آج کی رات سازِ درد نہ چھیڑ
دکھ سے بھرپور دن تمام ہوئے
اور کل کی خبر کسے معلوم؟
دوش و فردا کی مٹ چکی ہیں حدود
ہو نہ ہو اب سحر، کسے معلوم؟
زندگی ہیچ! لیکن آج کی رات
ایز دیت ہے ممکن آج کی رات
آج کی کی رات سازِ درد نہ چھیڑ
اب نہ دہرا فسانہ ہائے الم
اپنی قسمت پہ سوگوار نہ ہو
فکرِ فردا اتاردے دل سے
عمرِ رفتہ پہ اشکبار نہ ہو
عہدِ غم کی حکائیتیں مت پوچھ
ہوچکیں سب شکائیتیں مت پوچھ
آج کی رات سازِ درد نہ چھیڑ