی ہے سوار نہیں ہوں گی اکبر آیا زانوں بڑھایا آ پھوپھی اماں میں سوار کراؤں آواز آئی نہ اکبر قاسم آیا نہ قاسم میں سوار نہیں ہوں گی حسین قریب آئے دیکھ کے کہتے ہیں زینب بہن سوار کیوں نہیں ہوتی؟ آواز آئی حسین مجھے سوار وہ کرے جو پھر یہیں چھوڑ جائے (اللہ جانے سمجھ گئے ہو یا نہیں) مجھے سوار وہ کرے جو پھر یہیں چھوڑ جائے۔ حسین کی آواز آئی سجاد میرا بیمار بیٹا آ پھوپھی کو سوار کر تو وہ ہے جو اسے واپس وطن لائے گا۔(سلامت رہو بھئی) ہو گئی محمل میں زینب سوار۔ ہو گئی محمل میں بی بی زینب سوار جناب کلثوم سوار ہو گئی جناب رقیہ سوار ہو گئی۔ حسین کہتا ہے رباب کہاں ہے؟ صغریٰ کے حجرے میں ہے آواز آئی رباب کیا نہیں جانا؟ رباب کہتی ہے کہ مولا انکار تو نہیں… لیکن یہ بیمار ہے اسے کیسے چھوڑوں؟ صغریٰ نے دونوں ہاتھ ماں کی گردن میں ڈالے اور کہا اماں سارے چلے گئے تو نہ جا تیرا اصغر چھوٹا ہے گرمی کا موسم ہے میں بیمار ہوں۔ حسین کہتا ہے صغریٰ آنے دے ماں کو… جب حسین نے کہا نا کہ ماں کو جانے دے میری بہنیں کافی دیر سے محمل میں انتظار کر رہی ہیں صغریٰ نے دونوں ہاتھ ماں کی گردن سے نکالے آواز آئی جا اماں جب بی بی رباب باہر محمل کی طرف آنے لگی صغریٰ کے حجرے سے صغریٰ نے رو کے کہا اماں میری بات سنتی جا۔ آواز آئی کون سی بات؟ آواز آئی مجھے یقین آ گیا کہ میں یتیم ہوں اگر میری سگی ماں ہوتی تو مجھے چھوڑ کے نہ جاتی رباب چلی گئی قبلہ… محمل میں محمل تیار ہوئے ادھر محمل تیار ہوئے ادھر صغریٰ اٹھی۔ (مولا حسین کا واسطہ میرے آخری لفظ سن لو) صغریٰ باہر آئی کبھی اٹھتی ہے کبھی بیٹھی ہے۔ نانی ام سلمیٰ کے پاس گئی آواز آئی نانی! اللہ جانے مسافر واپس آئیں یا نہ آئیں مجھے دادی زہرا کی حویلی میں بڑے دروازے پہ بٹھا دے دیکھوں تو سہی کیسے جا رہے ہیں مسافر ام سلمیٰ صغریٰ کو لے کے دروازے پہ بیٹھ گئی (اب جگر پتھر کا ہو تو سنے) صغریٰ بیٹھ گئی سب سے پہلے سواری گزری آواز آئی کس کی سواری ہے؟ آواز آئی صغریٰ تیرے بابا حسین کی سواری ہے بابا میرا سلام حسین چلا گیا۔ یہ کس کی سواری ہے یہ عباس کی سواری ہے نانی اسے کہہ جو تیری کچھ نہیں لگتی وہ سلام کہتی ہے عباس گھوڑے سے اترا صغریٰ کے قدموں پر ہاتھ رکھ کے کہتا ہے میں تیرا بھی نوکر تیرے بابا کا بھی نوکر ہوں سفر کی پہلی منزل پر ناراض کیوں ہوتی ہے؟ صغریٰ کہتی ہے کیا ہوتا اگر فہرست میں میرا نام بھی لکھ لیتا میں تیرے فضل کی کنیز بن کے چلی جاتی۔ (سلامت رہو روتے بھی آؤ ماتم بھی کرتے آؤ سنتے بھی آؤ) نانی اب کس کی سواری ہے؟ شہزادے قاسم کی۔ آواز آئی اچھا مولا اس کی زندگی دراز کرے قاسم چلا گیا (یا ثانی زہرا مجھے طاقت دے میں انہیں آخری لفظ سنا سکوں) اب کس کی سواری ہے؟ بی بی ام سلمیٰ کہتی ہے صغریٰ نہ پوچھ آواز آئی نانی جلدی بتا مجھے کسی کی خوشبو آ رہی ہے آواز آئی علی اکبر جا رہا ہے۔ تڑپ کے صغریٰ اٹھی کہتی ہے نانی اسے کہہ چلے جانا بیمار کہتی ہے ایک لمحہ ٹھہر جا اکبر ٹھہرا صغریٰ میرا سلام صغریٰ کہتی ہے ہو سکے تو ایک لمحہ گھوڑے سے اتر اکبر گھوڑے سے اترا صغریٰ کے قریب آیا۔ صغریٰ نے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے اپنے سر سے چادر اتاری زمین پر بچھائی کہا نبی۱کی شکل والا جوان میرے پاس اور رہا کچھ نہیں میں بیمار ہوں اس چادر پر بیٹھ اکبر چادر پر بیٹھا صغریٰ نے دونوں ہاتھ بلند کئے اکبر کے گلے میں دونوں بانہیں حائل کیں صغریٰ نے گردن میں ہاتھ ڈالے بے ہوش ہو گئی ادھر اکبر بے ہوش ہو گیا ادھر اکبر بے ہوش ہوا کافی دیر دونوں بہن بھائی بے ہوش رہے ادھر محمل رک گئے ادھر حسین کی سواری رکی۔ آواز آئی عباس جا کے دیکھ تو سہی اکبر نے دیر کیوں لگا دی؟ عباس آیا واپس گیا مولا مجھے معاف کرنا میں یہ منظر نہیں دیکھ سکتا مولا آپ خود جائیں حسین آئے۔ (آخری لفظ مجلس ختم کر رہا ہوں میں نے خود پر مصائب اوڑھ لیا ہے) حسین آئے دیکھا اکبر کے ہاتھ صغریٰ کے سینے پر صغریٰ کے ہاتھ اکبر کی گردن میں دونوں بے ہوش۔ حسین نے جگایا حسین نے کہا اکبر دیکھ میری بہنیں کتنی دیر سے محمل میں بیٹھی انتظار کر رہی ہیں اکبر جلدی کر زینب تھک جائے گی۔ اکبر نے کہا بابا انصاف کر اپنی بہنیں کتنی پیاری ہوتی ہیں بابا تیری بہنیں تیرے ساتھ ہیں اللہ جانے میری بہن جو بیمار ہے دوبارہ مجھے ملے نہ ملے۔ صغریٰ اٹھی آواز آئی جی بابا صغریٰ اجازت دے اکبر کو۔ صغریٰ کہتی ہے جا اکبر میری اپنی قسمت حوالے رب کے اکبر جانے لگا ادھر اکبر جانے لگا اکبر کے دامن میں ہاتھ آیا اکبر نے مڑ کے دیکھا چھ سال کی بیمار صغریٰ آواز آئی بابا! ناراض نہ ہونا تو بھی تھوڑی دیر کے لئے رک جا بے شک اکبر کو ساتھ لے جا۔ حسین رک گئے اکبر بھی رک گئے حسین بھی رک گیا چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے تھوڑی تھوڑی مٹی اکٹھا کرنا شروع کی مٹی اکٹھی کر کے صغریٰ نے اکبر سے کہا بھیا یہاں ذرا اپنا پاؤں رکھ دے حسین کہتے ہیں صغریٰ کیا کرے گی؟ رو کے کہتی ہے اکبر چلا جائے گا اس کا نقش قدم رہ جائے گا میں بیمار ہوں روزانہ اس کے پاؤں کے نشان پر بوسہ دے کر زندگی کے دن پورے کروں گی (کرتا آ ماتم اب رت ہے مصائب کی) جانے لگا اکبر ۔(بس آخری لفظ سن لیں ہاتھ نہ جوڑیں ختم کرتا ہوں) اکبر جانے لگا صغریٰ کہتی ہے بابا میری ایک گزارش سن میری ایک وصیت سن میں بیمار ہوں اکبر کے بغیر زندہ نہیں رہ سکوں گی میں مر جاؤں گی میری وصیت یہ ہے کہ میری قبر پر تین رشتہ دار نہ آئیں۔ حسین کہتا ہے کون کون سے؟ صغریٰ رو کے کہتی ہے بابا پہلا میرا چچا عباس صغریٰ اور کون؟ دوسرا میرا بھائی علی اکبر جب کہا نا دوسرا میرا بھائی علی اکبر حسین کہتا ہے تیسرا صغریٰ کہتی ہے بابا میری چادر چھوڑ حسین نے چادر چھوڑی چادر سر پر رکھ کر صغریٰ چل پڑی… صغریٰ کہاں جا رہی ہے؟ تیسرے رشتہ دار کا نام بتا چھ سال کی بیمار کہتی ہے بابا اگر ناراض نہ ہو تو بھی میری قبر پر نہ آنا۔ حسین کہتا ہے صغریٰ تو نے اپنی سنائی ہے ذرا میری بھی سن لے صغریٰ کوئی اور آئے یا نہ آئے بابا وعدہ کرتا ہے بابا نہیں آئے گا بابا مارا جائے گا۔ صغریٰ واپس پلٹی بابا کی گردن میں بانہیں ڈال کے رو کے کہتی ہے بابا یہ کیوں نہیں کہتے کہ میں تمہیں یتیم کرنے جا رہا ہوں؟ … … مزاجِ گل شاخِ گل پہ دیکھو مقامِ خوشبو صبا سے پوچھو علی کا رتبہ گھٹانے والو علی کا رتبہ خدا سے پوچھو لحد میں منکر نکیر پوچھیں گے کچھ تو یہ کہہ کے ٹال دوں گا! سوال مشکل ہے اے فرشتو جواب مشکل کشا سے پوچھو الا لعنۃ اللہ علی القوم الظالمین

Offline Ajnabi

  • Super Moderator
  • *
  • Posts: 3083
  • Reputation: 148
  • Gender: Male
Re: مدینے سے کربلا تک
« Reply #1 on: December 18, 2009, 04:03 PM »
 JazaKallah




Offline Super boy

  • Moderator
  • *
  • Posts: 4179
  • Reputation: 582
  • Gender: Male
Re: مدینے سے کربلا تک
« Reply #2 on: December 20, 2009, 12:00 PM »
 JazaKallah
Ghalat Jagah Te Laayii,Ghaltii Sadii Si
Utto'n Keeti Laa Parwayii,Ghaltii Sadi Si
Ohda Kuj Gya Nai Saada Kuj Rehya Nai
Bewafa Naal Layi Yarii Ghaltii Sadii Si...!!!