سمندر کے کنارے ذرا دھیرے چلو
زمانوں سے ان گنت رازوں کا امین
کہتاہے ، ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے
کتنے انسان مجھے گواہ بنا کر
اک دوسرے کے ساتھ
جینے مرنے کے وعدے کرتے ہیں
کچھ مل جاتے ہیں اور
کچھ بچھڑ جاتے ہیں
غور سے لہروں کی بات سنو
کہتی ہیں ہم وقت ہیں
ہم انتظار کی وہ گھڑیاں ہیں جو
بے چین لوگ یہاں گننے آتے ہیں
اپنے آنسووٴں کو میری نظر کرتے ہیں
یہ شور انہی آنسووٴں کا ہے
جو بیتاب دلوں کے درد میں
منتظر آنکھوں سے بہے ہیں