Author Topic: پیر ‘ 14؍ ربیع الاوّل 1431ھ‘ یکم مارچ 2010Ø¡  (Read 846 times)

0 Members and 1 Guest are viewing this topic.

Offline Shani

  • Newbie
  • *
  • Posts: 130
  • Reputation: 0
سرحد اسمبلی میں بشیر بلور کے اُردو کو رابطے کی زبان کہنے پر اپوزیشن نے احتجاج کیا۔
پاکستانی آئین کے مطابق اُردو پاکستان کی قومی زبان ہے۔ بشیر بلور کا اسے صرف رابطے کی زبان کہنا اُن کے اندر چھپی ہوئی صوبائیت پرستی ہے جس کا انہوں نے اظہار کردیا اپوزیشن کا اس موقع پر واک آؤٹ کرنا بالکل بجا ہے۔ سینئر صوبائی وزیربشیراحمد بلور نے فلور آف دی ہاؤس میں اس موقف کا اظہار کیا اُردو قومی زبان نہیں بلکہ یہ ایک رابطہ کی زبان ہے ہمارے ہاں ایسی آواز کا اٹھنا کھلی ملک دشمنی ہے جس سے یہ ثابت ہو کہ یہ نہ تو ایک قوم ہے نہ اس کی کوئی زبان ہے، جبکہ ہر قوم کی ایک قومی زبان ہوتی ہے جو اقوام عالم میں اس کے تشخص کو اجاگر کرتی ہے پاکستان میں علاقائی زبانیں بے شمار ہیں ا س کا مطلب یہ ہوا کہ کہیں اور سے ایسی آواز اٹھی تو یہ آئین کے آرٹیکل 251 کی کھلی خلاف ورزی ہوگی جس پر کسی بھی پاکستانی کو عدالت میں جانے کا حق ہے۔ بشیر احمد بلور نے ایسا بیان دے کر اپنی پاکستانیت کو مشکوک بنادیا ہے۔ زبان کے وجود سے چھیڑ چھاڑ نہ کریں۔ انکی اپنی زبان بھی پشتو نہیں ہیں وہ ہندکو سپیکنگ پشاوری ہیں۔ یہ معاملہ حساس ہے اور اس کا حکومت کو سخت نوٹس لینا چاہیے اور یہ بہتر ہوگا تاکہ قومی زبان کی توہین کا یہ مسئلہ ہمیشہ کیلئے ٹھپ ہوجائے۔
٭…٭…٭…٭
لارڈ نذیر نے کہا ہے پاکستان، بھارت مذاکرات کی ناکامی سے امن کی آشا کی ہوا نکل گئی۔
اچھا ہوا کہ امن کی آشا کی ہوا نکل گئی ورنہ اس کا پیٹ پھولتا ہی جاتا بھارت نے جس طرح مذاکرات کو ناکام بنایا یہ اس سے اب یہ واضع ہوجانا چاہیے کہ دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات نہیں ہوسکتے اور نہ ہی ان سے کوئی مسئلہ حل ہوسکتا ہے ہمارے سیکرٹری خارجہ کا بھلا ہو کہ انہوں نے بھارت کو اس سلسلے میں منہ توڑ جواب دیا اور کہا کہ بھارت کشمیر اور دیگر مسائل کو نظرانداز نہیں کرسکتا۔جب مذاکرات ناکام ہوگئے اور اب مزید کی ضرورت نہیں رہی تو پھر دونوں ایٹمی ملکوں کے درمیان خطرات بڑھ گئے ہیں اور ان خطرات سے پوری دنیا اپنے آپ کو شتر مرغ کی طرح چھپا نہیں سکتی۔ پاکستان نے کھل کر کہہ دیا ہے کہ مسئلہ کشمیر پر اب عالمی مداخلت ضروری ہے اور بھارت اپنا ناپاک رویہ بدلے۔یہ بات درست ہے کہ کشمیر کا مسئلہ تقسیم ہند کا نامکمل ایجنڈا ہے جسے نہرو مان کر مکر گئے اور آج حالت یہ ہے کہ بھارت نے کشمیر پر قبضے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستانی دریاؤں پر ڈیموں کے انبار لگا دیے ہیں یہاں تک کہ وہ دریائے سندھ کے پانی کو بھی سرنگ کے ذریعے غربوت کرنا چاہتا ہے گویا اب اس بات میں کوئی شک باقی نہیں رہا کہ بھارت پاکستان کو ریگستان بنانا چاہتا ہے لیکن سیکرٹری خارجہ بھی بھارت میں حق بات کہنے کے بعد اسلام آبادپہنچ کر خاموش نہ بیٹھ جائیں۔ اپنی حکومت کو مجبور کریں کہ وہ یہ مسئلہ لیکر پھر یو این او جائے اور اسے مجبور کرے کہ وہ اپنی کشمیر سے متعلقہ قراردادوں پر عملدرآمد کرتے ہوئے کشمیر میں ریفرنڈم کرائے کہ کشمیریوں نے پاکستان میں شامل ہونا ہے یا بھارت کیساتھ رہنا ہے۔ پھر اللہ اللہ خیر سلا! (انشاء اللہ)
٭…٭…٭…٭
توہین آمیز خاکے چھاپنے والے اخبار نے مسلمانوں سے معذرت کی ہے ڈنمارک کے اخبار کی انتظامیہ نے کہا ہے کہ توہین آمیز خاکے چھاپنے پر اگر مسلمانوں کی دل آزاری ہوئی ہے تو وہ اس پر شرمسار ہے تاہم خاکے چھاپنے پر انہیں کوئی افسوس نہیں۔
گویا ڈنمارک کا اخبار اپنی اس گندی ذہنیت کو عالم اسلام پر واضح کرنا چاہتا ہے کہ اسے مسلمانوں کی دل آزاری پر شرمساری تو ہے مگر خاکے چھاپنے پر افسوس نہیں اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ خاکے چھاپتا رہے گا جس پر اسے افسوس نہیں فخر ہے اور مسلمانوں سے معذرت کرتا رہیگا اس سے بھی زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ 57 اسلامی ممالک میں غیرت نام کی کوئی چیز نہیں رہی۔ہمارا تمام پیغمبروں پر ایمان ہے وگرنہ جواب آں غزل تو دیا جاسکتا تھا۔ ڈنمارک کے اخبار کا بار بار سید الانبیا محمد رسول اللہ ﷺ کے توہین آمیز خاکے شائع کرنے کا منہ توڑ جواب تو اس صورت میں دیا جاسکتا ہے کہ تمام اسلامی ممالک ڈنمارک سے سفارتی تعلقات توڑ دیں اس کی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں اور وہاں آنے جانے پر پابندی لگا دیں اس اقدام سے ڈنمارک کی ’’نانی گیٹے میں آجائے گی مگر افسوس جس کے نام پر مردان عرب سر کٹاتے تھے آج اس کی توہین کا بدلہ لینے والا کوئی نہیں رسول اللہ ﷺ سے محبت ہمارے ایمان کا جزو ہے کیا ہم ان کی توہین پر خاموش رہ کر اپنے ایمان کی تکمیل کرسکتے ہیں۔
٭…٭…٭…٭
وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے ڈرون حملوں سے متعلق پاکستان کی تشویش سے امریکی حکام کو آگاہ کردیا۔
قریشی صاحب امریکہ کو آگاہ سے آگاہ کررہے ہیں شاید اس لئے کہ بقول اکبر الٰہ آبادی ہماری حالت یہ ہوچکی ہے کہ …؎
کیا مجھے کرتے ہو زندوں میں شمار
سانس لیتا ہوں بس اتنی جان ہے
ہم ڈرون حملوں اور اس سے بڑھ کر کیا کہہ سکتے ہیں کہ یہ ہمیں پسند ہیں حکمرانوں کو تو پسند ہیں مگر عوام کو پسند نہیں اس لئے کہ وہ ان کے نتیجے میں موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں آخر کیا وجہ ہے کہ پاکستان امریکی ڈرون حملے بند نہیں کراسکتا جبکہ ہر روز بے گناہ شہری مرتے جاتے ہیں اگر امریکہ کے سامنے ہماری یہ حالت ہے کہ ہم اس سے صرف بات ہی کرسکتے ہیں اسے لات نہیں مار سکتے تو پھر ایک آزاد اور خود مختار ملک کہلانے کا ہمیں کیا حق حاصل ہے کہیں ایسا تو نہیں کہ پیچیدہ مسائل کیلئے جاتے ہیں امریکہ زلفوں میں الجھ آتے ہیں شامت ہے تو یہ ہے اتنا بھی نہیں کہہ سکتے کہ کل سے ڈرون حملے بند کردیں وگرنہ اسے ہم پاکستان پر حملہ تصور کریں گے بھارت کی خرمستیاں بھی ہماری امریکہ پرستی کا نتیجہ ہیں۔ کیا ہم امریکی امداد کو یہ کہہ کر نہیں ٹھکرا سکتے کہ …؎
اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی