Author Topic: عون و محمد کی شہادت  (Read 1327 times)

0 Members and 1 Guest are viewing this topic.

Online Master Mind

  • 4u
  • Administrator
  • *
  • Posts: 4478
  • Reputation: 85
  • Gender: Male
  • Hum Sab Ek Hin
    • Dilse
    • Email
عون و محمد کی شہادت
« on: December 17, 2009, 03:39 PM »
عون و محمد کی شہادت
مجلس چہارم عون و محمد کی شہادت خاندان زہرا پر بلند آواز سے صلواة پڑھیں۔ مزاج معلی پر ناگوار نہ گزرے تو تکلیف کریں صلواة پڑھیں۔ طبیعتوں حیثیتوں نیتوں ذہنیتوں کو اگر گردش دوراں کی حبس آلود تھکن اجازت دے تو تھکن شکن صلواة پڑھیں۔ جس انسان نے توحید کا تعارف اور نبوت کا تحفظ بیک وقت کیا اسے علی کہتے ہیں علی کائنات میں عظیم بھی ہے معظم بھی ہے کریم بھی ہے مکرم بھی ہے علی لائق احترام ہے اور محترم بھی علی کے بغیر نہ چار مکمل ہوتے ہیں نہ پانچ۔ (یہ اتنا مختصرہ نعرہ نہ تھکن کی دلیل ہے نہ زیب دیتا ہے میری قوم کو) علم نے علی کی مدد نہیں کی بلکہ علی نے علم کی مدد کی علی وہ انسان ہے جس کے زچہ خانہ کو تعمیر کرنے انسانوں کو زچہ خانہ تعمیر کرنے والے معماروں کو قدرت کی جانب سے کم از کم اجرت نبوت عطا ہو اسے علی کہتے ہیں علی کا نام اپنے معنی کی طرح بلند ہے علی کا معنی ہے بلند۔ اگر میں ایسے کہہ دوں گا کہ علی بلند ہے تو عام سوچ میں اور مجھ میں کوئی فرق نہیں رہتا میری تحقیق یہ ہے کہ جہاں پہنچ کے بلندیاں معراج محسوس کریں علی کا معنی ہے بلند علی جس گھر میں پیدا ہوا وہ گھر بھی علی ۔ (اتنا بڑا مجمع اتنے خوبصورت ذہن اور ذہانت رکھنے والے سامعین صاحبان فکر تشریف فرما ہیں)۔ علی کا مزاج بھی علی … علی کا کام بھی علی علی کا نام بھی علی … علی کی گفتگو بھی علی علی کی رفتار بھی علی … علی کا معیار بھی علی علی کا کلام بھی علی … علی کا نام بھی علی علی کا سلام بھی علی … علی کی طبیعت بھی علی علی کی نیت بھی علی … علی کی شخصیت بھی علی علی کی زوجہ بھی علی … علی کا بیٹا بھی علی علی کا باپ بھی علی … علی کی ماں بھی علی علی کا دادا بھی علی … علی کا نسب بھی علی علی کا حسب بھی علی … علی کا شجرہ بھی علی علی کا نبی۱بھی علی … علی کا خدا بھی علی علی کو سمجھنے کے لئے ذہن میں بلندیاں ہونی چاہئیں چاہے ہاتھ میں ڈگریاں ہوں علی کو نہ سمجھے تو سمجھ لو ذہنی طور پر پست ہے کیونکہ علی بلند ذہنوں کی سمجھ میں آتا ہے نہ کسی تنگ دل کی سمجھ میں آتا ہے نہ کسی سنگ دل کی سمجھ میں آتا ہے خیرات پہ پلنے والوں کی سمجھ میں علی کیسے آئے جن کے ہاتھوں میں ریال ہوں پاؤں میں ڈالروں کی چھنا چھن ہو علی ان کی سمجھ میں نہیں آ سکتا۔ علی بہت بڑی درسگاہ ہے علی کو سمجھنا ہے تو میثم مزاج بنو علی کو سمجھنا ہے تو ابوذر۱سرشت بنو اگر علی کو سمجھنا ہے تو سلمان۱کی حیثیت اختیار کرو دنیاوی جاہ و جلال رکھنے والوں کی سمجھ میں علی کب آیا ہے علی سمجھ میں نہیں آتا۔ میثم جیسے لوگوں کی سمجھ میں علی آتا ہے مختار جیسے لوگوں کی سمجھ میں علی آتا ہے عام لوگوں کی سمجھ میں علی نہیں آتا۔ ڈاکٹر گبن جیسے متعصب مزاج مورخوں نے علی کو دیکھا علی کی ہسٹری پڑھی علی کے خطبات پڑھے نہج البلاغہ کا پہلا خطبہ پڑھ کے دیکھا کہ علی چودہ سو سال پہلے عرب کے بدوؤں میں کھڑے ہو کر یہ خبر دے رہا تھا کہ زمین کیسے وجود میں آئی؟ یہ آسمان کیسے وجود میں آیا؟ فرشتوں کی حیثیت کیا ہے؟ ملائکہ کی اہمیت کیا ہے؟ انسان کن کن اجزاء سے ترتیب پا کے بنا؟ فرشتے کیا ہیں؟ آسمان کیا ہے؟ زمین سے سورج کا فاصلہ کتنا ہے؟ زمین اور سورج کے درمیان آپس میں رابطہ کیا ہے؟ جنت کیا ہے؟ دوزخ کیا ہے؟ ڈاکٹر گبن چکرا گیا کہ مسلمانوں میں سائنسی ایجادات سے پہلے بھی کوئی ایسا عالم تھا جو یہ سب کچھ بتا گیا پھر بھی کہتا رہا: "سلونی! سلونی قبل ان تفقدونی "(میں بتا کے تھکا نہیں) اگر مجھ سے پوچھنا ہو تو پوچھ لو اس سے قبل کہ میں اپنے اصلی وطن کو واپس چلا جاؤں۔" پتہ نہیں سمجھ میں آ رہی ہے میری بات یا نہیں۔ اس سے پہلے کہ میں اپنے اصلی وطن کو چلا جاؤں تو پوچھ لو۔ گبن نے پہلا خطبہ علی کا دیکھا ساٹھ سوال منتخب کئے آج کے سائنس دانوں کو لکھ کے بھیجے کہ تمہاری سائنسی تحقیقات میں پانی کیسے وجود میں آیا؟ زمین اور چاند کے درمیان فاصلہ کتنا ہے؟ زمین و آسمان کے مابین کتنا فاصلہ ہے؟ ایک سال کے بعد اسے سوالوں کے جوابات ملے اس نے صاف لکھا کہ میں مسلمان نہیں لیکن مسلمانوں کے پیشوا علی کے خطبات اور سائنس دانوں کے جوابات سے ٹیلی کر کے میں اس بات پر ایمان لایا ہوں کہ "یہ کائنات علی نے خود بنائی یا اس کے سامنے بنائی گئی"… (نعرئہ حیدری) ان کی سمجھ میں علی نہیں آیا کچی پکی روٹی کھانے والوں کی سمجھ میں علی آ جائے تو علی علی نہیں رہتا۱  علم و عمل کا نیک قبیلہ ہے مرتضیٰ (شاید میں نے غلط موقع پر رباعی پڑھی ذہنی طور پر شاید آپ تیار نہیں تھے رباعی بدلتا ہوں)۱ ۱ دریائے علم و فضل کا گوہر تو ہے علی (اتنے بڑے مجمع میں اگر بلند آواز سے یاعلی کہو اور اکٹھے بولو تو لطف بھی آتا ہے باہر آواز بھی جاتی ہے اور علی والوں کے خلاف بولنے والوں کی زبانوں پہ تالے لگ جاتے ہیں اگر سارے مل کے بولو تو…) دریائے علم و فضل کا گوہر تو ہے علی احساس کردگار کا جوہر تو ہے علی جو کچھ رسول نے کہا علی کے بارے میں سب کچھ بھلا دو جن میں علی کے فضائل ہیں ان کتابوں کو بھلا دو صرف اتنا یاد رکھو صرف یہی ایک فضیلت یاد رکھو کہ۱  دریائے علم و فضل کا گوہر تو ہے علی احساس کردگار کا جوہر تو ہے علی اب کیا کہوں علی کی فضیلت کے باب میں کچھ بھی نہ ہو بتول کا شوہر تو ہے علی (نعرئہ حیدری) کچھ بھی نہ ہو بتول کا شوہر تو ہے علی وہ بتول جو کساء کے نیچے پنجتن کے خصوصی اجلاس کی صدارت کرے جی ہاں بتول بہت بڑی ہستی کا نام ہے۔ (جاگا ہوا مجمع ہے میرا کوئی لفظ ضائع نہیں ہونا چاہئے) میرا جی چاہتا ہے کہ ۲۲ سال کے کڑیل جوان علی کا احد کے میدان میں احد کے چار ہزار دشمنوں پر ۲۲ سال کے کڑیل جوان علی کا۔ جوان میں نے کہہ دیا معافی چاہتا ہوں جوانی کے موسم نے علی کے خدوخال سے خوشبو کی بھیک مانگی لفظ تو ہیں… موسم شباب نے علی کے پہلے نقش قدم پہ بوسہ دینے کی اجازت مانگی۔ احد کا میدان احد کے دشمن (جیسے استقبال کیا ہے پہلے لفظ کا اسی طرح میرے ساتھ بولتے آئیں)۔ جنگ بنو نظیر کے بعد بھی آرام نہیں فرمایا کائنات کے حقیقی رسول نے یا بہت سے قبائل اکٹھے ہو گئے۔ (لطف نہیں آ رہا؟… یوں نہیں) عرب کے ۴۲۰ قبائل اکٹھے ہوئے۔ (میں نے کردار بھی بتایا ہے تعداد بھی بتائی ہے) ۴۲۰ قبائل اکٹھے ہوئے کہ معاذ اللہ اللہ کا دین ختم کر دیں خاکم بدھن۔ عرب کے ان قبائل کی سازش ہوا نے امانت کے طور پر نبوت کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے ایوان سماعت میں پہنچائی توحید اور نبوت کی افواج کے ازل سے ابد تک کے متفقہ چیف آف دی آرمی سٹاف علی کو بلایا رسول نے۔ سنا ہے یاعلی دشمن پھر تل گئے حملے کے لئے ابرو کے اشارے پر کائنات کو ترتیب دینے والا علی کہتا ہے جیسا آپ۱کا حکم ہو صرف اذن چاہتا ہوں آواز آئی شاباش علی ولایت اور نبوت کے مشترکہ تربیت یافتہ علی کو… پیغمبر نے سجایا علی کو ابوطالب کا خود سر پر رکھا عبدالمطلب کی زرہ پہنائی ابوطالب کے نعلین پہنائے ہاشم کا کمر بند باندھا بائیس سال کا علی دھوپ میں چل پھر کے اپنے سائے کو دیکھ کے کہتا ہے کیسا لگ رہا ہوں؟ شاباش یاعلی پہنچ گئے احد کے میدان میں۔ چوتھی جماعت میں میں نے پڑھا تھا آپ نے بھی پڑھا ہو گا ایک درہ تھا رسول نے پہلے ترتیب بناتے ہوئے کچھ تیراندازوں سے کہا تھا کہ درہ نہ چھوڑنا جنگ جیتیں یا ہاریں درہ نہ چھوڑنا مسلمانوں کی بدقسمتی ہے درہ کہاں نہ چھوڑنا در کہاں نہ چھوڑنا جب بھی درہ چھوڑا یا در چھوڑا مارے گئے۔ (جاگتے آؤ میرے ساتھ ساتھ بیدار ذہنوں سے مخاطب ہوں) جنگ جیت لی گئی ٹوٹ پڑے مال غنیمت پر مجاہد بڑے وعدے کر کے آئے تھے قرض اٹھا کے آئے تھے واپس آئیں گے قرض اتاریں گے ٹوٹ پڑے مال غنیمت پر یہ اپنا مال غنیمت سمیٹ رہے تھے کفار نے درہ خالی دیکھ کر پلٹ کے پشت سے حملہ کیا اب اولمپشن کھلاڑی دوڑے۔ میں خوبصورت لفظوں میں بات کرنے کا عادی ہوں تاکہ کسی کی توہین بھی نہ ہو میڈل ملے تو دوڑ پڑے اکیلا بچ گیا اللہ کا رسول۱ چار ہزار دشمنوں میں ایک ظالم نے گستاخی کی پتھر مارا در دندان شہید ہوا۔ ادھر در دندان شہید ہوا دشمنوں کی صفوں میں گھرے ہوئے پیغمبر۱۱کو… وحدت کی یونیورسٹی میں نبیوں کو دیا جانے والا پہلا سبق یاد آیا کہ جب دشمنوں میں گھر جاؤ تو کسے پکارنا ہے؟ دونوں ہاتھ بلند کر کے اللہ کا رسول۱کہتا ہے ہر مشکل میں اللہ کی قیمتی ترین امانتوں کا تحفظ کرنے والے علی اگر کہیں ہے تو جلد آ کہیں ہے تو جلد آ۔ نعلین نہیں سنبھلی ابوطالب کے بیٹے نے دشمن کی تعداد نہیں دیکھی دوڑ پڑا علی لبیک یارسول اللہ! انہیں دوڑتا ہوا دیکھتا ہے پھر دوڑتا ہے علی نے وار کیا پہلا دوسرا تیسرا علی کی تلوار ٹوٹ گئے علی کے ہاتھ سے دوسری تلوار کھینچی پھر حملہ کیا دشمن پر پھر وار کیا پھر تلوار ٹوٹ گئی پھر وار کیا پھر تلوار ٹوٹی دشمن پر وار کیا اس کی تلوار کھینچی پھر حملہ کیا پھر تلوار ٹوٹی۔ اللہ جانے کتنا جلال تھا علی میں تلوار ٹوٹتی جاتی ہے تلوار کھینچتا جاتا ہے کیسا زعم تھا علی کا حملہ کرتا جاتا ہے تلوار کھینچتا جاتا ہے وار کرتا جاتا ہے دشمن مرتے جاتے ہیں آوازیں دیتا جاتا ہے یارسول اللہ۱ گھبرانا نہیں میں آیا کہ آیا۔ ۸۰ سے لے کر ۳۰۰ تک تلواریں ٹوٹیں یہ میری ذاتی تحقیق ہے۔ جب علی کے ہاتھ ۸۰ سے ۳۰۰ تک تلواریں ٹوٹ گئیں ادھر ملائکہ نے ہجوم کیا اللہ سے کہا تیرا بھی عاشق ہے ہمارا بھی محبوب ہے پہنچے گا ضرور رسول تک جا رہا ہے چھوڑے گا نہیں دشمنوں کو بھیج کوئی ایسی تلوار جو نہ ٹوٹے نہ چھوٹے۔ جو نہ ٹوٹے نہ چھوٹے ادھر فرشتوں نے دعا مانگی قرآن کے مطابق اللہ نے حدید نازل کیا پتہ نہیں اسے کتنے ہزار فرشتوں نے ڈھالا تلوار دولخت ہوئی۔ لفظ ادیبانہ شاعرانہ ہے یا دانشورانہ ہے اللہ جانے کس انداز میں تلوار اتری میں بھی یہی کہتا ہوں آیت بن کے اترتی آئی علی ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ تلوار نے آ کے علی کا ہاتھ چوما۔ علی کے ہاتھ کی نرمی نے تلوار کی گرمی محسوس کی علی کہتا ہے تو کون؟ عرض کی تیری کنیز ہوں۔ کہاں سے آئی ہے؟ عرش سے۔ علی کہتا ہے یہ تو ہم جانتے ہیں کہ ہماری کنیزیں عرش سے آتی ہیں کس نے بھیجا؟ خالق نے۔ علی نے تلوار کو دیکھ کے کہا ٹوٹے گی تو نہیں؟ تلوار علی کی کلائی چوم کے کہتی ہے یاعلی مولا تیری دلیری کی قسم قیامت تک تو چلاتا رہ نہ ٹوٹوں گی نہ چھوٹوں گی تیرے بعد تیری نسلوں کے کام آؤں گی تیرے آخری جانشین کی کلائی چوم کے سوچوں گی کہ زمین پر رہوں یا واپس عرش پہ چلی جاؤں۔ زمین پر رہوں یا واپس چلی جاؤں دیکھو میری طرف اللہ کو بھی علی کا واسطہ دیا جائے تو ٹھکراتا نہیں تمہیں علی کا واسطہ دیکھو میری طرف تیرے آخری جانشین کی کلام چوم کے سوچوں گی زمین پر رہوں یا واپس چلی جاؤں (پوری توجہ) پوری کائنات پہ تلوار کا قبضہ تلوار کے قبضے پہ علی کا قبضہ علی نے تلوار سنبھالی پہلا وار کیا ۳۰۰ دشمنوں کے سر فضا میں اڑے تلوار کہتی ہے مولا سانس نہیں لینا علی نے دوسرا وار کیا تین سو سر فضا میں اڑے تیسرا وار کیا بارہ سو سر جب فضا میں اڑے تو ہانپتا ہوا فرشتہ ہانپتا ہوا ملک الموت نیچے اتر کے تلوار کی نوک چوم کے کہتا ہے ذرا آہستہ چل۔(نعرئہ حیدری) جب فرشتے نے کہا ذرا آہستہ چل تلوار کہتی ہے تو کون ہے؟ دیکھ کے کہتا ہے ایک ہی آقا کے نوکر ہیں اس لئے منت کر رہا ہوں ذرا آہستہ چل تیرا نام کیا ہے؟ آسمانوں پر عزرائیل کہتے ہیں زمین پہ سلجھے ہوئے لوگ ملک الموت کہتے ہیں جن پر ٹوٹ پڑتا ہوں وہ مجھے موت کا فرشتہ کہتے ہیں ہوں فرشتہ یہ الگ بات ہے کہ ہوں موت کا۔ تلوار کہتی ہے پھر میں کیا کروں؟ آواز آئی آہستہ چل تلوار کہتی ہے زندگی کا پہلا امتحان ہے آہستہ کیوں چلوں؟ آواز آئی تجھے تو کرنا پڑتا ہے صرف ایک کام آہستہ چل تلوار کہتی ہے نہیں نہیں میری مرضی میں جیسے چلوں۔ عزرائیل کہتا ہے اتنی اونچی آواز میں نہ بول میرا نام عزرائیل ہے بارعب ہوں موت کا فرشتہ ہوں میری ہیبت سے آسمان کانپتے ہیں پہاڑ میرے نام سے تھرتھراتے ہیں زمین پہ نازل ہوں زلزلے آتے ہیں جس گلی جس بستی میں چلا جاؤں صف ماتم بچھا دیتا ہوں میرے رتبے کا لحاظ کر کوشش کر اتنی زیادہ گستاخیاں اچھی نہیں ہیں۔ تلوار کہتی ہے تو کون ہے؟ آواز آئی میں عزرائیل ہوں تلوار کہتی ہے میں آہستہ کیوں چلوں؟ عزرائیل کہتا ہے ایک ہی آقا کے دونوں نوکر ہیں تجھے ایک کام کرنا پڑتا ہے مجھے ایک ہی وقت میں چار کام کرنے پڑتے ہیں۔ تلوار کہتی ہے کون سے چار کام؟ عزرائیل کہتا ہے کہ تو صرف سر اڑاتی ہے مجھے مرنے والے کی روح قبض کرنا پڑتی ہے اس کا نام لکھنا ہوتا ہے اس کی ماں کا نام لکھنا ہوتا ہے پوری کائنات میں اس کا باپ ڈھونڈنا پڑتا ہے۔(نعرئہ حیدری) (جس کی رگوں میں علی کی محبت ماں کے پاکیزہ دودھ کی طرح خون میں حل ہو کر گردش کر رہی ہوں پوری طاقت صرف کر کے نعرئہ حیدری…) مجھے پوری کائنات میں ڈھونڈنا پڑتا ہے کہ اس کے شناختی کارڈ میں اصل نام کس کا لکھوں ولدیت کے خانے میں؟ عزرائیل کہتا ہے اتنا اونچا نہ بول میں بھی موت کا فرشتہ ہوں جب زیادہ مراتب بتائے عزرائیل نے تلوار کو تو تلوار کہتی ہے علی کی ہتھیلی چوم لے۱  خاموش اس قدر بھی نہ اونچا مقام کر یہ ہے علی کا معجزہ شدید گرمی میں ہوا چل پڑی ہے ہو سکتا ہے سننے آئی ہو کیونکہ اصل عینی شاہد تو یہی ہے۔ احد میں علی کی تلوار کیسے چلی تھی۱  خاموش اس قدر بھی نہ اونچا مقام کر تو میرا ماتحت ہے ادب سے کلام کر واجب ہے تجھ پہ آج میرا احترام کر چل ہٹ مجھے نہ روک ادھر اپنا کام کر عزرائیل کہتا ہے زلزلے کیوں مچا رہی ہے؟ قیامتی کیوں مچا رہی ہے؟ توجہ! توجہ! توجہ اگلے سال تک یہ شعر یاد رہے گا انشاء اللہ داد اور دعا آپ سے قیمت علی سے لوں گا۔ تلوار جھوم کے کہتی ہے۱  کیوں زلزلہ بپا نہ کروں کائنات میں آئی ہوں پہلی بار یداللہ کے ہاتھ میں یہی تلوار علی کے ساتھ خیبر میں خندق میں احد میں حنین میں رہی۔ علی چلے گئے حسن کے پاس آئی حسن نے امانت سمجھ کے رکھ دی کائنات کا ایک مظلوم ایسا ہے جس کے پاس یہ تلوار بھی تھی سارا دن منت بھی کرتی رہی مجھے حکم دے مجھے اذن دے وہی تلوار ہوں جو تیرے بابا کے ہاتھ میں تھی۔ حسین سر جھکا کے کہتا ہے میں غریب ہوں میں غریب ہوں جب سارا دن تلوار کو ہاتھ نہیں لگایا کہتی ہے میں شرمسار ہوں گی ماں کی عزت کا واسطہ تھوڑا سا اذن تو عطا کر کوئی کام تو بتا۔ حسین کہتا ہے کوئی کام کرے گی؟ آواز آئی ہاں! (خدا کرے میں سمجھا سکوں) حسین نے تلوار کو نیام سے نکالا آواز آئی تلوار میں غریب ہوں کام آ پڑا ہے میرا کوئی نہیں رہا میرا اصغر مارا گیا ہے ذرا اس کی قبر تو بنا دے۔(سلامت رہو…) حسین نے تلوار سے کہا میرا اصغر شہید ہو گیا ہے تو اگر میرے کام آنا چاہتی ہے تو میرے اصغر کی قبر بنا پتہ نہیں تلوار نے قبر بنائی کہ نہیں۔ محرم کی چار کا دن گزر گیا پانچویں کی رات چھا گئی آج کے دن حسین کے خیمے فرات سے ہٹائے گئے۔ (جن دوستوں نے دعائیں بھیجی ہیں کوشش کروں گا مشترکہ دعا کروں ہر ایک کا نام لے لے کر دعا مانگنے کے لئے بہت سا وقت چاہئے کیونکہ ۸ محرم کی رات ہوتی ہے دعاؤں کے لئے اگر میں تعمیل نہ کر سکوں تو مجھے معاف کریں اس میں میری نیت کا دخل نہیں ہوتا وقت کی بات ہوتی ہے انشاء اللہ آٹھ کی رات دعائیں مانگیں گے قبولیت کی رات ہوتی ہے آٹھ محرم کو یا پہلے دعائیں لکھ کے دیتے جائیں تاکہ فہرست بن جائے اجازت ہو تو میں مصائب شروع کروں جید عزادار سنتے آتے ہیں… غریب بیٹے ہیں باپ سے زیادہ رئیس کوئی نہیں ان کی شہادت ذاکرین بھی کم پڑھتے ہیں اور علمائے کرام بھی (میں نے کم سنی ہے) وہ کون ہیں؟) بی بی زینب کے دو بیٹے ہیں عون و محمد ان کی شہادت ذاکرین پتہ نہیں کیوں نہیں پڑھتے؟ امام حسین کے ہر بیٹے کی شہادت پڑھتے ہیں لیکن شریکتہ الحسین کے بیٹوں کی شہادت بہت کم پڑھتے ہیں۔ دو بے وارث بچوں کی شہادت پڑھتا ہوں ایک کا نام محمد ہے ایک کا نام عون ہے نو سال کی عمر ہے عون کی اور سات سال کی عمر ہے محمد کی۔ یہ اتنے غریب بیٹے ہیں کہ کربلا سے باہر گیارہویں بارہویں کلومیٹر کے بعد یہاں پتھر کا نشان لگا ہوا ہے زائر جانتے ہیں آج بھی وہاں ان کی قبریں ہیں کربلا سے ۱۲ میل دور سات اور نو سال کے ان بچوں کی۔ یہ اتنے غریب ہیں۔ (شاید آنسو آئیں ان کے حصے کے سرخرو ہو جاؤ گے بی بی زینب سے) یہ اتنے غریب ہیں کہ بارہ محرم کو ان کی لاشوں کے قریب سے گزرتے ہوئے ان کی ماں اس طرح کھڑی ہوئی دونوں بچوں کی لاشیں دیکھ کے کہتی ہے اس وقت مصروف ہوں پھر کبھی آئی تو روؤں گی بھی ماتم بھی کروں گی وہیں کھڑے ہوئے بی بی زینب نے سید زادوں اور سید زادیوں کو پیغام دیا رسیوں میں ہاتھ پابند ہیں بی بی زینب کہتی ہے: "دنیا کے سیدو اور دنیا کی سید زادیو! گواہ رہنا میری نسل ختم ہو گئی میری نسل حسین کے کام آ گئی یہ دو لعل تھے میرے یہ کربلا میں کام آ گئے میری نسل ختم ہو گئی۔ دنیا کے سید و سید زادیو! اگر کبھی فرصت ملے تو شام کی طرف منہ کر کے مجھے اماں کہہ لینا میں سمجھوں گی میرے عون و محمد زندہ ہیں۔ (ہائے اتنی بڑی حسرت) کبھی کبھی مجھے اماں کہہ لینا میں سمجھوں گی میرے عون و محمد زندہ ہیں۔" ان کی شہادت پڑھتا ہوں قبلہ… جن ماؤں کی گود میں بچے ہیں مولا ان کی زندگی دراز کرے جن دلوں میں حسرت ہے اولاد نرینہ کی عون و محمد کے صدقے میں خالق انہیں اولاد نرینہ عطا کرے آج کی رات اگر منت مان لو کہ اگر مجھے بیٹا ہوا تو ہر سال دسویں کے دن دوپہر کے وقت جب عون و محمد کی شہادت کا وقت آئے گا تو اسے میں گھر کے صحن سے باہر صحرا میں لے جا کے دوپہر تک پیاسا رکھ کے اس وقت عون و محمد کی نیاز میں شربت پلاؤں گی زینب راضی ہو جائے گی۔ میں گردن میں کپڑا ڈال کے سوالی بن کے شام کی طرف منہ کر کے آپ کی طرف سے بھی سوالی بن کے شام کی مسافرہ کی خدمت میں گزارش کرتا ہوں کہ ثانی زہرا میری آقازادی اگر وقت ملے تو ترستی گئی ہے تجھے عون و محمد کا پرسہ کسی نے نہیں دیا آج دو لمحے کے لئے تکلیف کر کربلا گامے شاہ لاہور میں اتنے زیادہ مومنین اور مومنات تجھے عون و محمد کا پرسہ دینا چاہتے ہیں۔ آ بی بی ہم سے پرسہ لے روتے بھی آؤ آہستہ آہستہ ماتم بھی کرتے آؤ تاکہ رو سکیں عون و محمد کو بہت بے وارث ہیں یہ بچے۔ (کربلا سے بارہ میل دور ان کی لاشیں گری ہیں ایسا کوئی مظلوم نہیں ہے)۔ حضرت عبداللہ نے کہا روکتا نہیں لیکن ایک گزارش ہے میں عرب کا بہت بڑا رئیس ہوں ہر علاقے میں میری زمین اور جائیداد ہے صرف اتنی گزارش ہے اپنے بھائی سے کہہ تو ساتھ جا رہی ہے ایک وقت کا کھانا حسین سے ایک وقت کا کھانا تیری طرف سے ہو قبلہ بھائی کتنا غریب کیوں نہ ہو بہن کتنی غریب کیوں نہ ہو اپنی بھائی کے بارے میں شاید اتنی بات برداشت نہ کر سکے۔ بی بی زینب کہتی ہے عبداللہ تیری جائیداد سلامت حسین غریب تو نہیں حسین کے پاس بہت کچھ ہے۔ آواز آئی میری ایک اور خواہش ہے یمن جاؤ ایران جاؤ شام جاؤ عراق جاؤ میری ہر علاقے میں اپنی جائیداد ہے وہاں جا کے قیام کرو۔ بی بی کہتی ہے یمن اور عراق کی تو میں بات نہیں کرتی البتہ شام میں جو تیری جائیداد ہے اگر وہاں جا کے آرام کروں مجھے اجازت تو ہے نا کہا کیوں نہیں تیرا اپنا گھر ہے۔ بی بی کہتی ہے اچھا جناب عبداللہ کہتے ہیں جو کچھ ساتھ لے جانا چاہیں لے لیں۔ بی بی کہتی ہے جو لینا چاہتی ہوں لے لیتی ہوں دونوں بچیوں کو ساتھ لیا ایک کمرے میں آئی ماں زہرا کا صندوق کھولا کچھ نہیں اٹھایا زہرا کی بیٹی نے ایک چادر اٹھائی اپنی بیٹیوں کو دیکھ کے کہتی ہے گواہ رہنا میں نے تمہارے باپ کی جائیداد میں سے کچھ نہیں اٹھایا صرف اپنی ماں کے صندوق سے ایک چادر اٹھائی ہے دعا کرو یہ ہی بچ جائے۔(سلامت رہو بھئی) بیٹیاں کہتی ہیں اماں جو کچھ اٹھانا ہے اٹھا لے بی بی چادر جھٹک کے کہتی ہے میرے پاس بہت کچھ ہے میں حسین کے ساتھ جا رہی ہوں صرف ایک چادر لے کے بی بی آ گئی۔ دونوں بیٹیوں کے سر چومے عون و محمد کے رخساروں پر بوسے دیئے دونوں بیٹیوں کو سمجھایا ایک بیٹی اپنے بابا کی خدمت میں رہے دوسری بیٹی کو مخاطب کر کے کہا تیری ڈیوٹی ہے کہ روزانہ میرے بھائی حسین کی بیمار بیٹی صغریٰ کے ساتھ رہا کرنا۔ عون و محمد سے کہا کہ بابا کی خدمت میں رہنا بی بی چلی گئی مدینہ اجڑ گیا۔(اللہ جانے سن رہے ہو یا نہیں) دستور ہے آدھی رات کے وقت کوئی مسافر تیرے بھرے شہر سے نکلے پردہ داروں کو ساتھ لے کے محلے والے سمجھانے ضرور آتے ہیں کہ بھائی کیوں رات کو جا رہا ہے؟ جانا ضروری ہے تو اپنی مستورات کو نہ لے جا رات کا سفر ہے اللہ جانے سفر میں کیا گزرتی ہے؟ قافلہ تیار ہوا پردہ دار محمل میں اونٹوں پر سوار ہوئے جب مدینے سے باہر آ گئی زینب تو عباس کی طرف دیکھ کے کہتی ہے بھیا! اب جہاں جی چاہے لے چل… مجھے مدینے سے روکنے کوئی نہیں آیا۔ آ گئے مکے ۲۸ رجب کو چلے تھے مدینے سے ۳ شعبان کو مکے آئے ۸ ذوالحجہ تک مکے میں رہے ۸ ذوالحجہ کو حسین نے احرام توڑے آخری نماز خانہ خدا سے باہر حسین نے پڑھی نماز سے فارغ ہوئے میرے آقا حسین کی عبا پر ایک بیمار کے دو ہاتھ آئے آواز آئی السلام علیک یا ابا عبداللہ الحسین ! حسین نے مڑ کے دیکھا عبداللہ بھائی ثانی زہرا کا بیمار شوہر حضرت عبداللہ … عبداللہ بھائی کیوں آئے؟ آواز آئی کہاں کا ارادہ ہے؟ حسین نے کہا جس دن کے لئے نانا نے پالا تھا وعدہ پورا کرنے کا وقت آ گیا ہے میں جا رہا ہوں۔ آواز آئی ثانی زہرا کہاں ہیں؟ آواز آئی عباس سے پوچھو۔ حضرت عبداللہ حضرت عباس کے پاس آئے اور کہا ثانی زہرا کس محمل میں ہیں اور میری ماؤں اور بہنو! جب جناب عبداللہ نے کہا کہ عباس ثانی زہرا کس محمل میں ہیں؟ عباس کہتے ہیں عبداللہ بھائی نہ مجھ میں اتنی جرات ہے کہ ہاتھ سے اشارہ کروں نہ مجھ میں اتنی جرات ہے کہ آنکھ سے بتاؤں اکبر سے پوچھ۔ جناب عبداللہ آئے اکبر کے پاس اکبر لے کے آیا اپنی پھوپھی کے محمل کے قریب۔ جناب عبداللہ نے دونوں ہاتھ رکھے محمل پہ حضرت عبداللہ نے رو کے کہا زہرا کی بیٹی میرا سلام قبول کر بی بی نے سلام کا جواب دیا۔ محمل سے باہر حضرت عبداللہ کی آواز سن کے آہستہ سے بی بی نے کہا عبداللہ کہیں روکنے تو نہیں آئے؟ روکنے تو نہیں آیا؟ حضرت عبداللہ کہتے ہیں روکنے تو نہیں آیا ایک مسئلہ سمجھانے آیا ہوں میں جانتا ہوں تو بھی جانتی ہے حسین صرف تیرا بھائی نہیں ہمارا امام بھی ہے مسئلہ ہے کہ جہاں امام وقت پر کوئی مشکل بن جائے کوئی مشکل وقت آ جائے تو ہم پہ واجب ہے کہ اپنی قیمتی سے قیمتی چیز امام وقت پر صدقہ کر دی جائے فدیہ کر دیا جائے اسی طرح سرخرو ہو جاتا ہے انسان۔ حسین چونکہ تیرا بھائی بھی ہے اور ہمارا امام بھی ہے گرمی کا موسم ہے امت مخالف ہے امت دشمن ہو گئی ہے ہو سکتا ہے کوئی مشکل بن جائے کسی مقام پر کسی مشکل میں میرا امام گھر جائے یہ میں چھوٹے چھوٹے لعل لایا ہوں ایک عون اور ایک محمد ایک اپنی طرف سے ایک میری طرف سے حسین پر صدقے کر دینا قیامت کے دن جناب زہرا سے سرخرو ہوں گے ہم نے اپنی اولاد صدقہ کر دی تھی۔ بی بی کہتی ہے عون و محمد کو ایک ۹ سال کا ایک ۷ سال کا حسین کا صدقہ بنا کے لائے ہو یہ حسین کا صدقہ ہیں؟ آواز آئی ہاں یہ حسین کا صدقہ ہیں۔ بی بی کہتی ہے میں زہرا کی بیٹی ہوں یہ صدقہ ہیں میں ہاتھ نہیں لگاتی۔ (اللہ جانے کس طرح مصائب سنو گے) اگر یہ صدقے ہیں تو پھر میں زہرا کی بیٹی ہوں میں صدقے کو ہاتھ نہیں لگاتی بڑے کو عباس کو دے دے چھوٹے کو اکبر کو دے دے اور دونوں سے کہہ دے جب تک ضرورت نہیں پڑے گی میں انہیں بلاؤں گی نہیں جب ضرورت پڑی بلا لوں گی۔ بڑے کو دیا عباس کو چھوٹے کو دیا اکبر کو بڑا عباس کے پاس چلا گیا چھوٹا علی اکبر کے پاس چلا گیا ماں ہے محمل میں قبلہ! سفر شروع ہوا چار مرتبہ بی بی نے کہا عباس ! عون ۹ سال کا تھا بڑا دوڑ کے آیا اماں خیریت ہے؟ بی بی کہتی ہے اکبر ! محمد سات سال کا دوڑ کے آتا ہے اماں خیریت؟ اماں حکم بی بی منہ دوسری طرف پھیر لیتی ہے چار دفعہ بلایا عباس اور اکبر کو دوڑ کے آئے عون و محمد ۔ بی بی نے دونوں بیٹوں کو بلایا عون و محمد (دیکھ بی بی زینب کی تربیت) پاس آئے ہاتھ جوڑ کے کہتے ہیں اماں حکم۔ بی بی نے کہا عون و محمد خبردار! آج کے بعد مجھے اماں نہ کہنا میں زہرا کی بیٹی ہوں تم حسین کا صدقہ ہو۔ (پتہ نہیں سن رہے ہو یا نہیں میں نے بی بی کو دعوت دی ہے کہ آ پرسہ لے) میں زہرا کی بیٹی ہوں تم حسین کے صدقے دونوں ہاتھ جوڑ کے کہتے ہیں زہرا کی بیٹی گستاخی معاف آئندہ ایسا نہیں کریں گے۔ بی بی کہتی ہیں بلاتی ہوں عباس کو آ جاتا ہے عون بلاتی ہوں اکبر کو آ جاتا ہے محمد میں نے کہا تھا جب تک تمہاری ضرورت نہیں پڑے گی نہیں بلاؤں گی جب تک میں نہ بلاؤں نہ آنا کہا ٹھیک ہے۔ یہ ۱۰ ذوالحجہ کا واقعہ ہے۔ ۱۰ ذوالحجہ سے لے کر… ۲ محرم کو حسین کربلا آیا ۱۰ ذوالحجہ سے ۲ محرم ۲۲ دن ۳ محرم ۲۳ دن ۴ محرم کو پورے ۲۴ دن پورے ۲۴ دن پاک حسین کی قسم نہ شہزادوں نے ماں کو دیکھا نہ ماں نے شہزادوں کو دیکھا۔ (روتا بھی آ پرسہ بھی دیتا آ بی بی زینب کو) ۴ محرم کو حُر آیا عباس سے کہتا ہے خیمے ہٹا۔ عباس نے دیکھا حُر واپس چلا گیا حسین کی خدمت میں عباس سے کہنا خیمے ہٹائے۔ حسین نے عباس کو نہیں کہا حسین بی بی زینب کے خیمے میں آئے بی بی زینب سے کہا چار علی تھے ایک کو مدینے چھوڑ آیا ہوں ایک کو کوفے بھیج دیا باقی بچے تھے دو سجاد کا ذمہ میں نے لیا تھا عباس کا ذمہ تو نے لیا تھا۔ پہلی منزل ہے عباس خیمے کیوں نہیں ہٹاتا؟ بی بی کہتی ہے حسین تو جا عباس جانے اور میں جانوں خیمے ہٹوانا ہیں یا کوئی اور کام بھی لینا ہے۔ حسین چلے گئے واپس ۲۴ دن میں پہلی مرتبہ بی بی زینب نے کہا عون و محمد میرے قریب آؤ دونوں شہزادے دوڑ کے آئے دیکھ کے کہتے ہیں زہرا کی بیٹی ہمیں بلایا ہے (ہائے او حسرت) بی بی کہتی ہے جاؤ عباس اور اکبر کو بلا لاؤ۔ دونوں شہزادے پہلے عباس اور اکبر کی طرف نہیں گئے دونوں شہزادے دوڑ کے خیموں میں گئے ہر بی بی سے کہتے ہیں ہمیں مبارک دو آج ہمیں اماں نے بلایا ہے۔ عباس کے پاس آئے پیغام دیا عباس کو بلا کر لائے۔ عباس آئے بی بی نے کہا عباس خیمے کیوں نہیں ہٹاتا؟ آواز آئی میری جرات ہے کہ میں خیمے نہ ہٹاؤں لیکن آقازادی حسین سے ایک بات پوچھ دے ہر بار کہتا ہے خیمے ہٹا کبھی تو یہ بھی کہے فوجیں ہٹا میں عباس ہوں… قبلہ ۵ محرم گزر گئی شہزادے پھر ماں سے دور چلے گئے۔ (کافی رو چکے ہو تھوڑی سی دیر اور پرسہ دے لو انہیں کون رویا ہے؟ بے وارث شہزادے ہیں ترستی گئی ہے ماں کوئی ان کا پرسہ دے) ۴ محرم گزر گئی ۵ محرم گزر گئی ۶ محرم گزر گئی ۷ محرم کو پانی بند ہو گیا میں نے پڑھ لیا تو نے سن لیا پانی بند ہو جائے ہاڑ کے موسم میں ۷ محرم کو پانی بند ہوا بچے پیاس سے تڑپنے لگے۔ ہر بیٹا اپنی ماں کے پاس گیا اور کہا اماں پیاس لگی ہے اماں ہمیں پانی پلا ہر ماں عباس کے خیمے میں آئی لیکن پاک زہرا کی پاک چادر کی قسم عون و محمد کے خیمے میں نہیں گئے دونوں شہزادے ماں کے خیمے کا طواف کرتے رہے۔ دونوں کہتے ہیں اللہ کرے اماں بلا لے اللہ کرے ہم سے پوچھ لے پیاس لگی ہے یا نہیں چھوٹا کہتا ہے خبردار! اماں ناراض ہو گی اگر اکبر کے لئے پانی آیا اس سے بچ گیا تو ہم بھی پی لیں گے ہم صدقے ہیں اگر نہیں ملا تو چپ کر کے بیٹھ جائیں گے۔ (جیو سلامت رہو سلامت رہو حوصلہ حوصلے سے سنتے آؤ میں نے پہلے کہا تھا جو روئے گا ساون کی بارش کی طرح رو دے گا دل کی بات ہے قبلہ اپنا اپنا مقدر ہے)۔ ۷ محرم کو پانی بند ہوا شہزادوں نے نہیں مانگا ۸ محرم ہوئی ان کا طریقہ کیا تھا ان کا وطیرہ کیا تھا ہر بیٹا ماں کے خیمے میں یہ دونوں شہزادے ماں کے خیمے کی پچھلی جانب ماں کے خیمے سے دور ریت پر ایک دوسرے کے گلے میں بانہیں ڈال کر سو جاتے۔ کبھی کبھی محمد اٹھ بیٹھتا اور کہتا عون بھائی اماں بہت یاد آ رہی ہے عون کہتا چپ کر کے سو جا ہو سکتا ہے۔ (سلامت رہو سلامت رہو میں تیرا خادم میں تیرا نوکر سکون سے سنتا آ مولا تیرے بچوں کی زندگی دراز کرے عون و محمد کا واقعہ ہے مانگ لے جو دعا جی میں آئے زینب کے بیٹوں کے صدقے میں مولا تجھے سرخرو کرے گا) ۸ گزر گئی ۹ گزر گئی آ گئی دسویں کی رات (اب میرے بس میں نہیں اب تک میں آرام سے پڑھتا آیا اب میری مجبوری ہے) مغربین کی نماز کے بعد ہر ماں نے دسویں کی رات اپنے اپنے بیٹے کو خیمے میں بلایا ہر ماں اپنی اپنی قربانی بنا رہی ہے۔ یہ دونوں شہزادے یتیموں کی طرح ہر بی بی کے خیمے میں جاتے ہیں ہر بی بی پوچھتی ہے عون و محمد تمہیں تمہاری ماں نے بلایا کہ نہیں؟ دونوں کہتے ہیں جب وقت آئے گا اکبر سے فارغ ہو گی ہمیں بلائے گی اماں نے کہا تھا جب ضرورت پڑے بلاؤں گی۔ (یہ ہے تربیت بی بی زینب کی دادؤد رضا شاہ جی ہر ماں کو زینب نے درس دیا ہے حسین پر قربانی کیسے دی جاتی ہے)

Online Master Mind

  • 4u
  • Administrator
  • *
  • Posts: 4478
  • Reputation: 85
  • Gender: Male
  • Hum Sab Ek Hin
    • Dilse
    • Email
Re: عون و محمد کی شہادت
« Reply #1 on: December 17, 2009, 03:39 PM »
قبلہ جب آدھی رات ڈھل گئی چھوٹا کہتا ہے بڑے کو ہو سکتا ہے ہم اماں کو بھول گئے ہوں آؤ چل کر اماں کو یاد دلائیں بڑا آگے ہے چھوٹا پیچھے ہے دونوں چلے ماں کے خیمے میں آئے کہتے ہیں: السلام علیک ایتھا الصابرة و المظلومہ "اے ہماری مظلومہ ماں ہمارا سلام۔" بی بی نے دیکھا نہیں پوچھا کون ہو؟ دونوں ہاتھ جوڑ کے کہتے ہیں تیرے حسین کے صدقے ہیں۔ بی بی نے دیکھا نہیں کہا کیا چاہتے ہو؟ دونوں نے کہا اکبر کا واسطہ ایک دفعہ دیکھ تو سہی۔ بی بی نے مڑ کے دیکھا دونوں ہاتھ جوڑ کے کہتے ہیں کیا اب بھی ہماری ضرورت نہیں ہے؟ ماں کہتی ہے کیا ہوا؟ آواز آئی آج ہر ماں اپنے بیٹے کو قربانی کے لئے تیار کر رہی ہے۔ آواز آئی میرا بیٹا اکبر ہے ہمیں کون تیار کرے گا بی بی نے کہا اماں فضہ… (ہائے او بی بی زینب تیرے بیٹوں کی قسمت) بی بی نے کہا اماں فضہ۱حسین کے صدقوں کو تیار کر۔ دونوں شہزادے زمین پر بیٹھے ہیں بی بی فضہ دونوں شہزادوں کو اپنی انگلیوں سے کنگھی کر رہی ہے شہزادوں کی زلفیں سنوار رہی ہے کبھی کبھی پیشانی چوم کے کہتی ہے میرے لعل ماں سے ناراض نہ ہونا ماں اکبر سے فارغ نہیں ہوئی کہا اماں فضہ ہم ناراض نہیں ہیں اماں سے پوچھ وہ تو ناراض نہیں ہے۔ (سلامت رہو) جناب فضہ۱۱شہزادوں کو سنوارتی رہی تہجد کی نماز سے ذرا پہلے بی بی نے کہا میرے پاس آؤ ہاتھ جوڑ کے کانپتے ہوئے بدن کے ساتھ ماں کے سامنے کھڑے ہیں۔ کہتی ہے یاد رکھو! ہر ماں کے پاس اپنا بیٹا ہے ہر ماں صبح اپنے بیٹے کی… (جس کے دل میں قبر ہے عون و محمد کی وہ میری طرف دیکھے) ہر ماں صبح اپنے بیٹے کو پہلے حسین پر قربان کرے گی لیکن میں چاہتی ہوں کہ پہلے تم قربانی دو تم صدقے ہو پھر مائیں اپنے لعل قربان کریں۔ کہتے ہیں ٹھیک ہے ایسے ہی ہو گا۔ کہتی ہے اب جاؤ اب تمہاری لاشیں خیموں میں آئیں تو آئیں تم نہ آنا دونوں شہزادے چلے گئے ماں کے خیمہ سے باہر جا کے حسین کے خیمے کے دروازے پر چپ کر کے بیٹھ گئے۔ صبح تہجد کی نماز کے وقت حسین خیمے سے باہر نکلے تو دونوں شہزادوں کے چھوٹے چھوٹے ہاتھ حسین کے قدموں پر آئے ماما حسین ہم اماں کے کچھ نہیں لگتے تیرے تو بھانجے ہیں نا! ماموں ایک وعدہ کر آج سب سے پہلے ہمیں اجازت دے دینا۔ حسین کہتے ہیں کیا ہوا رو کے کہتے ہیں سب کی مائیں ہیں ہم تیرا صدقہ ہیں نہ ہماری ماں ہے نہ بہنیں تیرے تو بھانجے ہیں تجھے اکبر کا واسطہ ہمیں سب سے پہلے اجازت دے ہمیں اماں نے کہا ہے زندہ خیمے میں نہ آنا ماموں ایک وعدہ کر آج سب سے پہلے ہمیں اجازت دے گا… (سلامت رہو یہ ہے معجزہ بی بی زینب کے بیٹوں کے غم کا چلو کوئی نہیں ایک بچہ بے ہوش ہو گیا ہے نا جوان لوگ ہو سنبھال لو گے اس کی ماں بھی ہے باپ بھی ہے) میں تو ان شہزادوں کا ذکر کر رہا ہوں جنہیں ماں کے دیکھنے کی اجازت نہیں ماں کے خیمے میں جانے کی اجازت نہیں حسین نے دونوں کی پیشانی پہ بوسہ دیا۔ آواز آئی عباس کے پاس جاؤ آج مرنے والوں کی فہرست عباس کے پاس ہے دونوں شہزادے ماموں کو سلام کر کے عباس کے خیمے کی طرف چلے۔ چھوٹا کہتا ہے ماموں عباس سے میں کلام کروں گا عون پیچھے پیچھے محمد آگے آگے چھوٹا شہزادہ محمد عباس کو سلام کر کے کہتا ہے ماموں عباس مبارک۔ عباس نے دیکھا کیوں بیٹا؟ چھوٹا شہزادہ کہتا ہے ماموں آج توحید کی فوج کا پرچم ماموں حسین نے آپ کو دیا ہے۔ آواز آئی ہاں ماموں اس سے بڑی بھی کوئی بات ہو سکتی ہے مبارک کی۔ دونوں کی پیشانی پہ بوسہ دے کے سینے سے لگا کے عباس کہتا ہے میرے مظلوم بھانجے خیر مبارک۔ جب عباس نے کہا نا خیر مبارک ۷ سال کا محمد عباس کی جھولی سے اتر کر عباس کے قدموں میں بیٹھ کے کہتا ہے ماموں تجھے فضل کا واسطہ ہم نے مبارک دی ہے ہم بھی بنی ہاشم ہیں بنی ہاشم کی رسم ہے جب بچے مبارک دیں تو انعام بھی مانگتے ہیں ماموں ہم نے مبارک دی ہے ہمیں انعام بھی دیں۔ عباس پیشانیاں چوم کے کہتا ہے مانگو عون و محمد کیا مانگتے ہو؟ دونوں شہزادوں نے ننھی ننھی بانہیں عباس کے گلے میں ڈالیں عباس کے رخسار چوم کے رو کے کہتے ہیں ماموں صرف موت کی اجازت۔ عباس کہتے ہیں کیا ہوا؟ کہتے ہیں کہ ہم ماموں حسین کے پاس گئے تھے انہوں نے کہا کہ عباس کے پاس جاؤ ماموں وعدہ کر کہ ہمیں سب سے پہلے میدان میں بھیجے گا۔ (ختم کرتا ہوں دعا مانگتا ہوں جتنا رو لیا ہے کافی ہے بی بی زینب کو پرسہ) (نوٹ: سامعین سے کسی نے اٹھ کر ہاتھ جوڑ کر کہا محسن نقوی تجھے بی بی کی غربت کا واسطہ عون و محمد کی شہادت پوری پڑھو)۔ (تو بزرگ ہے بابا تیرا حکم مانتا ہوں لیکن ان کی شہادت تو ان کی ماں نے نہیں دیکھی عباس نے نہیں دیکھی حسین نے نہیں دیکھی ان کی شہادت تو اکثر نے نہیں دیکھی میں کوشش کرتا ہوں سناتا ہوں)۔ حسین نے کہا عباس کے پاس جاؤ عباس نے کہا فہرست میرے پاس ہے جب باری آئے گی باری آنے پر بلا لوں گا ماں نے کہا خیمہ میں نہ آنا حسین نے کہا عباس کے پاس جاؤ۔ دونوں بھائیوں نے کیا کیا ایک ۹ سال کا ایک ۷ سال کا دونوں شہزادوں نے ایک دوسرے کی گردن میں بانہیں ڈالیں حسین کے خیمے سے دور جا کے ریت کے ٹیلے پر دونوں ننگے پاؤں کھڑے ہو گئے کافی دیر ننگے پاؤں کھڑے رہے۔ عباس نے کہا اکبر ذرا جا کے دیکھو عون و محمد دھوپ میں اتنی دیر سے کیوں کھڑے ہیں؟ اکبر قریب آیا پوچھا عون و محمد ؟ دونوں شہزادے کہتے ہیں جی زینب کے بیٹے دھوپ میں کیوں کھڑے ہو؟ دونوں شہزادے کہتے ہیں اماں نے کہا ہے خیمے نہ آنا ماموں عباس کہتے ہیں باری آنے پر بلاؤں گا ماموں حسین نے عباس کے پاس بھیجا ہے ہم دونوں دھوپ میں کھڑے سوچ رہے ہیں کہ نجف کا راستہ کون سا ہے؟ نانا علی کے پاس جائیں گے مجاور بن کر رہیں گے کہیں گے نہ اماں نے اجازت دی نہ حسین ماموں نے اجازت دی نہ عباس نے اجازت دی۔ اکبر ان دونوں کو منا کر لے آیا عباس نے بوسے دیئے حسین نے بالوں پہ بوسے دیئے دونوں شہزادے بیٹھ گئے۔ پہلا شہید ہے بنی ہاشم کا علی اکبر اکبر کی لاش آئی بی بی زینب اکبر کی لاش کے سرہانے بیٹھی ہے۔ مجھے حسین کی عظمت کی قسم دونوں شہزادے روتے رہے ماں کے ڈر کی وجہ سے اندر خیمے میں نہیں آئے باہر کھڑے ہو کر روتے رہے قاسم کی لاش کے ٹکڑے آئے دیکھا ماں کھڑی ہے دونوں شہزادے خیمے سے باہر دھوپ میں کھڑے رہے اندر نہیں آئے۔ (نوٹ: اب سامعین نے اٹھ اٹھ کے کھڑے ہو کر کہا محسن نقوی! بس کرو کوئی مومن مر جائے گا محسن نے کہا سن لیا میں ختم کرتا ہوں نہیں پڑھتا صرف ایک جملہ اور سن لو)۔ اب زینب نے کہا اماں فضہ۱میرے حسین کو بلا حسین خیمے میں آئے بی بی زینب کھڑی ہو گئیں۔ آواز آئی حسین حسین حسین آواز آئی جی زینب بہن بی بی منہ پر ماتم کر کے کہتی ہے: ٹھیک ہے تیرے صدقے… ہیں تو مجھ اجڑی کے بیٹے میں صبح سے دیکھ رہی ہوں نہ اکبر کی لاش پر آئے نہ قاسم کو رو سکے ٹھیک ہے تیرا صدقہ ہیں لیکن ہیں تو میرے بیٹے تو نے نہیں دیکھا اکبر کی لاش آئی میں نے بال کھولے قاسم کی لاش آئی میں نے ماتم کیا دے نا اجازت میرے بیٹوں کو حسین بھیج انہیں میدان شہادت میں۔ آواز آئی عباس بلاؤ عون و محمد … عباس نے بلایا عون و محمد کو دونوں دوڑتے ہوئے آئے اور کہتے ہیں ماموں ہمیں اجازت مل گئی؟ ہاں مل گئی اجازت۔ آواز آئی اچھا ماموں ہمارا سلام ہم نہیں جاتے ماموں حسین کے پاس ہم نہیں جاتے ماں کے خیمے میں ماموں عباس جب ہماری لاشیں آئیں تو کہہ دینا کہ ہم سیدھے چلے گئے تھے۔ نہیں عباس کہتا ہے میرے پاس آؤ شہزادے پاس آئے حسین اور عباس نے شہزادوں کو تیار کیا۔ ۷ اور ۹ سال کے شہزادے دونوں کو گھوڑوں پر سوار کیا دونوں شہزادوں کے قد اتنے چھوٹے تھے کہ دونوں کے پاؤں رکاب تک نہیں آتے تھے گھوڑوں کی باگیں پکڑیں جانے لگے ایک ایک بی بی کو جھک کر سلام کیا دونوں ہاتھ شہزادے پیشانی پہ رکھ کے کہتے ہیں سب کو حسین کے صدقوں کا سلام کہیں ہماری ماں آ کھڑی ہو تو اسے بھی سلام کہہ دینا اللہ جانے پھر ملیں یا نہ ملیں۔ حسین کہتے ہیں عون و محمد ماں کو مل لو۔ دونوں کہتے ہیں ماموں ہمیں آخری بار ماں کی زیارت کرا دو۔ حسین نے کہا آ زینب بہن بیٹوں کو مل لو دیکھ تیرے بیٹے جا رہے ہیں۔ بی بی زینب سامنے آئی دونوں شہزادوں نے کہا زہرا کی بیٹی ہمارا سلام۔ بی بی زینب نے کہا یاد رکھو! جا رہے ہو میدان میں جنگ ہو رہی ہے میرے بیٹے اکبر کی جاگیر میں میں تمہیں اجازت نہیں دیتی کہ تم اکبر کی جاگیر میں لڑو تم ہو حسین کا صدقہ… دونوں شہزادے ہاتھ جوڑ کے کہتے ہیں اگر ہم تیرے بیٹے اکبر کی جاگیر سے ۱۲ مربع میل باہر جا گریں اس وقت تو دودھ کا حق بخش دے گی؟ زینب نے کہا شاباش عون و محمد ۔(او میری اولاد قربان ہو جائے زینب کے عون و محمد پر) بی بی کہتی ہے جعفر طیار کے پوتے ہو علی کے نواسے ہو عباس کے بھانجے ہو میرے بیٹے ہو جانتی ہوں دریا تک پہنچ جاؤ گے اکبر و قاسم پیاسے گئے ہیں تمہیں میری چادر کی قسم پانی نہ پینا۔ شہزادے رو کے کہتے ہیں چادر کا واسطہ نہ دے تیری عزت کی قسم ہم دریا کی طرف جائیں گے ہی نہیں ہم دریا کا رخ بھی نہیں کریں گے۔ جانے لگے خیموں سے نکلنے کا ارادہ کیا کہ ساڑھے تین سال کی بچی کا ہاتھ رکابوں پر آیا رو کے کہا میرا قد چھوٹا ہے میرے ہاتھ رکابوں تک نہیں پہنچتے ذرا نیچے اترو عباس نے نیچے اتارا سکینہ نے شہزادوں کی قمیض کے بٹن کھولے دونوں شہزادوں کے سینے پر بوسہ دے کے کہا یہ تمہاری بہنوں کے حصے کا بوسہ ہے میں سکینہ بوسہ دے رہی ہوں۔ شہزادے کہتے ہیں شکریہ کوئی تو ہماری بہن بھی ہے۔ (سلامت رہو سلامت رہو حوصلہ ختم ہو گئی مجلس حوصلہ حوصلہ) دونوں شہزادے میدان کو چلے بی بی زینب عباس کو دیکھ کے کہتی ہے دیکھ میرے شہزادے کیسے لڑتے ہیں۔ عباس دیکھتا رہا… شہزادے آگے آگے فوجیں پیچھے پیچھے۔ عباس کہتا ہے مولا مجھے شہزادے نظر نہیں آتے۔ حسین کہتے ہیں میرے علم امامت سے میری دو انگلیوں کے درمیان دیکھ عباس نے کیا دیکھا شہزادے آگے آگے فوجیں پیچھے پیچھے ۶ میل دور ۷ میل دور جب ۱۲ مربع میل دور پہنچے چھوٹا بڑے کو دیکھ کے کہتا ہے اکبر کی جاگیر ختم ہو گئی ہماری حد آ گئی۔ دونوں شہزادے دوڑتے ہوئے گھوڑوں کی زین میں کھڑے ہو گئے باگیں چھوڑ دیں تلواریں ہاتھ میں لے کر فوج کو دیکھ کے کہتے ہیں اب آؤ نا ہماری حد آ گئی اب آؤ نا اکبر کی جاگیر ختم ہو گئی۔ دو شہزادے کہاں ساری فوج کہاں۔ ساری فوج نے مل کر حملہ کیا جب بڑا لڑتے لڑتے گھوڑے کی زین سے گرا آواز آئی ماموں حسین میں گر پڑا۔ چھوٹا محمد تھا لڑتے لڑتے جب گھوڑے کی زین سے گرا چیخ نکلی آواز آئی اماں میں گر گیا اماں میں گر گیا اماں میں گر گیا۔ اب جو محمد نے کہا اماں میں گر گیا۔(اب ایک لفظ سن لو) اب جو کہا اماں میں گر گیا۔(میں نے وعدہ کیا تھا کہ بازار میں جاؤ گے یا گھر جاؤ گے ماتم کرو گے اب آخری لفظ کہہ رہا ہوں جی چاہے تو اٹھ کے ماتم کرنا) اب جو چھوٹے شہزادے نے کہا اماں میں گر گیا بی بی زینب خیمے میں قرآن پڑھ رہی تھی قرآن بند کیا آواز آئی اماں فضہ مجھے کون بلا رہا ہے؟ کہا تیرا بیٹا بلا رہا ہے۔ کہا حسین کو لا حسین آئے بی بی نے کہا میرے بیٹوں کو لے آیا حسین آیا۔ کیا دیکھا بڑے شہزادے نے چھوٹے کو کروٹ لے کر اپنے پہلو میں چھپا رکھا ہے اللہ جانے کتنے گھوڑے گزر چکے تھے اللہ جانے کتنے گھوڑے گزر چکے تھے۔ بڑے کی آواز آ رہی تھی ماموں ہمیں اماں کے پاس لے جا ہمیں اماں کے پاس لے جا۔ …… چھٹے گی کِذب کی گردِ کہن آہستہ آہستہ! مٹے گی فکر انساں کی تھکن آہستہ آہستہ ابھی تاریخ کو بچپن کی سرحد سے گزرنے دو کھلیں گے اس پہ اوصاف حسن آہستہ آہستہ حسن مولا حوادث جب بہ انداز دگر آئے تری بخشش کے ساماں آنکھ سے دل میں اتر آئے تلاشِ رزق کی خاطر جو سوئے آسماں دیکھا ستارے تیرے دسترخوان کے ٹکڑے نظر آئے الا لعنة اللہ علی القوم الظالمین

Offline Ajnabi

  • Super Moderator
  • *
  • Posts: 3083
  • Reputation: 148
  • Gender: Male
Re: عون و محمد کی شہادت
« Reply #2 on: December 18, 2009, 04:03 PM »
 JazaKallah




Offline Super boy

  • Moderator
  • *
  • Posts: 4179
  • Reputation: 582
  • Gender: Male
Re: عون و محمد کی شہادت
« Reply #3 on: December 20, 2009, 12:00 PM »
 JazaKallah
Ghalat Jagah Te Laayii,Ghaltii Sadii Si
Utto'n Keeti Laa Parwayii,Ghaltii Sadi Si
Ohda Kuj Gya Nai Saada Kuj Rehya Nai
Bewafa Naal Layi Yarii Ghaltii Sadii Si...!!!